ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 08 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-12

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 08

novel-thankyou-corona-episode-08

پچھلی قسط کا خلاصہ:
نگار نے شیوانی کو اپنی زندگی کے گذشتہ واقعات تفصیل سے بتا دئے کہ کس طرح پولیس کیس کے ذریعے اس کے گھر والوں نے سرفراز سے نگار کو طلاق دلوا دی۔ پھر اس کے بعد بھی سرفراز نے نگار کو تنگ کیا تو وہ کیرالہ منتقل ہو گئی جہاں کے ایک اسپتال میں اس نے پانچ سال تک ملازمت کی۔ مگر پھر اپنے ابو کے انتقال پر اسے واپس دہلی آنا پڑا۔ پھر اسے خوش قسمتی سے دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں نوکری مل گئی۔ مگر اس نے اپنی ماں اور بھائی سے صاف کہہ دیا کہ وہ اب دوبارہ شادی نہیں کرے گی۔۔ اب آٹھویں قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 8 »

نگار اس سے زیادہ اور سن نہیں سکی۔ اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ وہ شیوانی کو وہاں چھوڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی آئی سی یو سے باہر نکل آئی۔ فرہاد نے یہ کیا کہہ دیا کہ میرا کوئی نہیں ہے سوائے ایک ضعیف باپ کے؟ کیا انہوں نے شادی نہیں کی ہے؟؟؟ شیوانی بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر آگئی۔ اور نگار کو ڈانٹنے لگی کہ کیوں تم بھاگ آئیں؟ کچھ اور سوالوں کے جواب مل سکتے تھے۔ ابھی وہاں کوئی ڈاکٹرنہیں ہے، ہم فرہاد سے بہت کچھ جان سکتے تھے۔ نگار بولی۔۔۔ شیوانی تم نے دیکھا ان کے چہرے کو ، کتنے دکھ سے کہہ رہے تھے کہ ہمارا کوئی نہیں ہے سوائے بوڑھے باپ کے۔ مطلب ان کی امی کا انتقال ہوچکا ہے، بھائی بہن تو پہلے بھی کوئی نہیں تھا لیکن۔۔۔ کیا انہوں نے شادی نہیں کی ہے؟ تو پھر لنڈن میں کیا کررہے تھے؟جاب یا گھومنے گئے تھے؟


شیوانی بولی۔۔۔ ارے میری جان، میں بھی یہی سب ان سے پوچھنے والی تھی مگر تم وہاں سے بھاگ آئیں تو مجھے بھی آنا پڑا۔ اب میں پھر سے جاتی ہوں ان سے پوچھوں گی۔ مگر نگار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ نہیں شیوانی ابھی نہیں۔ ابھی ان کو آرام کی ضرورت ہے، کوئی بھی ایسا سوال جو ان کو پریشان کر دے ہمیں نہیں کرنا ہے۔ ان کے دل و دماغ میں کوئی ٹینشن نہیں رہنا چاہئے ورنہ ریکورری میں دیر ہوگی۔ یہی کیا کم ہے کہ ہم کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ بھی میری طرح سنگل ہیں"۔ اور ایسا کہتے کہتے نگار کے حسین چہرے پر امید کی ہلکی سی کرن چمک اٹھی جس کو شیوانی نے بھی محسوس کیا۔


شیوانی بھی بہت خوش تھی کہ فرہاد کا صرف فادر کے علاوہ کوئی نہیں ہے مطلب وہ سنگل ہیں۔ وہ نگار کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔۔۔ سچ کہتی ہوں یار۔۔۔ بھگوان نے تیری تپسیا سن لی ہے، دیکھ کیسے تیرے فرہاد کو ٹھیک اسی ہاسپیٹل میں لے آئے جہاں تم ڈاکٹر ہو۔ اور وہ بھی کب جب چاروں طرف کرونا کی وجہ سے ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں موت کے ڈر سے چھپے بیٹھے ہیں اور تیری زندگی تیرے سامنے۔۔۔ تیری چھترچھایا میں ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا نگار۔۔۔ فرہاد کو اب کی بار کہیں کھو جانے مت دینا۔ میں تیرے ساتھ ہوں ہر حال میں، ہر مشکل میں۔۔۔!!


نگار بھی اندر سے بہت خوش تھی کہ فرہاد اکیلے ہیں۔ اس کو لگا کہ صدیوں پہ محیط پت جھڑ کے بعد۔۔۔ بادِ بہار نے اس کی زندگی میں دستک دی ہے۔ شاید خدا کو اس کی کوئی نیکی پسند آگئی ہے کہ اس طرح ایسے فرہاد اس سے آ ٹکرائے ہیں۔ لیکن اس کا دل اندر سے ایک سوال بار بار کررہا تھا کہ۔۔۔آخر فرہاد ابھی تک سنگل کیوں ہیں؟ کیوں انہوں نے شادی نہیں کی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے بھی اس کی طرح کسی سے شادی کی ہو مگرکچھ دن بعد طلاق ہو گئی ہو؟ کیا انہوں نے اپنی خالہ زاد زرین سے شادی کی ؟ اگر نہیں تو پھر اس لڑکی کا کیا ہوا؟ ایسے بہت سارے سوالات اس کے دل و دماغ کو کھائے جارہے تھے۔ اس نے سارے سوالات شیوانی کو بتا دیا اور شیوانی نے اس کو بھروسہ دلایا کہ وہ بس چپ چاپ دیکھتی جائے وہ کیسے فرہاد سے سب کچھ اگلوا لیتی ہے۔


پھر دونوں نے یہ مشترکہ فیصلہ کیا کہ شیوانی موقع دیکھ کر دھیرے دھیرے فرہاد سے پچھلے بیس سال کا حال جانے گی، تب تک نگار کو فرہاد کے سامنے اجنبی بن کے رہنا ہوگا۔ وہ شیوانی کے ساتھ رہے گی مگر کبھی کچھ بولے گی نہیں کہ فرہاد کو شک نہ ہو جائے۔ پھر دونوں نے کچھ دیر سو لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ رات کے تین بج چکے تھے اور پتا نہیں صبح کتنے اور مریض آجائیں گے اور پھرسانس لینے کی فرصت بھی نہیں ملے گی۔


دوسرے دن واقعی بہت زیادہ مقامی مریض آگئے۔ جس کو بھی تھوڑا سا بخار یا سردی زکام ہوا، اس کو پولس والوں اور ہیلتھ ورکرس پکڑ کر ہاسپیٹل لے آئے کہ کہیں اس کو بھی۔۔۔ کرونا نہ ہو گیا ہو۔ مریضوں کے سواب ٹیسٹ وغیرہ میں دونوں بہت مصروف ہو گئیں۔ دن بھر میں صرف ایک بار کسی بہانے سے نگار کو موقع ملا آئی سی یو میں جانے کا اور فرہاد کو دیکھنے کا۔ اس نے ان کو دیکھا اور ان کے رپورٹس دیکھ کر اس کو اطمنان ہوا۔ فرہاد کا چہرا پہلے سے بہتر لگ رہا تھا۔ وہ فرہاد کو دیکھ رہی تھی مگر بیچارے فرہاد اس کو پی،پی،ٹی کیٹس کی وجہ سے دیکھ نہیں پاتے تھے تو پہچانیں گے کیسے کہ جو ڈاکٹر ان کی مسیحائی کر رہی ہے وہ۔۔۔ ان کی زندگی کی مسیحا بھی ہے۔


شام کے بعد۔۔۔ دونوں کو موقع ملا اپنے چمبر میں کچھ دیر آرام کرنے کا تو شیوانی نے پوچھا۔۔۔ نگار تم گئی تھیں فرہاد کو چیک کرنے؟ کیا حال ہے ان کا؟ نگار نے کہا کہ۔۔۔ بخار بالکل بھی نہیں ہے اور کھانسی بھی پہلے سے کم ہے۔ بس لونگ انفیکشن کی وجہ سے ان کو سانس لینے میں تھوڑی سی دقت ہورہی ہے۔ شیوانی نے کہا کہ میں سوچ رہی ہوں ان کو ایجی تھرومائشن دیدوں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ نگار نے بھی سوچا کہ شیوانی صحیح کہہ رہی ہے، انفیکشن کے لئے اس سے بہتر اور کیا دے سکتے ہیں۔ کرونا کے لئے کوئی دوا تو ابھی تک آئی نہیں ہے۔ بس ہر ڈاکٹر اپنی سوجھ بوجھ اور مریض کی حالت دیکھ کر دوا تجویز کر رہا ہے، پھر بھی ریکووری ریٹ بہت اچھی ہے۔ کرونا کے زیادہ تر مریضوں کو بخار، سردی، زکام اور کھانسی کی شکایت ہوتی ہے، ان کو بھی پکڑ کر لے آتے ہیں لوگ کرونا کے ڈر سے۔ جگہ جگہ کرونا ٹیسٹینگ کیمپ لگایا گیا ہے اور لوگ آتے جا رہے ہیں۔ کرونا ان لوگوں کے لئے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جو ہارٹ کے یا شوگر کے مریض ہیں۔


دیر رات جب بھیڑ کم ہوئی اور ہاسپیٹل میں سکون ہوا تو شیوانی اور نگار آئی سی یو میں گئیں۔ پہلے دوچار دوسرے مریضوں کو چیک کرنے کے بعد۔۔۔ آخر میں فرہاد کے بیڈ نمبر 28 پہ پہنچیں۔ کیا حال ہے فرہاد بھائی؟ کیسا فیل کر رہے ہیں آج؟
شیوانی نے پوچھا تو فرہاد اس کو یک ٹک دیکھتے رہ گئے۔ ڈاکٹر نے ان کو فرہاد بھائی کیوں کہا؟ وہ ابھی یہ سوچ رہے تھے کہ شیوانی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ اس نے انجانے میں ان کو فرہاد بھائی کہہ دیا ہے اور وہ اس کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ بھی بہت اسمارٹ تھی فوراً بات کو سنبھال لی کہ میرے بھیا کے ایک دوست ہیں ان کا بھی نام فرہاد ہے اور میں ان کو بھائی کہتی ہوں اس لئے میرے منھ سے فرہاد بھائی نکل گیا۔ آپ کو برا تو نہیں لگا نا؟
"برا کیوں لگے گا بھلا۔ مجھے تو بہت ہی اچھا لگا۔ میری کوئی بہن نہیں ہے، آج سے آپ میری بہن ہیں ڈاکٹر"۔
فرہاد خوش ہوکر بولے۔ پھر شیوانی بھی ان سے بے تکلف بات کرنے لگی۔ ان کے فادر کے بارے میں، حیدرآباد میں ان کے گھر کے بارے میں ادھر ادھر کے سوال کرنے لگی اور وہ بتانے لگے کہ۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتے اولاد ہیں۔ ان کا نہ کوئی بھائی ہے اور نہ بہن۔ ان کی امی کی وفات ہوچکی ہے اور گھر میں صرف وہ ہیں اور ان کے ابو۔ ایک بیوہ پھوپی ہیں جو ہمار ے ساتھ رہتی ہیں اور کھانا وغیرہ اور گھر کا خیال وہی رکھتی ہیں۔ امی کی وفات کے بعد وہ۔۔۔ انگلینڈ چلے گئے۔ برمینگھم میں ایک کورس کرنے اور کورس کرنے کے بعد وہیں ان کو جاب مل گئی تو پچھلے دس سال سے وہیں رہتے ہیں۔


"آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ آپ کل کہہ رہے تھے کہ آپ کا فادر کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے"۔۔۔ شیوانی نے وہ سوال کر دیا جواس کو اور نگار کو کل سے پریشان کررہا تھا مگر۔۔۔اس سوال نے فرہاد کے ہوش اڑا دئیے۔ ان کا چہرہ مرجھا گیا۔ وہ کوئی جواب نہیں دئیے تو شیوانی نے جھٹ سے بول پڑی۔۔۔
" سوری فرہاد بھائی اگر آپ کو برا لگا ہو تو۔ ویسے مجھے کوئی حق نہیں ہے ایسے سوال کرنے کا پھر بھی نہ جانے کیوں آپ سے ایک عجیب سی انسیت پیدا ہوگئی ہے، اس لئے پوچھ لی"۔


فرہاد بولے۔۔۔" سوری کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے مجھے بھائی کہا ہے تو آپ کو حق ہے کوئی بھی سوال کرنے کا۔ ہم نے شادی اس لئے نہیں کی کہ ابھی تک ہمیں کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جس کو دیکھ کر دل کہے کہ۔۔۔ ہاں اس کے ساتھ پوری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ ہم تلاش کر رہے ہیں،جب مل جائے گی شادی کرلیں گے"۔


شیوانی اور نگار ان کی چالاکی کو سمجھ رہی تھیں کہ وہ بات کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی ایک دو ملاقا ت میں کھل جانے والے آدمی نہیں تھے وہ۔ اس لئے دونوں نے اور کوئی سوال ہی نہیں کیا اور تھوڑی دیر ان کے پاس رک کر دوسرے مریضوں کو دیکھنے چلی گئیں۔


ڈاکٹرس چمبر میں آنے کے بعد شیوانی نے نگار سے کہا کہ۔۔۔ تیرے فرہاد صاحب ناریل کی طرح ہیں، ایک ہی ضرب میں ٹوٹنے والے نہیں ہیں۔ لیکن ہم روز روز کچھ نہ کچھ۔۔۔ ہلکا ہلکا سوال کرتے رہیں گے۔ دیکھتی ہوں کب تک نواب صاحب اپنے خول میں چھپے رہتے ہیں۔ نگار اس کی بات سن کر مسکرا دی۔ اس کو پتہ تھا کہ شیوانی بہت باتونی اور اسمارٹ ہے کچھ نہ کچھ آئیڈیا نکال کر فرہاد کو مجبور کردیگی بولنے کے لئے بس۔۔۔ صبر کے ساتھ صحیح وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔


تین چار دن تک۔۔۔ شیوانی اور نگار ان کی تیمارداری کرتی رہیں۔ شیوانی ان سے بات کرتی تھی مگر کبھی ان کے شادی نہ کرنے کی وجہ کے بارے میں دوبارہ نہیں پوچھا۔ ہاں ایک بات پوچھ لی کہ اب شاید دو چار دن میں آپ ہاسپیٹل سے ڈسچارج ہوجائیں گے مگر جائیں گے کہاں؟ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام ٹرین اور فلائٹ بند ہیں، آپ حیدرآباد کیسے جائیں گے؟ فرہاد بھی وہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ کہاں جاؤنگا؟ حیدر آباد کیسے پہنچونگا۔ ان کے ایک رشتہ دار دہلی میں۔۔۔ مہرولی میں رہتے ہیں مگر کیا ان کے یہاں جانا ٹھیک ہوگا وہ بھی کرونا کے مریض بن کے شفا پانے کے بعد؟ آجکل تو حالات ایسے بھیانک ہوگئے ہیں کہ اگر باپ ہاسپیٹل میں مر جاتا ہے تو بیٹا بیٹی اس کی لاش کو لینے اور دفن کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی اس لاش کو چھونا تو دور۔۔۔ کرونا کے ڈر سے اس کے قریب جانا نہیں چاہتا۔ اوپر سے سرکار نے تمام ہوٹل وغیرہ بھی بند کر دیے ہیں، ایسے میں وہ کہاں جائیں۔۔۔ کس کے یہاں سر چھپائیں؟


ایسے مشکل حالات میں شیوانی نے بڑے دل والا فیصلہ سنادیا۔ بولی۔۔۔" فرہاد بھائی، آپ کو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی بہن کا گھر آپ کے لئے ہمیشہ کھلا ہے۔ جس دن آپ ہاسپیٹل سے ڈسچارج ہوں گے میں آپ کو سیدھے اپنے گھر لے جاؤنگی"۔
نگار اور فرہاد دونوں اس کی فراخدلی دیکھ کر حیران تھے۔ نگار تو اس پہ سو جان سے نثار ہورہی تھی اور فرہاد اس کی طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ رحمت کا فرشتہ ہو۔ پھر بھی وہ بولے۔۔۔" نہیں نہیں، میری وجہ سے آپ کے گھر والوں کو پریشانی ہوجائے گی۔ بخدا آپ نے بہن ہونے کا حق ادا کردیا یہ کہہ کر لیکن ہمیں بھی بھائی بن کر سوچنا ہوگا کہ ہماری وجہ سے آپ کے پتی، ساس، سسر وغیرہ آپ سے ناراض نہ ہوجائیں"۔


شیوانی نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم دو بہنیں ہیں۔ ہمارے والدین ایک پلین کریس میں وفات پاگئے۔ میرے پتی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتے ہیں مگر میں نے ان سے لومیرج کیا ہے اور وہ اب ہمارے گھر رہتے ہیں، یعنی کہ گھرجمائی بن کر۔ پاپاکا بزنس انہوں نے سنبھالا ہے۔ میری بہن کی شادی ایک بہت ہی امیر گھر میں ہوئی ہے اور اس کے پتی سفٹ وئیر انجینئر ہیں۔ وہ لوگ ابھی UAE میں رہتے ہیں۔ گھر میں نا ساس سسر ہیں اور نہ ماں باپ۔ میں ہوں، میرے پتی اور ایک چھ سال کی بیٹی ہے۔ آپ ہمارے گھر رہیں گے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی بلکہ بہت زیادہ خوشی ہوگی۔ میری بیٹی آہانہ کو ایک ماموں مل جائیں گے اور آپ دیکھئے گا وہ کتنی شرارت کریگی آپ کے ساتھ، بہت نٹ کھٹ ہے بالکل میری طرح"۔


فرہاد خاموش رہے اور۔۔۔ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ اللہ نے شیوانی کو رحمت کا فرشتہ بناکر بھیجا تھا ورنہ وہ۔۔۔ کرونا کے اس خطرناک اور دہشت ناک ماحول میں ہاسپیٹل سے نکل کر کہاں جاتے؟ ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مزدور اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیدل نکل پڑے تھے گھر کی طرف۔ سب سے برا حال تو عورتوں اور بچوں کا تھا۔ گود میں ایک دو بچے، سر پہ سامان کی پیٹی یا گٹھری لئے عورتیں۔۔۔ مرد کے کندھے سے کندھا ملائے چل پڑی تھیں۔ آزاد بھارت میں پھر سے ایک بار۔۔۔ پارٹیشن والا وقت دیکھنے کو ملا۔ کئی مزدور بھوک پیاس اور تھکن کی وجہ سے راستے میں دم توڑ دیتے تھے۔ کئی بچے اناتھ ہو گئے تھے۔ ٹی،وی پر خبریں دیکھ دیکھ کر دل ہول کھاتا تھا۔ کوئی غلطی سے اگر جھینک دیتا تھا تو آس پاس کے لوگ ایسے بھاگتے تھے جیسے انہوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ موت کے خوف سے۔۔۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ شہر شہر سناٹا تھا۔۔۔ماحول میں قبرستان جیسی ویرانی تھی۔


ایک ہفتے بعد۔۔۔ فرہاد مکمل صحت یاب ہوگئے تو ان کو ہاسپیٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ شیوانی ان کو لے کر اپنے گھر آگئی۔ اس کے پتی پرتاپ بہت ہی خوش اخلاقی سے ملے۔ فرہاد کے رہنے کے لئے مہمان خانے میں انتظام کر دیا گیا تھا اور شیوانی نے پہلے ہی پرتاپ کو بتا دیا تھا کہ فرہاد ایک ڈاکٹر ہیں جو لندن میں بہت بڑے ہاسپیٹل میں جاب کرتے ہیں۔ میرے دوست ہیں، دہلی میں فلائٹ سے اترنے کے بعد لاک ڈاؤن میں پھنس گئے تھے تو میں ان کو اپنے گھر لے آئی ہے۔ جب حالات سدھر جائیں گے اور ٹرین یا فلائٹ چلنے لگیں گی تو بھائی صاحب حیدرآباد چلے جائیں گے۔ پرتاپ بھی شیوانی کی طرح بہت ہی نفیس انسان تھے انہوں نے فرہاد کو گلے مل کر خوش آمدید کہا۔ ان کی بیٹی آہانہ بھی۔۔۔ فرہاد سے ایسے گھل مل گئی جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔


شیوانی نے پلان کے مطابق نگار کو تیسرے دن اپنے گھر بلالیا۔ وہ ہاسپیٹل سے چھٹی لے کر اپنے گھر نہیں گئی۔ شیوانی اس کو اپنی کار میں اپنے گھر لے گئی۔ شیوانی کے بھیا بھابی نگار کو بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ دونوں ایک ہی ہاسپئٹل میں ڈاکٹر ہیں اور بہت اچھی سہیلی ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد۔۔۔ شیوانی نے نگار کو کھڑکی کے پیچھے چھپا دیا اور خود فرہاد کے کمرے میں گئی۔ وہ اس وقت موبائل میں کسی سے بات کررہے تھے، شاید اپنے ابو سے۔ اس کو دیکھ کر جلدی بات ختم کر دئیے۔
" کیا بات ہے شیوانی بہن، آج آپ ہاسپیٹل نہیں گئیں"
فرہاد نے پوچھا تو اس نے کہا۔۔۔" نہیں بھائی صاحب، آج آپ سے ایک ضروری کام ہے، اگر آپ مجھے سچ میں اپنی بہن مانتے ہیں تو انکار نہیں کریں گے۔ اگر آپ میرا وہ کام کردیں گے تو میں بھی آپ کو ایک ایسا تحفہ دونگی کہ آپ زندگی بھر مجھے یاد کریں گے"۔


فرہاد اس کی بات سن کے حیرت میں پڑگئے کہ ایسی کونسی ضروری بات ہے مجھ سے جو آپ ہاسپیٹل نہیں گئیں اور پھر اس کے بدلے مجھے اتنا بڑا تحفہ بھی دینے والی ہیں؟ میں بنا سنے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا وہ کام ضرور کرونگا۔ بولئیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟"


شیوانی نے کھنکار کے گلا صاف کیا یعنی کہ کھڑکی کے پیچھے نگار کو اشارہ کیا اور فرہاد سے بولی۔۔۔
" بھیا جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ حیدرآباد کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ظاہر ہے بہت امیر ہونگے۔ آپ نے دہلی سے ایم بی بی ایس بھی کیا ہے، لندن میں ایک بڑے ہاسپیٹل میں ڈاکٹر ہیں تو پھر ایسی کیا بات ہوئی ہے جو آپ نے۔۔۔آج تک شادی نہیں کی؟ مجھے بس یہی جاننا ہے کہ میرے بھائی میں ایسی کون سی کمی ہے یا کوئی اور خاص وجہ ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں؟ آپ گھر کے اکلوتے اولاد ہیں، آپ کی شادی کے لئے آپ کے امی ابو نے تو ضد ضرور کی ہوگی پھر بھی آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟؟ اگر مجھے سچ میں اپنی بہن سمجھتے ہیں تو اپنا دل کھول کے بتا دیجئے۔ کیا پتہ میں آپ کے کسی کام آسکوں"۔


فرہاد اتنی پیاری بہن کی ضد کے آگے مجبور ہوگئے، ان کا چہرہ غمگین ہوگیا۔ وہ بھیگی ہوئی آواز میں بتانے لگے۔۔۔ "شیوانی ، میں جب دہلی میں میڈیکل کی پڑھائی کررہا تھا تو ایک بہت ہی حسین اور پرخلوص لڑکی سے پیار کرنے لگا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ ہماری محبت کے چرچے پورے کالج میں ہوتے تھے اور ہماری جوڑی کو سب بہت پسند کرتے تھے۔ شیوانی کو یہ سب پتہ تھا کیونکہ نگار نے اس کو سب بتا دیا تھا۔ وہ تو بس وہاں سے سننا چاہتی تھی جہاں سے فرہاد غائب ہوگئے تھے۔ امی کے ہارٹ اٹیک کا سن کر حیدرآباد گئے اور پھر۔۔۔ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ اس لئے شیوانی نے ان کی بات کو بیچ میں ہی کاٹ کر بولی کہ اب اس لڑکی کا نام بھی بتا دیں کب تک وہ لڑکی۔۔۔ وہ لڑکی کرتے رہیں گے؟


فرہاد نے کہا۔۔۔ ان کی شادی ہوگئی ہے اور ان کا نام لینا میرے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ شیوانی نے کہا۔۔۔ آپ صرف میرے سامنے اس کا نام بول رہے ہیں، دنیا والوں سے نہیں۔ کچھ مت چھپائیں بھائی صاحب ، مجھ پر بھروسہ رکھیں میں اپنے سوا کسی اور سے نہیں کہونگی۔ ان کا نام۔۔۔ سید نگار صدیقی تھا۔ ہم سب ان کو نگار کہتے تھے۔۔۔ فرہاد نے آخر نگار کا نام لے ہی لیا۔ اور کھڑکی کے پردے کے پیچھے چھپی نگار نے فرہاد کی زبانی اپنا نام سن کر دل تھام لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے نکل پڑے کہ فرہاد مجھے نہیں بھولے ہیں۔


فرہاد نے بتایا کہ ان کے گھر والے ان کی شادی بچپن میں ہی انکی خالہ زاد سے پکی کرچکے تھے۔ جب فرہاد نے نگار سے شادی کرنے کی بات کی تو گھر میں قیامت آگئی۔ خاندان سے باہر کی لڑکی سے شادی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کی شادی انکی خالہ زاد سے ہی ہوگی یہ بات ان کو صاف صاف کہہ دیا گیا اور ان کے ابو نے تو دو دن بعد شادی کی تاریخ بھی طے کر دئے۔
" پھر کیا ہوا فرہاد بھائی؟" شیوانی نے پوچھا۔


پھر میں کسی کو بتائے بنا حیدرآباد سے دہلی بھاگ آیا۔ میرے ابو بہت غصے والے ہیں اور انہوں نے سب کو یہ فرمان جاری کردیا کہ کوئی مجھ سے تعلق نہ رکھے۔ اگر میں زرین سے شادی نہیں کرونگا تو وہ مجھے جائداد سے بے دخل کر دیں گے۔میں بھی غصے سے کبھی گھر نہیں گیا۔ ڈھائی سال تک دہلی میں رہا۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد صفدرجنگ ہاسپیٹل میں جاب لگ گئی اور میں نگار کے ساتھ خوش تھا کہ ہماری خوشی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک دن اچانک فون آیا کہ میری امی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ آئی سی یو میں ہیں۔


"پھر کیا ہوا بھائی صاحب؟ آپ گئے حیدرآباد؟؟؟"۔۔۔
شیوانی نے پوچھا اور کرسی میں سنبھل کے بیٹھ گئی۔ ادھر نگار کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ یہیں سے وہ ساری باتیں آج سننے کو ملے گی جو اب تک پردۂ راز میں ہیں کہ آخر وہ کہاں غائب ہوگئے تھے ؟


"ہاں شیوانی۔۔۔ اپنی امی کی خبر سن کر ہم سب کچھ بھول گئے۔ اپنا غصہ، اپنی ضد سب کچھ بھول کر۔۔۔ ہم نے فوراً فلائٹ پکڑا اور۔۔۔حیدرآباد پہنچ گئے۔ جانے سے پہلے نگار کو بتانا چاہتے تھے ، ہم نے فون بھی کیا مگر انکوئیری سے پتہ چلا کہ وہ آپریشن تھیٹر میں ہیں۔ ہم نے وہاں ان کے لئے مسیج چھوڑا کہ امی کی حالت بہت نازک ہے، ہم حیدرآباد جارہے ہیں، آپ دعا کریں"۔
فرہاد جذبات میں بول رہے تھے اور کمرے میں شیوانی اور کھڑکی کے باہر۔۔۔ نگار دل پہ ہاتھ رکھے سن رہی تھی۔ اس کا دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ اس کو ڈر تھا کہیں اس کی آواز فرہاد تک نہ پہنچ جائے۔


جب ہم ہاسپیٹل پہنچے تب امی کا اوپن ہارٹ سرجری چل رہا تھا۔ ہاسپیٹل میں خاندان بھر کے لوگ جمع تھے مگر کسی نے ہم سے بات نہیں کی۔ ہم ہمت کرکے ابو کے پاس گئے اور ان سے لپٹ گئے۔ ابو ہمارے سینے سے لگ کر رونے لگے۔ امی کی نازک حالت کی بنا پر انہوں نے ہمیں شاید معاف کر دیا تھا۔ کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ امی ہم سے بے حد پیار کرتی تھیں اور ہمارے غم میں ہی ان کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ ہم جب سے دہلی چلے گئے تھے تب سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ ہم خود کو امی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ ہم نے ابو کو سہارا دیا کہ آپ خود کو سنبھالیں اور گھر چلے جائیں، کچھ دیر آرام کرلیں۔ یہاں ہم ہیں سب سنبھال لیں گے۔ ابوہماری بات سن کر بولے۔۔۔
"کیا پتہ آپ کب یہاں سے بھاگ کر دہلی چلے جائیں؟ ہم آپ کے بھروسے اپنی بیگم کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟"


ابو کا طعنہ سن کر ہمارا دل کٹ کے رہ گیا۔ ہم نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ لئے کہ۔۔۔ ایسی باتیں نہ کریں، ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ جب تک امی مکمل صحت یاب نہیں ہوجاتیں ہم ان کے پاس سے ہلیں گے بھی نہیں۔ پھر آٹھ گھنٹے بعد۔۔۔امی کو ہوش آیا تو ہم سب کے جان میں جان آئی۔ آپریشن کی کامیابی کا سن کر ابوکے دل کو سکون ملا اور وہ ہمیں وہاں چھوڑ کر گھر جانے کو راضی ہوگئے۔


جب ہم ڈاکٹر سے ان کے چمبر میں ملے تو انہوں نے ہم کو بتایا کہ آپ کی امی بہت زیادہ کمزور ہیں۔ کچھ دن ہاسپیٹل میں رہنے دیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا۔ آپریشن تو کامیاب ہوگیا ہے مگر۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر مکمل طور پہ انکی تیمارداری نہیں کی گئی تو انفیکشن کا خطرہ ہے۔ آپ کی امی کا ایک کڈنی بھی خراب ہے۔ یہ دیکھئے رپورٹ۔ آپ کے ابو سے یہ بات چھپائی گئی ہے ورنہ وہ اور گھبرا جاتے۔ آپ ڈاکٹر ہیں بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تھوڑی سی بداحتیاطی ہوئی تو کیس ہاتھ سے نکل جائے گا۔


کیا بتائیں تم کو شیوانی۔۔۔ ہم کتنا پریشان تھے کہ سب کچھ بھول گئے تھے یہاں تک کہ نگار کو بھی۔ دن رات ہاسپیٹل میں ہی رہتے تھے۔ گھر صرف نہانے یا کپڑے بدلنے آتے تھے۔ ہم خود کو امی کی اس حالت کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے اس لئے چاہتے تھے کہ امی جلدی سے صحت یاب ہوکر گھر آجائیں تو ہمارے سر کا بوجھ ہلکا ہو۔ بیس دن بعد امی گھر آئیں۔ امی ہمیں دیکھ کر بہت خوش تھیں کہ ان کا فرہاد لوٹ آیا ہے مگر۔۔۔ قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں