بیگم حضرت محل - جنگِ آزادی میں انگریزوں سے لوہا لینے والی مجاہد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-09

بیگم حضرت محل - جنگِ آزادی میں انگریزوں سے لوہا لینے والی مجاہد

begum-hazrat-mahal

15/اگست جب آتا ہے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہندوستان میں انگریز سوداگر کی حیثیت سے آئے تھے۔ تجارت کے پس پردہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا تھا۔ جیسے جیسے مغلیہ سلطنت کا سورج چھپنے لگا، سات سمندر پار سے آئےان تاجروں کے سائے بھی لمبے ہونے لگے۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں دہلی اور اودھ کی حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا اور ملک آتش فشاں کی مانند اندر ہی اندر دہکنےلگا۔۔
انگریزوں نے ہر محاذ پرظلم وتشد د کا بازار گرم رکھا تھا۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہر ہندوستانی اسے توڑنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ آخر کار 5 اراگست 1947ء کو وہ سنہرا دن آیا جب غلامی کی کڑیاں ٹوٹ کر بکھر گئیں اور ملک نے آزادی کا سورج دیکھا۔ ہم ہر سال جس آزادی کا جشن مناتے ہیں اس کے حصول میں ہر ہندوستانی نے بیش قیمت قربانی دی ہے۔ ملک کے چپے چپے کو اپنے خون سے سرخ کردیا ہے، بالخصوص مسلمانوںنے ملک کی آزادی کے لیے جس بے جگری سے اپنا خون بہایا ہے، اس کی مثال تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے۔
ایک جانب علمائے دین اور عوام الناس کی لمبی قطار ہے تو دوسری طرف مسلم خواتین کا ایک بڑا لشکر بھی ہے۔ بیگم حضرت محل، زینت محل، آبادی بیگم المعروف بی اماں، زلیخا بیگم (بیگم مولانا ابوالکلام آزاد)، سبز پوش خاتون ، عزیزن (جھانسی کی گمنام شہید ) خدیجہ بیگم، زبیدہ بیگم،اصغری بیگم، منیرہ بیگم ،کنیز سیدہ بیگم اور ان کے علاوہ لمبی فہرست ہے۔
ان خواتین کی ملک کے لیے دی گئی قربانی نئی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے اور جن کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے۔ ان خواتین مجاہد آزادی نے ایک زندہ قوم میں حرارت باقی رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے جدوجہد آزادی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خاطر اپنی بے لوث خدمت سے قوم وملت کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بیگم حضرت محل ان چنندہ خواتین میں سے ایک ہیں جن کی شجاعت فن سپہ گری، عسکری حکمت عملی اور ملک و قوم کے لیے بے لوث جذبہ ایثار تاریخ کے سنہرے ورق میں تا قیامت محفوظ رہیں گے۔


1857ء کی جنگ آزادی میں یوں تو بہت سی خواتین مجاہد آزادی کے نام سے تارت کے اوراق میں درج ہیں لیکن اودھ کی بیگم حضرت محل کا نام سب سے نمایاں اور روشن ہے۔ تاریخ نے اس مجاہد آزادی کی عسکری صلاحیتوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیت اور جنگی حکمت عملی سے یہ ثابت کر دیا کہ و ہ محض محل کے حرم سرا میں مقیم ایک خاتون نہیں بلکہ ایک جری ، بہادر اور شجاعت سے سرشار ایک سپاہی بھی تھیں۔ بیگم حضرت محل وہ پرعزم عورت تھیں جس نے نہ صرف انگریزوں سے مزاحمت کی بلکہ طویل عرصے تک انگریزوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا تھا۔


بیگم حضرت محل کا نام امراؤ بیگم تھا۔ واجد علی شاہ نے انھیں "بیگم حضرت محل" کا خطاب دیا۔ وہ بڑی بہادر منتظم ،روشن دماغ ، دور اندیش اورمحب وطن خاتون تھیں۔ ان کی اعلی صلاحیتوں کا اقرار انگریز مورخوں نے بھی کیا ہے۔ مستقل دو سال تک ملک کے باہری اور اندرونی دشمنوں سے جنگ کرتی رہیں۔ بیگم حضرت محل کے متعلق عظیم مجاہد آزادی جناب فضل حق خیرآبادی نے کہا ہے"بیگم حضرت محل نواب واجد علی شاہ کی بیگمات میں سب سے زیادہ ذہین، بہادر اور دور اندیش خاتون تھیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی ، وہ جدھر سے گزر جا تیں خوشبو بکھر جاتی تھی لہذا" مہک پری" کے نام سے بھی مشہور ہوئیں۔"


میرٹھ میں بغاوت ہونے کے بعد جب اس کے شعلے لکھنو پہنچے تو بیگم حضرت محل نےواجد علی شاہ کی موجودگی میں اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کا وہ مظاہرہ کیا کہ انگریزوں کے دانت کھٹے ہوگئے۔ بیگم حضرت محل کی اس درجہ شجاعت دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہوگیا کہ وہ ایک عام عورت تھیں۔ ڈاکٹر ابرار رحمانی کے مطابق شیخ تصدیق حسین اپنی کتاب"بیگمات اودھ" میں رقم طراز ہیں:
"1857ء میں جب انگریزوں کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی تو فوج نے برجیں قدر کو بتاریخ 2/ذی قعدہ 1273ھ مطابق 5/جولائی 1857ء میں اپنا بادشاہ قرار دے کر انگریزوں سے مقابلہ کیا۔ برجیس قدر اس وقت صرف گیارہ برس کے تھے، اس لئے کل امور سلطنت بیگم حضرت محل انجام دیتی تھیں۔ اس وقت وہ جو لکھی کوٹھی میں رہتی تھیں وہیں ان کا دربار لگتا تھا۔"
ایک اور نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو دہلی کی ملکہ زینت محل کی بہ نسبت حضرت محل زیادہ دور اندیش ثابت ہوئی ہیں۔ پیش ہے ان دونوں کا ایک تقابلی جائزہ:


1۔ زینت محل اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کی کمان سنبھالنے پر آمادہ کرتی ہیں تو دوسری طرف اودھ کی بیگم حضرت محل نے انگریزوں سے میدان جنگ میں لوہا لیا۔


2۔ زینت محل انگریزوں کی مخالفت اس لئے کرتی ہیں کہ انگریزوں نے ان کے بیٹے جواں بخت کو ولی عہد نہیں بنایا، اسی وجہ سے وہ بہادر شاہ ظفر کو علم بغاوت بلند کرنے پر اکساتی رہیں، جب کہ بیگم حضرت محل نے سیاست کے ایک ماہر کھلاڑی کی طرح اپنے بیٹے برجیس قدر کو تخت نشیں کیا اور خود انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہوگئیں۔ ان کی فوج میں دہلی سے لوٹے جنرل بخت خاں بھی شامل ہوگئے۔


3۔ 22/نومبر 1857ء کو بیگم زینت محل نے خود کو اور بہادر شاہ ظفر و دوسرے متعلقین کو ہمایوں کے مقبرے میں انگریزوں کے سپرد کردیا، اس امید پر کہ شاید انگریز جواں بخت کو بادشاہ بنادے۔ دوسری جانب لکھنو میں ایک سال کی طویل جنگ کے بعد شکست سے دوچار ہوکر بیگم حضرت محل نے خود سپردگی نہیں کی بلکہ اپنے بیٹے کو لے کر نیپال ہجرت کرگئیں۔ اسی کے ساتھ تاریخ کا ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ جس میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کے تین شہزادوں کو قتل کرکے ان کا خون پیا تھا، اس میجر ہڈسن کو لکھنو پہنچتے ہی بیگم حضرت محل نے اپنی جنگی حکمت عملی کا ثبوت دیتے ہوئے گرفتار کر کے پھانسی پرلٹکا دیا تھا۔


حال ہی میں بہار کے ایک اردو روز نامہ میں انگریزی اخبار کے حوالے سے بیگم حضرت محل کے مقبرہ کے حال زار کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل کا مزار کاٹھمنڈو کے باغ بازار چوک میں نیا پارک کے قریب آج بھی موجود ہے مگر وہاں شہر بھر کی غلاظتیں پھینکی جاتی ہیں۔ لوگ رفع حاجت کے لیے وہاں جاتے ہیں، شراب کی خالی بولیں پھینکی جاتی ہیں۔ آس پاس کے لوگ اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ بھی وہاں ڈال جاتے ہیں۔ شاید کاٹھمنڈو(نیپال) کے لوگوں کو اس کی واقفیت نہیں ہے کہ وہ جس جگہ گندگی اور کوڑا کرکٹ پھینک رہے ہیں وہ ایک ایسی مجاہد آزادی کا مدفن ہے جس نے جھانسی کی رانی کی طرح ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی قربانی دی ہے۔ اگر سیاسی اور لا لچی لوگوں نے غداری نہ کی ہوتی تو ملک کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی۔


ہجرت کر کے نیپال چلے جانے کے بعد کاٹھمنڈو میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لی اور وہیں 1879ء میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ اسی شہر میں ان کی تدفین ہوئی۔ یہ کہنا کہ حکومت نیپال کو اس کا علم نہیں ہے کہ باغ بازار میں کون دفن ہے، یقین میں نہ آنے والی بات ہے، اس لیے کہ اس وقت کے طاقت ور وزیراعظم جنگ بہادر رانا نے بیگم حضرت محل کی ہر طرح مدد کی تھی۔ اس کی تفصیلات سرکاری ریکارڈ میں یقیناً محفوظ ہوں گی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات منائی جارہی ہے۔ مگر اس کے شور میں بیگم حضرت محل کی بے لوث قربانیوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ ان کے مدفن کے متعلق جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر یہ مطالبہ حق بجانب ہوگا کہ حکومت ہند اس کی تعمیر نو کے لیے حکومت نیپال سے رابطہ قائم کرےاور ایک شایان شان یادگار وہاں تعمیر کرائے۔ بیگم حضرت محل کو سچی خراج عقیدت یہی ہوگی۔


بیگم حضرت محل، جن کے بچپن کا نام امراؤ بیگم تھا کسی کی تاریخ میں ان کا اصل نام "محمدی بیگم" بھی تحریر ہے۔ ان کے والد کا نام غلام حسین اور شوہرکا نام نواب واجد علی شاہ تھا۔ وہ فیض آباد میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی، اس لئے ان کو "مہک پری" کا خطاب نواب واجد علی شاہ نے عطا کیا تھا۔ نواب اودھ کی بیگمات میں سب سے زیادہ ذہین، بہادر اور دور اندیش خاتون تھیں۔ واجد علی شاہ نے دوران ولی عہدی ہی میں مہک پری سے عقد کرلیا۔ ماں بنتے وقت نواب وقت نے انہیں"افتخار النساء" کے خطاب سے نوازا۔ جب واجد علی خود نواب اودھ ہوئے تو انہوں نے حضرت محل کا خطاب دیتے ہوئے ان کی رہائش گاہ کے لئے قیصر باغ کے پیچھے بارہ دری کی طرف ایک خوبصورت مکان منتخب کیا۔


لارڈ ڈلہوزی نے ملک کی کئی ریاستوں پر بد عنوانی اور انتشار کا الزام لگا کر ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد اودھ کو بھی برٹش حکومت میں شامل کرنے کے لئے یہ الزام عائد کیا کہ وہ باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس لئے 15/جنوری 1856ء کو ان کے محل کا محاصرہ کرلیا گیا تو اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا، جس کا مرکز ریاست اودھ بنا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تقریبا75/ ہزار سپاہی جو اودھ کے علاقے کے تھے اپنے علاقے کو انگریزوں کے قبضے میں جاتے دیکھ بھڑک اٹھے اور پورا اودھ انگریزوں سے بدظن ہوگیا۔ بادشاہ نواب واجد علی شاہ کو کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں نظر بند کردیا گیا۔ مٹیا برج میں نواب واجد شالی نے دوسرا لکھنو آباد کر دیا تھا۔


بیگم حضرت محل نے لکھنو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنی ذہانت سے دس سالہ اکلوتے بیٹے برجیس قدر کو اودھ کا نواب ہونے کا اعلان کردیا اور ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ انہوں نے سب سے پہلے عام بھرتی کا اعلان کیا ، کیونکہ پرانے سپاہی انگریزوں کے ماتحت ہوگئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اودھ کے باشندوں کو ایک قیادت مل گئی ، اس طرح جنگ آزادی کی چنگاری میرٹھ، دہلی ، آرہ کے ساتھ ساتھ اودھ میں بھی بھڑک اٹھی۔ خواتین نے بھی مردانہ لباس زیب تن کیا اور ہتھیار بند ہوکر انگریزوں سے لڑنے کے لئے میدان میں کود پڑیں۔ بیگم حضرت محل مردانہ لباس میں سر پر پگڑی باندھے، ہاتھوں میں تلوار لئے گھوڑے پر سوار ہوکر خوانخوار شیرنی کی طرح گرجتی ہوئی انگریز سپاہیوں پر ٹوٹ پڑیں اور صفوں کی صفیں درہم برہم کررہی تھیں۔ ان کی جاں بازی اور بہادری کا منظر دیکھ کر ڈبلیو ایچ ، رسل نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:


"بیگم میں بڑی قابلیت اور ہمت دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے ہمارے ساتھ لگاتار جنگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہاں کی رانیوں اور بیگمات کی طاقت اور ہمت کو دیکھ کر معلوم پڑتا ہے کہ زنان خانے کے اندر رہ کر بھی یہ کافی عملی اور دفاعی طاقت اپنے اندر پیدا کر دیتی ہیں۔"
(بحوالہ : خواتین ہند کے تاریخی کارنا مے۔ فضل حق عظیم آبادی)


ہسٹری آف انڈیا میں مارش مین رقم طراز ہے:
" لکھنؤ میں باغیوں نے جو مزاحمت کی وہ اتنی کی سخت تھی کہ کبھی انگریزی فوج کو سابقہ نہ پڑا تھا۔ یہاں تک کہ دہلی میں بھی اتنی سخت مزاحمت نہیں کی گئی۔ بیگم اودھ کی موجودگی نے باغیوں میں بلا کا جوش بھر دیا تھا۔ نہایت غیر معمولی مستعد اور سرگرم خاتون تھی۔"


مذکورہ جنگ گومتی ندی کے کنارےدائیں جانب موسی باغ میں لڑی گئی۔ یہ جنگ لکھنو میں انگریزوں کے ساتھ بیگم کی آخری جنگ تھی۔ 75 /ہزار سپاہی شہید ہوئے ، اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہاریں ، مگر چند غداروں اور نمک حراموں کی وجہ سے انھیں شکست ہوئی۔ جزل اوٹر م نے ایک موقع پر بیگم حضرت محل کوصلح کی پیش کش کی ، وہ لکھتا ہے کہ "کمپنی نواب شجاع الدولہ کے عہد کے مطابق مما لک محروسہ کو واپس کرنے اور کلکتہ سے نواب واجد علی شاہ کو واپس لانے پر راضی ہے، لہٰذا لڑائی موقوف کی جائے۔"


لیکن بیگم حضرت محل کو انگریزوں سے بہتر سلوک اور وعدہ وفا کرنے کی توقع نہیں تھی، لہذا انھوں نے اس شرط کو نا منظور کر دیا۔ انھوں نے راجا مان سنگھ کو فرزند خاص کا خطاب عطا کر کے ملک کی سلامتی اور آزادی کی بقا کے لیے جنگ لڑی۔ اس لیے بلا امتیاز مذہب و ملت بھی نے ساتھ دیالیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ مکاروں اور دوست نما دشمنوں نے دغا بازی کی۔ نتیجہ کے طور پربیگم کی کوٹھی پر بھی کئی دنوں تک جنگ ہوتی رہی۔ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ حضرت محل کو میدان چھوڑنے کی تدبیروں پر غور کرنا پڑا۔ یہ خبر مخبروں نے جنرل اوٹرم تک پہنچادی، تب اس نے صلح کی دوسری شرط پیش کرتے ہوئے لکھا:
" ہم آپ کا ملک آپ کو دیں گے، جنگ ترک کردیجئے۔ فوج مغلوبہ کے ساتھ کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔"
لیکن حضرت محل کی خودداری نے یہ پیشکش بھی ٹھکرادی۔ اب لکھنو پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تھا، اس وقت بیگم حضرت محل کو دشمن نمبر (1) قراردیتے ہوئے بھی پچیس ہزار روپے سالانہ وظیفہ دینے کی پیش کش کی ، اس کو بھی بیگم نے ٹھوکر مار دی اور16 مارچ 1858ء لکھنؤ سے روانہ ہو کر بوندی چلی گئیں۔ اسی دوران ملکہ وکٹوریہ نے شاہی فرمان جاری کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کر کے ہندوستان کی حکومت کو براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت کر لیا۔ اس کا اعلان نومبر 1858ء الہ آباد میں کیا گیا۔


بیگم حضرت محل بوندی سے نیپال چلی گئیں تا کہ وہیں سے انگریزوں کے خلاف جنگ جاری رکھ سکیں۔ جس آسانی سے انگریزوں نے دلی پر قبضہ کرلیا تھا اس کے مقابلے میں لکھنو کی سرزمین نہایت سخت ثابت ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر کو قید کرنے اور ان کے دو بیٹوں اور پوتے کو شہیدکرنے والے ظالم کرنل ہڈسن کوگرفتار کر کے 10/ مارچ 1858ءکو پھانسی پر لٹکا دیا اور بہادر شاہ ظفر اور ان کے بیٹوں کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس عمل سے انھوں نے ثابت کردیا کہ ہندوستان کی شیر دل بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔


نویں صدی سے لے کرے1857ء تک ہندوستان میں ایک تہذیبی اختلاط پیدا ہوا اور اسی سے ایک گنگا جمنی تہذیب وجود میں آئی۔ نوابین اودھ نے ہندو مسلم اتحاد کو اولیت دی۔ تمام نوابین نے مسلمانوں کے ساتھ ہندووں کو بھی اعلی مناصب پر فائز کیا۔ ان کے رسم ورواج تہوار اور میلوں میں سرکاری امداد دی جاتی تھی۔ یہ روایت نواب واجد علی شاہ کے زمانے میں خوب پھلی پھولی اور ان روایتوں کو بیگم حضرت محل نے بھی خوب پروان چڑھایا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کی تو ہندو راجاؤں نے متحد ہوکر بیگم کا ساتھ دیا اور انھیں" راج ماتا" کا درجہ عطا کیا۔
بیگم پر ہندو راجہ اس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ وہ سب کے سب جان سے زیادہ انہیں چاہتے تھے۔ راجہ جی لال سنگھ نے تو اپنی جان بیگم حضرت محل پرقربان کر دی۔ جب بیگم نیپال جارہی تھیں تو شنکر پور کے راجا بینی مادھو کا کالکر کے راجا ہنومنت سنگھ اورتلسی پور کے راجا "امرسنگھ"حضرت محل کے ساتھ نیپال کی سرحد تک گئے۔ بیگم حضرت محل کے ساتھ جن غیر مسلم راجاوں نے دیا ان میں جناب راجا ٹھاکر سنگھ تر یویدی ، راجا ہر پرساد سنگھ بہادر ، مہاراجا ٹکیت رائے ، مہاراجہ ساگرمنشی بہادر، راجا کندن لال، راجا بال کشن اور راجا جسونت سنگھ کے نام قابل ذکر ہیں۔ راجا ہرش نے تو حضرت محل کے بیٹے برجیس قدر کو اپنا بھائی بنالیا تھا۔(بحوالہ وصی احمدنعمانی کے مضمون "ان کی قربانی کوبھی یاد کریں")


حضرت محل کی حکومت ہندو مسلم اتحاد کی ایک بڑی مثال تصور کی جاتی ہے۔ ان کی فوج کی مختلف پلٹنوں کے کمانڈر بھی ہندو ہی تھے۔ مثلا حضوری پٹن کے کمانڈر رام ٹھا کر سنگھ، برق پیٹ کے کمانڈردرگا بخش اور جرارپلٹن کے کمانڈر رگھو بیر تھے۔


اکیس سال تک نیپال میں رہنے کے بعد بیگم حضرت محل کی روح 17/ اپریل 1879ءکو قفس عنصری سے آزاد ہوگئی اور مہک پری کی خوشبو سے ہندوستان ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا۔ کٹھمنڈو (نیپال) میں ہی ہندوستانی چوک کے پاس ان کی اپنی بنائی ہوئی مسجد اور امام باڑہ کے احاطے میں ان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ جہاں ہندوستان کی عظیم بیٹی ابدی نیند سورہی ہے۔ ادھر برجیس قدر ماں کی زندگی تک نیپال میں رہے لیکن اس کے بعد ان کا دل وہاں سے اچاٹ ہوگیا۔ حکومت برطانیہ نے بھی کسی مصلحت کے تحت ان کا جرم معاف کر دیا اور وہ کلکتہ کے مٹیا برج علاقہ میں آگیا۔ اس وقت تک واجد علی شاہ بھی رحلت فرما چکے تھے۔ برجیس قدر کا وظیفہ بھی مقرر ہوالیکن أن کے خاندان والے جو پہلے سے ہی واجد علی شاہ کے وارث بن کر وظیفے سے فائدہ اٹھا رہے تھے، برجیس قدر کے دشمن ہو گئے اور انھوں نے برجیس قدرکوز ہر دے کر مار ڈالا۔


بیگم حضرت محل کی عظمت و کردار کا ذکر کرتے ہوئے ویرساورکر نے لکھا ہے کہ:
"باہمت اور قابل قدر بیگم صاحبہ کا وجود اس افراتفری میں سارا نظام برقرار رکھنا ان کی لیاقت کا بین ثبوت ہے۔"


کارل مارکس نے لکھا ہے:
" حضرت محل اودھ کی بیگم نے ہندوستانی جدوجہد آزادی میں مجاہدین کی قیادت کی۔"


ولیم ہورڈ رسل نے اپنی کتاب "انڈین میوٹینی ڈائری" میں لکھا ہے کہ:
شاہی سپاہی اس سے پہلے کبھی بھی اتنی بہادری سے انگریزوں کے خلاف نہیں لڑے۔۔ بیگم حضرت محل نے نہایت سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ انھوں نے پورے اودھ کو اپنے بیٹے برجیس قد ر کی حمایت میں کھڑا کر دیا اور سرداروں نے وفادار رہ کر بیگم کے لیے مرتے دم تک لڑتے رہنے کی قسم کھائی۔ ان بیگمات کے حوصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عورتیں ذہنی طور پر بہت طاقتور تھیں۔ مرادانہ، ذہنیت پر بالادستی حاصل کرنے کی جدوجہد نے ان میں ایک نیا جوش عطا کیا۔"


وشوناتھ داس ، سابق گورنر اتر پردیش نے لکھا ہے کہ "بیگم حضرت محل پر ہم بجا طور پرفخر کر سکتے ہیں۔ انھوں نے حرم شاہی کی ایک بیگم ہونے کے باوجود، وہ ہمت وشجاعت دکھائی کہ خاتون ہند کی روایت عظمت میں چار چاند لگ گئے۔"


بیگم حضرت محل کی ذات ، طرز حکومت، تدبر ، حکمت عملی، وسیع القلبی ، شفقت، تمام مذاہب و عقائد سے ان کا دلی لگاو، ان کی اقدار کی حفاظت کرنے کا کام، یہ سب کچھ ثابت کرتے ہیں کہ آج جس ہندوستان میں قومی یکجہتی ، بھائی چارے اور اتحاد کی بات کرتے ہیں وہ تو بیگم حضرت محل کے طرز حیات کا ایک حصہ تھا۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی ذات کو پڑھیں، سمجھیں، جانیں، یاد کریں اور ان کی شان کے مطابق دل کھول کر خراج عقیدت پیش کریں۔ یہی ان جاں باز سپاہیوں کے تئیں حق وفاداری کا اظہار ہوگا۔

***
ماخوذ: ذرا یاد کرو قربانی (مضامین)
مصنف : پرویز اشرفی۔ ناشر: اپلائڈ بکس، نئی دہلی (سن اشاعت: 2017ء)۔

Begum Hazrat Mahal, a prominent Indian Freedom fighter. Article: Pervez Ashrafi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں