منیر ارمان نسیمی کا تعلق ضلع بھدرک (اوڈیشہ) سے ہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا تھا بعد ازاں وہ نثر کی طرف آئے اور انشائیے، افسانے اور افسانچے بھی تحریر کیے۔ نثر میں ان کی خصوصیت بےساختگی، بےباکی اور موضوعات کا تنوع ہے۔ اب تک ان کی آٹھ (8) کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ زیرنظر تصنیف "تھینک یو۔۔۔ کورونا" ان کا پہلا ناول ہونے کے ساتھ ساتھ غالباً ریاست اوڈیشہ کی عصری اردو دنیا میں اردو کا پہلا ناول بھی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کا یہ مختصر ناول کتابی شکل میں براہ راست مصنف منیر ارمان نسیمی (واٹس ایپ نمبر) سے رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ادارۂ تعمیرنیوز منیر ارمان نسیمی کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے سائبر دنیا میں ناول کے آن لائن مطالعہ کے لیے "تعمیرنیوز" کا انتخاب کیا۔
یہ ناول روزانہ ایک قسط کے حساب سے جملہ دس (10) قسطوں میں یہاں پیش کیا جائے گا۔ پہلی قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
ڈاکٹر نگار صدیقی کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔ اپنی جگہ پہ ایسے ساکت ہوگئی تھیں کہ جیسے کوما میں چلی گئی ہوں۔ سامنے کی دیوار کو پلکیں جھپکائے بغیر دیکھے جارہی تھیں۔ ادھر اُدھر کیا ہو رہا ہے، ڈاکٹر نرس وغیرہ بھاگ بھاگ کر کام کررہے تھے مگر۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ پتھر کی مورت بنی دیوار کو گھورے جارہی تھیں۔ اچانک ڈاکٹر شیوانی نے آواز لگائی۔۔۔۔۔۔ نگار ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔ وہاں کیا کر رہی ہو؟ لگتا ہے بہت تھک گئی ہو مگر۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نگار نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ ڈاکٹر شیوانی کو حیرت ہوئی کہ یہ نگار کو آخر کیا ہوگیا ہے؟ وہ بھاگ کر آئی اور نگار کا کندھا پکڑ کر زور سے ہلادی۔ نگار ایسے چونک گئی جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ جیسے نیند میں کوئی سپنا دیکھ رہی ہو اور شیوانی نے انہیں ہلا کر جگا دیا ہو۔
سپنا ہی تو تھا، ایک ایسا سپنا جس کو دیکھنے کی تمنا وہ پچھلے بیس سال سے کر رہی تھی اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ سپنا یوں سچ ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ وہ اب بھی یقین نہیں کررہی تھی کہ جو اس کی آنکھوں نے دیکھا ہے وہ سچ ہے۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی آنکھوں کو دھوکا ہوا ہے؟ کیا پچھلے ایک ہفتے کی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ اتنا تھک گئی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ بیڈ نمبر ۲۸ کا مریض اس کو اس کا برسوں سے کھویا ہوا محبوب نظر آرہا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ دو لوگوں کے چہرے اور جسمانی ساخت میں اتنی مشابہت ہو کہ وہ اس کے جیسا لگ رہا ہے مگراس کا نام بھی تو وہی ہے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرہاد علی خان۔ کیا دو انسانوں کے چہرے، قد و قامت کے ساتھ ساتھ نام بھی ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟!!
ڈاکٹر نگار صدیقی، پچھلے بیس سال سے صفدرجنگ اسپتال میں ایک ذمہ دار میڈیکل آفیسر کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ جتنی خوبصورت تھیں اس سے زیادہ ملنسار اورخوش اخلاق تھیں۔ میڈیکل کے تمام ڈاکٹر، نرس او ر مریض ان سے بہت خوش تھے۔ جونئیر ڈاکٹروں کی تو بات ہی مت پوچھیں وہ تو ڈاکٹر نگار صدیقی کے مرید ہو جاتے تھے۔ وہ ہر بات میں ان سے مشورہ لیتے تھے، کوئی بھی مشکل آجاتی تو سب سے پہلے نگار باجی کے پاس پہنچ جاتے تھے اور ان کو پتا تھا کہ وہ مایوس نہیں لوٹیں گے۔ وہ ان کی مدد کریں گی۔ گویا کہ وہ اسپتال کی ہر دلعزیز ڈاکٹر تھیں۔ سب ان کی بہت عزت کرتے تھے اور ان سے بہت محبت بھی کرتے تھے۔
ڈاکٹر شیوانی حیرت زدہ ہو کر ان کو دیکھ رہی تھی۔ کیا ہوا ہے نگار؟ کیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے؟ ایک ہفتے سے تم گھر نہیں گئی ہو۔ آرام نہیں ملا ہے،شاید اس وجہ سے پریشان ہو؟ کوئی بات نہیں آج تو تم گھر جانے والی ہو، تین دن کی چھٹی مل گئی ہے، بس کچھ گھنٹے کی بات ہے، چلی جانا۔ خوب آرام کرنا۔ میں نے بھی چھٹی کی درخواست دیدی ہے۔ میرے پتی کا کال آیا تھاکہہ رہے تھے کہ میری بیٹی اب ان سے سنبھالی نہیں جارہی ہے، وہ بس دن رات مما کے پاس جانا ہے، 'مما کب آئیں گی' کا رٹ لگائے ہوئے ہے۔ میں بھی کل تک گھر چلی جاؤں گی۔
ڈاکٹر شیوانی ملہوترہ اور ڈاکٹر نگار صدیقی دونوں بہت اچھی سہیلیاں تھیں اور دونوں ایک دوسرے کی ہمدم و ہمراز بھی تھیں۔ ایک دوسرے سے اپنی پریشانی بے دھڑک کہہ دیتی تھیں اور ایک دوسرے کے مشورے پر عمل بھی کرتی تھیں۔ اب دونوں سہیلی سے زیادہ دو پیار کرنے والی بہنیں تھیں۔ نگار کو اس طرح پریشان دیکھ کر شیوانی تڑپ گئی تھی اور ان کو سمجھا رہی تھی کہ شاید وہ پچھلے ایک ہفتے کی راؤنڈ دی کلاک ڈیوٹی کی وجہ سے تھکن سے چور چور ہے اور اب بکھرنے والی ہے۔ مگر نگار تو ایسی نہیں ہے، وہ تو چھٹی کے بعد بھی اگر کوئی امرجنسی آپریشن آجاتا تھا تو خوشی خوشی رک جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ گھر میں کون تھا جو اس کا انتظار کرتا؟ وہ اپنے آپ کو اسپتال میں، مریضوں کے درمیان کھو دیتی تھی کہ شاید اس طرح اس کا وقت کٹ جائے۔
وقت وقت کی بات ہے۔ ابھی ایک ہفتے پہلے تک سب کچھ کتنا اچھا تھا۔ مگر اچانک کہیں سے یہ مہلک وبا ـ "کورونا/کرونا" نے پہلے ملک چین کو پھر رفتہ رفتہ تمام دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ کسی نے اس کو خدا کا قہر تو کسی نے اس کو اللہ کا عذاب کہا۔ مگر عالمی صحت کمیٹی (WHO) نے اس کو COVID-19کا نام دیا۔ مگر عرف عام میں لوگ اس کو کرونا کہنے لگے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جراثیم نے ایک کے بعد ایک ملک کو اپنے لپیٹ میں لینے لگی اور دیکھتے دیکھتے ہمارا ملک بھی اس کی خطرناک پنجوں کے پکڑ میں آگیا اور ایک ہفتے کے اندر۔۔۔۔۔۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہوگئی۔ روز لاکھوں لوگ اس کا شکار ہونے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں مرنے لگے۔ اس اَن دیکھے دشمن نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ سرکاری حکم ہو گیا تھاکہ۔۔۔۔۔۔ ایک مہینے کے لیے سب بند۔ اس کو شاٹ ڈاؤن کہا گیا۔ کرفیو نافذ کردیا گیا۔ دکان، بازار، اسکول، کالج، دفتر، بس، ٹرین، یہاں تک کہ لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا گیا۔ جراثیم کے لگنے کا ڈر اس قدر حاوی ہوگیا کہ لوگ جان بچانے کے لئے گھر میں قید ہو کر رہنا منظور کرلئے۔ پرندے آزاد تھے مگر انسان گھر کے پنجرے میں قید تھا۔۔۔۔۔۔!!
ایسے پرخطر وقت میں جو لوگ انسانیت کی خدمت انجام دینے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے باہر تھے ان کو " کوویڈ یودھا" (Covid Warriors) کا نام دیا گیا۔ ان مجاہدوں میں سب سے پہلے آتے تھے ڈاکٹر، نرس، میڈیکل کے دوسرے اسٹاف جو اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کرونا مریضوں کی تیمارداری کر رہے تھے، دن رات ڈیوٹی دے رہے تھے، گھر نہیں جا رہے تھے، انسانیت کی خدمت میں اپنے آپ کووقف کر چکے تھے۔ ایسے ہی مجاہدوں میں ڈاکٹر نگار اور ڈاکٹر شیوانی بھی شامل تھیں۔ وہ دونوں پچھلے ایک ہفتے سے گھر نہیں گئی تھیں۔ دن رات کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھیں۔ سرکاری حکم تھا کہ کسی بھی ہیلتھ پرسن کو چھٹی نہیں ملے گی کیونکہ بیرون ممالک میں رہنے والے ارب پتی، کروڑ پتی بزنس مین کے اولاد یا رشتے دار وہاں سے بھاگ بھاگ کر گھر آرہے تھے اور ان کا گھر جانے سے پہلے اسپتال میں کرونا ٹیسٹ ہوتا تھا۔ اگر کوئی پوجیٹیو نکلتا تھا تو فورا اسکو کوویڈ اسپتال میں داخل کیا جاتا تھا اور جس کا نگیٹیو نکلتا تھا ان کو آئیسولیشن وارڈ میں داخل کیا جاتا تھا۔ جن مریضوں کی حالت نازک ہوتی تھی ان کو آئی سی یو میں داخل کیا جاتا تھا جہاں اسپتال کے بہترین ڈاکٹروں کی ٹیم ان کی جان بچانے کی پوری کوشش کررہی تھی کیونکہ وہ ملک کے بڑے بڑے ارب پتی اور کروڑ پتی کے گھر سے تعلق رکھتے تھے مگر موت کب کسی دولت مند کی دولت و رتبے سے مرعوب ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔!!
ڈاکٹر نگار اور ڈاکٹر شیوانی بہت اچھی ڈاکٹروں میں شمار ہوتی تھیں اس لئے ان کو بھی آئی سی یو وارڈ کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اور دونوں جی جان لگا کر مریضوں کی خدمت اور تیمارداری میں لگی ہوئی تھیں، پچھلے ایک ہفتے سے گھر نہیں گئی تھیں۔ وقت ملتا تھا تو کھا لیتی تھیں اور اگر تھوڑا زیادہ وقت ملا تو ایک ایک کر کے تھوڑا سو لیتی تھیں۔ گھر والوں سے فون کے ذریعہ بات ہوجاتی تھی۔ گھر والے بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ اسپتال سے گھر آئیں کیونکہ۔۔۔۔۔۔ گھر والوں کو بھی کرونا وائرس کا ڈر تھا اور یہ تو کرونا مریضوں کے درمیان رہ کر آرہی تھیں۔ واہ ری دنیا۔۔۔۔۔۔خون کے رشتے کمزور ہورہے تھے اور نگار اور شیوانی جیسے ڈاکٹر انسانیت کو بچانے میں اپنی جان جوکھم میں ڈال رہی تھیں۔ سلام ہے ایسے ڈاکٹروں کو۔۔۔۔۔۔ !!
بیرون ممالک سے آئے ہوئے ڈھائی سو لوگوں میں سے ایک سو چالیس لوگ کرونا وائرس کے شکار نکلے جن کو اسپتال میں ایڈمٹ کرلیا گیا تھا اور ان میں سے بتیس لوگ ایسے تھے جن کی حالت نازک تھی اور ان کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا۔ آئی سی یو میں دس مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر اور دس نرسوں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ ڈاکٹر نگار کی نگہداشت میں بیڈ نمبر 21 سے 30 کے دس مریض تھے۔ وہ ایک ایک کی کیس ہسٹری پڑھتی ہوئی ان کے لئے دوا تجویز کرتی ہوئی جب بیڈ نمبر 28 کے مریض کے پاس پہنچیں تو تب مریض تو بیہوشی کی حالت میں تھا مگر اس کے کیس ہسٹری پہ اس کا نام پڑھتے ہی ڈاکٹر نگار کے ہوش اُڑ گئے تھے۔
ڈاکٹر فرہاد علی خان۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرہاد علی۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرہاد۔۔۔۔
۔۔یہ نام ان کے دل و دماغ میں ہلچل مچا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگیں کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟ فرہاد تو ہزاروں لاکھوں لوگوں کے نام ہوسکتے ہیں، یہ وہی فرہاد ہوگا یہ ضروری تو نہیں مگر دل کہتا تھا کہ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ڈاکٹر ہے اور وہ بھی ڈاکٹر تھے، یہ بھی لنڈن سے آیا ہے اور وہ بھی شاید۔۔۔۔۔۔لندن چلے گئے تھے۔ ڈاکٹرنگار یہ سب سوچتے ہوئے آئی سی یو کے ائیرکنڈیشن کمرے میں بھی پسینہ پسینہ ہو رہی تھیں۔ نرس نے جب کہا کہ ڈاکٹر کیا ان صاحب کے لئے وینٹی لیٹر کا بندوبست کیا جائے؟ ان کا کیس بہت نازک ہے اور اوپر سے یہ دل کے مریض بھی ہیں تب۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نگار کو ہوش آیا کہ وہ کہیں کھو گئی تھیں۔ وہ چونک گئیں اور بولیں کہ ہاں ہاں جلدی سے ایک وینٹی لیٹر کا ریکیوزیشن دیدو اور پھر وہاں سے جلدی سے بھاگ کر اپنے چمبر میں چلی آئیں۔ نرس بیچاری پریشان کے ڈاکٹر نے بیڈ نمبر 29 اور 30 کے مریضوں کو نہیں دیکھا اور چلی گئیں۔ کیا ہوگیا ہے آج ڈکٹر نگار کو؟ وہ ان کو بلانے کے لئے جا رہی تھیں کہ ڈاکٹر شیوانی آ گئی اور اس نے نرس سے پوچھا کہ ڈاکٹر نگار کہاں ہے؟ تب نرس نے بتایا کہ پتا نہیں ڈاکٹر نگار کیوں اچانک جلدی میں یہاں سے دوڑ کرچلی گئیں جب کہ ابھی دو اور مریضوں کو بھی دیکھنا تھا۔ تب ڈاکٹر شیوانی کا ماتھا ٹھنکا کہ شاید کچھ گڑبڑ ہے ، نگار اتنی لاپرواہ نہیں ہو سکتی اور ڈاکٹر شیوانی جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹرس چمبر میں آئی اور دیکھا۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نگار دیوار کو ایک ٹک گھورے جارہی ہیں اور اس کی آواز کو بھی نہیں سن رہی ہیں۔ تب اس نے نگار کا کندھا پکڑ کر ہلادیا اور نگار یوں ہڑبڑا گئیں جیسے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہوں۔
ڈاکٹر شیوانی کے پوچھنے پر نگار کچھ نہ بولتے ہوئے ان سے لپٹ کر رونے لگی۔ شیوانی حیرت میں پڑگئی کہ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ مسکراتی رہنے والی اور ہر دکھ اور درد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی نگار کو آج کیا ہوگیا ہے؟ شیوانی نے ان کو ڈھارس بندھایا اور پوچھا کہ کیا بات ہے آخر بتاؤ تو سہی؟ آج تک تم کبھی اتنا کمزور نہیں ہوئیں کہ رونے لگو۔ آج تو تم گھر بھی جا رہی ہو چھٹی مل گئی ہے پھر کیوں رو رہی ہو؟ اور یہ تم بیڈ نمبر 28 کو دیکھنے کے بعد وہاں سے بھاگ آئیں جبکہ تم کو ابھی 29 اور 30 کو بھی اٹینڈ کرنا تھا۔ کیا ہوا؟ کیا تمہاری طبیعت خراب ہورہی ہے؟ کچھ تو بتاؤ میری جان، کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟ کس کے لئے رو رہی ہو؟؟؟
بیڈ نمبر 28 والے کے لئے رو رہی ہوں۔ نگار نے بیساختہ کہہ دیا۔
کیا؟ کیوں؟؟ میرا مطلب ہے کون ہے وہ جس کے لئے تم رو رہی ہو نگار؟؟؟ شیوانی نے حیرانی میں کئی سوالات کر ڈالے۔
"بیڈ نمبر 28 میں کوئی اور نہیں شیوانی۔۔۔۔۔۔ میرا فرہاد ہے"۔ نگار نے روتے ہوئے کہا۔
"کیا کہہ رہی ہو نگار۔۔۔۔۔۔ تمہارا فرہاد؟ تم نے کبھی کسی فرہاد کا ذکر نہیں کیا مجھ سے؟ تم تو سنگل ہو یہ سب جانتے ہیں پھر یہ فرہاد کون ہے؟ اور یہ لوگ تو لنڈن والی فلائٹ سے آئے ہیں نا؟ پھر لنڈن سے تمہارا فرہاد؟ کیا معاملہ ہے ڈیئر۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے بتاؤ۔ پہلے یہ رونا بند کرو۔۔۔۔۔۔لو یہ پانی پیو اور خود کو سنبھالو ورنہ دوسرے ڈاکٹرس ادھر آئیں گے اور تم کو روتا دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے؟"
شیوانی نے پانی کا گلاس دیا تو نگار ایک ہی سانس میں پی گئی اور خود کو سمبھالتے ہوئے سوچنے لگی کہ ۔۔۔۔۔۔ یااللہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ بیس سال سے جو راز سینے میں دفن کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ جس کا نام کبھی زبان تک نہیں آنے دیا تھا۔۔۔۔۔۔ آج اس کو دیکھ کرمیں کیوں بکھرنے لگی ہوں؟ اب تو شیوانی کو بھی پتا چل گیا ہے کہ فرہاد سے میرا کوئی گہرا رشتہ ہے تبھی تو میں اس طرح۔۔۔۔۔۔ ٹوٹ رہی ہوں، بکھر رہی ہوں، رو رہی ہوں۔ آخر وہ میرا کون ہے جو میں لگ بھگ بیس سال بعد بھی۔۔۔۔۔۔ اس کو اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بھول گئی؟؟؟
جب نگار خود کو سمیٹ چکی تو پھر شیوانی کی طرف شرمندگی سے دیکھنے لگی۔ اس سے نظریں ملانے سے کترانے لگی۔ شیوانی کہاں چھوڑنے والی تھی، وہ بھی اس کو دیکھ کر شرارت سے مسکرانے لگی اور ایک آنکھ دبا کر بولی۔۔۔۔۔۔ ہائے میری شیریں ۔۔۔۔۔۔ تم تو بڑی چھپی رستم نکلیں۔ کب سے ایک فرہاد کو ہم سب سے چھپاکر دل میں بسائے بیٹھی ہو۔ جلدی جلدی بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ تم دہلی میں، وہ لنڈن میں۔ کب ملے تم لوگ ، کب پیار ہوا؟ اور پھر تم لوگوں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ ؟ سب سے بڑی بات کہ تم نے اب تک یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی؟ کیا میں بھروسے کے قابل نہیں تھی یا میں تمہاری بیسٹ فرینڈ نہیں ہوں؟
نگار پھر سے تڑپ کر شیوانی سے لپٹ گئی۔ خدا کے لئے ایسا نہ کہو شیوانی، ایک تم ہی تو ہو جس کے ساتھ میں اپنا سکھ دکھ سب شیئر کرتی ہوں۔ بھیا،بھابی کے بعد ایک تم ہی تو ہو جس کو میں اپنا مانتی ہوں۔ تم سے میں کچھ نہیں چھپائی اور نہ کبھی چھپاؤں گی۔ مجھے تو بیس سال بعد آج اچانک۔۔۔۔۔۔ فرہاد کا پتا چلا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا ہے کہ وہ اکیلا ہے یا شادی شدہ ہے؟ بس اتنا جانتی تھی کہ وہ لنڈن میں ہے مگر آج اچانک وہ اس طرح۔۔۔۔۔۔ مریض کے روپ میں میرے سامنے آجائے گا یہ تو میں نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہیں تھا تو تم سے کیا بتاتی فرہاد کے بارے میں؟ اپنے دل کا وہ خانہ میں نے ہمیشہ کے لئے لاک کردیا تھا جہاں فرہاد اور اسکی یادیں بسی ہوئی ہیں!!
شیوانی حیرت زدہ اس کو تک رہی تھی۔ اس کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ بیس سال بعد اچانک اپنے محبوب کو اپنے سامنے دیکھ کر نگار جیسی سنجیدہ لڑکی یوں بکھر جائے گی۔ نگار کوئی بیس پچیس سال کی کمسن لڑکی نہیں تھی کہ ناسمجھی کرتی، وہ تقریباً چوالیس سال کی تھی اور اس عمر میں تو عشق محبت والی کہانی اپنے منزل تک پہنچ جاتی ہیں پھر آخر ایسا کیا ہوا جو یہ دونوں۔۔۔۔۔۔ بیس سال سے الگ الگ ہیں؟؟؟
شیوانی نے ماحول کے تناؤ کو دور کرنے کے لئے وارڈ بوئے کو آواز دی۔ پھر اس کو دو کپ کافی لانے کو کہا۔ کافی پینے تک دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم رہیں پھر شیوانی نے کہا۔۔۔۔۔۔ چلو نگار ، ذرا تمہارے فرہاد صاحب کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ بڑا قسمت والا بندہ ہے جو میری نگار کے دل میں بیس سال سے قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور ہمیں خبر ہی نہیں۔ اچھی طرح خبر لونگی میں اس فرہاد کے بچے کی! شیوانی کی باتوں نے نگار کو مسکرانے پر مجبور کردیا۔ شیوانی تھی بھی ایسی، نگار کو اپنی سگی بہن سے زیادہ مانتی تھی اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں!
دونوں آئی سی یو میں آئیں اور بیڈ نمبر 28 کے پاس پہنچ گئیں۔ اسی وقت سی ایم او (Chief Medical Officer) صاحب بھی آگئے اور ڈاکٹر نگار سے بولے کہ کیا بات ہے نگار، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ آپ دو مریضوں کو دیکھے بغیر چلی گئیں تو نرس نے مجھے بلایا اور میں ضروری کام چھوڑ کر ادھر آیا۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ ان کی بات سن کر ڈاکٹر نگار شرمندہ ہوگئی۔ کیا بولے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ڈاکٹر شیوانی نے بات کو سمبھال لیا اور بولی۔۔۔۔۔۔
معاف کیجئے گا سر، وہ ذرا تھکان کی وجہ سے نگار کو چکر آگئے تھے، پچھلے ایک ہفتے سے ہم لوگ اسپتال میں مریضوں کو اٹینڈ کررہے ہیں، ہم بھی انسان ہیں کوئی مشین نہیں۔ ویسے سب ٹھیک ہے سر، ہم دونوں ہیں یہاں پر۔۔۔۔۔۔ ابھی باقی کے مریضوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ آپ جائیں، آپ کو تکلیف ہوئی اس کے لئے سوری۔
اور وہ چلے گئے۔ نگار نے شیوانی کو بڑی محبت سے دیکھا اور شیوانی اس کو آنکھ مار کے ہنس پڑی۔پھر نرس کی طرف گھوم کر غصّے سے بولی۔۔۔۔۔۔ اگر ڈاکٹر نگار کسی کام سے چلی گئی تھیں تو کیا تم مجھے بلا نہیں سکتی تھیں؟ سیدھا چلی گئیں سی ایم او کے پاس۔ کیا سوچی تھیں تم وہ تمہاری فرض شناسی سے خوش ہوکر شاباسی دیں گے؟ نرس بیچاری جلدی سے سوری بول کر وہاں سے ہٹ گئی۔
شیوانی اور نگار۔۔۔۔۔۔ دونوں فرہاد کو دیکھ رہی تھیں۔ کتنے سکون سے سویا ہوا تھاوہ۔۔۔۔۔۔ دوسروں کو بے سکون کر کے۔ شیوانی سوچ رہی تھی کہ یہ صاحب خود ایک ڈاکٹر ہیں، اوپر سے دل کے مریض بھی اور اب کرونا کا شکار بھی۔ ان کو کیسے کرونا ہو گیا؟ کیا انہوں نے لنڈن میں کرونا کے مریضوں کو اٹینڈ کیا ہوگا؟ ڈاکٹر ہونے کے ناطے خود کا خیال تو رکھ سکتے تھے۔ اُدھر نگار سوچ رہی تھی کہ فرہاد کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ کیا فرہاد لنڈن سے اکیلے آئے ہیں؟ ان کے گھر سے کسی نا کسی کو تو آنا چاہئیے تھا ان کو لینے کے لئے جیسے دوسرے مریضوں کے لئے ان کے ماں باپ، بھائی بہن یا کوئی رشتے دارآئے ہوئے ہیں۔ کیا فرہاد اپنی بیوی بچوں کو لنڈن میں چھوڑ کراکیلے انڈیاآئے ہیں؟ کیا فرہاداتنے غیرذمہ دار ہیں کہ خودبھاگ آئے اور بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ دیا؟ مگر یہ دل کے مریض؟؟؟
شیوانی کی آواز سے نگار چونک کر سوچ نگری سے واپس آگئی۔ شیوانی کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔سنو نگار تم بیڈنمبر۲۹ کو دیکھ لو اور میں بیڈنمبر۳۰ کو۔ پھر ہم چمبر میں جاکر آرام سے تمہارے فرہاد کے بارے میں بات کریں گے۔۔۔۔۔۔ تم کب تک ان کو ایسے تکتی رہوگی؟ دیکھو نرس بھی تم کو گھور رہی ہے۔ نگار سچ میں سہم گئی اورگھبرا کے نرس کی طرف دیکھنے لگی جوکہ مریض کے لئے انجکشن تیار کررہی تھی۔ پھر شیوانی کی طرف دیکھا تو وہ شرارت سے ہنس رہی تھی۔ نگار جھینپ گئی۔
دونوں چمبر میں آکر کافی پینے لگیں۔ جب سے کرونا وبا کا سلسلہ شروع ہوا ہے دونوں دن بھر میں زیادہ کافی پینے لگی تھیں۔ شیوانی بہت بے چین تھی نگار سے فرہاد کے بارے میں جاننے کے لئے۔ اب تک وہ بس اتنا جانتی تھی کہ نگار سنگل ہے اور دہلی میں اپنے بھیا ، بھابی اور بھتیجی کے ساتھ رہتی ہے۔ بھتیجی روزی اس کی جان ہے۔ دونوں میں اتنی مشابہت ہے کہ لوگ اس کو اسکی ہی بیٹی سمجھ لیتے ہیں۔ روزی بھی اپنی بُوا جی (نگار) کوبیحد پیار کرتی ہے۔ جب ڈیوٹی سے نگار گھر جاتی ہے تو پھر روزی ہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ بھیا بھابی کو بہت سکون مل جاتا ہے۔ کہیں بھی دونوں اکیلے چلے جاتے ہیں بیٹی کو نگار کے پاس چھوڑ کر۔ نگار نے دوبارہ شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بھیا بھابی پہلے پہل دو ایک رشتہ لائے بھی مگر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے اب دوسری شادی نہیں کرنی ہے۔ اگر میں آپ لوگوں کو بوجھ لگتی ہوں تو پھر میں اپنا کہیں اور رہنے کا انتظام کرلیتی ہوں۔
بھیا بھابی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا بھلا۔ وہ تو بس اپنا فرض پورا کر رہے تھے۔ ویسے بھی وہ ڈاکٹر تھی اور پیسہ کما رہی تھی، خود کفیل تھی ان کے اوپر بوجھ نہیں بلکہ رحمت کی طرح تھی۔ ان کی بیٹی روزی کی تمام خواہشات وہی پورا کرتی تھی، طرح طرح کے ملبوسات، جوتے، کھلونے، وغیرہ جب جو مانگتی تھی بُوا جی فوراً لا دیتی تھی۔ ماں باپ بہت خوش تھے کہ ان کا پیسہ بچ جاتا تھا۔ نگار کی زندگی۔۔۔۔۔۔ ہاسپیٹل سے گھر اور۔۔۔۔۔۔ گھر سے ہاسپیٹل تک محدود تھی۔ کسی تقریب میں، شادی بیاہ میں نہیں جاتی تھی کہ رشتے دار وہاں ہمدردی کے بہانے اس سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے جیسے طلاق شدہ ہونا کوئی گناہ ہو۔ جیسے صرف وہی قصوروار ہو۔ مرد طلاق دے کر دوبارہ اپنی زندگی میں مشغول ہو جاتا ہے، ہمارا سماج اس سے کوئی سوال نہیں کرتا مگر۔۔۔۔۔۔عورت کا جینا مشکل کر دیتا ہے ہمارا دوغلا سماج اور۔۔۔۔۔۔ رشتے دار!
"نگار۔۔۔۔۔۔ کب تک سوچتی رہوگی؟ دیکھو مجھ سے کچھ مت چھپانا۔ بولو کیا بات ہے؟ کون ہے یہ ڈاکٹر فرہاد؟ کیسے جانتی ہو تم اس کو؟ آج تک تم نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا تو پھر فرہاد کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتائی؟"۔۔۔۔۔۔ شیوانی نے سوالات کی بوچھار کر دی۔
"کیا بتاتی اس انسان کے بارے میں جو میرا سب کچھ تھا مگر۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ بیس سال پہلے وہ اچانک میری زندگی سے ایسے غائب ہوگیا جیسے دھوپ کے نکلتے ہی اوس کی بوندیں۔ جس کے بارے میں خود مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ کیسا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا زندہ بھی ہے؟ تو تم کو کیا بتاتی میں ؟"
شیوانی حیرت زدہ اس کودیکھ رہی تھی۔ بولی۔۔۔۔۔۔" او کے بابا، تم کچھ بھی نہیں جانتی تھیں کہ فرہاد کہاں ہے؟ بیس سال سے وہ غائب تھا آج اچانک تمہارے سامنے نازل ہوگیا ہے۔ مگر میری جان! بیس سال پہلے تو تم جانتی تھیں نا کہ فرہاد تمہاری زندگی ہے، تمہاری جان ہے۔ مجھے وہی تو جاننا ہے کہ فرہاد کا اور تمہارا کیا رشتہ تھا؟ تم دونوں کب کہاں اور کیسے ملے تھے؟ تم دونوں میں پیار کیسے ہوا؟ پھر جدائی کیوں ہوئی؟ تم دونوں نے شادی کیوں نہیں کی؟ جلدی جلدی بتاؤ ڈئیر۔۔۔۔۔۔ مجھ سے اب صبر نہیں ہو رہا ہے ـ۔"
نگار نے دیکھا کہ اب شیوانی سے کچھ بھی چھپانا مشکل ہے۔ ویسے بھی اس بھری دنیا میں وہی ایک اس کی رازدار تھی۔ اب فرہاد کے ہاسپیٹل میں ایڈمٹ ہونے کے بعد تو شیوانی کی بہت ضرورت تھی اس کو ، اس سے کچھ چھپا کر اس کو ناراض نہیں کرناچاہتی تھی۔ کیا پتا کب اس کی مدد لینی پڑجائے۔ اس لئے نگار نے سوچاکہ پھر سے ایک بار اپنی کہانی دہرانی پڑیگی۔۔۔۔۔۔ پھر سے ایک بار۔۔۔۔۔۔ درد کے طوفان سے گزرنا ہوگا۔
بات ان دنوں کی ہے جب ہم دونوں میڈیکل کے تھرڈ ائیر میں تھے اور پکنک میں گئے ہوئے تھے۔ فرہاد شروع سے ہی بہت سنجیدہ مزاج کے تھے اور بہت کم کسی سے بولتے تھے، ہنسنا تو دور کی بات ہے۔ لڑکوں میں بھی صرف ظفر ہی ان کا دوست تھا کیونکہ دونوں روم میٹ تھے اور۔۔۔۔۔۔ لڑکیوں سے تو وہ بات ہی نہیں کرتے تھے۔ کئی لڑکیوں نے ان کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی تھی مگر مایوس ہوکر انہیں مغرور۔۔۔۔۔۔ اکھڑ۔۔۔۔۔۔ بدمزاج۔۔۔۔۔۔ اور نا جانے کیا کیا نام دے رکھا تھا۔
وہ تھے بھی مردانہ وجاہت کے شاہکار۔ ظفر نے بتایا تھا کہ فرہاد حیدرآباد کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماں باپ کے اکلوتی اولاد ہیں۔ والدین چاہتے تھے کہ وہ صرف پڑھ لکھ لیں اور پھر۔۔۔۔۔۔ زندگی بھر نوابی کریں۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ زمین جائیداد اتنی تھی کہ بیٹھ کر کھاتے بھی تو کئی عمریں نکل جاتی مگر فرہاد کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا جو دھیرے دھیرے جنون میں بدل گیا تھا۔ وہ تھے بھی بہت ذہین اور اسکول سے لے کر کالج تک ہر امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے تھے۔ غضب کی یادداشت تھی اور اپنی لگن و محنت سے جب ان کا سلیکشن میڈیکل میں ہوگیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہو گئے کہ اب دہلی جائیں گے اور ڈاکٹر بن کے واپس آئیں گے۔ مگر والدین اپنی اکلوتی اولاد کو خود سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے منع کردیا کہ بہت پڑھ لیا آپ نے اب دہلی جاکر ڈاکٹری کی پڑھائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر بھی اگر آپ کو پڑھائی کرنی ہے تو یہیں حیدرآباد میں ہی کوئی کورس کر لیجئے، ہماری آنکھوں کے سامنے رہیئے۔ آپ ہمارے دل کا چین اور روح کا سکون ہیں۔ آپ دہلی چلے جائیں گے تو ہم دونوں کیسے رہیں گے؟
مگر فرہاد بچپن سے ہی بہت ضدی تھے۔ جو کہتے تھے وہ کر گزرتے تھے۔ اسکول کے زمانے سے ان کو ڈاکٹر بننے کی تمنا تھی اور اب جبکہ ان کا خواب۔۔۔۔۔۔ شرمندہٗ تعبیر ہونے والا تھا تو والدین منع کررہے تھے۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم دہلی جائیں گے اور میڈیکل میں ایڈمیشن لیں گے، آپ لوگ خوشی خوشی اجازت دیں گے تو خوشی سے جائیں گے اور ہر ہفتے پندرہ دن میں آپ سے ملنے آجائیں گے۔ اور اگر اجازت نہیں دیں گے تب بھی ہم جائیں گے مگر آپ سے ملنے نہیں آئیں گے۔ اب فیصلہ آپ دونوں کے ہاتھ ہے کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟
رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com
Mujhe Yeh Novel bohat interesting laga. Corona abhi bhi aafat machaye huye hai. Aise main Munir Armaan saheb ne ek novel likh bhi diya aur publish bhi kar diya, Thank you Corona. Mubarakbad. Dusri Qist ka intezaar hai.
جواب دیںحذف کریںAafreen Tabassum