رؤف خلش کا شعری رویہ
(نئی رتوں کا سفر سے شاخِ زیتوں تک)
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ حقیقت ہے کہ ناچیز یوسف روش نہ ہوتا اگر خلش نہ ہوتی اور جب جگر نہ ہوتا تو خلش بھی نہ ہوتی۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ شاعر دل والا یا جگر والا ہوتا ہے یعنی دل یا جگر رکھتا ضرور ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ چھوٹا ہے یا کھوٹا؟ تیر نیم کش سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ جب محرومی گھیر لیتی ہے یا بےاعتنائی برتی جاتی ہے یا طنز کے کنکر برستے ہیں یا چوٹ لگتی ہے تو جگر میں خلش سی ہونے لگتی ہے اور خلش شعروں کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ خلش جتنی ہوگی شعر بھی اتنے ہی معتبر ہوں گے لیکن میری خلش خلش نہیں کیونکہ تقدیر نے مجھ میں ایک آنچ کی کسر ابتدا سے ہی رکھ دی ہے تاہم 1981ء سے خدا نے یہ قدرتی انتظام کیا کہ میری اصلاح و رہنمائی کے لیے جو معتبر صورت دکھائی وہ کوئی اور نہیں بلکہ میرے ہی اپنے برادر کلاں جناب رؤف خلش کی صورت و بصیرت تھی جنہوں نے تاحال حسب موقع مجھے شعری پیچیدگیوں، الجھنوں اور کوتاہیوں سے بچنے کے مفید اور مفرد مشورے دئے، پھر بھی بقول شخصے:
یہ ماہ و سال اسی الجھن اسی خلش میں گئے
کسی کو چاہا کسی اور کی روش میں گئے
بقول رؤف خلش انہوں نے شعر گوئی کا آغاز تقریباً 1958ء کے اوائل میں کیا تھا، اس وقت انہیں وزن اور بحر کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ پہلا موزوں شعر یہ تھا:
جلتے ہوئے فانوس کا پروانہ بنانا
آتا ہے انہیں حسن کا دیوانہ بنانا
وزن و بحور کا ادراک انہیں ایک بزرگ اور روایتی قسم کے شاعر جناب شمیم صاحب سے ہوا جو شمیم کیفے چادر گھاٹ کے مالک تھے۔ وہ غزل جو انہوں نے ابتدائی مشاعرے میں پڑھی تھی اس کا مقطع یہ تھا:
سید کی دعا آٹھ پہر ہے یہ خدا سے
محتاج زمانے میں کسی کا نہ بنانا
اس وقت وہ سید تخلص رکھتے تھے، بعد میں جو بھی ہوا ان کے اپنے بل بوتے پر۔ کسی سے اصلاح نہیں لی البتہ دوست احباب سے مشورے ضرور ہوا کرتے تھے جو ایک طرح سے اصلاح کا بدل تھے۔ مشورہ دینے والوں میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، تاج مہجور، حسن فرخ اور رفعت صدیقی وغیرہ تھے۔ البتہ آج اس وقت بس وہ ہیں اور ان کی خود اعتمادی۔ خدا کرے کہ ان کی یہ خود اعتمادی انہیں اور آگے لے جائے۔
حلف (حیدرآباد لٹربری فورم) کی بنیاد 1974ء کے لگ بھگ عمل میں آئی جس کی داغ بیل رؤف خلش، حسن فرخ، یوسف اعظمی علی الدین نوید وغیرہ نے ڈالی۔ اس طرح جدید شعراء کے کلام، مطالعہ اور میل ملاپ کے سلسلوں نے رؤف خلش کے نظریات، احساسات اور شعری مزاج میں ایک اور تبدیلی نمایاں کی۔ اس زمانے میں جن جرائد و رسائل میں کلام شائع ہوتا رہا ان میں صبا (حیدرآباد)، شب خون (الہ آباد)، شاعر (بمبئی) الشجاع (کراچی)، فنون (لاہور) اور ادبی دنیا (سرگودھا) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
1970 ء کی دہائی میں جب جدیدیت کی تحریک کچھ تیزی سے پھیلی تو رؤف خلش بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں صاف طور سے لکھا کہ ۔۔۔
میں نہ روایت پسند شاعر ہوں نہ ترقی پسند۔ بلکہ "جدیدیت" کا حامی ہوں۔ اکثر لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ ترقی پسند شاعری اور جدید شاعری ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جدیدیت کی اصطلاح دراصل Modernity سے لی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک ردعمل ہے، ادب کو کسی مقصد کا آلہ کار بنانے کے خلاف۔ کیونکہ ادب کو پہلے ادب ہونا چاہیے نہ کہ پبلسٹی یا پروپگنڈہ۔ بےشک اس میں انسانی احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی جانی چاہیے اور کی جاتی ہے، لیکن اس کو کسی "ازم" کا ہدایت نامہ نہیں بننا چاہیے۔ دوسری اہم تعریف جدیدیت کی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ یہ روایت کے خلاف واضح انحراف ہے۔ آج کے مسائل ادب میں پرانے سانچوں، پرانے لفظوں اور اظہار کے روایتی اصولوں میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ لہذا ادب میں نئے خون کو نئے اظہار کی صورت میں داخل کرنا چاہیے جسے آج کی اصطلاح میں "جدید اظہار" کہا جاتا ہے۔
(رؤف خلش)
آج سے تقریباً نو، دس سال قبل یعنی 3/جولائی 1986ء کو جدہ (سعودی عرب) میں ایک یادگار شام منائی گئی جس کی صدارت جناب مصلح الدین سعدی نے کی تھی۔ اس میں جناب طارق غازی نے ایک مبسوط مقالہ پڑھا تھا جس کا عنوان تھا "رؤف خلش - ایک مطالعہ"۔ مقالہ کی بنیاد رؤف خلش کے پہلے شعری مجموعہ "نئی رتوں کا سفر" پر محیط تھی بلکہ چند منتخب نظموں سے زیادہ وابستہ تھی۔ انہوں نے شاعر کو نئی رتوں کا مسافر قرار دیتے ہوئے ایک خصوصی عنوان باندھا تھا یعنی "کارِ قلم دراز ہے" جس کی ابتدا انہوں نے اس معنی خیز جملے سے کی تھی:
مجھے یہ کہنے اور سمجھنے میں چھ ماہ لگے کہ رؤف خلش اب فکر کے اس مقام پر آ چکے ہیں جہاں سے وہ حالیؔ سے اقبالؔ تک جست لگا سکتے ہیں۔ (طارق غازی)
اس مقالے کے تفصیلی جائزے و بحث سے قطع نظر میں اس کے آخری پیراگراف کا ذکر کرتا ہوں یعنی ان کی نثری نظم یا وہ خواہ کچھ بھی ہو ۔۔۔ "ایک نظم کہنے کی کوشش" کے آخری فقرے۔
یہ فقرے اس معاملہ میں نہ صرف رؤف خلش کے لئے بلکہ دوسرے جدید شعراء کے لئے بھی حرف آخر ہیں۔
چلو ہم لہجے سے لکنت نکال کر
اس پل کو پار کر لیں
کہ ہماری زبان ابھی مردہ نہیں ہوئی
یہی اعلان بغاوت سے انقلاب کی سمت اور حالی سے اقبال کی جانب رؤف خلش کے سفر کا پہلا قدم بن سکتا ہے کیوں کہ اشہب زبان کی باگ پر ہاتھ مضبوط ہوں تو راہِ فکر میں منزل شعور کا سفر حقیقتاً نئی رتوں کا سفر بن سکتا ہے۔ رؤف خلش کے لئے بے شک کارِ قلم دراز ہے کیوں کہ اب وہ اس مقام پر ہیں جہاں سے باقاعدہ سفر کا آغاز کر سکتے ہیں، رختِ سفر وہ فراہم کر چکے ہیں۔ (طارق غازی)
یہ تو ہوئی تقریباً نو دس سال قبل کی گونجتی ہوئی تنقیدی آواز۔ اس کے بعد رؤف خلش کا دوسرا شعری مجموعہ "صحرا صحرا اجنبی" 1988ء میں منظر عام پر آیا جس کی رسم اجراء پر اور اس کے بعد غالباً کئی اہم تبصرے و بیانات پیش کئے گئے۔ ان میں سے جناب مضطر مجاز کے ایک مضمون "رؤف خلش کا شعری سفر" سے حسب ذیل اقتباس پیش ہے۔۔۔
ہمارے پیش نظر رؤف خلش کی "صحرا صحرا اجنی" کے بعد کی شاعری ہے۔ اس شاعری میں بھی ان کا وہ دھیما دھیما لہجہ قائم ہے۔ ان کا دل موہ لینے والا سرل بین چونکاتا نہیں متوجہ کرتا ہے۔ اس میں جوش و خروش شدت اور طغیانی نہیں، درد کی ایک زیریں لہر ہولے ہولے رواں ہے۔ اس میں ہندی سنسکرتی کی نمرتا بھی ہے اور عرب کا سوز دروں بھی۔ پچھلے ایک دہے سے زیادہ عربستان میں مقیم ہیں اور اس راہ میں جو سب پر گزرتی ہے وہ ان پر بھی گزری ہے جسے وہ رقم کرتے چلے گئے۔ مگر یہ شاعری ان کے شخصی جذبات اور احساسات کا بہی کھاتہ بھی نہیں۔ اس میں کہیں آپ بیتی ہے تو وہ جگ بیتی کی زبان میں بیان کی گئی ہے اور Vice versa۔ یہ شاعری جدید شاعری پر کہے گئے اس بے بنیاد الزام کو رد بھی کرتی ہے کہ جدید شاعری صرف ذات کے نہاں خانے میں بھول بھلیوں کی سیر کراتی ہے (مضطر مجاز)
اس وقت رؤف خلش اپنے تیسرے مجموعہ کلام "شاخ زیتون" کی ترتیب و تدوین میں مصروف و منہک ہیں۔ ان ہی کے کہنے کے مطابق اس تازہ کلام میں بعد ہجرت ان کے اپنے احساس و تجربہ نے شعری رویے اور مزاج میں کیا نمایاں تبدیلی یا جزوی انقلاب پیدا کیا ہے؟ ملاحظہ کیجئے۔۔۔
میں نے اپنا تیسرا انتخاب کلام "شاخ زیتون" کے نام سے مرتب کیا ہے جو 1989ء سے 1995ء کے دوران کہی گئی نظموں اور غزلوں پرمشتمل ہے۔ 'شاخ زیتون' جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، ایک ترکیب ہے اور عموماً امن کے استعارے کے طور پر مستعمل ہے۔ ان دنوں میرے قلب و ذہن پر تخلیقی لمحات میں اقطاع عالم میں پھیلی ہوئی وہ بدامنی اور انسان سوز ماحول کی وہ کیفیت کچوکے لگاتی رہی ہے جو کشمیر سے لے کر بوسنیا تک جاری و ساری ہے اور ظاہر ہے کوئی ذی حس شاعر اس انتشار اس بے چینی سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ یوں بھی جب شاعر کی آنکھ کھلی ہو، ذہن بیدار ہو اور دل دھڑکتا ہو تو وہ دنیا کے ان خارجی حالات سے نہ منہ موڑ سکتا ہے اور نہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا سکتا ہے کہ شاعر کی دنیا محض اپنی داخلی دنیا تک محدود ہے۔
میری یہ بات اس لئے بھی اہم بن جاتی ہے کہ 'شاخ زیتون' میں شامل نظمیں اور غزلیں جدہ، ریاض اور مدینہ منورہ میں تخلیق کی گئی ہیں۔ جہاں کا بین الاقوامی کلچر اپنے جدید ترین وسائل کے ساتھ پوری دنیا کو ایک Global Village کی شکل دے گیا ہے۔ یہ احساس اور یہ ادارک، میں سمجھتا ہوں میرے شعری رویے میں پچھلے تیس سال کے مقابلے میں ایک بہت نمایاں تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ ذیل کے چند اشعار سے میری ان باتوں کی تصدیق ہو سکے گی۔
(رؤف خلش)
مفہوم کھو چکے ہیں پیمانے فاصلوں کے |
اگ دائرے کے اندر دنیا سمٹ گئی ہے |
. |
بھری پڑی ہے ریت کے ذروں پہ جا بجا |
صحرا کی بے مکانی میں دیوار و در کی یاد |
. |
چاہتوں بھرے کمرے، دل کھلے کھلا آنگن |
اب تو ڈھونڈنے پر بھی ایسے گھر نہیں ملتے |
. |
خموشی اوڑھ لینا، جبر کا دستور ہو جانا |
سکھایا ہے تمہارے شہر نے مجبور ہو جاتا |
. |
وادئ خوں جہاں نظر آئے |
شاخِ زیتوں وہیں پہ بو لینا |
. |
لمحوں کو پکڑنے کی ہم نے بھی تو کوشش کی |
لمحے تو نہ ہاتھ آئے ، لمحوں کا عذاب آیا |
. |
میں خلش بنا بھی دوں اس کے گھر کی دیواریں |
پھر بھی میرا ہمسایہ، میرا گھر جلا دے گا ! |
اسی خلاصہ کو شاید ذہن میں رکھتے ہوئے رؤف خلش کے ہم عصر اور ادبی سفیر پروفیسر غیاث متین صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے حال میں منعقدہ ایک شعری نشست میں کھل کر یہ بات کہی کہ جدید لب و لہجہ میں رؤف خلش بلامبالغہ نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر اور مشرق وسطی کا نمائندہ شاعر ہے۔ انہوں نے رؤف خلش کے تیسرے مجموعہ کلام "شاخ زیتون" کی اشاعت کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیے:
رؤف خلش اور عدم کی تلاش - مضمون از حسن فرخ
جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ - مصاحبہ کار : محسن جلگانوی
ماخوذ از کتاب: ادراک و احساس (انٹرویو، خاکے، تذکرے، تبصرے)۔
مصنف: یوسف روش۔ سن اشاعت: 2006ء۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں