ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 06 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-10

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 06

novel-thankyou-corona-episode-06

پچھلی قسط کا خلاصہ:
فرہاد نے حیدرآباد پہنچنے سے لے کر۔۔۔ حیدرآباد سے کسی کو بتائے بنا بھاگ آنے کی ایک ایک بات تفصیل سے نگار کو بتا دیا۔ نگار نے انہیں رائے دی کہ وہ زریں سے شادی کر لیں جس پر فراز بپھر گئے۔ پھر دو سال گزر گئے۔۔۔ فرہاد حیدرآباد اپنے گھر نہیں گئے۔ گھر والوں نے بھی شاید صبر کرلیا تھا یا اپنی ضد پہ اڑے ہوئے تھے کہ انہوں نے ان سے بات تک نہیں کی۔ پھر ایک دن فرہاد کو ڈرائیور چاچا سے فون پر معلوم ہوا کہ ان کی امی کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اسپتال کے آئی۔سی۔یو میں داخل ہیں۔ اب چھٹی قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 6 »

"ڈاکٹر نگار۔۔۔ بیڈ نمبر 28 کے مریض کو ہوش آرہا ہے۔۔۔ جلدی چلئے"۔۔۔ نرس کی آواز نے نگار اور شیوانی دونوں کو چونکا دیا۔ وہ دونوں تو بھول ہی گئی تھیں کہ ہسپتال میں ہیں اور کویڈ ڈیوٹی پر ہیں۔ کچھ بہت سیریس مریض کو آئی سی یو میں اٹینڈ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ دونوں نگار کی ماضی کی داستان میں کھو گئی تھیں۔ فرہاد کو ہوش آرہا ہے سن کر نگار کا چہرہ کھل اٹھا، اب خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ شیوانی اور نگار دونوں نے نرس کو بھیج دیا اور جلدی جلدی اپنا پی پی ٹی کیٹ(PPT Kit) پہننے لگیں جو ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے بہت ضروری تھا کیونکہ وہ کرونا کے مریضوں کے ڈائریکٹ کنٹاکٹ میں آتی تھیں، ان کی تیمارداری کرتی تھیں اور سب سے زیادہ خطرہ ان کو ہی تھا۔ وہ کیٹ پہننے کے بعد۔۔۔ ڈاکٹر اور نرس، سر سے لے کر پاؤں تک کوور ہوجاتے تھے، رین کوٹ کی طرح ہوتا تھا اور پھر چہرے پر ماسک اور اس کے اوپر فیس کوور پہن کر وہ لوگ مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔


فرہاد کے چہرے سے وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا تھا۔ نگار ان کو دیکھ کر ایک عجیب سے خوشی محسوس کررہی تھی۔ اپنے محبوب کو لگ بھگ بیس سال بعد دیکھ کر خوشی، حیرت، دکھ سب ایک ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں دھیرے دھیرے کانپ رہے تھے۔ اس نے شیوانی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ شیوانی اس کی حالت کو سمجھ رہی تھی۔ اس نے نگار کو الگ لے جا کر سمجھایا کہ اپنے آپ کو سنبھالے۔ ہم مریض کو دیکھ سکتے ہیں مگر مریض ہمیں دیکھ تو سکتا ہے لیکن پہچان نہیں سکتا، کیونکہ ہم پی پی ٹی کیٹ کی وجہ سے سر سے لے کر پاؤں تک ڈھکی ہوئی ہیں۔ تم کوئی بات مت کرنا، جو بات کرنی ہے، پوچھنا ہے میں پوچھونگی۔ پھر دونوں فرہاد کے بیڈ نمبر 28 کے پاس آئے۔ شیوانی نے فرہاد کے رپورٹ وغیرہ دیکھنے کے بعد نرس کو کچھ ہدایت کی اور وہ وہاں سے انجکشن لانے کے لئے چلی گئی۔ نگار۔۔۔ بس ٹکٹکی لگائے فرہاد کو دیکھے جارہی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کا جسم تھوڑا بھرا بھرا سا تھا، لندن سے آرہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں رہ رہے ہونگے اس لئے رنگ بھی پہلے سے زیادہ سرخ سفید لگ رہا تھا، بہت اسمارٹ لگ رہے تھے بیمار ہونے کے باوجود اور آنکھ بند کئے ایسے پڑے تھے جیسے اپنے گھروالوں کو یا پھر۔۔۔ اپنی شریک حیات کو یاد کررہے ہوں۔ اس بیچ شیوانی نے ان کو دو انجکشن لگا دیا اور نرس کو ہدایت دے کر نگار کے طرف پلٹی تو کیا دیکھتی ہے وہ فرہاد کو ہی دیکھے جارہی ہے، اسے آس پاس کا کچھ ہوش نہیں ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہمارا سب سے پیارا اور انمول چیز کھو جائے اور برسوں بعد اچانک سامنے آجائے تو۔۔۔ ایسا ہی ہوتا ہے، کیا کریں، کیا نہ کریں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ نگار کے ساتھ بھی وہی ہو رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک دو نہیں سیکڑوں سوال ابھر رہے تھے جن کا جواب صرف اور صرف۔۔۔ فرہاد دے سکتے تھے مگر۔۔۔ یہ پوچھنے کا وقت نہیں تھا۔


شیوانی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ذرا زور سے جھٹکا اور بولی۔۔۔ لیٹس گو ٹو آور چمبر ( چلو ہم اپنے چمبر میں چلتے ہیں)۔ نگار چونک گئی اور ہاں میں سر ہلا کر اس کے ساتھ چلنے لگی۔ دروازے تک جانے کے بعد پلٹ کر فرہاد کے بیڈ کی طرف دیکھی تو ان کو بھی۔۔۔ اپنی طرف دیکھتا ہوا پائی تو گھبرا کے مڑگئی۔ کیا انہوں نے مجھے پہچان لیا ہے؟ نہیں۔۔۔نہیں، وہ کیسے پہچان سکتے ہیں؟ میں تو کیٹ پہنے ہوئی ہوں اور کچھ بولی بھی نہیں جو میری آواز سے پہچان سکیں گے۔


اپنے چمبر میں آتے ہی شیوانی نے اس کو ڈانٹ لگائی۔۔۔ یہ تم ایسا کیوں برتاؤ کر رہی ہو؟ کانپ کیوں رہی تھیں تم؟ بے وفائی انہوں نے کی ہے اور ایک مجرم کی طرح تم تھرتھرا رہی تھیں۔ خود کو سنبھالو نگار۔۔۔ وہ ہمارا چہرہ نہیں دیکھ سکتے ہیں تو کیسے پہچانیں گے؟ ویسے بھی پہچان بھی لیں تو اچھا ہے کیونکہ ابھی انکو ہمارے بہت سارے سوالوں کو جواب دینا ہے۔


نگار بولی۔۔۔ شیوانی ابھی میری ڈیوٹی آف ہوجائے گی اور میں تین دن کی چھٹی میں چلی جاؤں گی۔ کچھ کرو پلیز، اب میں گھر جانا نہیں چاہتی۔ گھر گئی تو سوچ سوچ کر مرجاؤنگی۔ میں یہیں ان کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ بڑی مشکل سے لڑجھگڑ کے چھٹی پاس کروائی تھی اب کینسل کیسے کرواؤں گی۔ سب کو شک ہوجائے گا کہ۔۔۔ کچھ تو ہے ورنہ یہ چھٹی کیوں کینسل کروا رہی ہے؟


شیوانی نے کہا۔۔۔ رک جا مجھے کچھ سوچنے دے کہ چھٹی کینسل بھی ہوجائے اور کسی کو شک بھی نہ ہو۔ پھر کچھ دیر بعد وہ بولی کہ میں جا رہی ہوں ڈاکٹر شرما کے پاس اور وہاں تمہارے خلاف شکایت کرونگی کہ جب ہم دونوں ساتھ میں کوویڈ ڈیوٹی کررہی ہیں تو چھٹی صرف ڈاکٹر نگار کو کیوں دی جارہی ہے، مجھے کیوں نہیں؟ میرے گھر میں تو میرے پتی اور بیٹی بھی پریشان ہیں جبکہ ڈاکٹر نگار تو سنگل ہے۔ اگر اس کو چھٹی دی گئی تو مجھے بھی دینی ہوگی، میں بھی ابھی گھر جاؤنگی ڈاکٹر نگار کے ساتھ ورنہ اس کا چھٹی بھی کینسل کیجئے۔


پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑیں۔ نگار نے کہا۔۔۔ ہاں یہ آئیڈیا کام آ سکتا ہے۔ آئی سی یو میں مریض زیادہ ہیں اور ان کو بھی بہانہ چاہئے مجھے روکنے کا۔ تم جا کر ضرور شکایت کرو۔ میں یہیں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ شیوانی نے کہا۔۔۔ کہیں جانا مت! ابھی واپس آکر تمہاری کہانی میں آگے کیا ہوا؟ کیسے یہ نواب صاحب کسی اور کے چکر میں پڑ گئے، کیوں تم سے بے وفائی کی۔۔۔ سب سننا ہے۔۔۔!!


شیوانی کے جانے کے بعدنگار نے کرسی سی ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلی اور سوچنے لگی۔ کیا فرہاد نے شادی نہیں کی؟ اگر شادی کئے ہیں تو ان کے ساتھ کوئی اور کیوں نہیں ہے۔۔۔ مطلب ان کی بیوی یا بچے ان کے ساتھ لندن کے فلائٹ میں کیوں نہیں آئے؟ باقی مریضوں کے لئے کوئی نہ کوئی رشتے دار ہسپتال میں ہے مگر فرہاد کے لئے کوئی نہیں آیا ہے۔۔۔ ایسا کیوں؟ پھر اس کے دل نے کہا کہ۔۔۔ کوئی کیسے آئے گا بھلا؟ لاک ڈاؤن چل رہا ہے، ٹرین، بس، فلائٹ سب تو بند ہیں، کوئی آئے گا بھی تو کیسے آئے گا وہ بھی حیدرآباد سے۔ ایسے ہی طرح طرح کے عجیب عجیب خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ وہ فرہاد کا سامنا کیسے کریگی؟ پہلے وہ سوچتی تھی کہ زندگی میں جب بھی فرہاد سے ملاقات ہوگی وہ ان کا گریبان پکڑ کر پوچھے گی کہ انہوں نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیوں اس کو اس طرح بے یار و مدگار۔۔۔ بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے گئے؟ اس کا کیا قصور تھا؟؟ مگر آج۔۔۔ ان کو کرونا کے مرض میں مبتلا دیکھ کر، ان کی حالت دیکھ کر۔۔۔ اس کا غصہ کدھر غائب ہو گیا تھا۔ اب اس کو ان کی بہت فکر ہورہی تھی کہ کیسے وہ جلد از جلد صحت یاب ہوجائیں۔ وہ ان کے لئے دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں کررہی تھی۔


"ڈاکٹر نگار۔۔۔ آئی ایم سوری ٹو سے دیٹ۔۔۔ آپ کی چھٹی مجھے کینسل کرنی پڑیگی کیونکہ ڈاکٹر شیوانی شکایت کررہی ہیں کہ اگر آپ کو چھٹی دی گئی تو ان کو بھی چھٹی چاہئے اور اب ہسپتال میں اتنے مریض آرہے ہیں کہ کسی ڈاکٹر کو چھٹی کرنے کی سخت مناہی ہے"۔ ڈاکٹر شرما (میڈیکل افسر) کی آواز نے اس کو چونکا دیا اور وہ جلدی سے کھڑی ہوگئی۔ "ٹھیک ہے سر۔۔۔ جیسا آپ ٹھیک سمجھیں"۔ نگار نے کہا اور دل ہی دل میں شیوانی کا شکریہ ادا کیا کہ اس کا آئیڈیا کام کرگیا۔


ڈاکٹر شرما کے جانے کے بعد۔۔۔ شیوانی مسکراتے ہوئے آئی اور نگار سے لپٹ گئی۔ بہت ہی ملن سار اور بے تکلف قسم کی تھی وہ۔ نگار کو دل سے بہن کی طرح چاہتی تھی۔ اس کی دکھ بھری کہانی سن کر اس کا دل اندر ہی اندر رو رہا تھا مگر وہ۔۔۔ اوپر سے ہنس ہنس کر نگار سے ایسے مل رہی تھی ، بات کررہی تھی کہ نگار کی ہمت بندھی رہے۔ اس نے نگار سے کہا کہ۔۔۔ چل ایک ایک کپ کافی پیتے ہیں پھر تیرے ہیرو کی کہانی سنونگی۔ ویسے تیرا فرہاد تو واقعی ہینڈسم ہنک ہے۔ میرا بھی دل آگیا ہے اس پر۔ پھر دونوں ہنس پڑیں۔ کینٹن سے کافی پینے کے بعد دونوں آئی سی یو کا ایک چکر لگا آئیں۔ اکثر مریض انجکشن اور دوائی کے اثر سے غنودگی میں تھے، فرہاد بھی اپنے بیڈ نمبر 28 پہ چت پڑے ہوئے تھے۔ نگار کا جی چاہا کہ دوڑ کر جائے اور ان کے چوڑے سینے پر اپنا سر رکھ کر جی بھر کے رو لے۔ مگر۔۔۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔۔!!


چمبرمیں آتے ہی شیوانی بے چین ہوگئی اور بولی۔۔۔ ہاں نگار، اب جلدی سے بتا اس کے بعد کیا ہوا؟ فرہاد کی امی کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ تجھے فون کئے تھے مگر تواو،ٹی (OT) میں مصروف تھی تو انہوں نے انکوائری میں یہ مسیج چھوڑا تھا کہ۔۔۔ میں حیدرآباد جا رہا ہوں۔ وہاں جاکر تم کو فون کرونگا۔ پھر انہوں نے وہاں سے فون کرکے کیا کہا؟ ان کی امی کا کیا ہوا؟ جلدی بتا نا نگار۔


نگار نے کہا۔۔۔"میں ان کے فون کا۔۔۔ آج تک انتظار کررہی تھی شیوانی۔ ان کا فون نہیں آیا۔۔۔آج وہ خود آگئے مگر۔۔۔اس بیچ ایک زمانہ گزر چکا ہے۔۔۔ میری دنیا الٹ پلٹ ہوچکی ہے"۔


"کیا کہہ رہی ہو تم؟ فرہاد حیدرآباد جانے کے بعد تم سے کسی طرح بھی رابطہ نہیں کئے؟ دوبارہ اپنے جاب پر بھی نہیں آئے کیا؟ دہلی کو اور تم کو یکدم۔۔۔ بھول گئے؟؟ مگر تم نے کیوں نہیں کیاان کو فون؟؟ اُن کی امی کی طبیعت خراب تھی تو تمہارا فرض تھا کہ۔۔۔ ان کو فون کرتیں، امی کی خیریت پوچھتیں اورفرہاد کا حوصلہ بڑھاتیں"۔۔۔ شیوانی حیرت سے بولی۔


ــ" میں تمہیں کیا بتاؤں شیوانی۔۔۔ ایک طرح سے یہ میری غلطی بھی ہے اور خام خیالی بھی کہ میں نے کبھی فرہاد سے ان کے گھر کا فون نمبر نہیں لیا اور نہ انہوں نے کبھی مجھ سے میرے گھر کا فون نمبر مانگا۔ ابھی تو موبائل کا زمانہ ہے سب کا اپنا اپنا فون ہے۔ مگر تب لینڈلائن ہوا کرتا تھا اور ایک ہی فون پہ پوری فیملی کے فون آتے تھے۔ اس وقت ہم دونوں روز روز کالج میں ملتے تھے۔ پھر کالج کے بعد جاب ہوگیا تو ایک دوسرے کو ہسپتال کے فون سے کنٹاکٹ کرلیتے تھے تو ہم لوگوں نے کبھی۔۔۔ ایک دوسرے کے گھر کا فون نمبر نوٹ ہی نہیں کیا تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یوں اچانک تقدیر۔۔۔ یہ دن دکھائے گی۔ وہ اچانک حیدرآباد چلے جائیں گے اور۔۔۔میری دنیا اجڑ جائے گی"۔۔۔ کہتے کہتے نگار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


شیوانی نے اسکو اپنے سے لگا لیا اور اس کو تسلی دینے لگی۔۔۔ "چلو کوئی بات نہیں، یہ رونا دھونا بند کرو بچہ۔۔۔ یہ ہسپتال ہے تمہارا گھر نہیں ہے۔ ابھی کسی نے دیکھ لیا تو سمجھے گا کہ چھٹی نہیں ملی تو ڈاکٹر نگار۔۔۔ رو رہی ہیں"۔ نگار نے اپنے آنسو پونچھ لئے مگر۔۔۔ آنسوؤں نے بھی شاید آج ضد پکڑ لیا تھا کہ ہم بہتے رہیں گے، بیچ بیچ میں ٹپکتے رہیں گے۔ برسوں سے دل کے تہہ خانے میں بند تھے۔۔۔ آج باہر آنے کا موقع ملا ہے تو بے اختیار نکل پڑتے ہیں۔


شیوانی نے کچھ دیر بعد پوچھا۔۔۔ " اچھا نگار، ان کی امی کا کیا ہوا؟ پھر تم نے کیسے شادی کر لی؟ تم کو ان کا انتظار کرنا چاہئے تھا"۔ نگار نے اس کی طرف بیچارگی سے دیکھا اور بولی۔۔۔ "مجھے کیسے پتہ ہوگا کہ ان کی امی کا کیا ہوا؟ اس دن کے بعد۔۔۔ تقریباً بیس سال گزرنے کے بعد آج فرہاد ملے ہیں وہ بھی بیہوشی کی حالت میں۔ ابھی تو میں بھی نہیں جانتی کہ ان کی امی کا کیا ہوا تم کو کیسے بتاؤں؟"


او،کے! مگر تم نے فرہاد کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ تم نے کیسے شادی کے لئے ہاں کہہ دی؟ شیوانی نے حیرت سے پوچھا۔ نگار پھر رو پڑی کہ کیا بتاؤں تم کو کہ میں نے چار سال تک۔۔۔ فرہاد کا پل پل انتظار کیا۔ گھروالوں کا بار بار پریسر ہورہا تھا کہ کب تک تم شادی سے انکار کرتی رہوگی؟ اب تو تم ایم،ڈی بھی کر چکی ہو۔ آخر تم کیوں شادی نہیں کررہی ہو؟ امی ابو کو کیسے بتاتی اور کس بنا پر بتاتی جب کہ مجھے خود پتہ نہیں تھا کہ فرہاد کہاں ہیں؟ میں چار سال سے ایک ایک دن کس اذیت میں گزاری ہوں یہ تم نہیں سمجھوگی شیوانی۔ ہر دن یہ سوچ کر ہسپتال جاتی تھی کہ۔۔۔ انشاء اللہ ، آج ان کا فون ضرور آئے گا مگر۔۔۔میرا ہر آج گذشتہ کل میں بدل جاتا تھا اور میں پھر سے آنے والے کل کا انتظار کرنے لگتی تھی کہ۔۔۔ شاید کل ان کا فون آئے گا مگر وہ کل۔۔۔ میری زندگی میں کبھی نہیں آیا۔


تمہیں کیا بتاؤں شیوانی، مجھے ہسپتال سے گھر جانے سے وحشت ہوتی تھی۔ جتنی دیر گھر میں رہتی تھی بس امی ، ابو، بھیا اور بھابی مجھے شادی کے لئے پوچھتے رہتے تھے اور میں۔۔۔ منع کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ پھر میں چپ رہنے لگی۔ وہ میرے شادی کی بات نکالتے تو میں وہاں سے بھاگ جاتی۔ زیادہ سے زیادہ وقت ہسپتال میں گزارنے لگی۔ مگر آخر کب تک؟ امی ابو نے بھی ایک دن ضدپکڑ لی کہ آج فیصلہ کر کے ہی رہیں گے۔ رات کو سونے کے وقت میرے کمرے میں آئے اور بولے۔۔۔نگار بیٹا، تم اب بچی نہیں ہو کہ ہم تمہیں سمجھائیں۔ اپنا اچھا برا تم بہتر سمجھتی ہو۔ ہم دونوں بس تھوڑے دن کے مہمان ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جیتے جی تمہارا گھر بس جائے۔ کیا تم نہیں چاہتیں کہ ہم مرنے سے پہلے تمہارا سہرا دیکھ سکیں؟ تم نہیں جانتیں کہ ہمارے رشتے دار طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں کہ بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں تو اس کی شادی کا کیوں سوچیں گے؟ کیا تم چاہتی ہو کہ بدنامی کا یہ داغ ہم اپنے ماتھے پر لے کر گھومتے رہیں کہ بیٹے کی شادی تو کردی مگر بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں اس کی شادی نہیں کررہے ہیں"۔


میں نے تو اس زاویہ سے سوچا ہی نہیں تھا کہ میرے شادی نہ کرنے کی وجہ سے میرے والدین پہ ایسے گھٹیا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔ میں ایک دم اندر سے بکھر گئی تھی شیوانی۔ فرہاد کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی اور میرا دل بھی اب چغلی کرنے لگا تھا کہ ہو نہ ہو فرہاد کے امی ابو نے ان کو ہارٹ اٹیک کے دھوکے میں بلواکر۔۔۔ ان کی شادی ان کی خالہ زاد سے کردی ہو اور یہ شرمندگی کی وجہ سے مجھ سے رابطہ نہیں کر رہے ہیں۔ پھر سوچتی کہ۔۔۔نہیں میرے فرہاد ایسے نہیں ہیں۔ انہوں میرے لئے ڈھائی سال تک گھربار اور امی ابو تک کو چھوڑ دیا تھا۔۔۔ وہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے۔ ضرور کوئی اور مجبوری ہوگی۔ مگر کیا؟؟؟ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آخر کار میں امی ابو کی ضد کے آگے ہار گئی اور۔۔۔ ان سے کہہ دیا کہ آپ لوگ جہاں چاہیں میری شادی کردیں، میں دلہن بننے کو تیار ہوں۔ سب بہت خوش ہوگئے اور بہت جلد میرے لئے ایک امیرکبیر گھر سے رشتہ آیا۔ میرے گھر والوں نے جلد بازی میں میری شادی اس بزنس مین سے کردی جس کے اندر۔۔۔ امیرگھروں کے لڑکوں کی ہر برائی تھی۔ میں نے یہ سوچ کر شادی کی تھی کہ میرے گھروالوں کو رشتے داروں کے طعنے سے بچانا ہے اور۔۔۔ امی ابو کی خواہش کو پوری کرنی ہے۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ فرہاد کی یادوں کو اپنے سینے میں دفن کردونگی اور اپنے شوہر کی ہر ممکن فرمانبردار بیوی بن کر شکایت کا کوئی موقع نہیں دونگی مگر۔۔۔ انسان جو سوچتا ہے وہ ہوتا کہاں ہے۔۔۔!!


شادی کی پہلی رات کو ہی میرے شوہر صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ جم کر شراب پینے کے بعد کمرے میں آئے اور میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا۔ میں کس سے شکایت کرتی؟ شوہر صاحب نشے میں دھت سو گئے اور میں بیڈ پر پڑی اپنی قسمت پہ روتی رہی کہ یہ کیسا جیون ساتھی مجھے دیدیا۔ میرے گھروالوں نے شادی سے پہلے چھان بین نہیں کی کیا؟ امی ابو کو بتاتی تو وہ بیچارے بڈھاپے میں اور دکھی ہوجاتے۔ میں شادی کے لئے منع کررہی تھی مگر انہوں نے ہی ضد کرکے میری شادی کی، میرے لئے جلدبازی میں یہ لڑکا پسندکرلیا اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کردیا۔ میں نے سوچ لیا کہ شوہر صاحب جب نشے میں نہیں ہونگے تب ان کو سمجھاؤنگی۔ گھر والوں کو اپنا دکھ نہیں بتاؤنگی۔


شادی، ولیمہ، چوتھی وغیرہ کے رسم و رواج ختم ہونے میں چار پانچ دن لگ گئے اور میں ہر رات اپنی قسمت پہ آنسو بہاتی رہی۔ شوہر صاحب نشے میں دھت آتے اور اپنا حق ادا کرکے سو جاتے۔ ایک ہفتے بعد میں نے اپنی ساس سے کہا کہ۔۔۔ اب میں ہسپتال جانا چاہتی ہوں، اپنی ڈیوٹی جوئن کرنا چاہتی ہوں۔ میری ساس بھڑک گئیں کہ۔۔۔" ہائے دلہن، یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ ہمارے گھر کی بہو بیٹیاں کسی کے یہاں نوکری نہیں کرتی ہیں۔ ہمارے گھر میں اور فیکٹری میں ہزاروں لو گ نوکری کرتے ہیں اور تم جاؤگی دوسروں کے یہاں نوکری کرنے؟ کبھی بھول سے بھی یہ بات میرے بیٹے سے نہ کہنا۔ وہ نوکری کرنے والی لڑکیوں کو اچھی لڑکی نہیں سمجھتے۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر دن بھر غیر مردوں کے بیچ موج مستی کرنے والی نوکری پیشہ لڑکی بدکردار ہوتی ہے"۔


ساس کی باتیں سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی کہ۔۔۔ یا اللہ ، یہ میرے گھر والوں نے مجھے کس گھر میں بیاہ دیدیا۔ یہ تو جاہلوں کی فیملی ہے۔" میں ایک ڈاکٹر ہوں اور یہ مجھے کہہ رہی ہیں کہ گھر بیٹھو، نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نوکری کرنے والی لڑکیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں۔ تو پھر شادی سے پہلے کیاآپ کو پتہ نہیں تھا کہ میں نوکری کرتی ہوں؟ پھر کیوں ہمارے یہاں رشتہ کیا؟" یہی بات جب میں نے اپنی ساس سے کہی تو وہ آگ بگولہ ہو گئیں کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے شادی کو اور تو میرے ساتھ زبان لڑا رہی ہے۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ نوکری کرنے والی لڑکیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں۔ آنے دے آج سرفرازکو (میرے شوہر) کو فیکٹری سے پھر تیری خبر لیتی ہوں۔


رات کو سرفراز صاحب شراب کے نشے میں چور اندر آئے اور آتے ہی مجھ سے پوچھنے لگے۔ تم میری ماں کے ساتھ جھگڑا کیوں کی؟ ہمارے گھر میں روپئے پیسے کی کمی ہے کیا جو تم ہسپتال ڈیوٹی کرنے جاؤگی؟ کتنا تنخواہ دیتے ہیں وہ تم کو؟ ہر مہینے میرے سے اس کا دوگنا پیسہ لے لینا مگر نوکری کرنے کا کبھی مت سوچنا۔ میں نے سوچا کہ۔۔۔شوہر صاحب پہلی بار اتنی دیر تک مجھ سے بات کئے ہیں تو آج کچھ باتیں کر ہی لیتی ہوں۔ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے جو لوگوں کو نیا جیون دیتا ہے۔ سوچئے اگر ہر لڑکی جو ڈاکٹر ہے وہ ہسپتال میں نوکری نہ کرے تو کیا ہوگا؟ میرے شوہر نے پوچھا۔۔۔ کیا ہوگا؟ کچھ نہیں، اس کی جگہ کوئی مرد ڈاکٹر کام کریگا۔ میں نے کہا کہ سمجھ لیجئے مجھے یا آپ کی امی کو کوئی اندرونی بیماری ہوگئی تو آپ کسی مرد ڈاکٹر کو دکھائیں گے یا لیڈی ڈاکٹر کو دکھائیں گے؟ اس نے کہا۔۔۔ ظاہر ہے تم لوگوں کو میں لیڈی ڈاکٹر کو ہی دکھاؤنگا، مرد ڈاکٹر تم کو کیوں دیکھے گا؟۔ میں بولی کہ اگر سب آپ کی طرح سوچنے لگے اور اپنی بیوی جو ڈاکٹر ہواس کو نوکری کرنے سے منع کردیا تو ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر ہی نہیں ہونگی تو آپ کیسے ہم کو کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھائیں گے؟ وہ نشے میں تھا اور میری بات سے گڑبڑا گیا کہ کیا جواب دے۔ جب اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا تو بولا۔۔۔ "مجھے نہیں پتہ وہ سب۔۔۔ تم نوکری نہیں کروگی مطلب نہیں کروگی۔ ہسپتال جانے کی کوئی ضرورت نہیں، گھر میں رہو۔ امی سے میری بھابی سے گھر کے طور طریقے سیکھو۔ بس بات ختم"۔


مجھے بھی غصہ آگیا کہ عجیب جاہلوں کے حوالے کردیا ہے میرے گھر والوں نے۔ میں نے کہہ دیا کہ۔۔۔ " میں نے ہسپتال سے سات دن کی چھٹی لی تھی جو آج ختم ہوگئی ہے۔ میں کل سے ڈیوٹی جوائن کرونگی۔ مجھے گھر کے طور طریقے کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں، مجھے سب آتے ہیں۔ میں ڈاکٹر ضرور ہوں مگر ہر کام کر سکتی ہوں"۔


میری بات سن کر سرفراز صاحب کی مردانہ انا کو ٹھیس لگ گئی۔ نشے میں تھے اور غصے میں انہوں نے مجھے ایک زور کا تھپڑ لگا دیا اور۔۔۔ گندی گندی گالیاں دینے لگے کہ۔۔۔ "حرام زادی میرے ساتھ زبان لڑاتی ہے، میری ماں کے ساتھ جھگڑا کرتی ہے۔ تیرے ماں باپ نے تجھے تمیز نہیں سکھایا"۔ ان کے اچانک تھپڑ سے میں لڑکھڑاگئی اور جاکے سنگھار میز کے آئینے سے ٹکرا گئی۔ میرے سر پہ آئینہ ٹوٹ کے کانچ گھس گیا اور بری طرح خون بہنے لگا۔ میں چیخ مار کر فرش پہ گڑ پڑی اور بیہوش ہوگئی۔


جب مجھے ہوش آیاتو میں نے دیکھا کہ میں ہسپتال میں ہوں اور میرے پاس امی بیٹھی ہیں اور ابو ڈاکٹر کے ساتھ کچھ بات کررہے ہیں۔ میں نے امی سے پوچھا کہ میرے سسرال والے کہاں ہیں؟ مجھے ہسپتال کون لے کر آیا؟ امی نے بتایا کہ تجھے ہسپتال سرفراز اور اس کے بھائی لے کر آئے اور ہمیں فون کیا کہ تم باتھ روم میں پھسل کر گر گئی ہو اور سر پہ چوٹ لگ گئی ہے، بہت خو ن بہہ جانے کی وجہ سے بیہوش ہوگئی ہو۔ ہم لوگ پریشان ہوگئے اور بھاگ کر ہسپتال آئے۔ میں نے ابو سے کہا کہ میرے شوہر کہاں ہیں ان کو بلائیں میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ تب ابو باہر گئے مگر کچھ دیر بعد واپس آکر بولے کہ باہر نہ سرفراز ہیں اور نہ ان کے بڑے بھائی۔ ان کے گھر کا کوئی بھی ہسپتال میں نہیں ہے۔ تبھی بھیا اندر آئے اور مجھ سے بولے کہ۔۔۔ نگار سچ بتا کہ ہو ا کیا ہے؟ تیرے شوہر اور اسکے بھائی ہسپتال میں تجھے چھوڑ کر گھر کیسے چلے گئے؟ کم سے کم تیرے ساتھ تیری ساس یا جیٹھانی کو آنا چاہئے تھا، تو کیسے گر گئی باتھ روم میں؟


میں رونے لگی۔ سب پریشان ہو گئے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے میری شادی جلدی کروانے کے چکر میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ لڑکا کیسا ہے اور ان کا گھر کیسا ہے۔ سرفراز شادی کی رات سے۔۔۔ اب تک ہر رات شراب کے نشے میں دھت آتے ہیں اور پھر میں نے بتا دیا کہ کیسے ان کی اماں نے دن میں اور پھر سرفراز نے رات کو گھر آکر مجھے نوکری چھوڑنے کی دھمکی دی اور جب میں نے ان کو سمجھایا کہ ہر نوکری کرنے والی لڑکی خراب نہیں ہوتی اور اگرعورت ڈاکٹری نہیں کریں گی تو آپ جیسے لوگ اپنے گھر کی عورتوں کو کس کے پاس لے کر جاؤگے جب وہ بیمار ہونگی۔ میں ہسپتال جاؤنگی اور نوکری کرونگی، میں نے ڈاکٹری کی پڑھائی اس لئے نہیں کی کہ گھر میں رہوں، کھانا بناؤں چولہا چوکا کروں۔ اس بات پہ سرفراز غصے میں آکر مجھے گالیاں دینے لگے اوراتنے زور سے تھپڑمارے کے میرا سر سنگھار میز کے آئینے سے ٹکرا کر زخمی ہوگیا اور میں بیہوش ہوگئی۔ آپ لوگوں کو دیکھ کر دونوں بھائی ڈر کر بھاگ گئے ہیں کہ جب میں آپ لوگوں کو حقیقت بتاؤنگی تو پھر آپ لوگ کہیں ان سے بھڑ نہ جائیں۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:6

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں