ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 05 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-31

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 05

neeli-dunya-siraj-anwar-05

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
جان نے اپنی کہانی سنائی کہ ایک دن اچانک ٹی۔وی پر شاگو نازل ہوا اور اس نے بتایا کہ زہرہ میں انقلاب برپا ہو گیا ہے اور جیگا کی دہشت پسند پارٹی کا موجودہ لیڈر شاکا اب انقلابی حکومت کی سربراہی کر رہا ہے۔ اور شاگو نے جان سے التجا کی کہ سیارہ زہرہ کے باشندوں کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے۔ جان کے حامی بھرنے پر شاگو نے راکٹ بنانے کا فارمولہ بتایا۔ پھر جان نے اپنا پروگرام بتایا کہ کس طرح امریکہ میں راکٹ بنا کر وہ لوگ سیارہ زہرہ کا سفر کر سکتے ہیں۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔

لیکن شاید جیک سے میری بے عزتی برداشت نہ ہو سکی اور اس نے اختر کو ڈانٹا: "اختر ہوش میں ہو، کیا کہہ رہے ہو؟"


"میں نہیں جاؤں گا ، کبھی نہیں جاؤں گا۔" اختر کی پیشانی پر پسینہ نمودار ہو گیا تھا:
"اگر کسی نے زبردستی کی تو میں اسے مار ڈالوں گا۔۔ اسے قتل کر دوں گا۔"
ہم لوگ پھر بھونچکا ہوکر اسے دیکھنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اختر اپنے دل میں ہونے والی کسی کشمکش سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر کچھ ان دیکھی قوتیں اس پر غلبہ پانے میں مصروف ہیں اور وہ ان قوتوں کے اثر میں آ چکا ہے۔ اس وقفہ میں زرینہ اختر کے پاس پہنچ چکی تھی اور اس کا ہاتھ محبت سے اپنے ہاتھ میں لے کر سہلا رہی تھی۔ اختر کے چہرے پر ایسی کیفیت تھی جیسے وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر پشیمان بھی ہو اور ہمیں برا بھلا بھی کہنا چاہتا ہو۔ کچھ دیر تک وہ ہمیں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا رہا اور پھر جھنجھلا کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اچانک تیزی سے اٹھ کر وہ مجھ سے لپٹ گیا اور روتے ہوئے بولا:
"مجھے معاف کر دیجئے، مجھے معاف کر دیجئے ابا جی۔"


"نہیں بیٹے۔۔ پریشان نہ ہو" میں نے اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ "شاید تمہیں بہت زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں جب ہی تم نے ایسی گفتگو کی۔"
"میں۔۔ میں۔۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔ نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا؟" اختر نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔


جان بڑی دیر تک اختر کی حرکات و سکنات خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ ساتھ ہی وہ معنی خیز انداز میں اپنے سر کو ہلا بھی رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ہے۔ اس نے اپنے پائپ کو بجھا کر جیب میں رکھا اور پھر مسکراتا ہوا اختر کی طرف بڑھا۔ اس نے اختر کی کمر محبت سے تھپتھپائی اور پھر کہنے لگا:
"بیٹے اختر زیادہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، جب انسان یقین نہ آنے والے واقعات سے دوچار ہوا کرتا ہے تو اسی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ تم اب بڑے ہو گئے ہو اور حالات کی نزاکت کو آسانی سے سمجھ سکتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب تم ان سے متاثر بھی ہوتے ہو، فکر نہ کرو ہم میں سے کسی نے بھی تمہارے اس برتاؤ کا برا نہیں مانا۔"


یہ باتیں سن کر اختر کا چہرہ پھر کھل گیا اور وہ ہم سب سے اس طرح باتیں کرنے لگا جیسے اب سے کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ زرینہ تو اختر سے باتیں کرنے لگی اور جان نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کے ساتھ باہر چلوں۔ میرے ساتھ ہی جیک بھی کمرے سے باہر آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ جان کے چہرے پر اس وقت فکر کی گہری لکیریں پھیلی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس بھر کر کہنا شروع کیا۔
"فیروز، میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب ہمیں اختر کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا پڑے گا پچھلے واقعات نے اسے اس قدر صدمہ پہنچایا ہے کہ وہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگا ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ صدموں سے بوکھلا کر اس نے اس نئے سفر پر جانے پر سے انکار کر دیا تھا۔"


"آپ درست کہہ رہے ہیں، جیک نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا، لیکن اب میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمیں جلد سے جلد اپنے سفر پر روانہ ہو جانا چاہئے۔"
"کیوں؟" جان نے پوچھا۔
"جتنی دیر ہوگی ہمیں کوئی نہ کوئی پریشانی ضرور اٹھانی پڑے گی۔"
"بات تو ٹھیک ہے" میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ "لیکن اس حالت میں جب کہ اختر اور سوامی ٹھیک طرح تندرست بھی نہیں ہوئے ہیں کیا یہ سفر مناسب رہے گا؟"
"ضرور مناسب رہے گا" جیک نے جواب دیا۔ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شاگو کے بتائے ہوئے فارمولے سے جو راکٹ تیار کیا جائے گا وہ ایک دن میں بن جائے گا ؟ جی نہیں، اسے تیار ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ یاد رکھئے جب تک ہم لوگ دنیا میں ہیں خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔۔ لیکن جیسے ہی ہم نے خلا میں پرواز کی، ہم محفوظ ہوں گے۔"
"تمہاری یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔" میں نے جیک کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"جیک ٹھیک کہہ رہا ہے فیروز!" جان نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔ "فارمولے میں جو سامان لکھا ہے اور جس طریقے سے وہ راکٹ بنایا جائے گا، وہ اتنا عمدہ اور پائیدار بنے گا کہ شاکا اور اس کے کارندے اسے تباہ نہیں کر سکتے۔ اپنے نرالے آلات کے باعث ایک طرح سے وہ ہماری پناہ گاہ بھی ہوگا۔ میری ان باتوں کی صداقت تو اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم پرواز کر رہے ہوں گے، لیکن فی الحال میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک ہم یہاں دنیا میں ہیں، محفوظ نہیں ہیں۔"


ان واقعات کو بیتے ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا۔ اپنی کہانی کو مختصر کرتے ہوئے اب میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس عرصے میں وہی ہوا جو جان چاہتا تھا۔ ہم لوگ امریکہ پہنچ چکے تھے۔ اور جتنے عرصے ہم وہاں مقیم رہے لیباریٹری میں راکٹ تیار ہوتا رہا۔ پہلے یہ خیال تھا کہ راکٹ جلد تیار ہو جائے گا۔ مگر یہاں آکر یہ پتہ چلا کہ ہمیں تقریباً دو ماہ تک انتظار کرنا پڑے گا۔ راکٹ بنانے والا کارخانہ بہت بڑا تھا۔ بس یوں سمجھئے جیسے ایک چھوٹا سا شہر ضرورت زندگی کی سب چیزیں وہاں میسر تھیں۔ ہم لوگ اسی کارخانے نما شہر کے ایک بہت ہی خوبصورت مکان میں مقیم تھے۔
ہمارا روز کا معمول یہ تھا کہ جان تو جیک اور سوامی کے ساتھ لیباریٹری میں چلا جاتا تھا جہاں وہ ڈاکٹر اسمتھ کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا اور میں مکان میں زرینہ اور اختر کے ساتھ ہی موجود رہتا۔ ہم لوگ دن رات ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے یا پھر آپس میں باتیں کرتے رہتے۔ ڈاکٹر اسمتھ کی طرف سے ہمیں یہ اجازت نہیں ملی تھی کہ ہم لیبارٹری سے باہر نیویارک یا واشنگٹن تک ہو آئیں۔ اس نے سختی سے منع کر دیا تھاکہ اگر ہم نے ایسا کیا تو بس پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے!


ڈاکٹر والٹر اسمتھ نے ہمیں کیوں منع کیا تھا، یہ بات ہمیں جلد ہی معلوم ہو گئی اور وہ بھی اتنے بھیانک اور خوفناک انداز میں کہ اب جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں میرا دل کپکپا رہا ہے۔ میں ڈرپوک تو نہیں ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی نظر نہ آنے والے خطرے سے ہر انسان ڈرتا ہے۔ حالانکہ دل دہلا دینے والے واقعات کا اب خاتمہ ہو چکا ہے۔ لیکن ان کی ذرا سی یاد بھی مجھے دہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ایسی سنسنی اور تھرتھری میرے جسم میں پیدا ہوتی ہے کہ میں قلم ہاتھ میں رکھ کر گھنٹوں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اپنے دل کو کس طرح قابو میں کروں اور کس طرح وہ ہیبت ناک باتیں بیان کروں جن کے باعث میرے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں تک غائب ہو گئی تھیں۔ آپ حضرات سے معافی چاہتے ہوئے میں پھر داستان کی طرف آتا ہوں۔


جس دن سے ہم لوگ امریکہ آئے تھے ہمارے دلوں پر ایک عجیب سا خوف چھایا رہتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ابھی کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ لیکن کیا ہو جائے گا؟ افسوس ہمیں پہلے سے اس کا علم نہیں ہوتا تھا۔ اختر کے ساتھ وہی حالات پیس آنے لگے جو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ ہمارے ہی کمرے میں سوتا تھا۔ مگر اس کمرے میں بھی رات کے وقت ہلکے سبز رنگ کا دھواں بھر جاتا تھا۔ اور یہ دھوئیں کا ہی اثر تھا کہ اختر ہر وقت گم صم رہا کرتا تھا۔ اس کی نگاہیں بس ایک ہی سمت دیکھے جاتی تھیں۔ کبھی وہ ڈر کر اپنی بھیانک آنکھوں سے ہم سب کو باری باری دیکھنے لگتا تھا اور کبھی اس طرح پیش آتا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ جان نے امریکہ کے قابل اور نامور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کیں۔ اختر کو انہیں دکھایا (یہ تو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ ڈاکٹر بھی ہمارے پاس گھر پر ہی آ گئے تھے) مگر ڈاکٹروں کا جواب سن کر ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اختر ہر طرح تندرست ہے۔ اور اسے کوئی بیماری نہیں ہے۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ جس وقت ڈاکٹر اختر کا معائنہ کر رہے تھے، وہ پہلے ہی جیسا ہشاش بشاش تھا، اس کی آنکھوں ، چہرے یا انداز سے یہ بات بالکل ظاہر نہ ہوتی تھی کہ چند ماہ پہلے وہ خوف زدہ اور بیمار رہ چکا ہے۔


ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟
خاص طور سے میں بہت پریشان تھا۔ میری تمام امیدیں اور آرزوئیں اختر سے وابستہ تھیں ، نجمہ اور امجد غائب ہو چکے تھے۔ اور اختر سمندر میں سے آنے کے بعد سے حیرت انگیز طور پر بدل گیا تھا۔ جان کا خیال تھا کہ سوامی کے کہنے کے مطابق جن لوگوں نے اختر کو آبی لیباریٹری میں لے جاکر اس پر کچھ عمل کیا تھا، شاید اختر کی موجودہ حالت ان ہی کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ مگر مجھے اور جیک کو اس کی رائے سے اتفاق نہ تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ ان نامعلوم لوگوں نے دراصل اختر کو ختم کرنے کی اسکیم بنائی تھی۔ لیکن کسی وجہ سے وہ اس اسکیم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور انہوں نے اختر کو واپس سطح سمندر پر بھیج دیا۔ اختر نے ان واقعات سے اتنا اثر لیا کہ اس کے دل و دماغ پر ان نامعلوم لوگوں کا خوف بیٹھ گیا ہے۔ جیک میرے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی کہتا تھا کہ اگر ان نامعلوم لوگوں کا کام صرف اختر کو ختم کرنا ہی تھا تو اتنا لمبا چوڑا ڈرامہ کھیلنے کی ضرورت کیا تھی؟ پہلی بار جب میرے کمرے میں جکاری نمودار ہوا تھا، اسی وقت اختر کو ختم کیا جا سکتا تھا۔


میں نے اختر کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیا اور حالات کے بدلنے کا نہایت خاموشی سے انتظار کرنے لگا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میں کارخانے نما شہر کے اسی مکان میں تھا کہ سوتے سوتے اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ زرینہ دوسرے بستر پر آرام سے سو رہی تھی اور اس کے برابر ہی اخترکا بستر تھا، مگر یہ دیکھ کر یکایک میری چیخ نکل گئی کہ اختر اپنے بستر پر موجود نہیں تھا۔ میں نے جلدی سے کمرے کے بڑے بلب جلائے۔ ہر سمت آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ لیکن اختر مجھے کہیں نظرنہ آیا۔ میں گھبرا کر پھر چلانے والا تھا کہ مجھے فوراً احساس ہوا کہ اس طرح اپنے حواس کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتے۔ ہو سکتا ہے کہ اختر باہر برآمدے میں ہو۔ میں نے زرینہ کو اٹھانا بھی مناسب نہ سمجھا اور خود ہی اختر کو ہر طرف تلاش کرتا ہوا سوامی کے کمرے کی طر ف آگیا۔ لیکن یہاں دوسرا اچنبھا میرا منتظر تھا، کمرہ خالی تھا، سوامی کا بھی کہیں پتہ نہ تھا۔


میرے دل کی اس وقت جو حالت تھی ،میں الفاظ میں اسے بیان نہیں کر سکتا، دنیا میری نظروں میں اندھیر ہو گئی تھی۔ جیک اور جان چونکہ رات بھر راکٹ بنانے والی لیبارٹری میں رہتے تھے ، اس لئے میں نے فوراً انہیں ٹیلی فون کے ذریعہ اختر اور سوامی کے گم ہو جانے کی خبر دی۔ کچھ ہی بعد وہ دونوں بھی گھبرائے ہوئے میرے پاس گئے۔ اتنے میں زرینہ بھی خود بخود جاگ گئی تھی ، اور اختر کی گمشدگی سے پریشان تھی۔ میں بھی قریب قریب اپنے حواس کھو بیٹھا تھا، میری حالت دیکھ کر جان نے مجھ سے کہا کہ مجھے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور کم از کم باہر نکل کر اختر کو تلاش کرنا چاہئے۔ بات معقول تھی۔ میں نے خود پر لعنت بھیجی اور پھر ہم چاروں اختر اور سوامی کی تلاش میں مکان سے باہر نکل آئے۔


چاروں طرف سناٹا تھا، صرف راکٹ لیبارٹری میں بجلی کی روشنی نظر آتی تھی، ورنہ سب مکانوں کی روشنیاں بجھی ہوئی تھیں۔ اس کارخانے کی سڑکوں پر بجلی کے قمقمے روشن تھے لیکن رات کے دو بجے گہری کہر نے ان کی روشنیوں کو اتنا مدھم کر دیا تھا کہ بس روشنی وہیں تک محدود تھی۔ اس لحاظ سے ہمیں دور دور تک اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا تھا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اختر کو ڈھونڈنے کے لئے ہم پہرے داروں سے مدد لیتے۔ لیکن ہم لوگ جس مشن پر روانہ ہونے والے تھے، اس کی کسی بھی بات یا حادثے کو مشہور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہم خاموشی سے آگے بڑھنے لگے، جان نے احتیاطاً اپنا ریوالور نکال کر ہاتھ میں لے لیا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ ہمیں ہر قدم پر یہی محسوس ہوتا تھا کہ گویا کچھ آنکھیں چھپ کر ہمیں دیکھ رہی ہیں، کسی کی موجودگی کا حساس ہمیں بار بار ہوتا تھا، لیکن اندھیرے میں گھور کر دیکھنے کے باوجود ہمیں نظر کچھ نہ آتا تھا۔


گہرا اندھیرا۔۔ ہو کا عالم اور اجنبی ملک، بس یوں سمجھئے کہ ہماری زندگی اجیرن تھی! آگے بڑھتے بڑھتے اب ہم ایسے مقام تک آ چکے تھے، جہاں کارخانے کی حد ختم ہو جاتی تھی اور جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ یہ حد کانٹے دار تار لگا کر مقرر کی گئی تھی۔ جو تھوڑی بہت روشنی نظر آتی تھی اس مقام کے بعد وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ لیکن اچانک مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا، میرے سامنے دور تک پھیلے ہوئے اندھیرے میں ہلکی سی ملگجی روشنی نظر آ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ روشنی کسی سرچ لائٹ کے ذریعے اوپر سے نیچے ڈالی جا رہی ہو ، یہ روشنی سبز چمکیلے رنگ کی تھی اور سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ اس چمکیلی سبز روشنی کے بالکل درمیان سوامی اپنا مونہہ اونچا کئے کھڑا تھا۔


ہم سب وہیں ٹھٹھک کر حیرت سے یہ عجیب منظر دیکھنے لگے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کانٹوں کی اس باڑھ کو پار کرکے سوامی دوسری طرف کس طرح پہنچ گیا، جب کہ کانٹوں دار باڑھ میں بجلی دوڑ رہی ہے؟ میرے ساتھ ہی جان جیک اور زرینہ بھی اچنبھے میں تھے۔ جب میں نے اپنا خیال جان پر ظاہر کیا تو وہ کہنے لگا:
"تمہارا خیال بالکل درست ہے۔ کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہے ، یا تو ان کانٹے دار تاروں کی بجلی ختم ہو گئی ہے یا پھر جان بوجھ کر بجلی کو ختم کیا گیا ہے۔"


اتنا کہہ کر اس نے اپنا واکی ٹاکی فون نکالا۔ (یہ فون ٹرانزسٹر جیسا ایک آلہ ہوتا ہے، جس کا ایریل اوپر کھینچ کر اس کے اسپیکر میں بولا جاتا ہے۔ یہ آواز دوسری طرف ایک ایسے ہی ٹرانزسٹر فون میں سنائی دیتی ہے) جان نے واکی ٹاکی کو مونہہ کے قریب لاکر پہرے داروں کو ہدایت کی کہ وہ باڑھ کے تاروں کی بجلی ایک دو منٹ کے لئے بند کر دیں۔ مگر اس طرف سے جو جواب آیا وہ ہمیں حیران کردینے کے لئے کافی تھا۔ پہرے داروں نے بتایا کہ وہ خود پریشان ہیں، باڑھ کے تاروں میں جو کرنٹ دوڑ رہا تھا وہ اچانک اپنے آپ ہی ختم ہو گیا ہے۔


اتنا سنتے ہی جان نے مجھے اور زرینہ کو اسی جگہ کھڑے رہنے کی ہدایت کی اور خود جیک کو ساتھ لے کر تاروں کی طرف بڑھا۔ جلدی سے وہ دونوں سینے کے بل لیٹ گئے اور پھر کھسکتے ہوئے تاروں کے نیچے سے نکل کر دوسری طرف پہنچ گئے۔ ادھر پہنچتے ہی پہلے تو وہ کھڑے ہوگئے اور پھر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے سوامی کی طرف بڑھنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ سوامی اسی طرح مونہہ اونچا کئے کھڑا تھا، اس کے چاروں طرف دائرے کی صورت میں وہ سبز روشنی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ شاید وہ کچھ کہہ رہا تھا ، مگر آواز اتنی ہلکی تھی کہ جان اور جیک کچھ بھی نہ سن سکے۔ جان نے اس کے بالکل قریب پہنچ کر اسے آواز دی مگر اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ جیک نے بھی احتیاطاً اپنا پستول نکال لیا تھا ، کیوں کہ اس کے خیال میں صورتحال بہت نازک ہو گئی تھی۔


جان نے پھر دو تین بار سوامی کو پکارا مگر بے سود! یوں لگتا تھا گویا سوامی وہاں ہے ہی نہیں۔ اچانک اس سبز روشنی کا رنگ تبدیل ہونے لگا ، پہلے وہ گہری سبز ہوئی، پھر پیلی اور پھر نارنجی ، سوامی نے اب اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور پھر بری طرح کپکپانے لگا۔ یہ کپکپاہٹ اتنی بڑھی کہ وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ اور پھر دھڑام سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ جان یا جیک آگے بڑھ کر اسے اٹھاتے یکایک اندھیرے میں سے کسی نے پکار کر کہا: "ٹھہریئے!"


میں نے چونک کر اس طرف دیکھا، خوشی کے مارے میرا دل بلیوں اچھلنے لگا، کیوں کہ اندھیرے میں سے میرا ہونہار بیٹا اختر برآمد ہو کر اب آہستہ آہستہ جان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ زرینہ اسے دیکھتے ہی تیزی سے آگے بڑھی، مگر میں نے اسے فوراً روک لیا۔ میں جان کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اختر اب جان کے قریب آ چکا تھا اور غور سے اس نارنجی روشنی کو دیکھ رہا تھا، جو اب دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی تھی۔


"اختر۔۔۔ کہاں تھے تم؟" جان نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا۔ "ہم کافی دیر سے تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔"


"مجھے افسوس ہے انکل۔۔ کمرے میں میرا دم گھٹنے لگا تھا" اختر نے ندامت کے ساتھ کہا۔ "میں کھلی فضا میں سانس لینے کے لئے نکل آیا تھا۔"


جان کچھ کہنا ہی چاہتا تھاکہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پہرے داروں نے ہمیں مطلع کیاکہ اب ہم لوگ باڑھ پھلانگ کر اندر داخل نہ ہوں، تاروں میں کرنٹ دوبارہ دوڑنے لگا ہے۔ اس عرصے میں میں نے دیکھا کہ جیک بہت غور سے اختر کے چہرے کو دیکھ رہا تھا، شاید وہ یہ اندازہ لگانا چاہتا تھاکہ اختر جھوٹ بول رہا ہے یا سچ؟ اختر کے کچھ اور کہنے سے پہلے ہی جیک نے اس سے پوچھا:
"سوامی کو کیا ہوا۔۔۔ کیا یہ تمہارے ساتھ آیا تھا؟"
"جی نہیں۔۔ مجھے خود تعجب ہے پتہ نہیں، انہیں کیا ہو گیا؟"
"بیٹے! کیا تم نے وہ روشنی نہیں دیکھی جو سوامی پر پڑ رہی تھی؟" جان نے نرمی سے پوچھا۔
"سبز روشنی؟ جی ہاں دیکھی تھی۔ بلکہ کئی دن سے دیکھ رہا ہوں۔"
"کیا کہتے ہو؟" جان نے گھبرا کر کہا۔ "کیا سوامی کافی دن سے اس مقام پر آ رہا ہے ؟"


"جی ہاں۔۔ مجھے اب تفصیل سے ہی سب کچھ بتانا پڑے گا انکل"۔ اختر نے ٹھنڈی سانس بھر کر بے ہوش سوامی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں کہہ نہیں سکتا کہ راز کیا ہے۔ راز تو آپ ہی تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے کلو سوامی کو روزانہ رات کو چپکے سے اٹھ کر یہاں آتے دیکھا ہے۔ میں کئی دن سے ان کا پیچھا کر رہا ہوں، یہ خاموشی سے کانٹے دار تاروں تک آتے اور پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ، فوراً ہی کوئی چیز سراٹے کے ساتھ کہیں سے آسمان پر نمودار ہوتی اور پھر اس میں سے سبز رنگ کی چمکیلی روشنی نکل کر سوامی پر چھا جاتی ، یہ روشنی آہستہ آہستہ جنگل کی سمت بڑھنے لگتی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوتا کہ سوامی تاروں سے اس طرح اس روشنی کے ساتھ ساتھ گزر جاتے جیسے تار بیچ میں حائل ہی نہ ہوں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ روشنی انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر پہنچا دیتی ہے۔"
"لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جیک نے بے تابی سے دریافت کیا۔
" یہ میں نہیں بتا سکتا، میں جانتا ہی نہیں تو کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں تو بس چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھا کرتا تھا۔ یہ آسمان کی طرف مونہہ اٹھا کر کچھ بولتے رہتے تھے۔"
"تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہیں بتائی ؟"جیک نے پھر پوچھا۔
"میں پہلے اپنا اطمینان کر لینا چاہتا تھا ، یقین مانئے میرا ارادہ تھا کہ آج اس کا ذکر ضرور کروں گا۔"


اختر کا یہ جواب سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ کیا سوامی ہم سے غداری کرنا چاہ رہا ہے؟ کیا وہ پوشیدہ طور سے ہمارے راز شاکا کو بھیج رہا ہے؟ یہ ایسے سوال تھے۔ جنہوں نے مجھے سوامی کی طرف سے شبہ میں مبتلا کر دیا۔ کئی بار ایسا ہو چکا تھا کہ ہم لوگ سوامی کو شبہ کی نظروں سے دیکھ چکے تھے۔ میرا دل اب بھی کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہے ، لیکن حالات سراسر اس کے خلاف تھے۔


اس حادثے کے کچھ دیر بعد ہم لوگ اپنے مکان کے بڑے ہال میں کھڑے تھے۔ سوامی کا چہرہ پیلا ہو رہا تھا اور وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ اسے ہوش مین لانے کے لئے ہم نے تقریباً سب ہی جتن کرڈالے تھے مگر اسے ہوش ہی نہیں آ رہا تھا۔ اس موقع پر بھی اختر نے ہمیں یہی بتایا کہ سوامی کو صبح سے پہلے ہوش نہیں آئے گا، تین چار دن سے لگاتار ایسا ہی ہو رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو میں اس وقت بڑا پریشان تھا۔ واقعات اس طرح الجھ کے رہ گئے تھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی تھی۔


تقریباً پوری رات ہم اسی جگہ بیٹھے سوامی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتے رہے۔ جان نے مجھ سے کہا: "بہتر یہی ہے کہ ان واقعات کو ڈاکٹر والٹر اسمتھ سے نہ چھپایا جائے۔ وہ راکٹ بنوا رہا ہے ، اس لئے ممکن ہے کہ یہ باتیں اس کے لئے کارآمد ثابت ہوں، میں اس کے پاس جاتا ہوں، اور اس حادثے کی خبر دیتا ہوں۔"


اتنا کہہ کر جان جیسے ہی کمرے سے باہر جانے کے لئے اٹھا، کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا اور والٹر اسمتھ گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا، اس کے بال پریشان تھے، آنکھوں سے وحشت برس رہی تھی اور چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔
"مسٹر جان غضب ہو گیا۔۔" اس نے چلا کر کہا۔ "لیبارٹری کے ریکارڈ روم کا سارا سامان کسی نے الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔"
"کیا کہہ رہے ہیں آپ؟" جان نے پریشان ہو کر پوچھا۔ "یہ کب کا واقعہ ہے؟"
"چار گھنٹے پہلے کا۔۔۔ کسی نامعلوم شخص نے خفیہ طور سے ریکارڈ روم میں داخل ہوکر سامان کی تلاشی لی اور۔۔۔ اور۔۔ والٹر نے اپنا سر تھام لیا، وہ بے چارہ اتنا پریشان تھا کہ اس سے جملہ بھی پورا نہ ہو سکا۔
"اور کیا۔۔؟" جان نے اسے جھنجھوڑ تے ہوئے پوچھا۔
"وہ۔۔۔ وہ فارمولا فائل میں سے غائب ہو گیا ہے جس کی مدد سے راکٹ بنایا جا رہا تھا۔"
اتنا کہتے ہی والٹر لڑ کھڑایا اور پھر گرنے کے ڈر سے جلدی سے دیوار کا سہارا لے کر بری طرح ہانپنے لگا۔


"میرے خدا" جیک نے بے پناہ صدمے سے گھبرا کر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ "یہ آپ کیسی بری خبر لے کر آئے ہیں مسٹر والٹر۔"
"سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے" والٹر نے آہستہ سے کہا۔ "کہ لوہے کی مضبوط چادریں ریکارڈ روم کے دروازوں میں لگی ہوئی ہیں، مگر کسی نے ان دروازوں کو چھوا تک نہیں، صرف اس دیوار میں جس کا رخ جنگل کی طرف ہے، تربوز کے برابر ایک سوراخ نظر آرہا ہے، یہ سوراخ نہ جانے کس طرح بنایا گیا ہے، مگر اتنی صفائی کے ساتھ بنایا گیا ہے جیسے کسی معمار نے اطمینان سے بنایا ہو۔"
"تو پھر یقینا اسی سوراخ سے کوئی اندر داخل ہوا ہوگا اور اسی نے فارمولا چرایا ہے۔" میں نے اپنی رائے ظاہر کی۔
"بالکل یہی بات ہے"۔ جیک نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔"
"آپ کے اس آدمی کو کیا ہوا۔ شاید یہ بے ہوش ہو گیا ہے ؟" والٹر نے سوامی کو دیکھنے کے بعد پوچھا۔
"جی ہاں یہ بے ہوش ہے۔ فارمولا چرانے کے بعد اس نے یہی مناسب سمجھا کہ بے ہوش ہوجائے۔۔ "اختر نے تلخ لہجے میں کہا۔


"اختر!" میں نے غصیلی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ "سوامی تمہارا بزرگ ہے، کیا میں نے تمہیں بزرگوں کا ادب کرنا نہیں سکھایا؟ تم خود بھی جانتے ہو کہ اس شخص نے تمہیں گود میں کھلایا ہے ، خواہ مخواہ ایسے آدمی پر شبہ کرنا اچھی بات نہیں ہے۔"
غصے کے باعث میرے بدن پر رعشہ پیدا ہو گیا۔ کیوں کہ اختر نہ جانے کیا دیکھ کر سوامی پر شبہ کر رہا تھا۔ سوامی جیسا فرشتہ خصلت انسان میرے نزدیک ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اختر خود سوامی پر جان دیتا تھا۔ اس نے کوئی نہ کوئی بات تو ایسی دیکھی ہوگی جس کے باعث وہ سوامی سے بدگمان ہو گیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ وہ بات وہ سب کے سامنے مجھے نہ بتانا چاہتا ہو۔


جان آرام کرسی سے کمر لگائے اطمینان سے پائپ پی رہا تھا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اسے فارمولا چوری ہو جانے کی ذرا بھی فکر نہ ہو۔ والٹر البتہ تشویشناک نظروں سے کبھی سوامی کو دیکھتا تھا اور کبھی جان کو۔۔۔ میں جانتا تھا کہ وہ سوامی کی بے ہوشی کی وجہ جاننا چاہتا ہے۔ میں نے مختصر لفظوں میں کچھ دیر پہلے پیش آئے ہوئے واقعات اسے بتائے۔ یہ واقعات جانتے ہی والٹر کینہ توز نظروں سے سوامی کو دیکھنے لگا۔ اور کچھ دیر بعد بولا۔ " اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اختر کا خیال درست ہے۔"
"جی ہاں سو فیصدی درست ہے"۔ اختر بولا۔ "لیکن میرا خیال ہے کہ ان باتوں کا تذکرہ ابھی سوامی سے نہ کیا جائے، دیکھئے وہ کیا کرتا ہے ؟ بس اس پر ہر وقت نظر رکھنی ضروری ہے"۔
"میں بھی یہی چاہتا ہوں" والٹر نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ "لیکن سوال یہ ہے کہ فارمولے کے بغیر اب راکٹ کس طرح تیار ہوگا؟"


"اس کی فکر آپ نہ کریں مسٹر والٹر"۔ جان جو بہت دیر سے خاموش تھا کرسی سے اٹھ گیا اور کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہنے لگا۔
"راکٹ ضرور بنے گا اور کوئی طاقت اسے بننے سے نہیں روک سکتی۔ فارمولا اگر چوری ہو گیا ہے تو ہمیں اس کا کوئی غم نہیں۔"
"تو کیا فارمولا آپ کے ذہن میں محفوظ ہے؟"والٹر نے پوچھا۔


"ذہن میں تو نہیں، البتہ دنیا کے دس پندرہ مقامات پر اس کی کئی کاپیاں محفوظ ہیں۔" جان نے کہنا شروع کیا۔
"میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ مقامات کون سے ہیں، اگر فارمولا میرے ذہن میں محفوظ ہوتا تو یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے ختم کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی۔ لیکن موجودہ حالات میں کوئی مجھے راستے سے ہٹانے کی کوشش نہیں کرسکتا۔ البتہ ان مقامات کو جاننے کی خواہش وہ شخص ضرور کرے گا جس نے فارمولا چرایا ہے۔"
"آپ کا مطلب سوامی سے ہے نا؟"اختر نے چہک کر کہا۔
"بکواس نہ کرو"۔ جان نے گرج کر کہا۔ "تمہاری اس بدتمیزی پر میں تمہیں اتنا مارتا کہ تم زندگی بھر یاد کرتے، مگر نہ جانے کیا سوچ کر خاموش ہوگیا ہوں، تمہارے والد نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ شاید اب تم نے بزرگوں کا ادب کرنا چھوڑ دیا ہے۔"
جان کی گرجدار آواز اور غصیلی نظروں کی تاب نہ لاکر اختر سر جھکائے ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا۔


مشرق کی طرف آسمان اب آہستہ آہستہ سرخی مائل ہونے لگا تھا، کیوں کہ صبح ہو رہی تھی۔ میں جان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ، جو اب سوامی پر جھکا ہوا تھا اور شاید اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم سب کے چہرے رنج و فکر کے باعث اترے ہوئے تھے خاص طور سے میں بہت زیادہ رنجیدہ تھا۔ سوامی پر میں جس قدر اعتبار کرتا تھا شاید کسی اور پر ہرگز نہیں کرتا تھا۔ اور پھر اب یہ سوامی ہی اس سلسلے میں چور ثابت ہو رہا تھا ، واقعات مجبور کر رہے تھے کہ سوامی کو چور مان لوں، لیکن دل کہتا تھا ہرگز نہیں۔ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔


سوامی کو آہستہ آہستہ ہوش آ رہا تھا۔ اختر اب کمرے میں نہیں تھا اور زرینہ بھی اس خیال سے کچھ ہی دیر بعد باہر چلی گئی تھی کہ اختر پھر کہیں چلا نہ جائے۔ کچھ لمحے پہلے زرینہ بھی حیرت زدہ تھی اور اختر کے برتاؤ کو تعجب سے دیکھ رہی تھی۔ کئی بار اس نے کچھ کہنے کے لئے اپنا مونہہ کھولا بھی تھا، مگر جان کو غصے میں دیکھ کر خاموش ہوگئی تھی بہرحال اب وہ وہاں نہیں تھی، اور اس وقت کمرے میں میرے علاوہ جان جیک، والٹر اسمتھ اور سوامی موجود تھے۔ سوامی دھیرے دھیرے آنکھیں کھول رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ پوری طرح ہوش میں آ گیا۔ پہلے اس نے پلکیں جھپکائیں ، ہر شخص کو باری باری دیکھا اور پھر گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ساتھ ہی اس نے پوچھا۔ "میں کہاں ہوں؟"
اس کی آواز بے حد خوفزدہ تھی۔
"تم اپنے مکان میں ہی ہو سوامی۔ ہوش میں آؤ، تم سے کچھ دریافت کرنا ہے۔" میں نے نرمی سے کہا۔
"کیا دریافت کرنا ہے؟" اس کی نظریں حیرت سے میری سمت اٹھ گئیں۔
"یہی کہ تم راتوں کو اٹھ کر باہر جنگل میں کیوں جاتے تھے؟"
"کیسی باتیں کر رہے ہیں مالک۔۔" سوامی اچانک چونک کر بولا۔ "میں تو کبھی اس مکان سے باہر گیا ہی نہیں۔"


اتنا زبردست جھوٹ!
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ جان نے کھنکار کر بیچ میں بولتے ہوئے کہا۔
"ہاں ٹھیک تو ہے، وہ بے چارہ کب باہر گیا تھا، تم خواہ مخواہ شک کر رہے ہو۔"
میں مصلحتاً خاموش ہو گیا۔ میں یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ جان کا منشا نہیں ہے کہ سوامی کو یہ راز بتایا جائے۔
"کیا میں کہیں باہر گیا تھا"۔ سوامی نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
"رات کو تمہارا بستر خالی تھا، ہم سمجھے کہ کہیں باہر چلے گئے ہو، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ تم زمین پر سو رہے تھے۔"جان کے یہ فقرے سن کر سوامی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
"ہو سکتا ہے شاید مجھے نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہو۔"
آپ جو میری اس کہانی کو دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں، یقیناً ان واقعات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے ہوں گے ، بتانے کو تو خیر میں آپ کو ابھی سب کچھ بتا سکتا ہوں لیکن بہتر یہی ہے کہ ہر راز پر سے مناسب وقت پر ہی پردہ اٹھایا جائے۔


سہ پہر کا وقت تھا۔ میں زرینہ کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، ہم دونوں کافی دیر سے گزرے ہوئے واقعات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ میں نے احتیاطاً زرینہ کو اپنی اور سوامی کی گفتگو نہیں سنائی تھی۔ میں اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئے۔ خود جان کی مرضی بھی یہی تھی۔ جہاں تک راکٹ کے فارمولے کو چرانے والے شخص کا تعلق تھا ہم اسے بالکل نظر انداز کرچکے تھے۔ اسے تلاش کرنے کی ضرورت اب یوں بھی نہیں تھی کہ جان نے فارمولے کی ایک نقل والٹر اسمتھ کو دے دی تھی۔
اسمتھ بہت زیادہ حیران تھا کہ اتنی جلد یہ نقل کہاں سے مہیا ہو گئی؟ حالانکہ سوامی سے گفتگو کرنے کے بعد جان نے ہمیں ایک فاؤنٹن پین نکال کر دکھایا تھا، کمرے میں اس نے اندھیرا کر دیاتھا۔ اور پھر دیوار کی طرف پین کا رخ کرکے کھڑا ہو گیا تھا، پین میں کوئی چھپا ہوا بٹن دباتے ہی اس میں سے روشنی کی ایک باریک لکیر نکل کر دیوار پر پڑنے لگی تھی۔


فوٹو گرافی میں جس قسم کے انلارجر استعمال ہوتے ہیں، یہ پین ان کا نمونہ تھا (یا پھر ہم اسے ایک چھوٹا سا سنیما پروجیکٹر بھی کہہ سکتے ہیں) دیوار پر ایک فٹ لمبا سفید دھبہ نظر آنے لگا ، ہمیں ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے ایک فٹ مستطیل کا ایک روشن کاغذ چپکا دیا ہے ، اس کاغذ پر وہ فارمولا نظر آرہا تھا جس کے بارے میں سب کا خیال تھا کہ چوری ہو چکا ہے۔


"یہ ہے وہ فارمولا"۔ جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "میں نے مائیکرو فلم پر اس کی کئی کاپیاں بنا لی تھیں۔ ان میں کی یہ ایک کاپی تمہیں نظر آ رہی ہے ، اسی کی مدد سے اب راکٹ تیار ہو رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اگلے ہفتے تک مکمل ہو جائے گا۔ تم ہم لوگ اپنا سفر شروع کر سکیں گے"۔


حیرت کے مارے ہم لوگ گنگ ہو کر رہ گئے۔ دیکھا جائے تو جان نے بڑی ہوشیاری سے کام لیا تھا۔ اسے یقیناً پہلے ہی سے اس کا بات کا ڈر تھا کہ فارمولا چوری ہو جائے گا۔ اگر جان نہ ہوتا تو سچ مچ ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا ہوتا۔ اگر سچ پوچھئے تو میں چاہتا تھا کہ فارمولا چوری ہو جائے۔ شاید آپ میرے ہم خیال نہ ہوں اور میری رائے سے اتفاق نہ کریں، لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ میرے دو دل تھے، ایک دل کہتا تھا کہ میں فوراً راکٹ کے ذریعے اوپر جاؤں، اور نجمہ اور امجد کو آزاد کرا لاؤں اور دوسرا دل کہتا تھا کہ بہتر یہی ہے کہ جایا نہ جائے۔ جان کہہ چکا تھا کہ جب تک ہم زمین پر ہیں محفوظ نہیں ہیں، لیکن خلاء میں پہنچتے ہی ہم محفوظ ہو جائیں گے۔ دراصل یہی بات میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ میں زرینہ اور اختر کی خاطر یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ہم لوگ صرف زمین پر ہی محفوظ ہیں۔


خدا خدا کر کے وہ گھڑی آئی جب ہمارا خاص راکٹ تیار ہوگیا۔ جمعہ کا دن پرواز کے لئے مقرر ہوا، جمعہ میں ابھی چار دن باقی تھے اور یہ چار دن ہم نے جس بے تابی اور بے چینی سے گزارے ہیں، بس میں ہی جانتا ہوں، میں چار دن کے واقعات کو تفصیل سے بیان کرکے خواہ مخواہ آپ کا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسی باتیں رونما ہوئیں جن کا بتانا بے حد ضروری ہے کیوں کہ یہ باتیں دراصل سوامی اور اختر سے تعلق رکھتی ہیں۔


جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، سوامی ہوش میں آنے کے بعد کچھ چپ چپ سا رہنے لگا تھا۔ اس کی بھی تقریباً وہی حالت ہو گئی تھی جو امریکہ آنے سے پہلے اختر کی تھی۔ سوامی سے اگر کچھ دریافت کیا جائے تو وہ پھٹی پھٹی بے جان آنکھوں سے ہمیں دیکھنے لگتا۔ جس بات کا بھی وہ جواب دیتا، تسلی بخش نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ اب ہم لوگوں نے اس پر کڑی نظر رکھنی شروع کردی تھی ، اس لئے وہ اب راتوں کو کمرے سے باہر بھی نہیں جاتا تھا۔ رات کے وقت البتہ اس کی حالت غیر ہو جاتی، وہ دیوار کی طرف مونہہ کرکے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتا رہتا، کبھی ایسی حرکتیں کرتا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی نہ دکھائی دینے والی قوت سے باتیں کر رہا ہے۔ اس قوت سے بات کرتے کرتے اچانک وہ آدھا جھک جاتا ، اس طرح جیسے کسی کا ادب کر رہا ہو ، اختر اس موقع پر اس کے پیچھے کھڑا مسکراتا رہتا، جیسے اس کی ان حرکتوں کو اچھی طرح جانتا اور سب کچھ سمجھتا ہو۔


ایک دن جب ہم لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے تو ہمیں ایک زور دار آواز سنائی دی ، ایسا لگا جیسے کوئی شیشہ ٹوٹا ہو ، رات کے تقریباً نو بجے تھے اور ایسی کوئی زیادہ رات بھی نہیں ہوئی تھی۔ ہم سوامی کی طرف سے بے فکر بیٹھے ہوئے تھے، لیکن اس آواز نے ہمیں چونکا دیا، ہم تیزی سے دروڑتے ہوئے سوامی کے کمرے میں پہنچے، کیوںکہ ہمیں یقین تھا کہ وہ آواز اسی کے کمرے سے آئی تھی۔


کمرے میں پہنچ کر ہم نے جو منظر دیکھا وہ ہمیں حیران کر دینے کے لئے کافی تھا۔ کمرے کی جو کھڑکی جنگل کی سمت کھلتی تھی اس کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور سوامی اس کھڑکی کے شیشوں میں اس طرح پھنسا ہوا تھا کہ اس کا سر اور سینہ تو آگے جھکا ہوا تھا اور دھڑ کمرے ہی میں تھا، سوامی اس شکنجے سے نکلنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اس کا جسم لہو لہان تھا، ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ جلدی سے کھڑکی کے باہر کود گیا اور پھر تیزی سے جنگل کی سمت بھاگا۔ جیک نے فوراً اپنا پستول نکال کر اس پر فائر کرنا چاہا لیکن جان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔۔ "خبردار ، کیا کرتے ہو؟"
"لیکن سوامی کہاں جا رہا ہے؟" میں نے بے صبری سے دریافت کیا۔
"وہیں جا رہا ہوگا جہاں پہلے گیا تھا" جیک نے نفرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
"دیکھو۔۔ جلدی دیکھو اختر تو محفوظ ہے نا؟"جان یہ کہتے ہوئے اختر کے کمرے کی طرف بڑھا۔
اور پھر ہم نے دیکھا کہ اختر اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا کتاب پڑھ رہا ہے۔ ہمیں صرف اس کی پشت ہی نظر آئی۔
"شش!" جان نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر گویا ہمیں خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ "آؤ الٹے قدمے واپس آجاؤ ، ہم اختر کو بتائے بغیر اپنے طور پر تحقیق کریں گے۔"


زرینہ کو ہم نے احتیاطاً کمرے ہی میں چھوڑا اور پھر ہم لوگ وہاں آگئے جہاں ہم نے سوامی کو پہلے دن کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔ جنگل اس وقت بڑا بھیانک لگ رہا تھا۔ گارڈ پہرے پر بےشک تھے، مگر ہم نے میدان میں آتے ہی یہ بات فوراً نوٹ کرلی تھی کہ وہ اپنی سرچ لائٹوں کو بار بار ٹٹول رہے تھے اور اوپر مچان پر لگے ہوئے بجلی کے مین سوئچ کو جلدی جلدی کھول اور بند کر رہے تھے، میں فوراً سمجھ گیا کہ حسب معمول خار دار تاروں کی بجلی عارضی طور پر ختم ہو گئی ہے۔
جیک اور جان کے ساتھ ہی میں بھی آہستہ آہستہ ان تاروں کے نیچے سے پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا، سوامی ہم سے پچاس ساٹھ فٹ آگے تھا اور اب وہ بڑی تیزی سے آگے بھاگ رہا تھا، ہم تینوں بھی سائے کی طرح اس کے پیچھے لگے رہے ، سوامی نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس کا تعاقب نہیں ہو رہا ہے۔


کچھ دور آگے جانے کے بعد ہم ٹھٹھک گئے۔ ہم نے جو منظر دیکھا وہ ہمیں مبہوت کر دینے کے لئے کافی تھا۔ ہم نے دیکھا کہ آسمان سے ایک سبز رنگ کی چمکیلی روشنی دائرے کی شکل میں زمین پر پڑ رہی ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے کروڑوں جگنو اس روشنی میں مچل رہے ہیں۔ برقی شرارے پھلجھڑی کے شراروں کی طرح روشنی کے اندر ناچ رہے تھے۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس روشنی میں کوئی نامعلوم سایہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے ہوئے کھڑا تھا ، اس شخص کی پیٹھ ہماری طرف تھی ، اس لئے ہم اس کی شکل صاف صاف نہیں دیکھ رہے تھے۔ جان نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں ایک درخت کے پیچھے چھپ جانے کو کہا اور پھر ہم تینوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس منظر کو دیکھنے لگے جو اس وقت ہمارے سامنے طلسم ہوشربا کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔


سوامی بلی کے سے قدم رکھتا ہوا چمکیلی روشنی کی سمت بڑھ رہا تھا، ہمیں تعجب تھا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔ وہ اس وقت بالکل نہتا تھا، جان نے یہ سوچ کر کہ سوامی کو کوئی نقصان نہ پہنچے ، اپنا پستول اونچا کر کے روشنی کے ہالے کا نشانہ لے لیا تھا۔ سوامی اب روشنی کے بالکل قریب ایک درخت کی آڑ لے کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اقدام کرتا ایک عجیب بات ہوئی، ڈاکٹر والٹر اسمتھ کا رہائشی کمرہ اس مقام سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا، ہم نے دیکھا کہ اچانک اس کے مکان کی کھڑکی میں سے نارنجی رنگ کی ایک سبز روشنی نمودار ہوکر تیر کی طرح اس سائے پر پڑی جو سبز روشنی میں نہا رہا تھا۔
بس ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے کھڑکی میں سے ٹارچ کی روشنی اس طرف ڈالی ہو، یکایک ایک زبردست تڑاخا ہوا، اور اس تڑاخے کو سنتے ہی سوامی شیر کی طرح جست لگا کر اس روشنی میں کھڑے ہوئے سائے کو دبوچنے کے لئے اچھلا۔ مگر اتنی سی دیر میں ہی اس مقام پر جو کچھ بھی تھا، اب غائب ہو چکا تھا۔
سبز چمکیلی روشنی اور اس میں کھڑا ہوا سایہ حیرت انگیز طور پر فضا میں تحلیل ہوگیا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا ہوا تھا؟ مجھے تو یوں لگا تھا جیسے میں الف لیلہ کی کوئی کتاب جیتی جاگتی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔ سوامی دیوانوں کی طرح ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ کسی نظر نہ آنے والی قوت سے جنگ کر رہا ہے۔ ہم لوگ خود بھی بھونچکے رہ گئے اس لئے پہلے تو ہم اسی مقام پر کھڑے حیرت سے اس جگہ کو دیکھتے رہے جہاں سے وہ سایہ غائب ہوا تھا۔ لیکن جیسے ہی سوامی نے پاگلوں کی سی حرکتیں کیں تو ہمیں اپنی پناہ گاہ سے نکل کا سوامی کی طرف بڑھنا ہی پڑا۔


سوامی اب چیخ چیخ کر اختر کو آوازیں دے رہا تھا۔ ادھر ادھر دوڑ کر وہ اختر اختر کا نعرہ لگاتا اور پھر اپنے بال نوچنے لگتا۔ ایک دوبار اس نے پھر اختر کو پکارا اور جب جنگل میں سے کسی نے بھی آوازوں کا جواب نہیں دیا تو وہ اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا ، اپنا سر گھٹنوں میں دے لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کافی دیر تک یہی حالت رہی، آخر اس نے ہمارے قدموں کی چاپ سن کر اپنا سر اٹھایا۔ میں نے ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر ڈالی، وہ سچ مچ رو رہا تھا ، مجھے دیکھتے ہی وہ جلدی سے اٹھا اور پھر میرے قدموں میں گر گیا، ساتھ ہی وہ بڑی بے تابی سے کہنے لگا۔
"مالک۔۔ مالک بابا کو بچائیے، بھگوان کے لئے بابا کو بچائیے۔"



Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں