دبئی کے یوسف علی کی مدد اور کرشنن کی موت کے منہ سے واپسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-04

دبئی کے یوسف علی کی مدد اور کرشنن کی موت کے منہ سے واپسی

keralite-becks-krishnan-uae-saved-from-death-row-yusuff-ali

کرشنن موت کے منہ سے واپس آ گیا ۔۔
یوسف علی نے ایک کروڑ دے کر نئی 'زندگی' خرید لی

یہ خبر ماب لنچنگ کے شوقین شرپسندوں اور ان کے آقاؤں کیلئے ہے۔۔ لیکن جنہیں یہ خبر شور مچا مچا کر شرپسندوں اور ان کے آقاؤں تک پہنچانی چاہئے تھی انہوں نے نہیں پہنچائی۔۔ حد تو یہ ہے کہ یہ خبر بڑے پیمانے پر ماب لنچنگ کی شکار قوم تک بھی نہیں پہنچی۔


کیرالہ کا باشندہ 'بیکس کرشنن' ابوظہبی میں ڈرائیور تھا۔ 2012 میں اس کی کار سے کچل کر ایک 6 سالہ سوڈانی لڑکے کی موت ہو گئی تھی۔ وہ گرفتار ہوا اور تحقیقات کرنے والی پولیس، سی سی ٹی وی کیمروں اور عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرکے اس نتیجہ پر پہنچی کہ کرشنن بڑی لاپروائی سے کار چلا رہا تھا۔ 2013 میں متحدہ عرب امارات کی سپریم کورٹ نے اسے موت کی سزا سنا دی۔ کرشنن کے اہل خانہ اور اس کے وکیلوں نے بہت کوشش کی لیکن اس کی سزائے موت کو کالعدم نہیں کرا سکے۔ کرشنن نے دعوی کیا تھا کہ وہ 'اوور ٹائم' کر رہا تھا، وہ بہت تھکا ہوا تھا اور اسے نیند کا جھونکا آ گیا تھا۔


کرشنن کے اہل خانہ جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے متحدہ عرب امارات میں مقیم کیرالہ کے 65 سالہ بزنس مین اور "لو لو" گروپ کے چیرمین یوسف علی سے رابطہ کیا۔ یوسف علی نے جب اس سلسلہ میں کوشش شروع کی تو اس وقت تک سوڈانی بچے کے اہل خانہ متحدہ عرب امارات چھوڑ کر واپس سوڈان چلے گئے تھے۔ اب یہ کام بہت مشکل ہو گیا تھا۔۔ کرشنن کی سزائے موت اسی صورت میں ختم ہو سکتی تھی جب ہلاک شدہ بچے کے اہل خانہ قصاص لے کر یا فی سبیل الله اسے معاف کر دیں اور سپریم کورٹ میں آ کر اپنے بیانات بھی قلم بند کرائیں۔۔


اولاً تو سوڈانی فریق کو ہی تیار کرنا بہت مشکل تھا۔ اوپر سے انہیں صرف عدالت میں بیان دینے کیلئے واپس متحدہ عرب امارات لانا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ یوسف علی کی ٹیم نے پہلے تو متاثرہ بچے کے اہل خانہ کو تلاش کیا۔ پھر ان سے گفتگو شروع کی۔ ایک دو نہیں گفتگو کے درجنوں دور ہوئے۔جب کئی برسوں کی گفتگو کے بعد مرنے والے کے اہل خانہ تیار ہوئے تو اس کی ماں بپھر گئی اور اس نے "قاتل" ڈرائیور کو معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا۔ اس کی ماں کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچے کے "قاتل" کو تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہوں۔


یوسف علی کی ٹیم نے اس کام کیلئے سوڈان کی موقر شخصیات اور معاشرہ پر اثر رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے ماں کو مذہبی اور انسانی پہلوؤں کا حوالہ دے کر سمجھایا۔ آخر کار "مقتول" لڑکے کی ماں بھی مان گئی۔ 2013سے 2019 تک کا عرصہ اسی کوشش میں گزر گیا۔
اب جبکہ مقتول کے اہل خانہ مان گئے تو یہ مشکل سامنے آ گئی کہ وہ متحدہ عرب امارات آنے کو تیار نہیں تھے۔ یوسف علی کی ٹیم نے تمام سفری اخراجات کے علاوہ انہیں ایک رقم کے عوض متحدہ عرب امارات آنے کو تیار کر لیا۔ مگر پھر کورونا کی وبا سامنے آ گئی۔ یوں سوڈانی فریق سفر کرنے کو تیار ہوا تو اب سفر پر پابندی لگ گئی۔
آخر کار جنوری 2021 میں انہیں ابو ظہبی لانے میں کامیابی مل گئی۔ ایک بیان میں یوسف علی نے کہا کہ قاتل کو معاف کرنے کیلئے مقتول کے اہل خانہ کو تیار کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔


گزشتہ 13/جنوری کو مقتول کے اہل خانہ نے عدالت میں آ کر بیان دے دیا کہ انہوں نے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یوسف علی کے گروپ کو پانچ لاکھ درہم یا ایک کروڑ ہندوستانی روپے عدالت میں جمع کرانے پڑے۔ عدالت نے "قصاص" کا یہ صلح نامہ منظور کر لیا اور رہائی کے بعد گزشتہ 9/جون کو کرشنن کیرالہ واپس پہنچ گیا۔۔


ابو ظہبی میں جب اسے جیل میں یہ خبر سنائی گئی اور اس سے پوچھا گیا کہ جیل سے نکل کر پہلا کام کیا کرو گے؟
تو اس نے کہا کہ میں سب سے پہلے "خود کو نئی زندگی" دینے والے کے پاؤں چھونے کیلئے اس کے گھر جاؤں گا۔ کرشنن کی یہ خواہش پوری کی گئی۔ یوسف علی نے کرشنن سے وعدہ کیا کہ وہ ابوظہبی سے باہر اسے کہیں نوکری بھی دیں گے۔


9/جون کو جب 45 سالہ کرشنن، تھیرواننتا پورم ایرپورٹ پر پہنچا تو اسے میڈیا والوں نے گھیر لیا۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ 10/جون کو کسی چینل پر یہ خبر نہیں تھی۔ میڈیا کو دلچسپی 'موت کے منہ سے واپس آنے والے قاتل کرشنن میں تھی' انسانیت کے محسن اس شخص میں نہیں تھی جس نے اسے موت کے منہ سے نکالنے کیلئے کروڑوں خرچ کر دئے تھے۔۔۔


***
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Column: M. Wadood Sajid.
Keralite in UAE saved from death row after Yusuff Ali pays Rs 1 cr blood money
Critical Intervention of MA Yusuff Ali; Becks Krishnan to return home

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں