ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 02 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-06

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 02

novel-thankyou-corona-episode-02

پچھلی قسط کا خلاصہ:
ڈاکٹر نگار صدیقی، پچھلے بیس سال سے صفدرجنگ اسپتال میں ایک ذمہ دار میڈیکل آفیسر کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ جتنی خوبصورت تھیں اس سے زیادہ ملنسار اورخوش اخلاق تھیں۔ لہذا تمام ڈاکٹر، نرس اور مریض ان سے بہت خوش رہتے تھے۔ کورونا مریضوں کی معالجت کے دوران ایک دن آئی۔سی۔یو میں چوالیس سالہ ڈاکٹر نگار ایک مریض کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئیں اور اپنے حواس کھو بیٹھیں۔ ساتھی ڈاکٹر شوانی کے پےدرپے سوالات پر وہ صرف اتنا کہہ سکیں: "بیڈ نمبر 28 پر کوئی اور نہیں شیوانی۔۔۔۔۔۔ میرا فرہاد ہے"۔۔۔ اب اس دلچسپ ناول کی دوسری قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 2 »

پھر وہ دہلی آگئے اور میڈیکل کی پڑھائی کرنے لگے۔ لمبا قد، ورزشی جسم اور سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے لاکھوں میں نہ سہی ہزاروں میں ایک تھے۔ میڈیکل کالج کی لڑکیاں انہیں چوری چوری دیکھتی تھیں اور آہیں بھرتی تھیں۔ کچھ ایک جو ذرا اسمارٹ قسم کی تھیں انہوں نے آگے بڑھ کر دوستی بھی کرنے کی کوشش کی تھی مگر۔۔۔ افسوس فرہاد کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے تھے، بس بات سلام دعا سے آگے نہیں بڑھاتے تھے۔ ایسے میں ان کو مغرور اور نہ جانے کیا کیا نام سے پکارا جاتا تھا۔ کئی رئیس زادے بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے مگر فرہاد کے سامنے وہ بھی انیس نظر آتے تھے، انہوں نے فرہاد سے دوستی کرنے میں پہل کی اور فرہاد نے بھی ان کی بڑھے ہوئے ہاتھ تھام لئے۔ ان سب میں ظفر ان کے بہت قریب تھا۔ دونوں کی بہت اچھی بنتی تھی۔ ظفر ایک بڑے صنعت کار کا اکلوتا بیٹا تھا مگر تنہائی کا شکارتھا۔ ماں باپ کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے دونوں الگ الگ رہتے تھے اور ظفر دہلی میں والدین کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا تھا۔ فرہاد اور ظفر دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے تو دونوں۔۔۔ بہت جلد بیسٹ فرینڈ بن گئے۔


کالج کی طرف سے پکنک کے لئے نینی تال جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فرہاد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ظفر نے ایک نہیں سنی اور اس کی طرف سے بھی فیس بھر دی۔ دہلی سے نینی تال 345 کیلومیڑ دور ہے اور ایک معروف ہل اسٹیشن جہاں ہر دن ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ ہمالیہ کے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں کا موسم بھی کافی سہانا ہوتا ہے اور دیکھنے کے لئے، گھومنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ یہ لوگ دو دن کے ٹور پر گئے تھے۔ شام کے بعد دہلی سے سفر شروع کیا اور صبح سویرے نینی تال کے سب سے پہلے ٹورسٹ پلیس نینا دیوی مندر پہنچ گئے۔ جن لوگوں کو مندر دیوی کے درشن کے لئے جانا تھا وہ چلے گئے اور فرہاد، ظفر ، نگار، شاہین، رخسانہ، عمران، سلیم وغیرہ نینا لیک گھومنے چلے گئے۔
دسمبر کی میٹھی میٹھی سردی میں بادلوں سے ڈھکے ہوئے نینا لیک کی خوبصورتی نے سفر کی تکان کو پل بھر میں دور کر دیا۔ گرم گرم چائے کے ساتھ وہ لوگ فوٹو لیتے رہے۔ عمران شاہین کے ساتھ اور سلیم رخسانہ کے ساتھ حسین قدرتی مناظر کا لطف لے رہے تھے۔ ظفر تو شروع سے ہی نگار میں دلچسپی لے رہا تھا مگر وہ ہمیشہ کترا کے نکل جاتی تھی، تنہائی کا موقع ہی نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنے دل کی بات کہہ سکتا۔ ہمیشہ سہیلیوں کے درمیان رہتی تھی۔ ظفر نے سوچا تھا کہ اس نینی تال کے ٹور میں وہ اپنے دل کی بات نگار سے کہہ ہی دے گا اور اس کا فیصلہ بھی سن لے گا مگر یہاں آکر وہ عجیب کشمکش میں پڑ گیا تھا۔ وہ فرہاد کو چھوڑ کر نگار کے پیچھے جا نہیں سکتا تھا۔ پھر بھی اس نے سوچا تھا کہ صبر کے ساتھ انتظار کروں گا اور موقع دیکھتے ہی نگار سے اپنے دل کی بات کہہ دونگا۔ ہاں یا ناں کچھ تو جواب ملے گا۔


صبح کے ناشتے سے فارغ ہو کر سب لوگ کیوو گارڈن (Cave Garden)گئے۔ کئی چھوٹی بڑی سرنگیں تھیں جن میں ٹائیگر کیوو بہت مشہور ہے۔ دوپہر تک وہ لوگ وہاں گھومتے رہے، خوب مزے کئے، فوٹو لئے۔ فرہاد کو فوٹوگرافی کا شوق تھا اور وہ یہاں کے دلکش نظاروں میں کھو گئے تھے، سینکڑوں فوٹو لے چکے تھے ابھی تک۔ پھر لنچ کے بعد سب لوگ لیک ویو پوئینٹ (Lake View Point) دیکھنے گئے۔ قدرت کی حسین و جمیل کاریگری اور موسم کا خمار تھا کہ جوڑے سب کچھ بھول کر ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ سیاحوں کی بھیڑ میں زیادہ تر لوگ ہنی مون منانے آئے تھے جو آپس میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے کہ لگتا تھا ایک لمحہ بھی برباد کرنا نہیں چاہتے۔ اپنوں سے دور، دوست اور رشتے داروں سے دور یہاں ان کو پہچاننے والا کون تھا؟ لاج، شرم بھول کر بوس و کنار میں لگ جاتے تھے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں ہلچل مچ جاتی تھی۔
یہ سب کالج کے لڑکے تھے، کنوارے تھے، اپنے اپنے پارٹنرکا ہاتھ پکڑے۔۔۔ ہنی مون والے جوڑوں کی حرکت دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے اور آپس میں سرگوشی بھی کر رہے تھے۔ فرہاد تو فوٹوگرافی میں مست تھے مگر ظفر بیچارہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اتنی بھیڑ بھاڑ میں نگار کو اپنے دل کی بات کیسے کہے؟ اگر غصہ میں ڈانٹ دی یا زور سے کچھ بول دی تو دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑیگا۔ پھر کالج میں سب اس کا مذاق اڑائیں گے۔ دوست تو مذاق مذاق میں ایسا چرکہ لگا دیتے ہیں کہ آدمی۔۔۔ سہہ بھی نہیں سکتا اور کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔


شام کو سب لوگ دھرم شالہ پہنچ گئے جہاں انہیں رات گزارنی تھی اور دوسرے دن رانی کھیت کے لیے نکلنا تھا۔ سب اپنے اپنے بستر پر لیٹ کر دن بھر کی تھکان اتارنے لگے۔ کچھ دیر بعد ان کے گائیڈ نے آکر کہا کہ آپ لوگ نینی تال آئیں اور اس کا مشہور مال روڈ نا دیکھیں تو کیا فائدہ۔ جلدی سے تیار ہو جائیں ہم لوگ وہاں گھومیں گے اور رات کا کھانا بھی وہیں کھائیں گے۔ پھر جلدی سونا بھی ہے اور صبح سویرے رانی کھیت کے لئے نکلنا بھی ہے۔


مال روڈ (Mall Road) نینی تال کا سب سے بڑا مارکیٹ ہے۔ یہاں ہر طرح کے سامان ملتے ہیں۔ سیاحوں کے دلچسپی کے تمام چیزیں یہاں ملتی ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ زیرہ سے لے کر ہیرا تک سب کچھ یہاں ملتا ہے۔ شام کے بعد رنگ برنگی روشنی میں پورا مال روڈ ایسا لگتا ہے جیسے آسمان ستاروں کے ساتھ زمین پہ اتر آیا ہے۔ ہزاروں سیاحوں میں ملکی کم اور غیر ملکی لوگوں کی بھیڑ زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان لوگوں نے بھی کچھ شاپنگ کی اور پھر طفر، نگار، فرہاد، سلیم، رخسانہ ایک کافی شاپ میں آکر سستانے لگے۔ کافی پینے کے بعد سلیم اور رخسانہ کچھ خریداری کرنے نکل گئے اور پھر فرہادبھی کسی کام سے چلے گئے تو ظفر کو یہ موقع صحیح لگا کہ اپنے دل کی بات نگار سے کہہ دے۔ وہ دھیرے دھیر ے کافی کی شپ لے رہی تھی اور کسی سوچ میں گم تھی کہ ظفر نے اس کو مخاطب کیا۔۔۔۔ :
"نگار میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، کئی مہینے سے سوچ رہا ہوں کہ تم سے کہہ دوں اپنے دل کی بات مگر پھر یہ سوچ کے ڈر لگتا ہے کہ پتا نہیں تم کیا سوچوگی مگر اب مجھ سے رہا نہیں جاتاــ"۔
نگار اچانک ایسی بات سے کچھ گھبرا سی گئی اور بولی۔۔۔" ایسی کیا بات ہے جو آپ کہنے سے ڈرتے ہیں؟ انسان تب گھبراتا ہے جب وہ کچھ غلط کرتا ہے"۔
ظفر کا حلق سوکھنے لگا تھا نگار کی بات سن کر پھر بھی وہ اس تنہائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دل کی بات۔۔۔ اپنی محبت کا اظہار کر دینا چاہتا تھا، سو اس نے کہا۔۔۔ــ " دیکھو نگار، مجھے غلط مت سمجھنا، جب سے تم کالج میں آئی ہو تب سے میں تم کو پسند کرنے لگا ہوں اور یہ پسند دھیرے دھیرے محبت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں نگار اور پوری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔ اگر تم رضامند ہو"۔


ظفر کے اس طرح اچانک پرپوز کر دینے سے نگار سٹپٹا گئی۔ اس نے تو کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ کبھی اس نظر سے کسی کو دیکھا ہی نہیں۔ مانا کہ ظفر ایک اچھے اور امیر گھر کا اکلوتا بیٹا ہے، ہینڈسم بھی ہے مگر۔۔۔ محبت کی نہیں جاتی ہے، بس ہو جاتی ہے اور نگار کو کبھی کسی لڑکے کے لئے اپنے دل میں ایسے احساسات نہیں آئے تھے۔ وہ سر جھکائے اپنے کافی کے کپ کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا جواب دے؟ پھر اس نے سوچا کہ جو سچ ہے وہی بولے گی۔


ادھر ظفر اس کی خاموشی سے ہرپل کبھی جی رہا تھا تو کبھی مر رہا تھا۔ امید و یاس میں جی رہا تھا۔ نگار کا جھکا ہوا سر اٹھے گا تو اس کا چہرہ غصے سے لال ہوگا یا اس کے ہونٹوں پہ مسکان ہوگی؟ وہ شرما کے ہاں کہے گی یا غصے سے انکار کر کے چلی جائیگی؟ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب نگار کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو ظفر نے اس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہلکے سے کھانسنے لگا۔ نگار سوچ نگری سے واپس آگئی اور ظفر کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔ ظفر کو کاٹو تو خون نہیں۔ پھر نگار نے کہا۔۔۔
"دیکھو ظفر ہم اچھے دوست ہیں، کچھ سال ساتھ پڑھیں گے پھر اپنی اپنی راہ لیں گے۔ میں نے آج تک کسی لڑکے کے بارے میں اس نظریے سے سوچا ہی نہیں۔ محبت، عشق، پیار وغیرہ کے لئے سوچا نہیں جاتا ہے یہ کبھی بھی کسی سے ہو جاتا ہے پھر انسان سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کبھی آپ کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں۔ اس لئے آپ یہ خیال دل سے نکال دیں اور کسی اچھی لڑکی کو اپنے لئے پسند کرلیں۔ میں آپ کو ناپسند نہیں کرتی ہوں مگر ہم صرف اچھے دوست ہیں اور دوست ہی رہیں گے۔ "


یہ کہہ کر نگار وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اور ظفر۔۔۔ حسرت بھری نظروں سے اس کو دیکھتا رہ گیا۔ جب تک وہ نظر آتی رہی وہ دیکھتا رہا پھر وہ آگے موڑ سے مڑ گئی اور اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تو ظفر کو ہوش آیا۔ نگار کے انکار نے اس کے سپنوں کے محل کو چکناچور کر دیا تھا مگر دل کے کسی کونے سے یہ امید بھی بندھی ہوئی تھی کہ نگار نے صاف صاف منع نہیں کیا ہے۔ اس نے تو یہ کہا ہے کہ اس نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔ ہم اچھے دوست ہیں اور رہیں گے۔ ظفر کے دل نے کہا، کوئی بات نہیں، آج نہیں تو کل وہ اپنی شرافت اور محبت سے نگار کا دل جیت لے گا کیونکہ ابھی تک اس کی زندگی میں کوئی اور لڑکا آیا ہی نہیں ہے۔


رانی کھیت نینی تال سے 56 کیلومیٹر دور ہے۔ صبح سویرے ان کا کارواں نینی تال سے نکل پڑا۔ راستے بھر ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ طرح طرح کے پھولوں کی مہک نے مسام جاں کو معطر کر دیا تھا۔ یہ لوگ بس کی کھڑکی سے قدرت کی حسین مصوری کو دیکھ دیکھ کرمحظوظ ہو رہے تھے او ر فوٹو لے رہے تھے۔ پہاڑی راستے میں بس کا سفر۔۔۔ مشرق کی طرف سے سورج دھیرے دھیرے اپنا چہرہ دکھا رہا تھا۔ نیلے آسمان میں سفید سفید بادل۔۔۔ ایسے تیر رہے تھے جیسے سمندر میں کشتیاں آجا رہی ہوں۔
ایک جگہ بس روک کر سب لوگوں نے ناشتہ کیا اور گرم گرم چائے پی۔ نگار اب ظفر سے دور دور رہنے لگی تھی۔ شاہین، ونیتا، شلپا اوردوسری لڑکیوں کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ ظفر فرہاد کے ساتھ تھا اور کبھی کبھی نظریں بچا کر نگار کی طرف دیکھ لیتا تھا کہ کیا پتہ وہ اس کی طرف دیکھ رہی ہو مگر وہ تو جیسے کل رات کی سب باتیں بھول ہی گئی تھی۔ سب چائے پی رہے تھے، ہنس بول رہے تھے، صبح کا سہانا موسم تھا، ہلکی ہلکی سردی تھی اور حد نگاہ تک۔۔۔ سرسبز وادی اور جگہ جگہ جنگلی پھولوں کی جھاڑیاں۔ ایسا لگتا تھا جیسے سبز چادر پہ کسی نے رنگین کشیدہ کاری کی ہو۔ فرہاد۔۔۔ خدا کی اس بہترین تخلیق کو اپنے کیمرے میں قید کررہے تھے۔ کئی لڑکیوں نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور ان کے پاس چلی گئیں کہ ان خوبصورت مناظر کے ساتھ ہمارا بھی فوٹو لے لو۔ فرہاد نے خوشی خوشی ان کا فوٹو لے لیا۔ پھر سب لوگ بس میں سوار ہوکر رانی کھیت کی طرف چلے۔


رانی کھیت۔۔۔ بھارت کا سب سے خوبصورت ہل اشٹیشن ہے۔ یہاں ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ علاقائی فلموں کی بھی شوٹنگ ہوتی ہے۔ اس کے خوبصورت جھیل، پہاڑ، پارک، مندر، میوزیم سب دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ جگہ راجا سکھ دیو کی رانی کو اتنی پسند آئی تھی کہ وہ سال کا بیشتر حصہ یہاں گزارتی تھیں اور ان کی وجہ سے ہی اس جگہ کا نام ـ"رانی کا کھیت" یا رانی کھیت پڑ گیا۔ جب انگریز بھارت میں راج کرنے لگے تو وہ بھی اس جگہ سے اتنا متاثر ہوئے کہ یہاں سرکاری دفاتر وغیرہ قائم کئے۔ انگریزوں نے یہاں گلف کورس اور ٹریکینگ کا بھی آغاز کیا۔ جو آج بھی سیاحوں کے لئے خاص توجہ کا مرکز ہے۔


رانی کھیت پہنچ کر یہ لوگ سب سے پہلے۔۔۔ جھولا دیوی مندر (Jhula Devi Temple) گئے۔ جو نہیں گئے وہ مندر کے باہر سے اس کی خوبصورتی اور ہزاروں لٹکتے گھنٹے کو دیکھ کراس سے لگے ہوئے چھوٹے سے مسجد اور گرجا گھر کی طرف نکل پڑے۔ وہاں سے ان کا قافلہ چؤباٹیا گارڈن (Chaubatia Garden) گھومنے گئے۔ رانی کھیت کا سب سے مشہور اور مقبول پارک یا گارڈن ہے یہ چؤباٹیا گارڈن۔ یہاں آپ کو ہر طرح کے پھل کے درخت ملیں گے۔ ہزاروں طرح کے خوبصورت اور خوشبودار پھولوں کے باغ ملیں گے۔ گارڈن اتنا بڑا ہے کہ پورا گارڈن گھومنے کے لئے پورا دن نکل جائے گا پھر بھی آپ کی تسلی نہیں ہوگی۔
فرہاد کو گلاب کے پھول بہت پسند تھے اور وہاں ہر طرح کے گلاب کھلے ہوئے تھے اور فرہاد فوٹو گرافی کر رہے تھے۔ کچھ دوستوں نے فرہاد سے گزارش کی کہ ہماری بھی فوٹو لے لو۔ وہ کسی کو منع نہیں کرتے تھے۔ شاہین، رخسانہ، روزی، شلپا وغیرہ نے طرح طرح کے پوز میں فوٹو کھینچوایا اور۔۔۔ نگار کو بھی کھینچ کر لے آئیں اپنے ساتھ۔ پتا نہیں کیوں نگار کو فوٹو لینے میں دلچسپی کبھی نہیں رہی۔ وہ سہیلیوں کو منع نہیں کر پائی اور ان کے ساتھ فوٹو میں کھڑی ہو گئی۔ ظفر نے موقع غنیمت جانا اور رخسانہ سے کہا کہ تم سب سنگل فوٹو لے رہی ہو تو نگار کا بھی ایک دو سنگل فوٹو کیوں نہیں لیتی ہو۔ رخسانہ شرارت سے ظفر کی طرف دیکھنے لگی اور بولی کیا بات ہے ظفر۔۔۔ نگار کا سنگل فوٹو؟ لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے؟
ظفر جھینپ گیا اور بولا۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس میں نے دیکھا تم سب اپنا سنگل فوٹو لے رہی ہو اور نگار کو ایک دم سے بھول گئی ہو تو بول دیا۔ ویسے تمہاری مرضی، لینا ہے تو لو ورنہ مجھے کیا۔ یہ بول کر ظفر جلدی سے وہاں سے ہٹ گیا کہ کہیں شاہین، شلپا وغیرہ نہ سن لیں رخسانہ کی بات۔ بڑی مشکل سے رخسانہ نے نگار کو راضی کیا اپنا سنگل فوٹو لینے کے لئے کہ آج کی یہ یادیں تصویر کی صورت میں زندگی بھر یاد رہیں گی۔ جب جب بھی یہ فوٹو تمہاری نظر سے گزرے گا، تم کو سب بات یاد آئے گی۔ پھر نگار بھی راضی ہو گئی اور۔۔۔ فرہاد نے گلابوں کے درمیان۔۔۔ نگار کے کئی فوٹو لیے۔ کہیں کھڑی ہوکر تو کہیں بیٹھ کر، کبھی سرخ گلاب کے پاس تو کبھی سفید گلاب کو اپنے رخسار سے لگا کر نگار کے فوٹو لئے فرہاد نے۔ نگار شرما بھی رہی تھی اور جیسا فرہاد کہہ رہے تھے ویسا پوز بھی دے رہی تھی۔
پہلی بار نگار نے فرہاد سے اتنی بات کی تھی اور اتنی نزدیک سے ان کو دیکھنے کا موقع ملا تھا اس کو۔ وہ پہلے ہی ان کی شخصیت سے متاثر تھی اور اب تو۔۔۔ مرعوب ہونے لگی تھی۔ کتنی پیاری آواز تھی فرہاد کی اور ان کا لہجہ بہت دلکش تھا۔ دھیمے دھیمے سُر میں۔۔۔گائی ہوئی کسی غزل کی طرح۔۔۔! سیدھے دل کے تار کو چھیڑ دیتی تھی۔۔۔!!


پھر وہ لوگ بھالو ڈام (Bhalu Dam) گئے۔ شانت جھیل میں بوٹنگ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ چاروں طرف جنگلات اور ہرے ہرے پیڑوں میں خوبصورت پھل، سبزسبز بیلوں میں نیلے، پیلے، سرخ اور سفیدپھول اور ان کے عکس پانی میں ایسے تیر رہے جیسے پانی میں بھی پھولوں کا ایک اور باغ ہو۔ گھنٹے پھر بوٹنگ کرنے کے بعد یہ لوگ Tarikhet Villageکی طرف چلے کیونکہ وہاں سے ان کو ٹریکنگ(Trekking) کے لئے جانا تھا۔


نوجوانوں میں ٹریکنگ کا کریز ہوتا ہے، اور ساتھ میں اگر من پسند حسینائیں ہوں تو یہ اور بھی زیادہ دلیر اور بہادر ہوجاتے ہیں۔ یہی تو موقع ہوتا ہے ان کو امپریس کرنے کا۔ کچھ لڑکیاں بھی خطرات سے کھیلنے کا شوق رکھتی تھیں اور وہ بھی ٹریکنگ کا مزہ لینا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں ایک بار ٹریکنگ بھی کر لینا چاہئے پھر پتہ نہیں کبھی اس کا موقع ملے یا نہ ملے۔ خیر اسی (80) میں سے تیس (30) لوگوں نے ٹریکنگ کرنے کا فیصلہ کیا، باقی لوگ پاس میں آشیانہ پارک (Ashiyana Park) گھومنے نکل گئے کیونکہ وہ آرام پسند تھے اور پہاڑ کی چڑھائی کرکے تھکنا یا چوٹ کھانا نہیں چاہتے تھے۔ ٹریکنگ گروپ میں باقی لڑکی لڑکوں کے ساتھ ظفر، فرہاد، رخسانہ، شلپا،اور نگار بھی تھیں۔ ٹریکینگ کے آغاز میں لوگ جلدی جلدی ، بھاگ بھاگ کر پہاڑ میں چڑھنے لگتے ہیں او رکچھ دیر بعد جب تھک جاتے ہیں تو۔۔۔ ہاتھی کی طرح جھول جھول کر۔ ٹریکنگ کا اصل مزہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔


فرہاد اپنی فوٹوگرافی میں مشغول تھے۔ سورج کی روشنی گھنے پیڑوں کے پتوں سے چھن چھن کے آ رہی تھی اور موسم بھی بڑا سہانہ تھا۔ پہاڑ کے اوپر سے پورا رانی کھیت نظر آ رہا تھا۔ فرہاد فوٹو لینے کے چکر میں سب سے پیچھے رہ گئے تھے۔ سب لوگ ہنستے ، کھیلتے، ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھونک کرتے ہوئے ٹریکنگ کر رہے تھے۔ کچھ لڑکے بھاگ بھاگ کر اوپر جارہے تھے، پھر رک کر اپنی گرل فرینڈ کے آنے کا انتظار کرتے تھے، پھر دونوں ساتھ چڑھتے تھے مگر پھر لڑکیاں پیچھے رہ جاتی تھیں اور لڑکے آگے نکل جاتے تھے۔ ظفر تھا تو اکیلا مگر۔۔۔ نگار سے دور دور رہتا تھا۔ کل پرپوز کرنے کے بعد سے وہ نگار سے ٹھیک طرح نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔


نگار دوستوں کے بھاگ دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئی تھی اور جنگل، پہاڑ، وہاں سے شہر کا منظر دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور ہاتھ میں پکڑے مونگ پھلی کھاتی جا رہی تھی۔ اچانک کسی درخت سے ایک بندر نے چھلانگ لگائی اور۔۔۔ نگار کے ہاتھ سے موم پھلی کا ٹھونگا چھین کر دوسری درخت پر چڑھ گیا۔ نگار اس غیرمتوقع حملے کے لئے تیار نہیں تھی۔ سب کچھ چشم زدن میں ہوا اور وہ بندر سے بچنے کے لئے۔۔۔ چیخ کر پیچھے کی طرف جھک گئی مگر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور اس کے پیر پھسل گئے اور وہ پہاڑ سے لڑھکنے لگی۔
جب تک اس کی چیخ سن کر آگے جانے والے اس کے دوست پیچھے کی طرف دیکھتے وہ لڑھکتے ہوئے کئی میٹر دور چلی گئی تھی۔ پہاڑ سے اوپر سے نیچے کی جانب آدمی بہت تیز آتا ہے، خود کو سنبھال نہیں پاتا، ایسا لگتا ہے جیسے پیچھے سے کوئی دھکا دے رہا ہو۔ وہ لڑھکتی ہوئی چالیس پچاس میٹر تک چلی ہوگی کے فرہاد نے دیکھ لیا جو سب سے پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ تو چیخ سن کر ہی ادھر متوجہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے نگار کو پکڑ لیا ورنہ وہ کچھ دور اور لڑھکتی رہتی۔ تب تک نگار کے جسم میں کئی جگہ چوٹیں اور خراشیں لگ چکی تھیں اور اچانک پھسل کر گرنے کی وجہ سے شاید پاؤں میں موچ بھی آ گئی تھی۔


فرہاد نے اس کو سنبھال کر کھڑا کرنے کی کوشش کی تو وہ۔۔۔ پاؤں کی چوٹ اور درد کی وجہ سے کھڑی نہیں ہو پائی ، اس کے منھ سے چیخ نکل پڑی۔ فرہاد نے اس کو سہارا دیا اور کمر کے گرد اپنے ہاتھ کا گھیرا ڈال کر اس سے کہا کہ آپ میرے کندھے کا سہارا لے کر کھڑی ہونے کی کوشش کریں اور اگر زیادہ درد ہو تو بتائیں۔ ٹخنے میں موچ اور۔۔۔ پہاڑ سے لڑھکنے کی وجہ سے نگار کے دونوں گھٹنے میں چوٹ لگ گئی تھی اور کپڑے دھول مٹی سے اٹ گئے تھے۔ وہ شرم و حیا سے مری جا رہی تھی۔
پہلی بار کسی مرد نے اس کے کمر کے گرد اپنے ہاتھوں کا ہالہ پہنا دیا تھا وہ بھی سب دوستوں کے سامنے اور وہ۔۔۔ کھڑی ہونے کے لئے اس کے کندھے کا سہارا لینے کو مجبور ہوگئی تھی۔ مگر وہ درد کی وجہ سے کھڑی نہیں ہو پائی اور فرہاد نے دیکھا کہ اگر زبردستی کھڑا کیا گیا تو ہو سکتا ہے جہاں موچ لگی ہے وہاں کی ہڈی ہی ٹوٹ گئی ہو اور پورے جسم کا بوجھ برداشت نہ کر پائے اور مزید ٹوٹ جائے۔ انہوں نے اچانک نگار کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا اور ظفر سے بولے کہ۔۔۔
" ان کو فوراً مڈیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے، آپ لوگ ٹریکینگ کر کے آئیں، میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جارہا ہوں"۔
نگار۔۔۔ شرم سے گلنار ہوگئی تھی ان کی بانہوں میں !!


ظفر سکتے کی حالت میں تھا۔۔۔ نگار، اس کا پیار۔۔۔ فرہاد کی بانہوں میں تھی۔ خود نگار بھی اندر سے ہول کھا رہی تھی کہ یوں اچانک فرہاد نے اس کو ایک جھٹکے میں بچوں کی طرح اپنی بانہوں میں اٹھا لیا کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائی تو اعتراض کیسے کرتی بھلا۔ او جب تک وہ یہ سب سوچتی اور اپنی حالت پہ غور کرتی فرہاد اس کو گود میں اٹھائے نیچے کی طرف چل پڑے تھے۔
رخسانہ، شلپا، ظفر اور انیل بھی ٹریکنگ چھوڑ کر فرہاد کے پیچھے پیچھے آنے لگے۔ نگار شرم کے مارے مری جارہی تھی اور پہلی بار کسی مرد کی لمس سے ایک عجیب سی سنسناہٹ اس کے رگ و پے میں دوڑ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ فرہاد سے بولے مجھے نیچے اتاریئے میں دھیرے دھیرے چل سکتی ہوں مگر اس کا دل کہہ رہا تھا کہ۔۔۔ کوئی بات نہیں، جو ہو رہا ہے ہونے دے، تیرے پیر میں موچ آ گئی ہے، کئی جگہ چوٹ لگی ہے، کپڑے دھول مٹی میں گندے ہو گئے ہیں تو چل نہیں سکتی ہے۔ فرہاد کوئی اجنبی تو نہیں اپنا کلاس میٹ ہے۔۔۔ آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔


فرہاد۔۔۔ نگار کو اٹھا ئے ہوئے یوں چل رہے تھے جیسے کسی بچے کو گود میں لئے جارہے ہیں۔ ظفر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہا تھا اور رخسانہ۔۔۔ نگار کی طرف دیکھ کر مند مند مسکرا رہی تھی۔ نگار کی نظر اس پہ پڑی تو رخسانہ نے دھیرے سے اپنی بائیں آنکھ مار دی۔ نگار اس کی شرارت کو سمجھ کر شرم سے لال ہوگئی اور آنکھ بند کر لی۔۔۔ یا اللہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ مجھے ایسے اٹھائے چل رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، ان کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا ہے کیا؟ یہ تھک گئے ہونگے۔


ڈاکٹر نے معائنہ کرنے اور۔۔۔ ایکس رے نکالنے کے بعد بولا۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ ہڈی نہیں ٹوٹی ہے۔ صرف موچ آئی اور سوجن ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے دوائی لگانے کے بعد، پٹی باندھ دی اور چلنے پھرنے سے منع کر دیا۔ فرہاد نے کہا میں نگار کو دھرم شالہ لے جاتا ہوں یہ وہاں آرام کریں گی، تب تک آپ لوگ ٹریکنگ کر کے آجائیں۔ نگار نے خامشی سے رخسانہ کی طرف ایسے دیکھا کہ وہ سمجھ گئی کہ نگار چاہتی ہے کہ رخسانہ اس کے ساتھ رہے کیونکہ وہ فرہاد کے ساتھ اکیلے جانے سے ہچکچا رہی تھی۔
رخسانہ کہا کہ وہ بھی نگار کے ساتھ دھرم شالہ جارہی ہے، وہاں رہے گی جب تک وہ لوگ گھوم پھر کر واپس نہیں آجاتے۔ رخسانہ تو چاہتی تھی کہ فرہاد بھی چلے جائیں، وہ نگار کو آٹو کرکے لے جائے گی مگر فرہاد نے کہا کہ نہیں میں آپ دونوں کو دھرم شالہ میں چھوڑ کر اسی آٹو سے واپس آجاؤنگا۔ راستے میں فرہاد نے دوائی اور جوس بھی لیا اور دونوں کو روم میں چھوڑ کر واپس جانے کو ہوا تو پہلی بار نگار نے اس کو مخاطب کیا۔۔۔
" آپ کا بہت بہت شکریہ! میری وجہ سے آپ کو بہت پریشانی ہوئی اور آپ کے کپڑے بھی گندے ہوگئے ہیں۔۔۔ چینج کر لیجئے ورنہ فوٹو اچھے نہیں آئیں گے"۔


فرہاد چونک گئے اور اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تو واقعی۔۔۔نگار کو وہاں سے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لانے تک۔۔۔ نگار کے کپڑوں کے دھول ان کے کپڑوں میں بھی لگ گئے تھے۔ فرہاد بہت نفاست پسند انسان تھے، ایک کپڑے کو ایک دن پہنتے تھے پھر دھو نے دیدیتے تھے۔ وہ نگار کی بات پہ ہنس پڑے اور ان کی مسکراہٹ نے۔۔۔ نگار کے دل کی دنیا لوٹ لی۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں