ایسے تھے ابا حضور سی کے نائیڈو - بیٹی چندرا نائیڈو کی زبانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-22

ایسے تھے ابا حضور سی کے نائیڈو - بیٹی چندرا نائیڈو کی زبانی

c-k-naidu
سی۔ کے۔ نائیڈو (پیدائش: 31/اکتوبر 1895ء، ناگپور - وفات: 14/نومبر 1967ء، اندور)
کا اصل نام کوٹاری کنکیا نائیڈو تھا، مگر کرکٹ کی دنیا میں "سی۔کے" کی عرفیت سے مشہور رہے۔ وہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں دائیں ہاتھ کے بلےباز اور آف-بریک گیندباز رہے ہیں۔ ٹسٹ میچوں کے لیے قائم ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان ہونے کا شرف انہیں حاصل رہا۔ انہوں نے 1958ء تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنے کھیل کی مہارت سے کرکٹ شائقین کو مسحور کیا۔ ان کے فن اور شخصیت پر تحریر کردہ زیرنظر خاکہ ان کی دختر چندرا نائیڈو کے زور قلم کا نتیجہ ہے جو اپنے دور کے ایک مقبول کھیل میگزین "اخبار نوجواں" سے اخذ کیا گیا ہے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب کرنل سی کے نائیڈو فرسٹ کلاس کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ وہ الہ آباد یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے لئے عارضی طور پر بلائے گئے تھے۔ اس وقت بھی ان کا یہ عالم تھا کہ گراؤنڈ پر تماشائی جس طرف مطالبہ کرتے اس طرف چھکا لگا دیتے تھے۔ اپنے زمانے میں چھکے لگانے کے لئے وہ بہت مشہور تھے اور مخالفوں کے چھکے چھڑا دیتے تھے۔ ہندوستانی رقص میں جس طرح اودے شنکر کا نام مشہور ہوا اسی طرح ہندوستانی کرکٹ میں سی کے نائیڈو نے ایک سنہرا باب لکھا۔ ملٹری کمانڈر کی طرح سخت سی کے نائیڈو، سہگل اور کانن دیوی کے گیتوں کے دیوانے تھے اور اپنے خاندان کے لئے محبت بھرا دل رکھتے تھے۔ اوپر سے سخت مگر اندر سے نرم ، یہ تھے کرنل سی کے نائیڈو۔
ان کی بیٹی چندرا نائیڈو نے اپنے باپ کی شخصیت کا ایک عکس اپنی یادوں کے آئینے میں پیش کیا ہے۔


آج کل کرکٹ کا دور دورہ ہے، جس گھر میں جائیے، جس محفل میں بیٹھئے، گھوم پھر کر بات کرکٹ کے کھیل اور کھلاڑیوں کے بارے میں ہونے لگے گی۔ ایسے میں فطری طور پر مجھے اپنے والد کی یاد آتی ہے۔ آنجہانی کرنل سی کے نائیڈو کے دور کا موازنہ آج کے دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔


میرے والد کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان نے کافی تاخیر سے ٹسٹ کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اگر ہندوستان 30 یا 40 برس اور پہلے ٹسٹ کرکٹ میں شریک ہوگیا ہوتا تو شاندار ریکارڈ کی کتابوں میں کرنل سی کے نائیڈو کا نام ہی صفحات پر ہوتا۔


ان کے زمانے میں آج کی طرح آئے دن ٹسٹ میچ نہیں ہوتے تھے۔ میرے والد کے ٹسٹ کیرئیر میں دوسری جنگ عظیم کا وقفہ بھی شامل تھا جب کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کو کھیل سے زیادہ جان بچانے کی فکر تھی۔


ان کے زمانے میں ایک روزہ کرکٹ کے مقابلے شروع نہیں ہوئے تھے ورنہ ان کی طوفانی بلے بازی نے مخالفوں کی دھجیاں اڑا دی ہوتیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ کرکٹ مقابلوں کے رواں تبصروں کا رواج بھی نہیں تھا، نہ کھلاڑی ویڈیو پر اچھے کھلاڑیوں کا کھیل دیکھ کر اپنا کھیل سنوارنے کی کوشش کر سکتے تھے۔


یہ سب کچھ نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنے زمانے کی کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام 'سی کے نائیڈو' ابھرے ہوئے روشن حروف میں لکھ دیا تھا۔ جہاں بھی وہ جاتے تھے دور دور سے لوگ ان کا کھیل دیکھنے آتے تھے۔ نوجوان ان کی طرح کھیلنے کا خواب دیکھتے تھے۔ آج بھی جب ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ بیان کی جاتی ہے تو لوگ کرنل سی کے نائیڈو کا نام عزت محبت اور فخر کے ساتھ لیتے ہیں۔


بڑی رعب دار شخصیت تھی ان کی۔ آپ کسی پیڑ کا تصور اس کی جڑوں کے بغیر نہیں کر سکتے۔ پیڑ اپنی جڑوں کے ذریعے غذا حاصل کرتا ہے ، وہ خود ایک تناور درخت تھے لیکن ان کی حیثیت ہندوستان میں کرکٹ کے لئے ایک مضبوط جڑ کی طرح تھی جس سے سب کو تقویت حاصل ہوتی تھی۔


میں بیٹی کی حیثیت سے اپنے باپ کو یاد کر رہی ہوں۔ میں کرکٹ کے کھلاڑی کی حیثیت سے انہیں یاد نہیں کر سکتی۔ پھر بھی ان کی ذات میرے لئے 'ہیرو' کا مقام رکھتی تھی۔ ایسی رعب دار اور دبدبہ والی شخصیت تھی ان کی، کہ جو بھی ان کے قریب آتا تھا ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔


ان کی بہت سی یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ وقت کی گرد ان پر آج تک نہیں جمی۔ ان کا تعلق مختلف واقعات سے ہے لیکن میرے لئے وہ کل کی بات لگتی ہے۔ کرنل سی کے نائیڈو آج دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کے کارنامے لوگ بھولتے جا رہے ہیں اپنی محبوب ترین ذات کے بارے میں لکھتے وقت دشواری یہ ہوتی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔


میں سمجھتی ہوں کہ انسان کا کھیل اس کی ذات سے الگ نہیں ہوتا۔ سی۔کے میں انسان کی حیثیت سے جو خوبیاں تھیں وہی ان کے کھیل میں جھلکتی تھیں۔ وہ فرشتہ نہیں تھے ،لیکن ان میں خامیاں کم تھیں اور خوبیاں زیادہ۔ اس بات کا ہماری تربیت پر گہرا اثر پڑا۔


مجھ سے کرکٹ کے ایک پرستار کھانڈور نگنیگر نے کہا تھا:
"جب کرنل سی کے نائیڈو پویلین سے باہر قدم نکالتے تھے تو ان کی شاہانہ چال دیکھ کر ہمارے پیسے وصول ہو جاتے تھے"۔
سی۔کے کے دور میں ٹسٹ میچوں کا رواج نہیں ہوا تھا، ملک میں چو مکھی اور پنچ مکھی مقابلے ہوتے تھے ، یعنی چار یا پانچ فریقوں کے درمیان ہوتے تھے۔


ایسے ہی مقابلوں میں سی۔کے نے پہلی بار حصہ لیا تھا، اور اس کے بعد وہ چھکے برسانے والے کرکٹر کی حیثیت سے مشہور ہو گئے تھے۔ جس میچ سے کرنل سی۔کے نائیڈو کو سارے ملک میں شہرت حاصل ہوئی وہ 1926ء میں کھیلا گیا تھا۔


آرتھر گلیگن [Arthur Gilligan] کی سرکردگی میں انگلینڈ سے ایم سی سی کی ٹیم ہندوستان آئی ہوئی تھی۔ بمبئی جیم خانہ گراؤنڈ پر بمبئی ہندو ٹیم کا ان کے خلاف دو روزہ میچ کھیلا گیا۔ ایم سی سی کی ٹیم نے پہلے دن ہی 363 رن بنا دئیے، گائی ایرلے نے اس میں 130 رن بنائے جس میں 8 باؤنڈری شامل تھیں۔ اس طرح کی دھواں دھار بلے بازی بمبئی کے کرکٹ پریمیوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لوگوں نے پہلے سے یہ طے کر لیا تھا کہ بمبئی ہندو ٹیم ان کے مقابلے میں بری طرح ہار جائے گی۔ شروعات سے بھی یہ معلوم ہوتا تھا آثار اچھے نہیں تھے۔ صرف 84 رن بنے تھے اور تین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اس کے بعد پانچویں نمبر کے کھلاڑی کی حیثیت سے سی۔کے نائیڈو بیٹنگ کرنے کے لئے آئے اور انہوں نے کھیل کا نقشہ بدل دیا۔ انہوں نے چوکوں اور چھکوں کی جھڑی لگا دی۔


ایم سی سی کی ٹیم میں اس زمانے میں انگلینڈ کے مشہور بالر ٹاٹے، ایسٹل ، بو آنٹن، ویاٹ اور مرسر تھے۔ لیکن سی۔کے نے ان کی بولنگ کی بہت اچھی طرح دھنائی کی۔ دیکھنے والے ارلے کی بیٹنگ کو بھول گئے۔ انہوں نے صرف 115 منٹوں میں 153 رن بنائے ، ان کے اسکور میں گیارہ چھکے اور 13 چوکے شامل تھے۔ ان کی طوفانی بلے بازی کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لنچ کے بعد جب کھیل شروع ہوا تو سی۔کے بیٹنگ کرنے میدان میں آئے ، تو پویلین میں ہی نہیں، آس پاس کے ہر پیڑ اور مکان کی چھت پر تماشائیوں نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔ کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔


ایڈورڈ ڈاکر نے اپنی کتاب "ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ" میں سی۔کے کی ایک اننگس کا حال بیان کیا ہے:
"شٹاک! ایک چھکا پویلین کی داہنی طرف لگا، ایک اور چھکا بائیں طرف۔ تالیوں کا زبردست شور بلند ہوا ، صرف یہی نہیں امپائر بھی اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر جوش سے تالیاں بجانے لگے"۔


میرے والد کا یوم پیدائش وہی تھا جو سردار ولبھ بھائی پٹیل کا ہے۔ سردار پٹیل کے طرح وہ بھی مرد آہن تھے، مضبوط ارادوں کے آدمی۔ جب بھی کوئی مشکل گھڑی سامنے آتی تھی تو ان کے بہترین جوہر کھل کر سامنے آتے تھے۔ جتنی مشکل اور نازک صورت حال ہوتی تھی اتنا ہی زیادہ مقابلہ کرنے میں سی۔کے کو مزہ آتا تھا۔


وہ بہادر اور حوصلہ مند انسان تھے، گیند کتنی ہی تیز اور خطرناک کیوں نہ ہو وہ اس سے بچنے اور کترانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ سی۔کے کے زمانے میں ہیلمٹ صرف میدان جنگ میں پہنے جاتے تھے کھیل کے میدان میں نہیں۔ اس لئے گیند اگر خطرناک ہوتی تو کھلاڑی کا جسم نشانہ بن جاتا تھا۔ ایک بار تو پھاوکر کی گیند سی۔کے منہ پر لگی، بہت تیز اور خطرناک گیند تھی ، ان کا ایک دانت ٹوٹ گیا انہوں نے دانت کو اور بہتے ہوئے خون کو تھوک دیا، خون کی بہتی ہوئی لکیر ان کی سفید شرٹ کو لال کر گئی۔ لیکن وہ طبی مدد لینے کو راضی نہیں ہوئے ، انہوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ پھاوکر کی اگلی گیند کھیلی، رومال سے منہ پونچھا اور پورا اوور کھیل گئے۔


مشکل کیسی ہو، کتنا ہی الجھا ہوا مسئلہ ہو، مایوسی ہو، محرومی ناکامی ہو، ان کے سامنے وہ کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ دکھ اور درد کو اندر ہی اندر برداشت کرنے کی زبردست صلاحیت تھی۔ ان کی خودداری کبھی اپنی مجبوری اور پریشانی کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ وہ مشکل کے سامنے سر جھکاتے، نہ ہار تسلیم کرتے تھے۔


وہ فوجی نظم و ضبط کے آدمی تھے اور سپاہی کی طرح ہر خطرے کو جھیلنے ، اس کا سامنا کرنے کے لئے ہمت اور حوصلے کے ساتھ تیار رہتے تھے۔ ہمارے لئے دشواری یہ تھی کہ وہ ہم سے بھی اسی طرح کے طرز عمل کی توقع رکھتے تھے۔ ان کے سامنے تو ہم بھی بہادر اور آہنی انسان بنے رہتے تھے لیکن ان کی پیٹھ مڑتے ہی ہم پہلے کی طرح موم کے پتلے بن جاتے تھے۔


سی۔کے مذہبی انسان تھے۔ بھاگوت گیتا سے انہیں تحریک اور حوصلہ مندی حاصل ہوتی تھی۔ وہ بھگوان کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے ، بچپن سے انہوں نے بھی نڈر ہونا سیکھایا تھا، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ ہم سب ان سے ڈرتے تھے۔ شیوراتری، گوڑی پرو، گنیش چترتھی، درگا پوجا اور لکشمی پوجا یہ سارے تیوہار ہمارے گھر میں بڑے جوش اور اہتمام کے ساتھ منائے جاتے تھے۔ جنم اشٹمی کے موقع پر عموماً بچوں کی آنکھیں لگ جاتی تھیں لیکن پتا جی آدھی رات تک جاگتے اور گیتا پڑھتے رہتے تھے۔ یہی گھڑی شری کرشن کے جنم کی بتائی جاتی ہے۔ ماتا جی ان کا ساتھ دیتی تھیں، وہ ہارمونیم پر تیاگ راج کے بھجن گاتی رہتی تھیں۔ میری ماتا جی اسٹیج پر نہیں گاتی تھیں ، لیکن ان کی آواز بہت میٹھی اور سریلی تھی، جب وہ گاتی تھیں تو سماں بندھ جاتا تھا۔


ہمارے خاندان کی ایک اور خصوصیت ایسی تھی جسے میں بھلا نہیں سکتی۔ ہمارے گھر میں صرف ہندو تیو ہار ہی نہیں منائے جاتے تھے بلکہ محرم اور کرسمس کے تیوہاروں کا بھی اسی طرح اہتمام ہوتا تھا۔ سی۔کے ناگپور کے تاج الدین بابا کے گہرے معتقد تھے۔ کرسمس کے دن ماتا جی کیک بناتی تھیں، ہم بچوں کے لئے کیک تیار ہوتے اور اس کے کٹنے کا انتظار کرنا بڑی آزمائش ہوتی تھی۔


کرکٹ شرافت کا دوسرا نام ہے ، کرکٹ کے کھلاڑی کے گھرمیں مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ نفرت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
کھیل کے میدان میں یا اس کے باہر پتاجی سیدھے سادے، صاف ستھرے آدمی تھے۔ چھکا، پنجا اور داؤں پیچ، سے انہیں کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ ان دنوں چاروں طرف خوشامد، خود غرضی، لالچ اور گھٹیا پن کا رواج ہے تو میں ان کو زیادہ محبت، عزت اور تعریف کے ساتھ یاد کرتی ہوں۔ نہ وہ خوشامد کرتے تھے، نہ چاپلوسی پسند کرتے تھے، نہ ادھر اُدھر کی فضول باتیں پسند کرتے تھے۔ اپنے کردار اور شخصیت کی وجہ سے سی۔کے نائیڈو نے اپنے حلقے میں عزت اور محبت حاصل کی تھی۔


وہ نظم و ضبط کے بہت سختی سے پابند تھے، کرکٹ کے میدان میں ان کے ساتھیوں کو اور گھرمیں ہم لوگوں کو اس کا تجربہ تھا۔ ہم سب ان کے غصے سے ڈرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر ڈسپلن کے معیار کو جانچنے کے لئے مقابلہ ہوتا تو یقیناً ہمیں یعنی سی۔کے بچوں کو ضرور انعام ملتا۔


بظاہر سی۔کے بہت سخت آدمی نظر آتے تھے وہ ہر معاملے میں سو فیصدی ملٹری کمانڈر تھے، فرض کے معاملے میں وہ کسی طرح کی ڈھیل اور تساہلی برداشت کرنے کو آمادہ نہ تھے۔ کام ختم ہو جانے کے بعد وہ پرسکون ہو جاتے تھے۔ میدان میں ان کے ساتھی کھلاڑی ان سے مرعوب رہتے تھے، ان کی اجازت کے بغیر ایک گھونٹ پانی پینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ لیکن کھیل ختم ہونے کے بعد یہی لوگ ان کی صحبت میں بیٹھنے کے خواہش مند ہوتے تھے۔ سی۔کے کی باتیں سننے میں ان کے ہم جلیسوں کو بڑا لطف آتا تھا۔ ان کی معلومات کا دائرہ بہت وسیع تھا ، جب وہ کسی موضوع پر گفتگو کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی انسائیکلو پیڈیا کھل گیا ہے۔


فرض کے معاملے میں انتہائی سخت ہونے کے باجود ان کی شخصیت میں کئی نرم گوشے بھی تھے، جب خاندان کا کوئی شخص بیمار ہوتا تھا، امتحان سر پر ہوتا یا کوئی اور مشکل سامنے ہوتی تو ان کی محبت کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ ماتا جی نے مجھے بتایا کہ جب میں بہت چھوٹی بچی تھی، میں کسی جگہ گر پڑی اور کئی گھنٹے بیہوش رہی ، پتا جی کو کلب سے بلوایا گیا وہ بھاگتے ہوئے گھر آئے، پریشان ہو کر مجھے گود میں لئے بیٹھے رہے ، جب تک ڈاکٹر نہیں آیا اور مجھے ہوش نہیں آ گیا وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے۔


جب میری چھوٹی بہن بیمار ہوئی اور نرسنگ ہوم میں داخل کی گئی تو پتا جی ہروقت اس کے بستر کے قریب رہتے تھے۔ ان کے چہرے پر پریشانی اور اضطراب کے آثار نظر آتے تھے۔ اسی طرح جب میری ماں بیمار ہوئیں اور انہیں اسپتال میں داخل کرانے کی نوبت آئی تو پتا جی ایک دن بھی کلب نہیں گئے ورنہ وہ روزانہ بڑی باقاعدگی سے کلب جاتے تھے۔ وہ ماں کے بستر کے قریب بیٹھے رہتے تھے، وہ بہت اکیلے کھوئے کھوئے اور ٹوٹے نظر آتے تھے۔ جس دن ماتا جی کو اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو سی۔کے نے سارے گھر کو صاف کرایا، ہر طرف ڈھیر سارے پھول سجائے اس طرح انہوں نے ماتاجی کے اسپتال سے گھر آنے کا جشن منایا۔


امتحان کے زمانے میں تیاری کے سلسلے میں خاص طور پر جب حساب کی مشکل آسان کرنے کے لئے ان کی مدد لیتی تھی۔ کرکٹ پریکٹس یا ٹینس کھیلنے کے بعد جب وہ تھکے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوتے تھے تو میں ان کے سر پر سوار ہو جاتی تھی۔ اور وہ اپنی تھکن کی پرواہ کئے بغیر میری مدد کرنے بیٹھ جاتے تھے۔ جب تک میرا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تھا تو وہ کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔


انگریزی زبان میں بھی وہ میرے استاد تھے ، انگریزی زبان پر ملکہ انہیں میرے دادا سے وراثت میں ملا تھا۔ دادا کی انگریزی زبان پر قدرت بہت مشہور تھی۔ جو وہ بولتے تھے ، جو وہ لکھتے تھے وہ سکہ مانا جاتا تھا۔ لوگ ان کی انگریزی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے ، طلبا کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔


اگر انگریزی کے کسی لفظ کے معنی، مفہوم اور استعمال کے بارے میں مجھے کوئی شبہ ہوتا تھا تو ڈکشنری کھولنے کے بجائے میں پتا جی سے پوچھ لیتی تھی۔ ایک بار ان کو خط لکھتے وقت کوئی محاورہ میرے قلم سے نکل گیا جواب میں انہوں نے ڈانٹ کر لکھا:
"شریف عورتیں یہ محاورہ استعمال نہیں کرتیں، آئندہ کسی کو مت لکھنا"۔


بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ میرے پتا جی کو سنگیت سے بھی لگاؤ تھا، انہیں کلاسیکی سنگیت کا شوق تھا۔ جب بھی ریڈیو سے کسی اچھے گلوکار کا پروگرام نشر ہوتا تھا، تو وہ اس کے الاپ، لے کاری اور راگ کی ادائیگی میں ڈوب جاتے تھے۔ اس وقت ان کو دین دنیا کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ لائٹ میوزک میں انہیں کندن لال سہگل اور کانن دیوی کے نغمے بہت پسند تھے۔ ان دونوں کے ریکارڈوں کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے پاس تھا۔


سانولے ، لمبے تڑنگے، پتاجی دیکھنے میں راجا مہاراجہ لگتے تھے۔ عادتیں بھی ویسی ہی تھیں، کبھی لباس پر شکن نہیں ہوتی تھی۔ اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا شوق تھا۔ وقت کے بہت سختی سے پابند تھے شاید خبط کی حد تک۔ صفائی کے بارے میں یہی حال تھا۔ کہیں دھول کا ذرہ نظر آ جائے، کاغذ کا کوئی ٹکڑا زمین پر ہو، کوئی کرسی اپنی جگہ سے کھسکی ہوئی ہو ان میں سے کوئی بات ہو وہ بگڑ جاتے تھے۔


ایسے تھے سی۔کے نائیڈو!
بچوں کے لئے نانا، قریبی، دوستوں کے لئے سی۔کے، جاننے والوں کے لئے کرنل۔ جو لوگ ان سے محبت کرتے تھے، ان کی عزت کرتے تھے، ان کا حکم مانتے تھے ، ان سب کے لئے کرنل صاحب!
ان کے زمانے میں کون ایسا تھا جو ان سے محبت اور ان کی عزت نہیں کرتا تھا۔

***
ماخوذ: ماہنامہ اخبارِ نوجواں (نئی دہلی)
شمارہ : اپریل/مئی-1990۔ (جلد:4 - شمارہ:1)

C. K. Nayudu, the first Indian Cricket Captain. Article: Chandra Naidu.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں