پچھلی قسط کا خلاصہ:
فرہاد کے چہرے سے وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا تھا۔ نگار ان کو دیکھ کر ایک عجیب سے خوشی محسوس کررہی تھی۔ پھر شیوانی کو نگار نے ماضی کے واقعات سے آگاہی دی اور بتایا کہ اس نے چار سال تک فرہاد کا پل پل انتظار کیا۔ مگر کوئی رابطہ نہیں ہو پایا اور اس دوران اس کے گھر والوں نے زبردستی اس کی شادی کر ڈالی۔ اتفاق سے اس کا شوہر شرابی نکلا اور بڑے گھرانے کی روایت کے مطابق اس نے نگار پر نوکری نہ کرنے کا حکم لاگو کر دیا۔ مگر نگار کی حکم عدولی پر اس نے نگار پر ہاتھ اٹھا دیا جس سے وہ زخمی ہو گئی۔۔ اب ساتویں قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
ابو نے ہسپتال سے جب ان کے گھر فون کیا تو سرفراز کے ابو نے الٹا ہمارے ابو کو ڈانٹ دیا کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کی بیٹی اتنی بدتمیز ہے۔ ہمارے گھر کی بہو بیٹیاں دوسروں کے یہاں نوکری نہیں کرتیں مگر یہ بضد تھی کہ میں کل سے ہسپتال جاؤنگی اور ڈیوٹی کرونگی تو سرفراز کو غصہ آگیا۔ شوہر ہے بیوی کی غلطی پہ ایک تھپڑ مار دیا تو کون سا گناہ کردیا۔ ویسے بھی آپ لوگ وہاں آگئے ہیں اپنی بیٹی کے پاس تو پھر ہمیں وہاں رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ سرفراز گھر آگیا ہے اور سو گیا ہے کل صبح فیکٹری کی ایک ضروری میٹنگ ہے۔
ابو ان کی بات سن کر فون ہاتھ میں پکڑے رہ گئے۔ بھیا نے پوچھا کہ۔۔۔ کیا بولے نگار کے سسر؟ ابو نے بتایا کہ کیا کیابولے؟ بھیا نے ان کی ہاتھ سے فون لے کر رکھ دیا۔ پھر ابو کو پکڑ کے پاس کے کرسی میں بیٹھایا کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں؟ نگار نے کوئی غلط بات نہیں کی ہے، ڈاکٹری پڑھ کر وہ کیا گھر میں بیٹھی رہے گی؟ غلطی ہم سے ہوئی ہے کہ ہم نے ایسے لوگوں سے بنا جانچ پڑتال کے رشتہ کرلیا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بھیا میرے پاس آئے اور بولے، دیکھ نگار اگر تو وہاں جانا چاہتی ہے تو صاف صاف بول دے میں ان کے پاس جاکر تیری طرف سے معافی مانگ لونگا اور تیرا گھر پھر سے بس جائے گا۔ اور اگر نہیں جانا چاہتی ہے تو کوئی بات نہیں۔ میں ان کو ان کے کئے کی سزا دلا کر رہونگا۔ بول کیا چاہتی ہے؟ میں نے کہہ دیا۔۔۔ بھیا میں ایک شرابی کی بیوی بن کے جینے سے اچھا ہے سنگل رہوں۔ وہاں میرے علم کی کوئی قدر نہیں، وہاں نوکری کرنے والی لڑکی کو بدکردار سمجھا جاتا ہے۔ ایسے گھر میں دوبارہ جانا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کسی دن وہ نشے میں میرا قتل نہ کردے۔
بھیا نے کہا۔۔۔ فکر مت کر۔ میرا ایک دوست انسپکٹر ہے۔ ابھی میں اس کو فون کرتا ہوں۔ ہم ان کے خلاف ایف،آئی،آر دیں گے کہ شادی کے ایک ہفتے کے اندر ہی انہوں نے بہو کو مارنا پیٹنا شروع کردیا ہے۔ ڈاوری ایکٹ میں پورے فیملی کو گرفتار کرواؤنگا۔ بھیا نے اپنے انسپکٹر دوست کو فون کیا۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ہسپتال آگئے۔ میڈیکل رپورٹ اور میرا بیان لے کر ایف،آئی، آر درج کرلیا اور اسی وقت ایک پولس ٹیم لے کر سرفراز کے گھر پہنچ گئے۔ سرفراز کو نیند سے اٹھا کر گرفتار کرکے تھانے لے آئے۔ سرفراز کے ابا بہت بڑے آدمی تھے مگر اتنی رات کو۔۔۔ کس کو فون کرتے؟ الٹا لینے کے دینے پڑجاتے۔ صبح ہونے کا انتظار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے بھیا سے منع کیا تھا کہ میری ساس کا نام مت دینا، کچھ بھی ہو وہ ایک عورت ہیں اور ان کا گرفتار ہوناٹھیک نہیں ہوگا۔ رات بھر سرفراز حوالات میں رہے۔ مخملی گدے کی جگہ حوالات کے مچھروں نے ان کا دل بہلایا۔ ان کا نشہ اتر گیا اور وہ سوچنے لگے کہ اب کیا ہوگا؟
دوسرے دن سرفراز کے ابو نے اپنی پہنچ لگائی۔۔۔ منسٹر سے لے کر کمیشنر تک سب کو فون کر ڈالا کہ میرے بیٹے کو جلد از جلد رہا کیا جائے مگر۔۔۔ انسپکٹر صاحب نے کہا کہ ان پہ ڈاؤری ایکٹ میں کیس فائل ہوا ہے، اب تو ان کی ضمانت آپ کو کورٹ کی ہئیرنگ کے بعد ہی ملے گی جب ان کی بیوی اپنا بیان جج صاحب کے پاس درج کریں گی۔ بات بگڑتے دیکھ کر سرفراز کے ابو، امی اور بڑے بھائی اور بھابی سب ہمارے گھر آگئے۔ میں ہسپتال سے گھر آگئی تھی اور کورٹ جانے کی تیاری کررہی تھی۔ بھیا نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں؟ کورٹ میں جائیں وہیں ملاقات ہوگی۔ سرفراز کی ابو نے کہا کہ بیٹا ہم اپنی بہو سے دو چار باتیں کرنے آئے ہیں، وہ اگر چاہے گی تو یہ کیس رفع دفع ہوجائے گی اور سرفراز چھوٹ جائے گا۔ بھیا نے کہا کہ جب میرے ابو نے کل رات آپ کو فون کیا تھا ہسپتال سے تو آپ نے کیا کہا تھا کہ شوہر ہے اگر بیوی کو ایک تھپڑ مار دیا تو کیا گناہ کیا؟ تو پھر جائیں یہی بات آپ کورٹ میں بھی کہیں اور اپنے بیٹے کی ضمانت کروالیں۔ سرفراز کے ابو اٹھ کر نگار کے ابو کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ پکڑ لئے کہ بھائی صاحب، اب میرے گھر کی عزت آپ کے ہاتھ ہے۔ میرے بیٹے کو اگر جیل ہوگئی تو سوسائیٹی میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ آپ اپنی بیٹی سے کہیں کہ وہ کیس واپس لے لے۔ گھر گرہستی میں ایسے چھوٹے موٹے حاڈثے تو ہوتے رہتے ہیں۔
ابو کے کچھ بولنے سے پہلے میں بول پڑی۔۔۔" میں ایک شرط پہ یہ کیس واپس لے سکتی ہوں"۔ وہ بولے۔۔۔ ہاں بیٹا بولو، کیا شرط ہے تمہاری، مجھے ہر شرط منظور ہے۔ میں بولی۔۔۔" سرفراز سب کے سامنے مجھ سے معافی مانگیں گے اور۔۔۔اور۔۔۔ مجھے خلع چاہئے اور وہ دیدیں گے۔ مجھے ایسے شرابی شوہر کے ساتھ نہیں رہنا ہے"۔ میرے امی ابو سکتے کے حالت میں خاموش بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ انہوں نے جلد بازی میں میری زندگی برباد کردی۔ دولت مند گھر دیکھ کر میری شادی ایک شرابی لڑکے سے کردی۔ مگر سرفراز کے ابو۔۔۔ اپنی عزت بچانے کے لئے ہر شرط مان لینے کو تیار تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹی مجھے تمہارے دونوں شرط منظور ہے۔ ابھی میرے ساتھ تھانے چلو۔۔ وہاں سرفراز تم سے سب کے سامنے معافی مانگے گا پھر۔۔۔ طلاق بھی دیدیگا، میرا مطلب ہے خلع کی درخواست بھی منظور کرلیگا۔
بھیا نے اپنے انسپکٹر دوست کو فون کرکے یہاں کے حالات بتائے تو وہ بھی راضی ہوگئے اور بھیا کو سمجھائے کہ شادی کو مشکل سے ایک ہفتہ ہی ہوا ہے، خلع کے بعد۔۔۔ سال دوسال میں نگار کی شادی کہیں اور ہوجائے گی۔ لیکن اگر ہم نگار کو دوبارہ وہاں بھیجے تو۔۔۔ خدا نہ کرے کل کو کوئی بڑا حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ تم لوگ نگار کو لے کر پولس اسٹیشن آجاؤ۔ میں دونوں باپ بیٹے سے انڈرٹیکنگ لکھوا کر جہیز کے سارے سامان واپس لانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ ابھی لوہا گرم ہے ہم جو چاہیں گے ہو جائے گا۔ پھر دو گھنٹے کے اندر اندر۔۔۔ سارے فرمالیٹیز پورے ہوگئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا کہ جتنے جلدی جہیز کے سامان نگار کے گھر پہنچیں گے اتنی جلدی آپ کے بیٹے کی رہائی ہوجائے گی ورنہ وہ یہیں حوالات میں ہوا کھاتا رہے گا۔ سرفراز نے سب کے سامنے مجھ سے اپنے کئے کی معافی مانگی کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے، میں بہت شرمندہ ہوں اور پھر سب کی موجودگی میں اس نے مجھے طلاق بھی دیدیا(کیونکہ خلع کے قانونی کارروائی میں کئی دن ٰٓیا کئی ہفتے بھی لگ سکتے تھے)۔ مجھے لگا میں کسی سونے کے پنجرے میں قید تھی اور کسی نے اس کا دروازہ کھول کر مجھے آزاد کردیا ہے۔ میرے سارے سامان واپس مل گئے۔ میں نے کیس واپس لے لیا۔ بات ختم ہوگئی!!
مگر سرفراز صاحب۔۔۔ دولت کے نشے میں چور تھے اور ان کو اپنی۔۔۔ بے عزتی کا احساس تھا۔ دو بار انہوں نے کرائے کے بندوں سے میرے اوپر حملہ کروانے کی سازش کی اور خدا کے فضل سے دونوں بار میں۔۔۔ بال بال بچ گئی۔ وہ کرائے کے گنڈے گرفتار ہوئے تو اُن کے کہنے پر سرفراز پھر سے گرفتار ہوگیا۔ انسپکٹر صاحب جو میرے بھیا کے دوست تھے انہوں نے بھیا کو مشورہ دیا کہ نگار کو دہلی سے کسی اور شہر میں سفٹ کردو۔ یہ دولت مند لوگ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ گرفتار ہوا ہے پھر سے پیسہ خرچ کرکے بڑے سے بڑا وکیل کھڑا کردیگا اور اس کو ضمانت مل جائے گی۔ وہ پھر سے وہی چھچھوری حرکت کریگا۔ اللہ نے کرے اب کی بار اگر نگار کو کچھ ہوگیا تو ہم کیا کرلیں گے؟ زیادہ سے زیادہ اس کو گرفتار کرکے سزا دلوادیں گے مگر ہماری نگار تو واپس نہیں آئے گی نا؟
پھر گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے دہلی سے دور اپنے ایک ماموں کے یہاں کیرالہ بھیج دیاجائے۔ میرے پاس ڈاکٹر کی ڈگری ہے وہاں کسی اچھے سے ہسپتال میں آرام سے جاب مل جائے گی۔ دو پانچ سال کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا پڑجائے گا تو پھر میں دہلی واپس آجاؤنگی۔ میں خود دہلی سے دور جانا نہیں چاہتی تھی کہ کیا پتہ کبھی فرہاد۔۔۔ مجھے ڈھونڈتے ہوئے دہلی آجائیں۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات تھی۔ جو چار سال تک نہیں آئے اور نہ کوئی خبر لی وہ۔۔۔۔ خیر گھروالوں کو میرے جان کی پرواہ تھی اور مجھے بھی ڈر لگتا تھا کہ پتہ نہیں تیزاب وغیرہ اگر میرے اوپرپھینک دیا گیا تو؟؟؟ بہت ہی راز داری کے ساتھ بھیا مجھے لے کر کیرالہ آگئے اور ماموں جان کو سب بات تفصیل سے بتائے تو وہ بولے۔۔۔ بہت اچھا کیا جو تم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔میری پہچان کئی ایک ہسپتال کے مالک سے ہے میں نگار کے لئے بات کرتا ہوں۔ بھیا اسی دن دہلی چلے آئے اور۔۔۔ ہفتے بھر کے اندر مجھے وہاں کے کئیرہاسپٹل میں جاب مل گئی۔
کیرالہ میں پانچ سال سے زیادہ میں نے بہت اچھے سے گزاری۔ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے، ہر طرف قدرت کی حسین مصوری دل کھینچ لیتی ہے۔ وہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہیں، تقریباً سو فیصد تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور اکثرگھروں کے لوگ انڈیا سے باہرعرب میں یا امریکا، جرمنی، کناڈا وغیرہ میں نوکری کرتے ہیں۔ شرح غریبی بہت کم ہے، لوگ تعلیم یافتہ ہیں تو صاف اور صفائی ہر طرف نظر آتی ہے۔ کئیر ہاسپیٹل (Care Hospital)میں مجھے بہت جلد ترقی مل گئی اور میں سال بھر کے اندر میڈیکل افسر بن گئی۔ امی ابو سے، بھیا بھابی سے بذریعہ فون رابطہ تھا۔ پھر انٹرنیٹ آگیا اور اس کے دو سال بعد۔۔۔ موبائل فون بھی انڈیا میں آگیا۔ میں روز امی سے باتیں کرتی تھی۔ کاش۔۔۔ یہ موبائل فون اور انٹرنیٹ، ای میل سسٹم کچھ سال پہلے آجاتا تو کتنا اچھا ہوتا؟ میں فرہا د سے ٹچ میں رہتی، ہم ایک دوسرے سے اس طرح جدا تو نہیں ہوتے۔
ایک دن میں بھیا سے بات کررہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ سرفراز۔۔۔ کار حادثے میں فوت ہوگئے۔ شراب کے نشے میں کار چلا کر آرہے تھے کہ ایک ٹرک سے ٹکرا گئی ان کی کار اور موقع پر ہی وہ ختم ہوگئے۔ مجھے تھوڑا دکھ ہوا کہ سات دن ہی سہی وہ میرے شوہر تھے اور میں ان کی بیوی۔ پھر میں نے ان کی بخشش کے لئے اللہ سے دعائیں بھی کی۔ ادھر میرے ماموں اور مامی جو کہ بے اولاد تھے مجھے اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے۔ انہوں نے میرے لئے کئی جگہ رشتے کی بات کی۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ خدا کے لئے میری شادی کا بالکل بھی نا سوچیں کیونکہ میں نے اب دوبارہ شادی نہیں کرنی ہے۔ہاسپٹل میں بھی ایک مسلم ڈاکٹر تھے جو مجھے بہت پسند کرتے تھے اور انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی کہ میں ان سے شادی کے لئے راضی ہوجاؤں مگر میں نے ان کو بھی بڑے ادب سے سمجھا دیا کہ میں زندگی بھر شادی نا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ اگر آپ بار بار اصرار کریں گے تو پھر مجبوراً مجھے آپ سے بات چیت بند کرنی پڑیگی۔پھر اس کے بعد انہوں نے کبھی شادی کا ذکر نہیں کیا اور کچھ دن بعد ان کی شادی بھی ہوگئی۔ ہم دونوں اچھے دوستوں کی طرح رہنے لگے۔
ایک دن اچانک۔۔۔ ابو کے انتقال کی خبر ملی۔ میں ماموں اور مامی کے ساتھ فوراً دہلی پہنچی۔ امی کا بہت بر احال تھا مجھ سے لپٹ کر اتنا روئیں کہ بیہوش ہوگئیں۔ رو تو سب رہے تھے مگر امی کے سرتاج چلے گئے تھے۔ بیوگی کا دکھ وہی سمجھ سکتی ہے جو بیوہ ہوئی ہو۔ ہم سب ان کو تسلی دے رہے تھے۔ ان کی دلجوئی میں لگے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ ایک ایک کرکے تما م رشتے دار چلے گئے۔ گھر میں رہ گئے صرف بھیا بھابی اور میں۔ بھیا آفس چلے جاتے، بھابی بیچاری ماں بننے والی تھیں۔ امی اکیلی ہوجاتی تھیں تو میں نے سوچا کچھ دن ان کے پاس رہ لیتی ہوں پھر جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو کیرالہ چلی جاؤنگی۔
چہلم کے بعد۔۔۔ ماموں اور مامی نے بھی فون کیا کہ نگار کب آؤگی؟ ادھر ہاسپٹل سے بھی ای میل آرہا تھا کہ جلدی ڈیوٹی جوائن کیجئے۔ میں ابو کے انتقال کا کہہ کر ایک ماہ کی چھٹی لے لی تھی مگر اب چالیس دن ہورہے تھے۔ ادھر بھابی کے زچگی کے دن قریب تھے، ایسے میں امی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی۔ امی بھی دن رات بستر پہ پڑی رہتی تھیں اور ابو کو یاد کرکر کے روتی رہتی تھیں۔ ایسے میں ان کو اکیلا چھوڑ کر جانا بھی ٹھیک نہیں تھا تو میں نے بہت سوچنے کے بعد۔۔۔ ہاسپٹل کو ای میل سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا کہ میں اپنی ماں کو اکیلی چھوڑ کر اتنا دور نہیں آسکتی ہوں، آپ میری جگہ کوئی اور ڈاکٹر رکھ لیجئے۔ ماموں جب یہ بات سنے تو بہت ناراض ہوئے۔ بولے اگر امی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی تو ساتھ میں لے کر کیرالہ آجاتی۔ نوکری چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے کہا کہ۔۔۔ بھابی کو ایسی حالت میں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی؟ بھیا مرد ہیں وہ۔۔۔ عورت کی اس حالت میں کیا کیا پریشانی ہوتی ہے کیسے سمجھیں گے۔ میں اور امی رہیں گی تو بھابی کی مدد بھی ہوجائے گی اور بھیا بھی سکون سے اپنی ڈیوٹی کر سکیں گے۔
کچھ ہی دن بعدبھابی نے ایک چاند سی بیٹی کا تحفہ ہمیں دیا۔ ہم سب بہت خوش تھے اور وہ ننھی سے گڑیا بھی اتنی پیاری ہوئی تھی کہ جو دیکھتا تھا اس کا دیوانہ ہوجاتا تھا۔ ہم سب اس کو نازیہ کہتے تھے اور وہ تھی بھی ناز کرنے جیسی، ہنستی تھی تو دونوں گالوں کے ڈمپل دل موہ لیتے تھے۔ دن بھر وہ میرے پاس اور امی کے پاس رہتی تھی بس دودھ پینے کے لئے ہی بھابی کے پاس جاتی تھی۔ رات کو سوتی بھی تھی امی کے پاس۔ اللہ نے امی کا دل بہلانے کو ایک پیارا سا کھلونہ دیدیا تھا۔ نازیہ کے معصوم مسکراہٹوں میں امی۔۔۔ ابو کا غم بھولنے لگی تھیں۔ میں بھی اب دہلی میں ہمیشہ رہنے کے لئے سوچ رہی تھی کیونکہ جس سے خطرہ تھا۔۔۔وہ اللہ کو پیارا ہوچکا تھا۔ اب اس کے گھروالوں کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ دوبارہ کچھ کریں اور جیل کی ہوا کھائیں۔
پھر ایک دن صفدرجنگ ہاسپٹل میں میڈیکل افسر کی ضرورت کا ایڈ نکلا تو میں نے درخواست دیدی اور میرے تجربے کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ جاب مل گئی اور میں۔۔۔اللہ کی شکر گزار ہوں کہ یہاں مجھے تمہارے جیسی سہیلی ملی جو بہن کی کمی کو پورا کررہی ہے۔ شیوانی اگر تم آج نہیں ہوتیں تو میرا کیا ہوتا؟ فرہاد کو اس حال میں دیکھ کر میں تو پاگل ہوگئی تھی۔ کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ تھینک یو ویری مچ شیوانی۔ یہ ہے میری زندگی کا وہ راز جو آج تک سوائے میرے گھروالوں کے کسی کو پتہ نہیں۔ میں سنگل نہیں طلاق شدہ ہوں، صرف سات دن کی دلہن بنی تھی میں وہ بھی ماں باپ کی خوشی کے لئے مگر ماں باپ کو وہ خوشی بھی دے نہیں سکی۔ میرے غم میں گھل گھل کر میرے ابو چلے گئے اور اب امی۔۔۔ کبھی کبھی مجھے یک ٹک دیکھتی رہتی ہیں اور آنسو بہاتی رہتی ہیں۔ کچھ کہتی نہیں ہیں مگر ان کی خاموشی سمجھا دیتی ہے کہ ان کو میری فکر ہے کہ ان کے بعد۔۔۔ میرا کیا ہوگا؟ ؟؟
میں اپنی اس زندگی میں بہت خوش تھی۔ گھر میں رہتی تھی تو میرا سارا وقت۔۔۔ نازیہ کے ناز و نخرے اٹھانے میں گزر جاتے تھے اور وہ بھی مجھ سے اتنی مانوس ہوگئی ہے کہ جتنی دیر میں ہاسپٹل میں رہتی ہوں وہ اپنی ماں اوردادی کے پاس رہتی ہے۔ جیسے ہی میں گھر پہنچ جاتی ہوں بھاگ کر میرے پاس آجاتی ہے۔ ہاسپیٹل آتی ہوں تو تم ہو میرے لئے، پھر مریضوں کے درمیاں وقت کیسے گزر جاتا ہے پتہ نہیں چلتا۔ مگر اب اس شانت جھیل جیسی زندگی میں فرہاد نے ہلچل مچا دی ہے۔ دل کسی طور میرے بس میں نہیں ہے۔ ایک ہفتے سے گھر نہیں گئی ہوں، امی بھیا، بھابی اور سب سے زیادہ نازیہ فون کرتی ہے کہ کب آؤگی۔ مگر اب کیا کروں شیوانی۔۔۔ فرہاد کو یہاں ایسے، اس حال میں چھوڑ کر گھر جاکر کہاں چین سے جی پاؤنگی؟؟؟
شیوانینے اس کو کھینچ کر اپنے گلے لگا لیا۔ بہت دیر تک اس کے پیٹھ کو تھپتھپا تی رہی۔ اور بولی۔۔۔" اس ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے۔۔۔ اتنا سارا دکھ ، درد لئے بیٹھی ہو؟ کبھی مجھ سے شیئر ہی نہیں کیا۔ کیا میں اتنی غیر تھی؟ آج اگر یہ تمہارا ہیرو۔۔۔ ہاسپیٹل میں ایڈمٹ نہیں ہوتا تو شاید تم یہ بات مجھے کبھی نہیں بتاتیں"۔
"سوری شیوانی! میں اپنی زندگی کے وہ سارے حادثے دوبارہ یاد کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک برا ور ڈراونا خواب سمجھ کر اس کو بھلادیا تھا۔ اس لئے کبھی کسی کو بھی نہیں بتائی۔ مگر آج اس جراثیم کرونا کی مہربانی سے میرے برسوں کا کھویا ہوا فرہاد میرے سامنے ہے۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچی تھی کہ کسی دن فرہاد میرے مریض بنیں گے اور میں ان کی ڈاکٹر بن کر دیکھ بھال کرونگی۔ اس مہلک جراثیم نے جہاں ہزاروں، لاکھوں کی زندگی برباد کردی ہے وہیں۔۔۔ میری زندگی کو میرے سامنے پہنچا کر مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ میں کیا بتاؤں کہ کتنی خوش ہوں۔ تھینک یو کرونا۔۔۔!!"
پھر دونوں ایک ساتھ ہنس پڑیں کہ جہاں لوگ کرونا کو گالیاں اور تھالیاں بجا بجا کر بھگا رہے ہیں ہم اس کا شکریہ ادا کررہی ہیں۔ شیوانی نے کہا کہ چل نگار ہم دونوں آئی سی یو میں چلتے ہیں۔ مگر تم کچھ مت بولنا۔ پی،پی،ٹی کٹس کی وجہ سے فرہاد ہم کو پہچان نہیں پائیں گے لیکن ہو سکتا ہے تمہاری آواز سے پہچان لیں۔ اس لئے جو بھی بات کرنی ہے وہ میں کرونگی، تم بس وہاں چپ چاپ کھڑی رہ کر سنتی رہنا اور ہاں خبردار۔۔۔رونے دھونے کا ناٹک مت کرنا ورنہ فرہاد ہوشیار ہوجائیں گے اور ان سے اصل بات نکالنا مشکل ہوجائے گا۔
دونوں آئی سی یو میں جب پہنچیں تو اس وقت بہت سارے مریض اور ڈاکٹر بھی اپنے اپنے کرسی میں بیٹھے بیٹھے سوئے ہوئے تھے۔ سب ڈاکٹروں کی چھٹی کینسل کرد ی گئی تھی۔ اچانک اس قدرتی عذاب "کرونا" نے پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ نومبر2019 کو سب سے پہلا کیس چین کے اوہان شہر میں ملا، پھر اس کے بعد تو پورا اوہان اور اس کے لوگ جہاں جہاں، جس جس ملک کو گئے یہ جراثیم ان کے ساتھ وہاں وہاں گیا۔ چین کے بعد۔۔۔ اٹلی کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ روز ہزاروں کے تعداد میں کرونا کے مریض مل رہے تھے۔فرانس، انگلینڈ، جرمنی، امریکہ، نیدرلینڈ، نیوجی لینڈ، اسٹریلیا وغیرہ نے تو اپنے ملک کے باڈر کو سیل کردیا تھا۔ باہر کے کسی ملک سے کوئی فلائٹ ان کے ملک آ نہیں سکتی تھی، ہاں ان کے ملک سے باہر کے لوگ اپنے ملک جانا چاہیں تو جاسکتے تھے۔ مکہ شریف میں طواف کعبہ بند کردیا گیا تھا اور مدینہ شریف میں مسجداقصیٰ میں بھی نماز بندتھی۔ دنیا کے تمام ملک۔۔۔ اپنے اپنے ملک میں لاک ڈاؤن اور کہیں کہیں شاٹ ڈاؤن لگائے ہوئے تھے۔ انسان گھر کے پنجرے میں پرندوں کے طرح قید کردیا گیا تھا اور پرندے۔۔۔ آسمان میں آزاد گھوم رہے تھے۔ پوری انسانیت۔۔۔ ایک اندیکھے دشمن سے سراسیمہ تھی۔۔۔ اللہ اکبر۔ کیا سے کیا ہوگیا دیکھتے دیکھتے !!
ہمارے ملک میں دہلی اور مہاراشٹر میں سب سے زیادہ کرونا کے مریض نکل رہے تھے، ایسے میں دونوں شہروں میں کرفیو لگا دی گئی تھی۔ صرف پولیس والے اور ڈاکٹروں کو باہر آنے جانے کی اجازت تھی اور ان کو کروناکے مجاہد(COVID WARRIORS) کہا جاتا تھا۔ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بنا۔۔۔ لوگوں کی مدد کررہے تھے۔ ڈاکٹر بھی انسان ہوتے ہیں، وہ بھی دن رات کام کرکر کے تھک جاتے تھے۔ جس کو جہاں جگہ ملی اور تھوڑا سا وقت ملا وہ وہیں سو گیا۔ جو بھی کھانے کو ملا کھا لیا۔ کئی ڈاکٹر تو کرونا کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود کرونا کے شکار ہوگئے۔
بیڈ نمبر 28 پہ فرہاد آنکھ بند کئے ہوئے پڑے تھے ، ماسک لگا ہوا تھا۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ نیند سے سوئے ہوئے ہیں یا بس آنکھ بند کئے لیٹے ہوئے ہیں۔ شیوانی اور نگار ان کے قریب پہنچ گئیں۔ ادھر ادھر دیکھے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ شیوانی نے ان کا ماسک جیسے ہی ہٹایا انہوں نے پھٹ سے آنکھ کھول دیا۔ نگار کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ ایک پل کے لئے دھڑکنا بھول گیا۔ اسے لگا فرہاد نے اس کی چوری پکڑ لی۔ مگر شیوانی بھلا کیوں ڈرتی۔۔۔ اس نے اشارے سے پوچھا۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا؟ فرہاد نے سر ہلا کر دھیرے سے کہا۔۔۔" جی ڈاکٹر، تھینک یو ویری مچ، آئی یم فائن"۔ ہائے وہی رعب دار اور دل کو موہ لینے والی آواز۔۔۔ لگتا تھا جیسے امین سیانی صاحب بناکا گیت مالا میں بول رہے ہیں۔ نگار بھیگی پلکوں کے ساتھ ان کو نہارے جا رہی تھی۔ شیوانی نے پوچھا۔۔۔ "مسٹر فرہاد، آپ کے گھر سے کوئی نہیں آیاائیرپورٹ آپ کولینے؟"۔ فرہاد نے مسکراتے ہوئے ‘ناں’ میں سر ہلا دیا۔ نگار کو مایوسی ہوئی اور حیرت بھی۔ مگر شیوانی نے دوسرا سوال داگ دیا۔۔۔ "کیوں؟ آپ کے گھر میں ماں باپ ، بھائی بہن، بیوی بچے کوئی نہیں ہیں؟ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کس کو خبر دیں گے؟"۔ نگار کا دل دھک سے رہ گیا کہ یہ شیوانی کیا کیا بول رہی ہے؟ اس نے شیوانی کے کندھے پر ہاتھ رکھا کہ کم سے کم ابھی تو ایسے سوال نہ کر مگر وہ تو سب کچھ جان لینے کے فراق میں تھی۔ فرہاد کے ہونٹوں پر ایک عجیب اداس سی مسکراہٹ آئی اور انہوں نے کہا۔۔۔" بیوی بچے، بھائی بہن کوئی نہیں ہیں۔ بس ایک والد صاحب ہیں جو ضعیف ہیں اور کرونا کے ٹائم ان کا یہاں آنا ٹھیک نہیں سمجھاتو میں نے اُن کو آنے سے منع کردیاــ"۔
رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں