اردو ذریعۂ تعلیم کی حمایت میں - از اطہر فاروقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-10

اردو ذریعۂ تعلیم کی حمایت میں - از اطہر فاروقی

in-support-of-urdu-medium-education

ہندوستان میں اردو زبان اور اس کی تعلیم کو (ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ذریعہ تعلیم کے طور پر بھی) جن مسائل کا سامنا ہے ان کے خلقیے پر خاصی بحث و تمحیص ہو چکی ہے چنانچہ نہ تو ان کی تکرار سے کچھ حاصل ہونے کی توقع ہے اور نہ ہی ان پر آنسو بہانے سے کچھ حاصل ہوگا۔ ضرورت اس امر کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ہے کہ ملک میں تعلیم کے مجموعی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اردو کی تعلیم کے نظم کے لئے کیا امکانات موجود ہیں۔


جہاں تک عمومی طور پر تعلیم کا سوال ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے ان پہلوؤں کو ترجیح حاصل ہونی چاہئے جن کا تعلق روزگار سے ہے ، لیکن یہ بات صرف ان لوگوں کے سروکار کا احاطہ کرتی ہے جنہیں عمدہ تعلیمی مواقع دستیاب ہیں۔
اردو لسانی اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلبہ اس دائرے میں نہیں آتے کیوں کہ انہیں عمدہ تعلیمی مواقع اس لئے حاصل نہیں ہیں کیوں کہ ان کی اکثریت ہندوستان کے سب سے پسماندہ اقتصادی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ عام طور پر انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں تعلیم پانے والے طلبہ علاقائی زبانوں کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر سبقت لے جاتے ہیں جو فطری بات ہے اور اس کے اسباب میں درسی اور امدادی کتابوں کے معیار اور ان کی فراہمی سے لے کر انگریزی ذریعۂ تعلیم سے وابستہ کئے جانے والے اعلیٰ معیار کے عوامی تصور تک متعدد محرکات کا دخل ہے۔


انگریزی تعلیم کے اعلا و ارفع ہونے کے عوامی تصور کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ انگریزی کے ذریعے حاصل کی جانے والی تعلیم نہ صرف اپنے ملک میں روزگار کے حصول کے بہتر مواقع کی ضمانت ہے بلکہ اس سے بیرون ملک میں روزگار پانے کے مواقع بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ نظام تعلیم پر انگریزی کی مجموعی بالادستی اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کے بہتر معیار سے مگر یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی کہ جو طلبہ سہ لسانی فارمولے کی رو سے اپنی پہلی زبان یعنی مادری زبان کے طور پر یا پھر دوسری یا تیسری زبان کی حیثیت سے اردو پڑھنا چاہتے ہیں انہیں اسکولوں میں ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو اردو پڑھنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اگر اسکول اردو تعلیم کی سہولت کا بندوبست نہیں کرتے تو اردو بولنے والے طلبہ کے والدین کو اس کا مطالبہ کرنا چاہئے۔


اردو تعلیم کے مسائل پر غور کرتے ہوئے ہمارا سامنا علاقائی (ہندوستانی) زبانوں کے ذریعے تعلیم کے حصول اور ان کے عمومی نظام کے سوال سے ہونا لازمی ہے۔ چونکہ ایک اوسط ہندوستانی شہری انگریزی میڈیم اسکول کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا، اس لئے اسکول جانے والے اسی فیصد سے زائد طلبہ علاقائی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے والے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں (جس سے ان کے روزگار پانے کے مواقع فطری طور پر انگریزی ذریعہ تعلیم کے طلبہ کے مقابلے محدود ہو جاتے ہیں)۔
انگریزی میڈیم اسکولوں کی مہنگی تعلیم کے باعث عام ہندوستانی طالب علم کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے کہ وہ علاقائی میڈیم سے تعلیم حاصل کرے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسکول میں محض اپنی مادری زبان سیکھنے سے (خصوصاً اردو مادری زبان والے طلبہ کے اردو سیکھنے سے) روزگار کے امکانات منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور کیا اردو کے ذریعے حاصل کی جانے والی تعلیم بجائے خود روزگار کے مواقع کے لئے نقصان دہ ہے؟


یہاں اس بات کو نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ سرکاری اسکولوں کا عام ماحول اور تعلیمی معیار نہایت ناقص ہے اور اردو میڈیم اسکولوں کی صورت حال، جنہیں یا تو کمیونٹی کے فنڈ سے چلایا جاتا ہے یا پھر ان کا نظم و نسق حکومت کے پاس ہے ، دوسری ہندوستانی زبانوں کے اسکولوں سے کسی بھی طرح بہتر نہیں ہے گویا تمام ہندوستانی زبانوں کے میڈیم کا معیار کم و بیش ایک جیسا ہے۔ درحقیقت سرکاری نظام کے دیگر شعبوی کی طرح سرکاری اسکولوں اور خاص کر اردو میڈیم اسکولوں کے استادوں میں بھی پیشے کی اخلاقیات اور ذمے داری کا احساس ختم ہو چکا ہے۔
نااہلی اور ناکارکردگی کا یہ سلسلہ اوپر کی طرف بڑھتے بڑھتے ان سرکاری محکموں تک جا پہنچا ہے جو تعلیم کے نظم کے نسق کے لئے بنیادی طور پر ذمے دار ہیں۔ بیورو کریٹوں اور سیاست دانوں کا رویہ بھی سرکاری اسکولوں کے سلسلے میں حد درجہ افسوسناک ہے مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیوں کہ سرکاری نظام تعلیم سے انہیں کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہیں۔
نہ صرف دیہات اور چھوٹے قصبوں بلکہ بڑے شہروں تک کے سرکاری اسکول پالیسی سازوں کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ حکومت کے ذریعے چلائے جانے والے پرائمری اسکول جو قانونی طور پر اس بات کیلئے مجبور ہیں کہ وہ تعلیم صرف مادری زبان میں دیں گے ، اس لئے ان میں ذریعۂ تعلیم کوئی ہندوستانی زبان ہوتی ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار مگر اس درجہ پست ہے کہ یہ اپنے طلبہ کو بہ مشکل خواندگی کی سطح تک پہنچاپاتے ہیں۔ ان اسکولوں میں معیاری تعلیم کا تو سوال ہی نہیں۔


اردو کو غیر منصفانہ طور پر تقسیم ملک کا ذمے دار ٹھہرایا گیا اور تعلیمی نصاب کے معاملے میں اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ اس زبان کو متواتر امتیازی سلوک کا سامنا رہا اور نام نہاد ہندی علاقے ، یعنی شمالی ہند کے نظام تعلیم میں اس کا وجود عملاً معدوم ہو چکا ہے اور اردو تعلیم کا بندوبست حد درجہ انتشار کا شکار ہے۔ 'اردو والوں' کی کئی پیڑھیاں اپنی زبان کو سیکھے بغیر گزر چکی ہیں۔ اردو تعلیم کی اعلا سطح پر فراہم یعنی یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم کے نظم سے اس عظیم نقصان کا ازالہ نہیں ہو سکتا جو نصف صدی سے زیادہ اسکولوں میں تعلیم کی عدم دستیابی کے سبب ہو چکا ہے۔


یہ سمجھنا محض دیوانگی ہے کہ اردو سیکھنے سے روزگار کے مواقع بہتر ہو سکتے ہیں۔ لبرل معاشی پالیسیاں، جن کے نفاذ کے ساتھ ہی انگریزی کی بالادستی لازمی ہے ان پیشوں پر بھی اثر انداز ہوئی ہوئی ہیں جو اب تک علاقائی زبان کے ذریعے تعلیم پانے والے طلبہ کی دسترس میں تھے۔ کم حیثیت روزگار کے جو مواقع اس وقت علاقائی زبانوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے موجود ہیں وہ بھی تیزی سے ختم ہوتے چلے جائیں گے اور علاقائی زبانوں کے گریجویٹ بہت جلد عام ناخواندہ مزدوروں کی سطح پر آنے والے ہیں۔ چنانچہ ہم روزگار کے امکانات کو اردو یا کسی اور علاقائی زبان کا ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں دی جانے والی کسی دلیل سے مماثل نہیں کر سکتے۔


اردو تعلیم یا اردو ذریعۂ تعلیم کے سوال پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اس سادہ حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جب دہلی جیسے شہری علاقوں میں حکومت ہر شخص کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرا سکتی تو پھر ایسی پالیسیاں تیار کرنا تو ایک دور افتادہ خواب ہے جن کے تحت ہندوستانی زبانوں کے ذریعے ایسی تعلیم دی جا سکے جو آخرش روزگار کے حصول کا ذریعہ بھی بن جائے۔
ہندوستان میں تعلیم کا پورا نظام ناقابل تلافی طور پر ناکارہ ہو چکا ہے۔ اردو ذریعۂ تعلیم کا معاملہ ان تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جن کا تعلق تعلیم کے عمومی منظر نامے سے ہے۔ جیسے بھی ہو، ہمیں ایک خراب صورتحال ہی کو کسی نہ کسی طرح بہتر بنانا ہوگا۔


علاقائی زبانوں کے ذریعے عمدہ تعلیم دینے کے سلسلے میں بعض غیر معمولی ، اور چند ایک تجرباتی نوعیت کی کوششیں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر سردار پٹیل سینئر سیکنڈری (پبلک) اسکول نئی دہلی میں پرائمری درجات میں یعنی پانچویں کلاس تک ہندی کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ اس اسکول میں ہندی کے ذریعے تعلیم دینے کے پس پشت حالاں کہ یہ مفروضہ بھی کار فرما ہے کہ ہندی اس اسکول میں زیر تعلیم تمام طلبہ کی مادری زبان ہے۔
بہر حال اس لسانی مفروضے سے قطع نظر پانچویں کلاس کے بعد اس اسکول میں ہندی کو موقوف کر کے اس کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جاتا ہے اور طلبہ کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اس اسکول کا شمار دہلی کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔
اصولی طور پر ہندوستانی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے اس طریق کار کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس طرح طلبہ کو انگریزی زبان کو تیزی سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور اس بات کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ انگریزی بولنے والے مراعات یافتہ طبقے کی ذہنیت کو لازماً خود پر سوار کریں۔


اردو کے ارباب اقتدار اگر اردو اور اس سے وابستہ تہذیبی ورثے کو اپنی نئی نسل تک منتقل کرنے میں ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں اسی قسم کے کسی نمونے کو اختیار کرنا ہوگا۔

(انگریزی سے ترجمہ : اجمل کمال)

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
آزاد ہندوستان میں اردو - مضمون از سید شہاب الدین
اردو زبان اور ہماری ذمہ داریاں
اردو تعلیم اور روزگار کے مواقع

In support of Urdu Medium education. Article: Ather Farouqi (Urdu translation by: Ajmal Kamal).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں