آزاد ہندوستان میں اردو - مضمون از سید شہاب الدین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-20

آزاد ہندوستان میں اردو - مضمون از سید شہاب الدین

urdu-dawat-march-1999

آزادی کے بعد مسلمانانِ ہند کو جن بڑے مسائل کا سامنا رہا ان میں ایک مسئلہ اردو کا بھی ہے جسے کچھ ریاستوں میں یکسر ختم کر دیا گیا اور کہیں عملاً غیر مفید بنا کر رکھ دیا گیا۔ اردو کی بقا کے سلسلہ میں اس کے کچھ نادان بہی خواہوں کی جانب سے رسم الخط کی تبدیلی کی تجویز بھی پیش کی جاتی رہی ہے جو اردو والوں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہی۔ اردو کے ایک برطانوی محقق اور زبان داں پروفیسر رالف رسل نے حال ہی میں اکنامکس اینڈ پولیٹکل ویکلی ممبئی (شمارہ: جنوری-1999) میں ایک مضمون شائع کر کے اردو کے مسئلہ پر روشنی ڈالی اور کچھ تجاویز پیش کیں۔ جناب سید شہاب الدین نے حسب ذیل مضمون میں اس کا جائزہ لیا ہے جس سے ہندوستان میں اردو زبان کی موجودہ پوزیشن بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔
(نوٹ از: ادارہ سہ روزہ "دعوت" ، شمارہ: مارچ-1999)

اردو فریاد کناں رہی اور اس کے حامی و طرفدار اس کے فروغ اور تحفظ کے لیے خود کچھ کرنے کے بجائے حکومت اور انتظامیہ کے دست کرم کے طالب بنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے۔ ردائے اردو تار تار ہوتی رہی اور غم گساران اردو حاصل سہولیات اور سازگار حالات کا فائدہ اٹھانے کے بجائے سراپا ماتم کناں رہے یا اقتدار وقت کی چوکھٹوں پر ناصیا فرسائی کرتے رہے۔ پروفیسر رالف رسل نے اپنے مضمون میں اردو کے اسی طرز عمل کا بڑی چابک دستی سے محاسبہ کیا ہے۔

کسی بھی شخص کو جس کے دل میں اردو کی محبت اور اس کے درخشاں مستقبل کی تمنا پوشیدہ ہے، پروفیسر موصوف کے پرخلوص اور عملی زاویہ نگاہ سے اختلاف نہیں ہو سکتا، لیکن میرے خیال میں ان کی فکری نہج ہندوستان کی سنگلاخ حقیقتوں کے ادراک سے قاصر رہی ہے اور یہی سبب ہے کہ ان کے بعض مفروضات وضاحت طلب ہیں۔

اردو کو محض مسلمانان ہند کی زبان سمجھنا حقیقت واقعی سے انحراف ہوگا، کیونکہ صرف 50-60 فیصد مسلمانوں نے ہی اسے اپنی مادری زبان تسلیم کیا تھا لیکن آزادی کے بعد اس بین المذاہب زبان کا دائرہ سمٹ کر مسلمانوں تک رہ گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے اپنی مادری زبان تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں 99 فیصد مسلم ہیں۔ چونکہ مسلمانان ہند کئی معنوں میں محرومی و مایوسی کے شکار ہیں اس لیے اردو بھی عقوبت کی شکار ہے کیونکہ گوپی چند نارنگ، جگن ناتھ آزاد اور بلراج کومل سے قطع نظر پالیسی سازوں کی نگاہ میں اردو مسلم زبان ہے اور محرومی و مایوسی کی اس طرح مستحق ہے جس طرح مسلمانان ہند اس کے سزاوار ہیں۔

برائے توضیح میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رسم الخط کے بغیر اردو کا تصور بھی محال ہے کیونکہ رسم الخط کی تبدیلی کی صورت میں اردو، ہندی کی متعدد بولیوں میں سے ایک کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔ واضح ہو کہ ہندی بھاشی افراد کی کثرت انہی بولیوں کی رہین منت ہے اور یہ کثرت نہ صرف ہندی کو قومی زبان کے مرتبہ پر فائز کرتی ہے بلکہ اسی کثرت کی بنیاد پر اس کے حامی اسے رابطہ کی زبان قرار دیتے ہیں۔
میں پروفیسر رالف رسل کی توجہ ہفت روزہ "مین اسٹریم" مورخہ 27/دسمبر 1997 کے شمارے میں شائع اپنے مضمون کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ چنانچہ اردو کے تحفظ اور فروغ کا مفہوم یہ ہے کہ موجودہ رسم الخط میں اردو زندہ و باقی رہے۔
علی سردار جعفری نے اس نکتہ کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اردو رسم الخط کو فارسی یا عربی رسم الخط سے موسوم کرنا مناسب نہ ہوگا۔ رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ مثبت عوامل بھی مثلاً فلمی گانوں اور ڈائلاگوں میں اردو کا بےتحاشا استعمال، دیوناگری رسم الخط یا انگریزی ترجمے میں سامعین کی کثرت اور ہندی/اردو کھچڑی بھاشا کا روزمرہ استعمال، اردو کے مستقبل کو نہ سنوار سکیں گے۔

اردو اپنے رسم الخط کے بغیر مثل ماہی بےآب فنا کی آغوش میں چلی جائے گی۔ کیونکہ ایک مشترکہ رومن رسم الخط رکھنے والی یوروپی زبانوں کے برعکس مشترکہ دیوناگری رسم الخط والی اردو زبان، اردو کے اس بین اقوامی بحرِ بےکراں سے الگ تھلگ ہو جائے گی جس کی لہریں نہ صرف پاکستان بلکہ خلیج، برطانیہ اور امریکہ کے ساحلوں کو بوسہ دے رہی ہیں۔ تبدیلی رسم الخط سے اردو کا مستقبل تاریک تر ہو جائے گا۔ اردو اپنے بیش قیمت ورثہ سے منقطع ہو جائے گی کیونکہ تمام کلاسیکی اور جدید تصنیفات کو دیوناگری رسم الخط میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔

مسلمانان ہند کی طرح اردو زبان کو بھی تقسیم ہند کا مجرم قرار دیا گیا۔ اطہر فاروقی کے برعکس میں کانگریس یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے اردو داں حامیوں کو اردو کا دشمن نہیں ٹھہراتا۔ ہاں یہ ضرور جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے اردو دوستوں کو مزار اردو کی خودساختہ مجاوری راس آئی اور خوش حالی نے ان کے دروں پر دستک دے دی، جو سرکاری تعصب و تفریق پر پردہ ڈالنے اور سرکار کی عنایاتِ بےپایاں کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کارِ نیک انجام دے رہے ہیں۔

سرکار نے یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے (کبھی کبھی تو عربی اور فارسی کے ساتھ، گویا اردو بھی کوئی کلاسیکی زبان ہو) کھولنے یا شمس الرحمن فاروقی کے معنی خیز جملے کے مطابق جہالت و ناخواندگی کے سلسلے کو فروغ دینے کے علاوہ اردو کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ لیکن شعبہ ہائے اردو میں پناہ ڈھونڈنے کے علاوہ ایم۔اے ڈگری یافتگان تو کس شمار و قطار میں، اردو کے پی۔ایچ۔ڈی حضرات کے لیے بھی زمین سخت اور آسمان دور کا منظر ہوتا ہے۔
اردو کی سند کا بازار میں کوئی خریدار نہیں نظر آتا۔ حد تو یہ ہے کہ یہ بیروزگاری کی سند ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ شد و مد سے جاری ہے اور اس کے رکنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔
مرکزی حکومت نے بےشک اردو ترقی بیورو قائم کیا جسے اب قومی کونسل سے موسوم کیا جاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ بیورو/کونسل اپنی سالانہ کارکردگی منظر عام پر لاتی۔ پارلیمنٹ میں اپنے 15 سالہ تجربات کی بنیاد پر میں عتیق احمد صدیقی صاحب کی بات کی تائید کرتا ہوں۔ تاکہ بہرصورت یہ متحرک ہو۔ بیورو یا کونسل کو ملنے والی رقم بلاشبہ یا تو غلط طور پر استعمال ہوتی ہے یا برباد ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ہندی یا دوسری قومی زبانوں یہاں تک کہ سنسکرت کے مقابلے میں بھی اردو کو دی جانے والی رقم کہیں کم ہوتی ہے۔ چنانچہ بیورو / کونسل کے قیام کا مقصد اردو کو فروغ دینا نہیں بلکہ اردو والوں کے ضمیر کو گہری نیند سلا دینا ہے۔

اصل موضوع گفتگو اردو داں طلبا کے لیے میدان تعلیم میں اردو کی حیثیت اور اس کے مقام سے متعلق ہے۔ پروفیسر رسل نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ جن طلبا کی مادری زبان اردو ہو انہیں پہلی زبان کی حیثیت سے اردو ملنی چاہیے۔ سہ لسانی فارمولے کے اطلاق میں یہ بازی گری کی گئی کہ اردو کو پہلا مقام تو کیا دوسرا اور تیسرا مقام بھی حاصل نہ ہوا۔ صورتحال یہ ہے کہ بہار کے سوا سہ لسانی فارمولے کو ہندی، سنسکرت اور انگریزی کا مترادف قرار دے دیا گیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آئینی ضمانت اور تعلیمی اہمیت کے باوجود اردو کو ابتدائی تعلیمی میڈیم کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور اس طرح اردو بولنے والے طلبا کو اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ نوے (90) فیصد طلبا ابتدائی تعلیم سرکاری یا میونسپل اسکولوں میں حاصل کرتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ جڑیں کاٹ دینے کے بعد محض پتیوں کی آبیاری سے کیا پودوں کی شادابی قائم رہ سکتی ہے؟ اردو داں سماج کو دیگر لسانی اقلیتوں کے شانہ بشانہ اس محرومی اور حق تلفی کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے جو ابھی تک ان کے ذمہ قرض کی صورت میں واجب الادا ہے۔
اردو کوئی غیر ملکی زبان نہیں جسے یہاں آ کر بسنے والے اپنے ساتھ لائے ہوں۔ اردو نے اس دھرتی پر جنم لیا۔ اس لیے اردو داں طبقہ کے فرائض و حقوق کو تارکین وطن کے فرائض و حقوق کے مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ بقول پروفیسر رسل انگلینڈ میں اردو ایک غیرملکی زبان ہے۔
تاہم محرومی اور حق تلفی کی موجودہ صورتحال میں اسکول یا کلاس روم سے باہر بھی محبان اردو کو اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ میں پروفیسر رسل کی اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں کہ اردو سے خود اردو والوں کی برگشتگی کا یہ عالم ہے کہ ان کے بچے آج ان کے برعکس "ش" یا "ق" کے صحیح تلفظ سے عاری ہیں۔

میں اس کوتاہی عمل کی منطقی تاویلات پیش کرنے نہیں جا رہا ہوں لیکن یہ حقیقت بھی توجہ طلب ہے کہ اردو داں طبقہ اس قدر نادار ہے کہ اردو اسکول یا کلاس چلانا اس کے لیے دشوار ہے۔ دوسرے یہ کہ تعلیم کے روز افزوں دائرے نے طلبا کی ایک نئی نسل تیار کر دی ہے جن کے والدین کے پاس متاع کارواں لٹنے کا احساس بھی باقی نہ رہا۔ تیسرے یہ کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم کا بار حکومت کے شانوں پر ہوتا ہے۔ آئین ہند نے 14 سال تک کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری حکومت کو سونپی ہے۔ سپریم کورٹ نے تعلیم کو بنیادی حق قرار دے دیا ہے۔ ایسی صورت میں اردو داں طبقے سے ہی کیوں توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر متوازی تعلیمی نظام قائم کریں گے۔

مسلمان بچے کبھی پرائمری اسکولوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اور کبھی اسکولوں کے متبادل کی حیثیت سے مسلم بستیوں میں واقع مکتبوں میں قرآن کریم پڑھنے اور بنیادی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ ان مکتبوں میں اردو کی تعلیم کا بھی نظم کر دیتے ہیں۔ اس سے بچوں کے لیے ادب اردو کے دروازے تو نہیں کھلتے لیکن وہ اردو اخبارات، رسائل اور کتابیں پڑھنے کے لائق ضرور ہو جاتے ہیں۔
ہندی علاقوں کے دم گھٹ جانے والے ماحول میں بھی اگر اردو زندہ و پائیندہ ہے تو انہی مکاتب و مدارس کے دم سے۔ ایسی صورت میں کہ جب کوئی متبادل سامنے نہ ہو، ان مدارس سے اردو کے دیس نکالے کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

آخر میں پروفیسر موصوف نے اردو کے لیے گجرال رپورٹ کی سفارشات کو نافذ العمل ہونے کی مخالفت کے لیے جگجیون رام کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ اس سے لاعلم ہوں۔ منتہائے بدنصیبی یہ ہے کہ خود صاحب رپورٹ کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور آئی۔ محبان اردو کی خوابیدہ آرزوئیں ایک بار پھر جاگ اٹھیں لیکن جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع تھی وہ تو اور ہی خستہ تیغ ستم نکلے۔

اردو رپورٹ پر جمی ہوئی دھول میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ حق تو یہ ہے کہ اس کا تعلق نہرو، ذاکر حسین اور گجرال سے نہیں بلکہ اس کی جڑیں تو تقسیمِ ہند کے بعد سیاست اور عوام کے ذہن و دماغ میں راسخ اس غلط فہمی میں پیوست ہیں جو اردو کو محض پاکستان اور اسلام سے وابستہ سمجھتی ہے۔

***
ماخوذ: سہ روزہ "دعوت" نئی دہلی، (ہندوستانی مسلمان نمبر)
تاریخ اشاعت: 26/مارچ 1999

Urdu in India, Article by: Syed Shahabuddin.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں