ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 05 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-09

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 05

novel-thankyou-corona-episode-05

پچھلی قسط کا خلاصہ:
حیدرآباد پہنچ کر ایک دن شام کے وقت امی کو فری دیکھ کر فرہاد نے اپنے کالج کے فوٹو اور نینی تال کے فوٹو دکھانے کے بہانے، نگار کے دو تین سنگل فوٹو بھی دکھا دئیے۔ امی بھی جہاں دیدہ تھیں سمجھ گئیں کہ لاڈلا بیٹا اس لڑکی میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ جبکہ فرہاد کے والد خاندان سے باہر کی لڑکی سے شادی کے خلاف تھے اور فرہاد کی خالہ زاد بہن زرین سے فرہاد کو بچپن سے منسوب کیا جا چکا تھا۔ فرہاد نے جب سب کے سامنے اس رشتے سے انکار کیا تو یہ بات سن کر زرین بےہوش ہو گئی اور اسے اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اس دوران فرہاد فلائیٹ سے دہلی روانہ ہو گئے۔ اب پانچویں قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 5 »

ایک مہینے کے لئے جدا ہونے والا محبوب اگر دو تین دن میں ہی واپس آجائے تو۔۔۔خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ہے۔ اپنی محبت پہ غرور ہونے لگتا ہے مگر نگار۔۔۔ سوچ میں پڑگئی کہ اچانک فرہاد کیسے واپس آگئے؟ فون پہ ان کی آواز بھی کچھ بھاری بھاری سی تھی جیسے طبیعت خراب ہو۔ اس نے پوچھا بھی کہ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ وہ بولے، ہاں ٹھیک ہے بس تم سے ملنا چاہتا ہوں، کب مل سکتی ہو اور کہاں بتاؤ؟ نگار نے کہا کہ شام ہوگئی ہے، ابھی کسی بہانے باہر نہیں جا سکونگی مگر کل گیارہ بجے تک کالج آجاؤنگی، انشاء اللہ۔ مگر بات کیا ہے کچھ تو بتائیں؟ فرہاد نے کہا کہ کچھ خاص نہیں، بس کچھ ضروری امور پہ تم سے مشورہ لینا ہے۔ آؤگی تو بتاؤنگا۔ خدا حافظ کہہ کر فون کاٹ دیئے۔


اب نگار کے لئے۔۔۔ ایک ایک پل کاٹنا مشکل ہو رہا تھا کہ کیسے شام رات میں اور رات۔۔۔ صبح میں ڈھل جائے تو وہ کالج جائے اور فرہاد سے مل کر وہ کونسی ضروری بات ہے سن لے تو دل کو چین آئے۔ نگار کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے ورنہ فرہاد یوں اچانک واپس نہیں آتے اور فون پہ بھی ان کے بات کرنے کا انداز یکدم روکھا سوکھا تھا۔نگار نے پریشانی میں رخسانہ کو فون کیا اور سب بات بتائی تو وہ بھی حیران ہوئی کہ ضرور کچھ بات ہے۔ پھر دونوں نے فیصلہ کیا کہ کل صبح رخسانہ آئے گی اور دونوں کالج لائبریری سے کتاب لینے کا بہانہ کرکے کالج جائیں گی۔


دوسرے دن کالج پہنچ کر نگار اور رخسانہ۔۔۔ فرہاد کوڈھونڈنے لگیں۔ ہوسٹل کے ایک دوست نے بتایا کہ فرہاد بستی نظام الدین گئے ہیں، محبوب الٰہیؒ کی زیارت کے لئے۔ گیارہ بجے کے قریب فرہاد آئے اور تینوں کالج کینٹن میں آکر بیٹھ گئے۔ فرہاد کے چہرے پر اداسی کے بادل چھائے ہوئے تھے، وہ بہت پریشان ہیں یہ ان کو دیکھ کر ہی نگار کی سمجھ میں آگیا تھا۔ رخسانہ کی وجہ سے وہ خود کو کنٹرول کر رہی تھی۔ فرہاد بھی سوچ رہے تھے کہ رخسانہ کے سامنے و ہ سب باتیں نگار کو بتائیں یا نہیں؟ رخسانہ ان کی جھجک کو سمجھ گئی اور بولی۔۔۔ یہاں کینٹن میں تم دونوں آرام سے بات نہیں کر پاؤ گے۔ لائبریری کے سامنے جو لان ہے وہاں چلے جاؤ اور دل کھول کے باتیں کرو۔ میں ذرا شلپا اور وندنا سے مل کے آتی ہوں۔ اور وہ چائے پی کر ان دونوں کو چھوڑ کر چلی گئی۔


فرہاد نے حیدرآباد پہنچنے سے لے کر۔۔۔ حیدرآباد سے کسی کو بتائے بنا بھاگ آنے کی ایک ایک بات تفصیل سے نگار کو بتا دیا۔ نگار سب سن کر۔۔۔ سُن ہو کر ان کا منھ تکنے لگی۔
فرہاد نے پوچھا۔۔۔ کیا سوچ رہی ہو؟ کچھ بولوگی بھی یا ایسے ہی تکتی رہوگی؟ نگار کی آنکھوں سے دو قطرے آنسو نکل کر اس کے رخسار تک آگئے، وہ جلدی سے ان کو صاف کرکے بولی۔۔۔
"میں زرّین کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ میں ایک لڑکی ہوں اور آپ سے صرف چھ مہینے سے محبت کرتی ہوں تو آپ کو کھونے کے تصور سے میری جان نکل جاتی ہے، اس لڑکی نے بچپن سے۔۔۔آپ کا نام جپ جپ کر جوانی کی دہلیز میں قدم رکھی ہوگی، آپ سے پیار کرتی ہوگی، آپ کی دلہن بننے کا سپنا دیکھتی ہوگی۔ اب یوں آپ کے چلے آنے سے اور اس شادی کے لئے انکار کر دینے سے اس کے دل پہ کیا گزری ہوگی؟ واقعی اس کو بہت بڑا صدمہ لگا ہے جس کی وجہ سے وہ ہسپتال پہنچ گئی ہے۔ اب آپ کے اس طرح بھاگ آنے سے پھر سے ایک باروہ صدمے سے نڈھال ہوچکی ہوگی"۔


فرہاد کو غصہ آگیا۔ وہ جھنجھلا گئے اور بولے۔۔۔" میں تمہیں یہاں اپنے پروبلم کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا ہے اور تم ہو کہ زرّین کا دکھڑا رونے لگی ہو۔ چلا جاؤں کیا واپس زرین کے پاس اور کر لوں اس سے شادی؟ گھونٹ دوں اپنی محبت کا گلا؟؟ "


"آپ میری جگہ ہوتے فرہاد تو سمجھ سکتے کہ جس سے محبت کی جائے اس پہ کسی اور کا سایا بھی برداشت نہیں ہوتاہے۔ مگر میں ایک لڑکی ہوں اور دوسری لڑکی کے جذبات کو سمجھ سکتی ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کے والدین نے بچپن میں آپ دونوں کو ایک دوسرے سے منسوب کرکے، آپ دونوں پر ظلم کیا ہے لیکن۔۔۔ اس میں اس بیچاری کا کیا قصور؟ "۔۔۔ نگار نے فرہاد کو سمجھایا۔


" تو کیا میرا قصور ہے؟ میں نے کہا تھا ا ن سے کہ بچپن میں ہی میرا رشتہ پکا کردو؟ " فرہاد چڑچڑے ہوگئے تھے۔ نگار نے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔۔۔"پلیز فرہاد، اپنے غصے کو کنٹرول کریں اور سوچیں کہ جو ہوگیا ہے اس کو ہم بدل نہیں سکتے۔ والدین نے کچھ سوچ کر فیصلہ لے لیا تھا۔ ان کو اُس وقت یہ پتہ نہیں تھا نا کہ آپ بڑے ہوکر دہلی پڑھنے آئیں گے اور یہاں مجھ سے محبت کربیٹھیں گے؟ دیکھا جائے تو اب میں ان کی نظر میں ویلیئن بن چکی ہونگی۔ کوئی بات نہیں۔ لیکن یہ سوچئیے کہ آپ کے یوں حیدرآباد چھوڑ کر آجانے سے وہاں۔۔۔ آپ کے گھر میں، زرّین اور اس کی فیملی میں۔۔۔ کیا ہو رہا ہوگا؟ "


فرہاد نے کہا۔۔۔ کیسے پتا کروں؟ وہاں فون نہیں کرسکتا کہ اگر کیا تو امی یا ابو فون اٹھائیں گے اور میں ان کا سامنا کرنا نہیں چاہتا۔ امی کی طبیعت خراب ہے، وہ رو رو کر مجھے جذباتی طور پر کمزور کردیں گی، ایموسنل بلاک میل ہونا نہیں چاہتا۔ بس اتنا چاہتا ہوں کہ ان کی طبیعت زیادہ نہ بگڑے۔ اس لئے حضرت نظام الدین ؒ کی درگاہ میں دعا کرنے گیا تھا۔


نگار نے کہا۔۔۔ آپ کوشش کیجیے اور کسی ایسے انسان کو فون کیجئے جو آپ کے گھر کی حالات بتا سکے اور امی ابو سے بھی کچھ نہ کہے۔ فرہاد نے سوچا۔۔۔ ایسا کون ہے جو وہاں کی خبر دے سکے۔ بہت سوچنے کے بعد ایک ڈرائیور چاچا ہی نظر میں آئے جو ان کے بچپن سے ہی ان کے یہاں ڈرائیور تھے۔ فیملی ممبر کی طرح تھے، انہوں نے فرہاد کو اپنی گود میں کھلایا تھا اور اسکول اور کالج بھی چھوڑنے جاتے تھے۔ نواب صاحب کے بہت وفادار تھے۔۔۔ اور نواب صاحب ان پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ فرہاد کو کار چلانے کی اجازت نہیں تھی کہ کہیں حادثہ نہ ہو جائے۔ نواب صاحب دن میں ایک آدھ بار مارکیٹ یا پھر کسی رشتے دار کے یہاں جاتے تھے تو ڈرائیور چاچا کی ضرورت پڑتی تھی ورنہ وہ دن بھر گھر میں پڑے رہتے تھے، کبھی بھاگ کر نواب صاحب کے لئے پان، زردہ یا سپاری لا دیتے تھے ، تو کبھی گھر کے کچھ اور کام کر دیتے تھے ورنہ ان کا کام تھا۔۔۔ باقی تمام نوکروں کے اوپر نظر رکھنا۔ گویا کہ گھر میں سب خدمت گاروں کے وہ پہرے دار تھے۔ سب ان سے ڈرتے بھی تھے اور ان کی عزت بھی کرتے تھے کیونکہ وہ سب سے بہت اخلاق سے بات کرتے تھے۔
نواب صاحب نے کرم کیا تھا اور ان کے گھر بھی ٹیلی فون کنکشن لگوادیا تھا تاکہ وقت ضرورت ان کو بلایا جاسکے۔ فرہاد نے نگار سے کہا کہ۔۔۔ یہ کام ڈرائیور چاچا کر سکتے ہیں مگر ابھی وہ ہمارے حویلی میں ہونگے یہ ان کے ڈیوٹی کا ٹائم ہے۔ شام کے بعد گھر آتے ہیں تبھی ان کو فون کرونگا۔


نگار نے ان کو تسلی دی کہ وہ کچھ اور نہ سوچیں۔ شام کو ڈرائیور چاچا سے وہاں کے حالات جاننے کے بعد ہی کچھ سوچیں گے۔ پھر فرہاد کا دھیان ہٹانے کے لئے بولی۔۔۔
" کیا آپ میری ایک مدد کریں گے؟ مجھے سروجنی مارکیٹ سے کچھ گرم کپڑے لینے ہیں امی ابو کے لئے۔۔۔ کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے۔ آپ کے ناپ کا لے لونگی تو ابو کو ٹھیک ہوجائے گا اور آپ کی پسند بھی ان کو پسند آئے گی اور میں امی کے لئے اپنی پسند کا شال لے لونگی"۔
فرہاد سچ میں خوش ہوگئے کہ نگار ان کی پسند کا سوئیٹر اپنے ابو کے لئے لینا چاہتی ہے۔ اور وہ اس کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہوگئے۔ نگار اور وہ لایبریری کو گئے اور رخسانہ سے کہا کہ وہ دونوں سروجنی مارکیٹ جارہے ہیں کچھ گرم کپڑے خریدنے ہیں۔ کیا وہ ساتھ چلے گی؟ نگار نے فرہاد کی نظر بچا کے رخسانہ کو آنکھ مار دی اور وہ سمجھ گئی۔ اس نے کہا۔۔۔ نہیں فرہاد بھائی آپ دونوں جائیں، میں ظفر کا انتظار کررہی ہوں۔ آپ لوگ واپس آئیں گے تو ساتھ میں لنچ کریں گے۔ نگار نے اشارے سے اس کو تھینکس کہا اور فرہاد کے ساتھ آٹو اسٹاپ کی طرف بڑھ گئی۔


نگار کو کچھ بھی خریدنا نہیں تھا بس۔۔۔ فرہاد کی پریشانی کو دور کرنے کے لئے، اس طرف سے دھیان ہٹانے کے لئے وہ اس کو سروجنی نگر مارکیٹ لے آئی تھی جو کہ کالج سے قریب تھا اور۔۔۔ دہلی کا بہت مشہور و مقبول مارکیٹ ہے یہ سروجینی مارکیٹ۔ چاندنی چوک کے بعد سب سے زیادہ بھیڑ یہاں ہوتی ہے۔ مڈل کلاس لوگوں کا سب سے پسندیدہ مارکیٹ ہے یہ اور اکثر نوجوان لڑکا لڑکی یہاں شاپنگ کے بہانے کچھ کوالٹی ٹائم ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے آتے ہیں۔ نگار اور فرہاد۔۔۔ گھومتے رہے، ایک دوکان سے دوسرے دوکان ہوتے ، چھولے بھٹورے کھائے، لسّی پی اور نگار نے فرہاد کی پسند کا ایک ہالف سوئیٹر اپنے ابو کے لیے لیا، امی کے لئے ایک کشمیری شال بھی لے لی۔ فرہاد نے ضد کر کے اپنی پسند کا ایک بلاک کلر کا سوئیٹر جس میں سامنے کی طرف سفید سفید گلاب کے پھول کاڑھے گئے تھے نگار کے لئے پسند کیا۔ وہ بہت خوش ہوگئی، فرہاد کی طرف سے یہ پہلا تحفہ تھا اس کے لئے۔ نگار نے بھی چاہا کہ وہ بھی فرہاد کے لئے ایک لیدر کا جاکیٹ خرید لے مگر فرہاد نے منع کر دیا کہ ان کے پاس پہلے سے ہی دو ایسے جاکیٹ ہیں۔ ہاں اگر وہ ان کو گفٹ کرنا چاہتی ہیں تو پھر اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ سوئیٹر بن کر دے۔ نگار اپنے محبوب کی ایسی خواہش پہ شرما گئی اور سر جھکا کر بولی۔۔۔ انشاء اللہ۔


دو بجے تک دونوں کالج واپس آگئے۔ فرہاد نے رخسانہ سے پوچھا کہ ظفر کہاں ہے؟ وہ بے دھیانی میں بول پڑی۔۔۔ مجھے کیا پتا؟ فرہاد نے کہا کہ تم نے ہی تو کہا تھا کہ ظفر آرہا ہے میں سروجنی مارکیٹ نہیں جاؤنگی۔ رخسانہ جھوٹ بولی تھی کیونکہ وہ نگار اور فرہاد کو اکیلا چھوڑنا چاہتی تھی تو گڑبڑا گئی اور بولی۔۔۔ ہاں اس نے کہا تو تھا کہ ایک بجے تک آجائے گا مگر دیکھ لیجیے دو بجنے والے ہیں مگر صاحب ابھی تک ندارد ہیں۔ مجھے بھوک لگی ہی، جلدی چلو کینٹن ورنہ چکن وغیرہ ختم ہو جائیں گے اور دال چاول مجھ سے کھایا نہیں جائے گا۔


لنچ کے بعد۔۔۔ رخسانہ اور نگار چلی گئیں اور جانے سے پہلے نگار نے فرہاد کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور بولی۔۔۔ میری وجہ سے آپ کتنا ٹینشن لے رہے ہیں، اگر میں آپ کی زندگی میں نہیں آئی ہوتی تو آج آپ۔۔۔ اپنی خالہ زاد سے شادی کرکے خوش رہتے اور آپ کے گھر والے بھی خوش۔ کاش۔۔۔ میں نینی تال نہیں گئی ہوتی؟ اور اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔
فرہاد نے تڑپ کر اس کو اپنے قریب کر لیا اور بولے۔۔۔ تم کو میری قسم ہے، آج کے بعد کبھی خود کو ان سب کا ذمہ دار نہ سمجھنا۔ تم میری زندگی میں نہیں بھی آتیں تو میں کبھی زرین سے شادی نہیں کر سکتا، کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح ہی دیکھا ہے۔ تم اور تمہاری محبت۔۔۔ خداکی نعمت ہے میرے لئے۔ وعدہ کرو مجھ سے کہ کبھی خود کو قصوروار نہیں سمجھوگی"۔
نگار نے اس کے سینے میں اپنا چہرہ رگڑ کر آنسوؤں کو پونچھ دیا اور مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے، اب میں چلتی ہوں۔ کل صبح 11 بجے کینٹن کے فون پہ کال کرونگی، آپ موجود رہنا۔ رات کو ڈرائیور چاچا سے بات کرلینا۔ میں کوشش کرونگی کہ پرسوں سنیچر ہے، کچھ گھنٹے کے لئے کالج آؤنگی۔ اچھا خداحافظ، اپنا خیال رکھئے گا۔ بائی!


نگار چلی گئی۔۔۔اپنے ساتھ ان کا چین و سکون بھی لے گئی۔ فرہاد پھر سے اکیلے ہوگئے۔ پھر سے۔۔۔ حیدرآباد اور گھر کی سوچ نے ان کو پریشان کردیا۔ شام تک انتظار کرنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ بھی سوچ رہے تھے کہ کہیں چلے جائیں گھومنے اور ٹھیک اسی وقت۔۔۔ ریڈلائن بس نمبر ۵۲۰۔۔۔ آگئی جو انڈیا گیٹ ہوتے ہوئے سینٹرل سیکریٹریٹ جاتی تھی اور وہ اس میں سوار ہوگئے کہ کہیں بھی اتر جائیں گے۔ بس یہ دو تین گھنٹے گزارنے ہیں۔


شام کے سات بجے کے بعد انہوں نے ڈرائیور چاچا کے گھر فون کیا۔ ڈرائیور چاچا خوشی اور حیرت میں پڑگئے اور بولے۔۔۔
"خان بابا آپ کہاں سے بول رہے ہیں؟ اچانک کہاں چلے گئے آپ ،پورا گھر پریشان ہے۔"
فرہاد نے کہا کہ آپ کو تو پتا ہے چاچا کہ گھر میں ہماری شادی اچانک پکی کردی گئی وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر۔ ایسے میں ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ دہلی چلے آئیں۔ آپ کو فون اس لئے کئے ہیں کہ وہاں کی خبر بتائیں۔۔۔ ہمارے آنے کے بعد کیا ہوا؟ امی کی طبیعت کیسی ہے؟


ڈرائیور چاچا نے بتا یا کہ۔۔۔ خان بابا آپ کے جانے کے بعد پورے گھر میں کہرام مچ گیا ہے۔ نواب صاحب غصّے میں آگ بگولہ ہو گئے ہیں اور سب سے کہہ رہے تھے کہ آج کے بعد کوئی فرہاد کا نام نہیں لے گا ہمارے سامنے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ کوئی ہمارا بیٹا بھی تھا۔ آپ کی امی کی طبیعت ویسی ہی ہے ، بیچاری بس روتی رہتی ہیں۔ آ ج بھی ڈاکٹرصاحب آئے تھے آپ کی امی اور زرین بیٹیا کو چیک کرنے کے لئے۔ فرہاد نے پوچھا۔۔۔ شگفتہ خالہ اور خالو اپنے گھر نہیں گئے ہیں کیا؟ چاچا نے بتایا کہ۔۔۔نہیں سب ہسپتال سے آپ کے گھر آکر رکے ہیں۔ آج رات پھر سے بات چیت ہوگی۔ آگے کیا کرنا ہے سوچیں گے، فیصلہ لیں گے۔


فرہاد نے ڈرائیور چاچا سے کہا۔۔۔ دیکھئے چاچا، ہم کبھی کبھی آپ کو شام کے بعد فون کریں گے اور آپ ہمیں گھر کی تمام خبر دیتے رہیں گے۔ خاص طور سے آپ سے گزارش ہے کہ امی کا خیال رکھئے گا۔ اور ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہم آپ سے فون کرتے ہیں یہ بات آپ ہمارے گھر میں کسی کو نہیں بتائیں گے، آپ کو ہماری قسم ہے۔
ڈرائیور چاچا نے ان کو بیچ میں روک دیا۔۔۔ خدا کے لئے اپنی قسم مت دیجئے خان بابا۔۔۔ آپ کی بات ہمارے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن کبھی انتہائی ضرورت پڑگئی کہ ہمیں بتانا پڑجائے تو ہم کو بتانا پڑیگا۔ آپ کی خیریت کے لیے آپ کی امی پریشان رہتی ہیں ان کو کم از کم بتانے کی اجازت دیجئے۔ فرہاد نے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے چاچا، ابھی نہیں جب آپ کو لگے کہ بتانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو آپ امی سے کہہ سکتے ہیں مگر ابو سے مت کہنا، کہیں وہ غصے میں آپ کو ہی رخصت نہ کردیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے آپ کی نوکری چلی جائے۔ پھر فرہاد نے ان کا شکریہ ادا کرکے فون بند کردیا۔


فرہاد۔۔۔ اکثر ڈرائیور چاچا کو فون کرکے امی ابو کی خیریت پوچھ لیا کرتے تھے۔ وہ انتظار کر رہے تھے کہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تب ہی وہ فون کریں گے۔ اسی طرح دو مہینے گزر گئے تو ایک دن فرہاد نے ڈرائیور چاچا سے پتا کیا کہ کل صبح ابو زمین جگہ کے سلسلے میں شہر سے دور جائیں گے۔ انہوں نے سوچا کہ یہی صحیح موقع ہے گھر فون کرنے کا، صرف امی ہونگی تو ان سے بات کرکے ان کو منا لونگا۔ اور انہوں نے فون کیا۔ فون ان کی پھوپی جان نے اٹھا یا جو بیوہ تھیں اور اکثر ان کے گھر آ کے رہتی تھیں، امی کا دل بھی لگا رہتا تھا اور ان کی مدد بھی ہوجاتی تھی۔ جب فرہاد نے ان کو سلام کیا اور خیریت پوچھنے کے بعد کہا کہ امی کو فون دیجئے تو۔۔۔
امی نے ان کا نام سن کر۔۔۔ فون لینے سے منع کردیا۔ پھوپی سے بولیں کہ۔۔۔فرہاد میاں سے کہہ دو کہ ہم ان سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ جب ان کے ابو گھر پہ ہوں تو وہ ان سے فون پہ بات کرکے ان سے اجازت لیں پھر ہم سے بات کریں۔ نواب صاحب نے ہم کو سختی سے منع کیا ہے ان سے بات کرنے سے اور ہم اپنے شوہر کے حکم کے خلاف نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ باتیں پھوپی ان سے کہتیں اس سے پہلے فرہاد نے دکھ اور غصے سے فون کاٹ دیا کیونکہ انہوں نے سب سن لیا تھا۔ فرہاد نے بھی دل میں سوچ لیا کہ اب میں بھی کبھی فون نہیں کرونگا، اگران کو میری فکر نہیں ہے تو مجھے بھی نہیں!!


دن ہفتے میں۔۔۔ ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے اور نہ کسی کے روکنے سے رکتا ہے۔ وقت اپنی مخصوص چال سے چلتا رہتا ہے۔۔۔ کسی کی خوشی اور غم سے اس کو کیا لینا دینا۔ فرہاد نے ماں باپ سے جدائی کے غم کو۔۔۔ نگار کی محبت میں ڈوب کر بھلا دیا۔ چھ مہینے سے زیادہ ہوگئے وہ حیدرآباد نہیں گئے اور نہ گھر فون کیا۔ ڈرائیور چاچا سے گھر کی خبر رکھتے رہے۔ ڈرائیور چاچا بھی ان کو اپنے بچوں سے زیادہ چاہتے تھے اور ہمیشہ سمجھاتے رہتے تھے کہ ایک بار گھر آجائیں اور امی ابو سے مل لیں، وہ ان کو معاف کردیں گے لیکن فرہاد نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اگر وہ گھر گئے تو وہاں ان کی شادی زبردستی کروا دی جائے گی۔ جب تک زرین کی شادی کہیں اور نہیں ہوجاتی ہم گھر نہیں جائیں گے۔ مگر فرہاد کو پتہ نہیں تھا کہ ادھر اس نواب زادی نے بھی قسم کھا لی تھی کہ اگر شادی کرونگی تو صرف انہیں سے جن کے نام سے بچپن سے منسوب ہوں ورنہ ایسے ہی کنواری رہوں گی۔ کسی اور کے لئے میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں، اگر آپ لوگوں نے زبردستی ہماری شادی کروانے کی کوشش کی تو میں اپنی جان دیدونگی۔ پھر ان کے گھر والوں نے بھی ضد کرنا چھوڑ دیا۔


دو سال گزر گئے۔۔۔ فرہاد حیدر آباد اپنے گھر نہیں گئے۔ گھر والوں نے بھی شاید صبر کرلیا تھا یا اپنی ضد پہ اڑے ہوئے تھے کہ انہوں نے ان سے بات تک نہیں کی۔ ہر ماہ ان کے نام منی آرڈر مل جاتا تھا بس۔ ڈرائیور چاچا سے گھر کی خبر مل جاتی تھی۔ فرہاد اپنی ضد پہ اڑے ہوئے تھے کہ شادی کریں گے تو صرف اور صرف نگار سے ورنہ نہیں۔ ادھر ماں باپ کی ضد تھی کہ ان کی بہو اگر کوئی بنے گی تو وہ زرین ہی بنے گی، ہم نے بچپن سے ہی اس کو اپنی بہو مان لیا ہے۔ ہمارے خاندان میں باہر کا خون شامل نہیں ہو سکتا۔ تیسری طرف زرین بھی پکا ارادہ کرکے بیٹھی تھی کہ جن کے نام سے منسوب اور خاندان بھر میں مشہور ہو گئی ہوں تو زندگی کی آخری سانس تک انہیں کا انتظار کرونگی، کسی اور کو اپنا جیون ساتھی نہیں بناؤنگی۔ تینوں طرف جھوٹی انا اور بے مطلب کی ضد تھی اور۔۔۔ تقدیر دور کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔!!


فرہاد اور نگار نے۔۔۔ ایم بی بی ایس کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ قسمت سے دونوں کو ہی دہلی میں دو بڑے ہسپتال میں نوکری بھی حاصل ہو گئی۔ فرہاد کو صفدرجنگ ہسپتال میں پوسٹنگ ملی اور زرین کو۔۔۔ سر گنگارام ہسپتال میں۔ دونوں بہت خوش تھے مگر دکھی بھی تھے کہ دونوں کی الگ الگ جگہ پوسٹنگ ہو گئی تھی۔ فرہاد نے دلاسہ دیا کہ کوئی نہیں کچھ دن میں ہی وہ کوشش کرکے اپنا ٹرانسفر کروالیں گے۔


زندگی اپنی روش پہ دوڑ رہی تھی۔ دونوں اپنی محبت کے سفر میں رواں دواں۔۔۔ گزر رہے تھے۔ دو تین دن میں کبھی فرہاد ڈیوٹی کے بعد نگار کے ہسپتال چلے جاتے تو کبھی وہ ان کے ہسپتال آ جاتی۔۔۔ کچھ گھنٹے دونوں ساتھ گزارتے اور پھر جدا ہوجاتے۔ ادھر نگار کے بھیّا کی شادی کی بات گھر میں چلی تو اس کے والدین نے سوچا کہ بیٹا کے ساتھ ساتھ بیٹی کی بھی شادی کرکے ایک ہی بار میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ انہوں نے نگار سے پوچھا بھی کہ ہم تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں، اگر تم کسی کو پسند کرتی ہو تو ہمیں بتا دو یا پھر ہم اپنی طرف سے تمہارے لئے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈتے ہیں۔ نگار کو فرہاد اور ان کے گھروالوں کے درمیان کا سارا قصہ معلوم تھا اور ایسے میں وہ فرہاد سے کیسے کہتی کہ اپنے گھر والوں کو ہمارے گھر بھیجو رشتے کے لئے۔ اس نے اپنے گھروالوں سے بہانہ بنا دیا کہ پہلے وہ ایم ڈی (M.D) کرے گی پھر شادی کے بارے میں سوچے گی، وہ بھیّا کی شادی کروا دیں۔ گھروالوں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا کہ۔۔۔ جب لڑکی اپنے پاؤں میں کھڑی ہوجاتی ہے تو ماں باپ کو بوجھ نہیں لگتی ہے۔وہ ٹھیک بھی کہہ رہی تھی کہ شادی سے پہلے ایم،ڈی کر لے گی تو اچھا رہے گا ورنہ شادی کے بعد گھر گرہستی کے ساتھ پڑھائی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی شادی ٹل گئی، بھیّا کی شادی ہوگئی۔


کچھ مہینے بعد۔۔۔ ایک شام فرہاد نے ڈرائیور چاچا کو فون کیا تو وہ گھر پہ نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بتایا کہ بیگم صاحبہ کو دل کو دورہ پڑا ہے تو وہ ان کو لے کر ہسپتال گئے ہیں، پتہ نہیں کب گھر لوٹیں گے۔ امی کو دل کو دورہ پڑا ہے سن کر فرہاد کا دل تڑپ اٹھا۔ انہوں نے پھر سے ڈرائیور چاچا کے گھر فون کرکے ان کے بیٹا کو اس بات کے لئے راضی کیا کہ وہ ہسپتال جائے اور ڈرائیور چاچا سے بولے کہ اس نمبر پہ مجھے فون کریں۔ اور اس کو اپنے ہسپتال کے انکوائری کا فون نمبر دیا۔
انکوائری میں بیٹھی اسٹاف سے بولے کہ میرا ایک بہت ہی ضروری فون آنے والا ہے۔۔۔جیسے ہی آئے مجھے فوراً بلایا جائے، میری امی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ایک گھنٹے بعد ان کا فون آیا۔۔۔ ڈرائیور چاچا تھے فون پر۔ انہوں نے بتایا کہ آج صبح آپ کے خالہ اور خالو گھر آئے تھے، بہت دیر تک گرما گرم بحث ہوتی رہی۔ ہم نوکر آدمی وہاں رک نہیں سکتے تھے مگر آتے جاتے ہم نے جو سنا اس سے لگا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں بول رہے تھے کہ کب تک ایسے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ دو سال سے زیادہ ہوگئے فرہاد کو یہاں سے گئے ہوئے، آپ لوگوں نے کوئی خبر نہیں لی، کیا پتہ اس نے دہلی میں شادی کرلی ہو اور موج کررہا ہو، ادھر میری بیٹی گھر بیٹھی اس کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہے۔ اسی طرح کی باتیں کچھ کچھ ہم سنے ہیں پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ آپ کے ابو بھی غصہ ہوگئے اور چلانے لگے آپ کے خالہ خالو کے اوپر۔ وہ دونوں غصے سے اسی وقت چلے گئے۔ پھر عصر کے بعد اچانک آپ کی امی کو دل کا دورہ پڑگیا۔ ہم لوگ فوراً ا ن کو ہسپتال لے کر آئے اور ابھی وہ آئی سی یو میں ہیں۔


امی کے ہارٹ اٹیک کا سن کر فرہاد کا دل ہول کھانے لگا۔ آخر کو وہ ان کے اکلوتے بیٹے تھے اور وہ ان کی ماں تھیں۔ فرہاد ابو سے زیادہ اپنی امی کے قریب تھے، ان کی ہر ضد امی پوری کرتی تھیں یا نواب صاحب سے کہہ کے کرواتی تھیں (بس اس نگار والی ضد اٹک گئی تھی)۔ امی آئی سی یو میں ہیں سن کر۔۔۔ فرہاد کے ہاتھ پاؤں جیسے پھول گئے۔ دو ڈھائی سال سے گھر نہیں گئے تھے، ماں باپ سے نہیں ملے تھے تو کیا ہوا۔۔۔ لہو لہو کو پکارے گا۔ ماں کی ہارٹ اٹیک کا سن کر یکدم بے چین ہوگئے، فوراً حیدرآباد جانے کے لئے ائیرپورٹ فون کرکے فلائٹ کا ٹکٹ بک کرایا جو ایک گھنٹے بعد تھی۔ اس کے بعد فرہاد نے سوچا نگار کو فون کر کے بتا دیتا ہوں کہ میں حیدرآباد جارہا ہوں۔ وہ بس امی کے لئے دعا کرے، ہو سکے تو بستی نظام الدین جا کر محبوبِ الٰہی کے دربار میں حاضری بھی دے اور ان سے دعا کی درخواست کرے۔
فون پہ انکوائیری گرل نے کہا کہ ویٹ کیجئے میں ابھی ڈاکٹر نگار کو بلا کر لاتی ہوں، سب فرہاد کو جانتی تھیں، اکثر ان کا فون آتا تھا نگار کے لئے۔ کچھ دیر بعد اس نے آ کر بتا یا۔۔۔ ڈاکٹر نگار آپریشن تھیڑ میں ڈاکٹر کھنّہ کو اسسٹ کر رہی ہیں، ابھی ان کو بلایا نہیں جا سکتا۔ آپ کوئی میسیج دیدیں، وہ جیسے ہی او،ٹی سے باہر آئیں گی میں دیدوں گی۔ پھر فرہاد نے کہا کہ ان سے کہنا، میری امی کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ آئی سی یو میں ہیں اور میں حیدرآباد جا رہا ہوں۔ وہاں سے رابطہ کرونگا۔ وہ امی کے لئے دعا کریں۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں