رؤف خلش اور عدم کی تلاش - مضمون از حسن فرخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-02

رؤف خلش اور عدم کی تلاش - مضمون از حسن فرخ

raoof-khalish-hasan-farrukh
رؤف خلش سے میری ملاقات، یوں تو بیس برسوں پر محیط ہے لیکن تعلقات کی نوعیت میں اتار چڑھاؤ کی کوئی داستان نہیں ملتی۔ میرے مجموعۂ کلام "ٹوٹا ہوا واسطہ" (1975ء) کے تعارف کے لئے مجھے سب سے موزوں شخصیت رؤف خلش کی نظر آئی تھی اور اب اس طرح میں اپنا وہ قرض اتار رہا ہوں۔
جہاں تک تعارف کا سوال ہے ، اس نے میری شخصیت کا تہہ در تہہ جائزہ لیا تھا۔ لیکن میں"جوابی کارروائی" کا قائل نہیں۔ یوں تو اس کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں، لیکن ان میں سب سے نمایاں پہلو غیر مشروط ذمہ داری اور ذمہ داری کے احساس کے بغیر اس کی تکمیل اس کا نمایاں وصف ہے۔ چنانچہ کسی کام سے وابستگی کا مطلب ، رؤف خلش کی اس کام میں غرقابی کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ چاہے اس کام کا اس کے مزاج یا افتاد طبع سے ذرا برابر بھی کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔ مثال کے طور پر ان دنوں وقف بورڈ سے اس کی وابستگی اتنی گہری ہوچکی ہے کہ کسی واقف یا متولی کی بھی نہ رہی ہوگی۔ یہی حال زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔

رؤف خلش ایک بے حد سمجھ دار، ٹھنڈے دماغ اور گرم جذبات کا انسان اور چبھتے ہوئے مزاج کا فن کار ہے۔ اس کا بحیثیت شاعر یا بحیثیت تخلیق کار ادارہ جاتی یا "مطابق ماحول" رویہ نہیں۔ اس نے احساسات کو فن کا روپ دینے میں نہ تو مصلحت وقت کو پیش نظر رکھا اور نہ ہی مختلف "ادبی درماروں" کے رویوں کی تقلید اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی ضرورت سمجھی۔ وہ احساسات کی از سر نو تخلیق کو ادب سمجھتا ہے۔ کسی پسندیدہ اور منفعت بخش چوکھٹے میں الفاظ کو ٹھونک پیٹ دینے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ جب کہ آج بازار میں اسی سکہ کا چلن ہے جو کہ ہر دکان میں چلنے سے قبل دکاندار کی مرضی کے مطابق ڈھال دیا گیا ہو۔

رؤف خلش نے چھٹی دہائی کی ابتداء میں ایک ایسے وقت شعر کہنے کی جانب توجہ دینی شروع کی جب کہ ادب میں جمود کے وجود کا ہر طرف سے مضحکہ اڑانے کے باوجود، ترقی پسند ادب (جو شعر میں مخدوم ، فیض، اور مجروح) اور نثر میں کرشن چندر، بیدی، عزیز احمد، وغیرہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر) وسعت یا کم از کم دوسرے درجہ کے فن کاروں اور تخلیقات سے بھی محروم ہو چکا تھا۔ پاکستان میں کسی حد تک "مقصدیت" کے خلاف آواز اٹھانے اور ترقی پسندی کے جواز کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ لیکن ہندوستان میں ابھی یہ صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔
محمود ایاز (جو آج کل "سالار" جیسے روزنامہ پر اپنی صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں) ان دنوں سوغات کے ذریعہ ایک نئے رویہ اور رجحان کی صورت گری میں مصروف تھے۔ لیکن دیگر رسائل کا حال جن میں صبا، تحریک، شاعر، بیسویں صدی اور شمع وغیرہ شامل ہیں، بالکل ہی جداگانہ نوعیت کا تھا۔ ان تمام رسائل کا ایک خاص مزاج اور ان میں شائع ہونے والے فن کاروں کی ایک محدود فہرست تھی جن میں بعض نام مشترکہ بھی تھے، جو ہر رسالہ کے مزاج کے مطابق تخلیقات ڈھال کر چھپوایا کرتے تھے۔
اس پس منظر میں رؤف خلش کی شاعری کی ابتداء ہوئی۔ اس کی ابتدائی شاعری پر (جس میں سے کوئی بھی تخلیق "نئی رتوں کا سفر" میں انتخاب کے دوران جگہ نہیں پا سکی ہے !) یوں تو اس پس منظر کا اثر تھا لیکن لب و لہجہ اور اس کی زیریں رو میں کسی "عدم" کی تلاش کا شدید احساس نمایاں تھا۔

ہندوستان میں جدیدیت اور ترقی پسندی کے مابین واضح تصادم کی صورتحال "سوغات" کے جدید نظم نمبر (1962ء) اور وحید اختر کے 'صبا' میں شائع شدہ مضمون "ادب میں تشکیک" سے پیدا ہوئی۔
انہی دنوں اعظم راہی، رؤف خلش، محمود انصاری، احمد جلیس، ساجد اعظم اور مجھ پر مشتمل ایک گروپ کی جانب سے حیدرآباد سے "پیکر" کا اجرا بلکہ احیاء عمل میں آیا۔ فوری بعد اس گروپ میں غیاث متین اور مسعود عابد بھی شامل ہوئے۔ "پیکر" نے جلد ہی ہندوستان بھر کے نئے لکھنے والوں کے ترجمان اور ادب کے اسٹابلشمنٹ کے خلاف ایک "اہم آواز" کی صورت اختیار کر لی۔
اس وقت تک حیدرآباد میں ادبی اجارہ داری، کسی ادارہ میں مرکوز نہیں ہوئی تھی لیکن یہاں کی تمام ادبی سرگرمیوں پر مخدوم کی فعال اور ہر دلعزیز شخصیت کا بول بالا تھا۔ یہ ادبی سر گرمیاں کمرہ نمبر 17، مجرد گاہ، اورینٹ ہوٹل ، اسٹار اینڈ کمپنی معظم جاہی مارکیٹ اور ونڈر سائن معظم جاہی مارکٹ کی بیٹھکوں اور نشستوں میں مباحثوں اور مختلف قسم کے مشاعروں پر مشتمل تھیں۔ ان کے علاوہ اردو ہال میں اردو مجلس کے ماہانہ اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے، جن میں شرکت کرنے والے بعض اگلی نشستوں کی شخصیتوں کے بارے میں یہ لطیفہ مشہور تھا کہ اردو ہال کی تعمیر کے ساتھ ہی انہیں بھی یہاں نصب کر دیا گیا ہے۔ اس لطیفہ کا سبب یہ تھا کہ ان شخصیتوں کے چہرے ہر طرح کے جذبات سے عاری ہوا کرتے تھے۔

حیدرآباد میں، یہاں کے حسب معمول معتدل اور پرسکون ماحول کے باوجود "پیکر"میں شائع ہونے والے تند و تلخ مضامین نے، تھوڑی بہت، ہلچل پیدا کی تھی۔ انہیں دنوں ہمارے گروپ نے "ادارۂ مصنفین نو" کا قیام عمل میں لایا اور ہندوستان کے جدید شاعروں کی پہلی انتھالوجی "آبگینے" کی اشاعت (1966ء) عمل میں لائی گئی۔
اس ادارے کے تحت جدیدیت پر متعدد سمپوزیم اور سیمنار منعقد کئے گئے اور حیدرآباد میں بھی نئے رجحان نے پر زور نوعیت اختیار کرلی۔ اب یہ بات اور ہے کہ اس کے بعد یہاں وہ لوگ "امامان جدیدیت" کا روپ اختیار کر گئے جو کل تک اسے ادب کا کوئی رجحان تسلیم کرنے بھی تیار نہ تھے۔

1965ء میں الہٰ آباد سے "شب خون" کی اشاعت اور پھر 1967ء میں "نئے نام" کی اشاعت نے جہاں اس ادبی رجحان کو اس کی مستحقہ حیثیت و اہمیت عطا کی وہیں، اس صورتحال کے سبب ، یہ رجحان سکہ بند نوعیت اختیار کر گیا۔ کیونکہ کسی بھی ادبی رسالہ میں اشاعت کے لئے اس کی حیثیت ضمانت کی سی تھی۔
1960ء سے 1965ء کے دوران دلی سے "تلاش" ، "تخلیق" اور "محور" کی اشاعت عمل میں آ چکی تھی۔ لیکن اپنی انفرادیت کے باوجود، جدید ادب کا کوئی مخصوص " ٹائپ" ان رسائل کا مطمح نظر نہیں تھا۔ ان کے علاوہ لکھنؤ سے " کتاب" کی اجرائی عمل میں آئی۔ جس کا مقصد، ترقی پسندی اور جدیدیت میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور اس رجحان کو ادبی ارتقائی عمل کا ایک لازمی مرحلہ قرار دینا تھا جب کہ "شب خون" نے (جو ابتداء میں معتدل انداز میں سامنے آیا تھا) جدیدیت کو ترقی پسندی کے مقابل اور مخالف ایک ایسی تحریک قرار دیا جس کے تانے بانے لاہور کے "حلقۂ ارباب ذوق" سے جا ملتے ہیں۔

انہی دنوں احمد ہمیش جلا وطنی کے انداز میں پاکستان سے حیدرآباد منتقل ہوا۔ شروع شروع میں یہاں کے ادبی حلقوں نے اس کی کچھ زیادہ پذیرائی نہیں کی۔ بلکہ اسے سنکی، نیم پاگل اور تماش بین تک کہہ دیا۔ جب اس کی ہمارے گروپ سے مڈبھیڑ ہوئی تو پہلے پہل سارتر کی وجودیت اور کافکا کے احمال و ابہام کے مسئلہ کو لے کر اس سے بحثیں ہوئیں جو بعد میں دوستی میں تبدیل ہو گئیں۔
"ڈرینج میں گرا ہوا قلم" غالباً اس کی پہلی کہانی تھی جس نے سب کی توجہ اس کی جانب مبذول کروائی۔ 1968ء میں وہ دوبارہ پاکستان منتقل ہو گیا۔

حیدرآباد میں، اس زمانہ میں "صبا" نے پہلے تو درمیانی اور معتدل رویہ اختیار کیا لیکن مخدوم کے انتقال کے بعد صبا بالکلیہ طور پر جدیدیت کا ترجمان بن گیا۔ بعد میں مغنی تبسم نے "شعر و حکمت" کا اجرا کیا۔ جس کا مقصد اس علاقہ میں جدیدیت کو مرکوز کرنا تھا۔ مخدوم کے انتقال کے بعد حیدرآباد میں ادبی اجارہ داریاں کئی اداروں میں مرکوز ہو چکی تھیں جن میں امدادی، ادارہ جاتی اور دیگر نوعیت کے ادارے پیش پیش تھے تاکہ حیدرآباد کے تمام ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو اپنے حاشیہ میں شامل کر لیا جائے۔

اس پوری مدت کے دوران جس میں تاج مہجور، اکمل حیدرآبادی اور کیف رضوانی نے پرانی ڈگر چھوڑ کر نیا رنگ اختیار کیا۔ خورشید احمد جامی کی نئی انداز کی غزل جس میں تجسیم و پیکر تراشی نے پہلی بار مستقل حیثیت اختیار کی۔
مصحف اقبال توصیفی اور حکیم یوسف حسین خاں کی شاعری نمایاں ہوئی اور پھر انور رشید ، اسلم عمادی، علی الدین نوید، علی ظہیر ، رؤف خیر اور یوسف اعظمی وغیرہ ہمارے کارواں میں آ ملے۔
خلش کی تخلیقی صلاحیت اپنی اسی تلاش کے عمل کی ارتقائی صورت گری میں مصروف رہی۔ اب ان میں سے کئی ایک شاعر اگرچہ مشاعروں میں مدعو کئے جانے والے شعراء کی حیثیت سے اسٹابلش ہو چکے ہیں لیکن خلش اپنی مخالف "مطابق ماحول" فطرت اور طبع کے سبب اس زمرہ سے الگ تھلگ اسی ارتقائی مرحلہ وار اور مضطرب سفر میں محو ہے۔

1972ء میں ہمارے گروپ نے حیدرآباد کے نئے قلم کاروں کی تحریک پر دو روزہ "جشن پیکر" منایا جسے کئی اعتبار سے جدید طرز فکر رکھنے والوں کے پہلے کل ہند اجتماع کی حیثیت حاصل ہوئی۔
رؤف خلش نہ صرف اس جشن کی تیاری کمیٹی میں شامل تھا بلکہ اس نے اس اجتماع میں بالکلیہ فنی نوعیت کا ایک مبسوط پیپر بھی پڑھا تھا جو اردو الفاظ شماری، اردو ٹائپ رائٹر، اردو خوشنویسی اور اردو انگریزی لغت کے ماہرین سے لئے گئے انٹرویو پر مشتمل تھا۔

1974ء میں ہمارے گروپ نے "حیدرآباد لٹریری فورم" (حلف) کے نام سے ایک ادبی انجمن کی تشکیل کی جس کا بنیادی مقصد حیدرآباد کے نئے ذہنوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں اور سرخ فیتہ والی دفتریت سے بھی بچانا تھا جس کی کم و بیش سبھی اس نوع کی انجمنیں شکار ہیں۔

نئی رتوں کا سفر میں 1962ء سے 1979ء تک کی جن نظموں اور غزلوں کا انتخاب شامل ہے ، ان میں سے کئی تخلیقات میرے علم و آگہی کے مطابق اس مدت کے دوران از سر نو ترتیب و تدوین اور چھان پھٹک کے بے رحم مراحل سے گزری ہیں۔ اس انتخاب میں ایک پابند نظم (نیا پل اور ایک شام) کچھ معری اور کئی آزاد نظموں کے علاوہ نثری نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔

ان تخلیقات کا تنقیدی جائزہ میرا مطمح نظر نہیں، کیونکہ میں تجزیاتی تنقید کا قائل ہوں، یعنی اس کا یہی مطلب ہوگا کہ اس مجموعہ کے جملہ صفحات کی تعداد کو تین گنا کر دیا جائے، اسی لئے اس مرحلہ پر میں یہی چاہوں گا کہ تخلیق کو تنقید نگار و قاری کے لئے غیر مشروط چھوڑ دوں۔
اسی نقطہ نظر کے اعتبار سے میں نے اس پوری فضا اور پس منظر کا مختصراً جائزہ لیا ہے جس میں اس شاعری کی تخلیق ہوئی۔
اگرچہ اس میں ان 18 ، 20 برسوں کی تبدیلیوں اور خود رؤف خلش کی انفرادی شخصیت کے نجی، سماجی اور معاشی حالات سے ٹکراؤ کا میں نے جائزہ نہیں لیا ہے کیونکہ اس کا تجزیہ خود شاعری سے کیا جا سکتا ہے۔
یہاں اس کی وضاحت کردوں کہ انفرادی حالات کے منظوم بیان کو میں تخلیق نہیں سمجھتا البتہ ان حالات کے رد عمل سے وابستگی یا فرار کے اظہار کو تخلیق سمجھتا ہوں جسے زبان کے تیور یا اس کے بین السطور میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً 1962ء کی نظم "مقتل میں" اور 1979ء کی نظم "میرا ورثہ" میں تخلیق کے اس طویل بعد کے باوجود اگرچہ لفظیات اور اس کے برتاؤ میں شدید مماثلت پائی جاتی ہے لیکن دونوں نظموں کے تیور میں یہ گہرا فرق ہے کہ پہلی نظم میں جذباتی تناؤ اور بغاوت کے باوجود زیریں لہر کے طور پر تمنا اور امید پائی جاتی ہے جب کہ دوسری نظم میں احساس ، مکمل ادراک بن چکا ہے اور اس کے سبب احساس نے تلخی کی بجائے درگزر اور بے اعتبارئی کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ یہی فرق غزلوں کے تقابلی جائزے میں بھی محسوس ہوتا ہے۔

خلش کی پوری شاعری اس سیاق و سباق میں حد درجہ انفرادیت کی حامل اور تقلید یا الجھاؤ سے مبرا ہے۔ بیشتر تخلیقات میں کئی الفاظ نامانوس اور مصرعے خلاف محاورہ ہیں لیکن انہیں مترادف الفاظ سے تبدیل کرنا یا با محاورہ مصرعے ڈھال دینا ممکن نہیں۔ خلش کی استعمال کردہ انفرادی علامتیں، تخلیق کا اس طرح سے جز بن چکی ہیں کہ وہ اساطیری یا نیم مذہبی ہونے کے باوجود اجتماعی یا معروف علامتیں معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اس کے شعری برتاؤ کا تعلق اظہار کے لفظیات اور علائم کے ساتھ گہرے انسلاک سے ہے۔
یہی رؤف خلش کی پہچان اور اس کا اسلوب ہے جو اسے ہم عصر شاعروں میں شامل بھی کرتا ہے اور ان سے الگ اس کے وجود کی شناخت بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
برصغیر کے جدید لب و لہجے کے ممتاز شاعر رؤف خلش کا انتقال
جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ
ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - تلخیص از رؤف خلش

***
ماخوذ از کتاب: "نئی رتوں کا سفر"
شعری مجموعہ از: رؤف خلش (سن اشاعت: اکتوبر-1979)

Raoof Khalish and Adm ki talash. Article: Hasan Farrukh.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں