مینا کماری (اصل نام: مہ جبیں بانو) (پیدائش: یکم اگست 1933ء، بمبئی - وفات: 31/مارچ 1972ء، بمبئی)
ہندوستانی فلمی صنعت میں ملکۂ جذبات کے خطاب سے معروف رہیں۔ المیہ اداکاری میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ اداکارہ کے ساتھ وہ گلوکارہ اور ایک عمدہ شاعرہ بھی تھیں۔ ناز ان کا تخلص تھا۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں اور بڑی متاثر کن نظمیں بھی تخلیق کیں۔
ان کی وفات کے بعد مشہور فلمی و ادبی ادارہ "شمع" نے مینا کماری ناز کا مجموعۂ کلام مرحومہ کی خواہش کے مطابق خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ جس میں خونِ دل سے لکھی ہوئی نظمیں، آہوں اور سسکیوں سے ترتیب دی ہوئی غزلیں، کاجل بھرے آنسوؤں کی روشنائی سے بنی ہوئی تصویروں کے ساتھ شامل ہیں۔۔
مینا کماری ناز کا یہ واحد شعری مجموعہ کلام "تنہا چاند" شاعری کا ذوق رکھنے والے قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش ہے۔ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
مشہور و مقبول شاعر، ادیب اور فلم ہدایتکار گلزار اس مجموعۂ کلام کے مرتب ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
میں ۔۔۔ اس "میں" سے بہت ڈرتا ہوں!
نظمیں "مینا جی" کی ہیں۔ تو پھر 'میں' کون؟ میں کیوں؟
مینا جی کی وصیت میں پڑھا کہ اپنی نظموں، اپنی ڈائریوں کے حقوق مجھے دے گئی ہیں! حالانکہ ان پر حق تو ان کا بھی نہیں تھا۔ شاعر کا حق، اپنے شعر پر، سوچ لینے تک تو ہے۔ لیکن کہہ لینے کے بعد اس پر حق لوگوں کا ہو جاتا ہے۔ مینا جی کی نظموں پر اصل حق تو ان کے چاہنے والوں کا ہے۔ اور وہ مجھے اپنے چاہنے والوں کے حقوق کی ذمہ داری سونپ گئی ہیں!
یہ کتاب اس ذمہ داری کو نبھانے کی میری پہلی کوشش ہے!
مینا کماری کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے عبدالحفیظ ظفر لکھتے ہیں ۔۔۔
مینا کماری کی شاعری درد اور یاسیت کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ ان کے اشعار سے اُداسیوں کی مہک آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض تجربات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے۔ تراکیب کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے "تنہا چاند" کے عنوان سے ہی یہ پیغام مل جاتا ہے کہ وہ تنہائیوں کے دشت میں رہ کر انجمن کا مفہوم سمجھنے کی سعی کر رہی ہیں۔ لیکن شاید وہ اِس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ اگر تنہائی کا اپنا ایک دکھ ہے تو اس کا اپنا حُسن بھی ہے۔مینا کماری کے ہاں ندرتِ خیال بھی بڑے خوشگوار انداز میں ملتا ہے۔ "دُکھ کی گھٹا"، "درد کے سائے"، "اُداسی کا دھواں" اور ایسی ہی کئی اور تراکیب ہیں جن سے اس نظریئے کو تقویت ملتی ہے کہ یاسیت کا اندھیرا جب بہت زیادہ بڑھ جائے تو پھر رجائیت کی روشنی بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے اپنے آپ کو دلاسا اور حوصلہ دیا جائے تو ایک موہوم سی رجائیت کا جنم ہوتا ہے لیکن ہمیں ایسی رجائیت درکار نہیں۔ رجائیت وہ جو حیات افروز ہو اور جو ہر سمت زندگی اور روشنی کے امکانات پیدا کرے۔
مینا کماری ناز کی ایک نمائندہ غزل
یوں تیری رہگزر سے، دیوانہ وار گزرے |
کاندھے پہ اپنے رکھ کے، اپنا مزار گزرے |
. |
بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر |
شاید اسی طرف سے، اک دن بہار گزرے |
. |
دار و رسن سے دل تک، سب راستے ادھورے |
جو ایک بار گزرے، وہ بار بار گزرے |
. |
بہتی ہوئی یہ ندیا، گھلتے ہوئے کنارے |
کوئی تو پار اترے، کوئی تو پار گزرے |
. |
مسجد کے زیر سایہ، بیٹھے تو تھک تھکا کر |
بولا ہر اک منارا، تجھ سے ہزار گزرے |
. |
قربان اس نظر پہ، مریم کی سادگی بھی |
سائے سے جس نظر کے، سو کردگار گزرے |
. |
تو نے بھی ہم کو دیکھا، ہم نے بھی تجھ کو دیکھا |
تو دل ہی ہار گزرا، ہم جان ہار گزرے |
نام کتاب: تنہا چاند (نظمیں اور غزلیں)
مصنف: مینا کماری ناز - مرتب: گلزار
ناشر: شمع بکڈپو، نئی دہلی (سن اشاعت: 1972ء)
تعداد صفحات: 100
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Tanha Chaand by Meena Kumari Naaz.pdf
فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | نظم/غزل | صفحہ نمبر |
1 | چاند تنہا ہے آسماں تنہا | نظم | 11 |
2 | ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا | غزل | 12 |
3 | آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا | غزل | 13 |
4 | یوں تیری رہ گزر سے | غزل | 14 |
5 | آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا | غزل | 15 |
6 | لمبی لمبی پلکوں والے تجھ پر کیسا نام سجے گا | غزل | 16 |
7 | اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے | غزل | 17 |
8 | جب چاہا اقرار کیا جب چاہا انکار کیا | غزل | 18 |
9 | عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے | غزل | 19 |
10 | اب آنکھ کھلی اب ہوش آیا | غزل | 20 |
11 | ان کہی ان سنی سی کچھ باتیں | غزل | 21 |
12 | یہ نہ سوچو کل کیا ہو | غزل | 22 |
13 | حیا سے ٹوٹ کے آہ، کانپتی برسات آئی | غزل | 23 |
14 | میں نے چاہا کہ اندھیروں کو اجالے بخشوں | نظم | 24 |
15 | روح کا چہرہ کتابی ہوگا | نظم | 25 |
16 | تمہیں چاہا سبھی نے دل سمجھ کر | نظم | 26 |
17 | بےرحم وقت کی مغرور اور ضدی چٹان | غزل | 27 |
18 | ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح | غزل | 28 |
19 | اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو | غزل | 29 |
20 | بوجھ لمحوں کا لیے کاندھے ٹوٹے جاتے ہیں | نظم | 30 |
21 | پھول کی جو کچھ پنکھڑیاں ٹوٹیں | غزل | 31 |
22 | ساتھی تیرا نام الگ ہے | نظم | 32 |
23 | آنچل میں کجرے کی یہ جھلک | نظم | 33 |
24 | مسرتوں پہ رواجوں کا سخت پہرہ ہے | قطعہ | 35 |
25 | کھڑکی | نظم | 37 |
26 | میرے خیالوں میں آزاد گھومنے والے | نظم | 40 |
27 | عجب غم ملا | نظم | 42 |
28 | اک انوکھی کہانی سناؤں گی میں | نظم | 43 |
29 | میں جو راستے پہ چل پڑی | نظم | 44 |
30 | ایک ویران سی خموشی میں | نظم | 46 |
31 | رکا رکا سا اندھیروں میں روشنی کا جلوس | نظم | 47 |
32 | لالچ کو بھیک کا نام نہ دو | نظم | 49 |
33 | اجنبی دیس کے رستوں پہ بھٹکتے راہی | نظم | 50 |
34 | سادہ سادہ سی آنکھوں میں | نظم | 52 |
35 | میرے درد تمام | نظم | 53 |
36 | چھم چھم کرتی پائل جیسی | نظم | 54 |
37 | اک درد یہاں اک آہ وہاں | نظم | 55 |
38 | ہاں تب بھی تم ہی سناتے تھے | نظم | 56 |
39 | کیسے دم سادھے وقت پڑا ہے بےحال | نظم | 57 |
40 | ایک لڑکی تھی بڑی پیاری بہت پیاری سی | نظم | 58 |
41 | کوئی تڑپتی گلی گھومتی بل کھاتی ہوئی | نظم | 60 |
42 | اداس شام چراغ چپ | نظم | 61 |
43 | در چونکے دیواریں جاگیں | نظم | 63 |
44 | جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے | نظم | 66 |
45 | اے میرے اجنبی | نظم | 67 |
46 | بارش کی یہ آواز | نظم | 68 |
47 | برسات مبارک ہو | نظم | 69 |
48 | جانے کیا بات ہوئی تھی جو مجھے یاد نہیں | نظم | 70 |
49 | یہ نور کیسا ہے | نظم | 72 |
50 | لمحہ لمحہ جینا کیا اور لمحہ لمحہ مرنا کیا | نظم | 73 |
51 | تھکا تھکا سا بدن | نظم | 74 |
52 | اکیلے پن کے اسی بےکنار صحرا میں | نظم | 75 |
53 | تنہائی کی راتوں میں اکثر | نظم | 76 |
54 | جواں برسات کی رات جلترنگ بجاتی رہی | نظم | 77 |
55 | یہ کیسی مسلسل رات ہے جوکہ انگاروں پہ لیٹی ہے | نظم | 78 |
56 | کب اس کا جادو ٹوٹے گا | نظم | 79 |
57 | کتنا ہلکا سا ہلکا سا تن ہو گیا | نظم | 80 |
58 | نٹ کھٹ سی بھور سے پہلے | نظم | 82 |
59 | ایک آس امید بندھی تھی جو | نظم | 84 |
60 | دل کو کیسے سمجھائیں ہم | نظم | 87 |
61 | کسی کی غم ناک صدا آئی | نظم | 88 |
62 | لمحے اڑتے ہیں کبھی یا تو تتلیوں کی طرح | نظم | 89 |
63 | کاسنی رات نے بھیگے آنچل تلے | نظم | 90 |
64 | دن گزرتا نظر نہیں آتا | نظم | 94 |
65 | دن بہرحال بہرطور گزر جاتا ہے | نظم | 95 |
66 | سنبھلتا نہیں دل کسی بھی طرح | نظم | 96 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں