گذشتہ قسط کا خلاصہ :
شہر میں ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی۔ معمولی سے معمولی اور حقیر سے حقیر جانور بھی اپنی جسامت کے بڑھ جانے کے سبب بےحد خطرناک ہو چکے تھے۔ مچھر اور چیونٹیاں بڑھ کر مرغی کے برابر ہو گئی تھیں۔ اور ان چیونیٹوں نے دکانوں اور مکانوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ شکر کے گودام منٹوں اور سکنڈوں میں صاف ہو گئے تھے۔ فیروز کے گھر کے اندر دو چھپکلیوں اور ایک شیرنی نما بلی نے ان سب پر حملہ کر دیا مگر فیروز نے بجلی کے تار سے انہیں مار گرایا۔ مگر جب وہ باہر نکلے تو ایک سمندری کچھوا اختر کی ٹانگ پکڑ کر اسے سمندر میں کھینچ لے گیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد اچانک تمام جانور اپنی اصلی جسامت پر واپس آنے لگے۔ اور اس دوران فیروز نے میدان میں ایک ہیلی کاپٹر کو اترتے دیکھا جس میں سے جان اور جیک نکل کر آ رہے تھے۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔
الغرض میں نے اپنی داستان الف سے یے تک جان کو سنا دی۔ اختر اور سوامی کا تذکرہ کرتے وقت چند لمحوں کے لئے میرا دل کانپا مگر پھر دل پر جبر کر کے میں نے جان کو ساری باتیں سنا دیں۔ یہ ہیبتناک کہانی سن کر جان بڑی دیر تک فکر مند انداز میں دیوار کو گھورتا رہا اور پھر بولا: "وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا اور جس کی اطلاع مجھے بروقت مل گئی تھی۔"
"واقعی اگر ہم کچھ دیر بعد آتے تو آپ اور آپ کے محل کا نام و نشان بھی نہ ملتا۔" جیک نے کہا۔
"معاف کیجئے گا۔" سراغ رساں ذکی نے کہا: "اگر مناسب سمجھیں تو ہمیں بھی یہ بتائیں کہ آپ کو کس چیز کا ڈر تھا اور آپ کو کس بات کی اطلاع بروقت مل گئی تھی؟"
"اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو سب کچھ بتانے کے لئے مجھے بہت شروع سے اپنی کہانی بیان کرنی ہوگی۔" جان نے سوچتے ہوئے کہا۔
"بتا دیجئے انکل۔ ان کے سامنے ہی کل کے حادثات رونما ہوئے تھے۔"میں نے جان سے کہا۔
جان نے کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد کہا۔ " بہت اچھا، میں آپ کو ایک نہایت حیرت انگیز داستان سنا رہا ہوں۔"
"میں نواب زادہ فیروز کے ساتھ برسوں پہلے ایک سمندری سفر کر چکا تھا۔ ہمیں ایک ابھرنے اور ڈوبنے والے جزیرے کی تلاش تھی جس میں ایک بے حد قیمتی دھات سوبیا پائی جاتی تھی۔ ہمارے اس سفر میں فیروز کے علاوہ مسٹر جیک اور دو درندہ صفت انسان عبدل اور چیتن بھی شامل تھے۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ ہمیں وہ جزیرہ مل گیا اور پھر اسی جزیرے میں ہماری ملاقات سیارہ زہرہ کے ایک سائنس داں سے ہوئی جس کی شکل بہت خوفناک تھی۔ وہ سائنس دان اپنے بچوں کے ساتھ سوبیا دھات کی تلاش میں ہماری زمین پر آیا تھا۔ وہ خود بھی بہت لمبا تھا اور اس کے دونوں بچے بھی بےحد لمبے تھے۔ یوں سمجھئے کہ بچوں کے قد اتنے بڑے تھے کہ ہم لوگ بچوں کی ہتھیلی پر اس طرح آگئے تھے جیسے ہم اپنی ہتھیلی پر ایک مونگ پھلی رکھ لیں۔ براہ کرم بیچ میں بولنے کی کوشش نہ کریں انسپکٹر صاحب۔ میں جانتا ہوں، کہ آپ کو مشکل سے اعتبار آئے گا، مگر فی الحال میں آپ کو کسی بات کا یقین دلانے کی بحث میں نہیں پڑوں گا۔ مجھے یہ داستان سنانی ہے اور آپ کو سننی ہے۔ اس لئے خاموشی سے سنتے جائیے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ان دیو زاد بچوں نے جب ہمیں پریشان کرنا شروع کیا تو سائنس دان نے انہیں منع کیا اور پھر اپنے راکٹ میں بیٹھ کر سیارہ زہرہ کی طرف پرواز کر گیا۔ اڑتے اڑتے ایک خاص ذریعہ سے اس نے مجھے بتایا کہ اس کا نام شاگو ہے۔ یہی شخص شاگو مجھ سے پھر اس وقت ملا جب زہرہ کا ایک بدنام سائنس داں جیگا ہماری اس دنیا کو ختم کرنے کے لئے اور سوبیا دھات پر قبضہ کرنے کی خاطر یہاں زمین پر انسانی بھیس میں آیا تھا۔ شاگو نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے جیگا کو ختم کر دوں تو دنیا بھی تباہی سے بچ جائے گی اور زہرہ کے لوگ بھی ایک برے انسان سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ خیر میں اپنی یہ کہانی جلد ختم کرنا چاہتا ہوں، اس لئے مختصر کرتے ہوئے اتنا کہوں گا کہ کچھ عرصے کے بعد ہزاروں مشکلوں اور آفتوں کے بعد ہم لوگ زمین سے ہزاروں فٹ نیچے پاتال میں جیگا کی چھپی ہوئی لیبارٹری کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور میرے دونوں بچوں اختر اور نجمہ نے سوبیا دھات کی بدولت اور شاگو کے بھیجے ہوئے آفاقی ہار کی مدد سے جیگا کو ختم کر دیا۔ شاگو ہمیں مبارک باد دینے خود دنیا میں آیا اور وعدے کے مطابق ہمارے گھر اس نے سونے سے بھر دئیے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمیں سیارہ زہرہ میں آنے کی دعوت دی اور بتایا کہ اس کے خاص راکٹ ہمیں وہاں سے لینے کے لئے آ سکتے ہیں"۔
"یہ تو گزرے ہوئے دنوں کی کہانی تھی۔ اب حال کی سنئے، فیروز، تم یہ سب کچھ تو جانتے ہی ہو۔ لیکن اب جو میں کہوں گا وہ ذرا توجہ سے سننا۔ دو دن پہلے کی بات ہے ، میں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے ٹیلی ویژن سیٹ پر ہونے والا پروگرام منقطع ہو گیا، اس کے بعد سیٹ میں سے عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں۔ کبھی ایک ہلکی سی روشنی تصویر کی جگہ چمک جاتی اور کبھی اندھیرا چھا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اسپیکر میں سے حیرت انگیز سگنل سنائی دینے لگے، یہ سگنل کبھی مدھم سنائی دیتے اور کبھی صاف ، ٹیلی ویژن سیٹ جب خراب ہوتا ہے تو کچھ اور ہی طرح کی لہریں اس کے اسکرین پر کپکپاتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن اب جو لہریں رہ رہ کر نظر آتی تھیں وہ متوازی ہونے کی بجائے کھڑی تھیں۔ یہ اوپر سے نیچے کی طرف لپکنے والی لہریں ٹیلی ویژن میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوتیں، یہی وجہ تھی کہ میں سگنلوں اور لہروں کو توجہ اور دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ تقریباً بیس منٹ تک یہی ہوتا رہا اور پھر اچانک میرے کمرے کی روشنی خود بخود ختم ہو گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ٹیلی ویژن کی لہریں ایک بار تیزی سے تھرتھرا کر تصویر میں تبدیل ہو گئیں۔ تصویر کے ساتھ ہی سگنل آواز میں بدل گئے ، تصویر اور آواز کو میں نے فوراً پہچان لیا۔۔ وہ تصویر شاگو کی تھی۔
میں نے یکایک چونک کر جان کو دیکھا، وہ اپنا پائپ جیبوں میں ٹٹول رہا تھا۔ پائپ نکال کر اس نے سلگایا اور پھر میری حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔
"شاگو نے مجھے بتایا کہ وہ بےحد جلدی میں ہے اور زیادہ دیر تک بات نہیں کر سکتا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا، اور اس پر جگہ جگہ چوٹوں کے نشان تھے اس نے مجھ سے کہا کہ زہرہ میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ ایک دوسری پارٹی جس کا پہلا لیڈر جیگا تھا، اب برسر اقتدار آنے والی ہے۔ یہ پارٹی دہشت پسند ہے ، اور ملک میں خونی انقلاب لانا چاہتی ہے۔ شاگو معزول حکومت کا سربراہ تھا اور بے حد نیک انسان تھا جب کہ جیگا والی پارٹی کا موجود لیڈر شاکا ہے اور بہت ظالم آدمی ہے۔ جیگا کی موت کے بعد شاکا اب سیارہ زہرہ کی انقلابی حکومت کا سربراہ ہے۔"
"شاکا!" میں نے چونک کر جان کو دیکھا۔
"کیوں، تم چونکے کیوں؟" جان نے پوچھا۔
"اسلئے کہ جکاری کی آنکھ نے ہمیں جو تصویر دکھائی تھی وہ شاگو کی تھی اور جس آواز نے ہمیں مخاطب کیا تھا اس نے اپنا نام شاکا بتایا تھا۔"
"بس تو اس طرح شاگو کی بات کی تصدیق ہو جاتی ہے۔"
جان نے پھر کہنا شروع کیا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ شاگو نے مجھے بتایا کہ کچھ ہی دیر کے اندر زہرہ پر شاکا کی حکومت قائم ہونے والی ہے ، کیونکہ زہرہ پر اس پارٹی کا قبضہ ہو گیا ہے جس کا پہلا لیڈر جیگا تھا۔ یہ پارٹی اب اسے یعنی شاگو کو قید کر لے گی، بلکہ جس وقت ٹیلی ویژن پر اس کی تصویر دکھائی جا رہی ہے، شاید اس وقت سے پہلے وہ قید بھی ہو چکا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زہرہ سے ٹیلی ویژن کی یہ تصویر اس وقت سے کافی دیر بعد نیچے پہنچ رہی ہے۔ جب شاگو بول رہا ہے۔ بہرحال میرے یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ تھی۔ شاگو میرا ہمدرد اور محسن ہے ، یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو ، اس لئے جب شاگو نے مجھ سے التجا کی کہ میں اس کو اس مصیبت سے نجات دلا کر آزاد کراؤں تو میں کسی بھی طرح انکار نہ کر سکا۔"
"لیکن آپ اسے آزاد کس طرح کرائیں گے؟" میں نے بے تابی سے دریافت کیا۔
"سنتے جاؤ۔۔ بیچ میں ٹوک دینے سے میں بھول جاتا ہوں۔" جان نے فوراً ہاتھ اٹھا کر مجھے آگے بات کہنے سے روک دیا اور پھر اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا:
"شاگو نے مجھ سے کہا کہ اصولاً تو اسے ہی وعدے کے مطابق زہرہ سے راکٹ بھیجنے چاہئیں تھے۔ تم جانتے ہی ہو کہ یہ وعدہ اس نے اس وقت کیا تھا جب ہمارا سفر 'کالی دنیا' والا ختم ہو چکا تھا!"
" جی ہاں میں جانتا ہوں۔"
"اس نے کہا کہ اب وہ اپنے وعدہ کا پابند نہیں رہ سکتا ، کیوں کہ حکومت اب اس کے ہاتھ میں نہیں رہی ہے۔ البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ راکٹ بنانے کا فارمولہ مجھے بتا سکتا ہے۔ اتنا کہنے کے بعد اس نے مجھے ٹیلی ویژن کے اسکرین پر دو فارمولے دکھائے اور مجھ سے کہا کہ میں جلد سے جلد ان کو نقل کرلوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور وہ فارمولے نقل کرلئے۔ پہلا فارمولا تو راکٹ کا تھا ، اس فارمولے میں راکٹ کا ڈیزائن ، اس میں کام آنے والے کل پرزے اور ایندھن کے بارے میں تفصیل تھی۔ دوسرا فارمولہ ایک خاص قسم کے سفید پاؤڈر کا تھا۔ شاگو نے یہ دوسرا فارمولہ لکھوانے کے بعد مجھے بتایا کہ ظالم شاکا دنیا والوں پر ظلم ڈھانا چاہتا ہے۔ چونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے لیڈر جیگا کو ختم کرنے والے، یعنی تم، اختر اور نجمہ وغیرہ یہاں بمبئی میں مقیم ہیں۔ اس لئے اس کا ارادہ تم لوگوں پر حملہ کرنے کا ہے۔ اور شاید یہ حملہ اگلے دو دن کے اندر اندر ہو جائے۔ جب میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہ حملہ کس قسم کا ہوگا تو اس نے جواب دیا۔ غالباً پورے علاقے کی بجلی یا تو ختم ہو جائے گی یا عارضی طور پر روک دی جائے گی اور ژان وان شعاعوں کے ذریعے وہاں کے جانوروں کو بہت بڑا کر دیا جائے گا۔ اور پھر یہ جانور لوگوں پر حملہ کریں گے۔"
"بالکل ایسا ہی ہوا بھی تھا۔"پہلی بار انسپکٹر نے درمیان میں بولنے کی جرات کی:
"ان شعاعوں کا نام ژان وان ہے کیا جنہوں نے جانوروں کو بڑا کر دیا تھا؟"
"ہاں شاگو نے یہی نام بتایا تھا؟ اور پھر اس نے کہا تھا کہ وہ دوسرا فارمولا دراصل ایک پاؤڈر ہے۔ جو اگر ہوائی جہاز کی مدد سے اس علاقے پر چھڑک دیا جائے جہاں جانوروں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ تو وہ جانور اچانک چھوٹے اور پھر بالکل بے ضرر ہو جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے اس فارمولے کی مدد سے وہ پاؤڈر تیار کر لیا تھا اسی لئے عین وقت پر تم لوگوں کی مدد کرنے یہاں آ گیا۔۔۔"
"آسمان پر مجھے جو دھندسی نظر آتی تھی ، شاید وہ یہی پاؤڈر تھا؟" میں نے پوچھا۔
"یقیناً یہی تھا"۔ جان نے جواب دیا: "میں اب یہ سوچ کر بہت خوش ہوں فیروز کہ میں تم سب کی جانیں بچانے میں کامیاب ہوا ہوں۔"
"لیکن کاش اگر ہم پہلے آجاتے تو اختر اور سوامی کو بھی بچا سکتے تھے۔" جیک نے کہا۔
"ہاں یہ بات ضرور تکلیف دہ ہے" سراغ رساں ذکی نے زرینہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ "زرینہ صاحبہ پر اس حادثے کا بہت اثر ہے۔"
زرینہ یہ سن کر رونے لگی اور جان اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے تسلی دینے لگا۔ نیوی اور بری فوج کے لاتعداد جوان سمندر میں اور ساحل کے چپے چپے کو تلاش کر رہے تھے۔ جان نے کہا: "خدا ہی اس آڑے وقت میں ہم سب کی مدد کرسکتا ہے ، اس لئے اسی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اسے منظور ہوگا تو اختر اور سوامی نجمہ اور امجد ضرور ہم لوگوں سے ملیں گے۔"
ابھی جان یہ الفاظ ادا کر ہی رہا تھا کہ اچانک میدان سے ایک غیر معمولی شور اٹھا۔ لوگ بری طرح چلا رہے تھے۔ یہ شور لگاتار بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ڈرائنگ روم میں جتنے بھی لوگ تھے سب کے سب اٹھ کر باہر بھاگے۔ میں نے دیکھا کہ ساحل پر لاتعداد لوگ جمع ہیں اور سمندر کی طرف اشارے کررہے ہیں۔ وہ جوش میں بھرے ہوئے تھے، اور بار بار ہمیں پکار رہے تھے۔
جب میں ساحل کے قریب پہنچا تو مجھے وہ مقام دکھایا گیا جس کی طرف لوگ اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سمندر کے اس حصے پر لہریں بری طرح تڑپ رہی ہیں اور لاتعداد جھاگ ان لہروں کے تڑپنے سے وہاں پیدا ہو رہے ہیں۔
اور پھر ایک عجیب چیز میں نے دیکھی، میں آپ کو کیا بتاؤں کہ اس چیز کو دیکھ کر میری کیا حالت ہوئی ، دہشت کے باعث میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئین اور سانس رکنے سا لگا۔ میں نے دیکھا کہ سمندر میں سے کوئی کالی سی چیز آہستہ آہستہ اوپر ابھر رہی ہے۔
یہ کالی سی چیز دراصل کسی کا سر تھا۔ لوگ اچانک خاموش ہو کر حیرت سے اس سر کو دیکھنے لگے تھے جو اب کافی اوپر آ چکا تھا۔ دھند کی وجہ سے صاف صاف نظر نہ آتا تھا کہ وہ سر کس کا ہے؟ چند لمحوں بعد ہی مجھے یہ دیکھ کر بڑا اچنبھا ہوا کہ وہ تو کوئی آدمی ہے۔ یہ آدمی آہستہ آہستہ ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا اور پھر فوراً ہی میرا دل کنول کی طرح کھل اٹھا۔ کیوں کہ میں اب اسے پہچان چکا تھا یہ شخص سوامی کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
سوامی نے کوئی وزنی چیز اپنے ہاتھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ اور پھر جلد ہی میں نے اس چیز کو بھی پہچان لیا، وہ اختر تھا۔ اور شاید بے ہوش تھا جب ہی اس نے اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ رکھے تھے۔ انہیں پہچانتے ہی اور میری آواز سن کر فوج کا امدادی دستہ جلدی سے آگے بڑھا ان کے پاس اسٹریچر بھی تھا۔ دو آدمیوں نے جلدی سے اختر کو سوامی کے ہاتھوں پر سے اٹھا کر اسٹریچر پر لٹا دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سوامی کو بھی مدد کے لئے سہارا دیتے، وہ نڈھال ہوکر نم ریت پر گر پڑا۔
ایک گھنٹے بعد ہم سب اختر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس عرصے میں ڈاکٹر اختر اور سوامی کے انجکشن لگا چکا تھا۔ اس نے بتایا تھاکہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، وہ دونوں جلد ہی ہوش میں آجائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ تعجب بھی ظاہر کیا تھا کہ اتنی دیر تک پانی میں رہنے کے باوجود ان دونوں کے جسموں میں پانی کیوں نہ بھرا ؟ مگر اس بات کا جواب تو اسی وقت مل سکتا تھا جب سوامی کو ہوش آتا۔
کمرے میں اس وقت اختر اور سوامی کے علاوہ انسپکٹر، سراغ رساں ، جان جیک اور زرینہ موجود تھے۔ میں خاموش کھڑا تھا، زرینہ اختر کے پاس ہی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جلد سے جلد اسے ہوش آ جائے تاکہ وہ اپنے بارے میں بتا سکے۔ وہ کیا ہم سب یہی چاہتے تھے ، مگر اختر ابھی تک بے ہوش تھا اور زرینہ اسے اس حالت میں دیکھ کر اپنے بہتے ہوئے آنسوؤں کو بمشکل روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے روتے دیکھ کر جان نے مسکرا کر کہا:
"کیوں میں نہ کہتا تھا کہ وقت سے پہلے کوئی فیصلہ کرلینا غلط ہوتا ہے؟ تم سمجھتی کچھ تھیں مگر ہو کچھ گیا۔ دیکھ لو یہ دونوں تمہارے سامنے زندہ موجود ہیں۔"
"آپ ٹھیک کہتے تھے، مگر۔۔۔۔ مگر اسے ہوش کیوں نہیں آتا"۔ زرینہ نے اپنے آنسو پونچھ لئے۔
"آجائے گا۔۔ آجائے گا۔۔ خدا پر بھروسہ رکھو۔۔۔"جان نے تسلی دی۔
"ڈاکٹر نے بھی یہی کہا تھا کہ خطرہ نہیں ہے اور ہوش بھی تقریباً دو تین گھنٹے بعد آئے گا۔" جیک نے آہستہ سے کہا۔
"بس تو پھر پریشانی کی کیا بات ہے؟" اس بار میں نے کہا:
"تم بے فکر رہو اور خدا کے لئے یہ رونا دھونا بند کرو۔"
"ہاں بیٹی۔۔ یہ بات ٹھیک ہے، دل پر قابو رکھنا چاہئے۔" جان نے کہا اور پھر کرسی کھینچ کر سوامی کے قریب بیٹھ گیا۔
سوامی کو اب شاید ہوش آرہا تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے پپوٹے ہلنے لگے تھے اور ہاتھوں کی انگلیاں بھی بستر پر سرکنے لگی تھیں۔ اچانک اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور خوف زدہ نظروں سے ہماری شکلیں دیکھنے لگا۔ ہمیں دیکھنے کے بعد اس کی نگاہ اختر کی سمت گئی اور اسے آرام سے لیٹے دیکھ کر وہ مسکرایا اور پھر آہستہ سے بولا۔ "میں۔۔۔ میں کہاں ہوں؟"
"گھبراؤ نہیں، تم اختر کے کمرے میں ہو۔ اختر ٹھیک ہے ، ذرا بے ہوش ہو گیا ہے۔" جان نے اس کا ہاتھ محبت سے تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا۔
"اسے ہوش آ جائے گا نا؟"
"ہاں ہاں۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ایک دو گھنٹے کے اندر وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔"
"بھگوان کا شکر ہے۔" سوامی نے اپنی آنکھیں پھر بند کرلیں۔
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں پھر کھولیں اور اس بار ہمت کر کے بیٹھ گیا۔ سب سے پہلے وہ اٹھ کر اختر کے بستر تک گیا۔ اسے ایک دو منٹ تک دیکھتا رہا اور پھر واپس اپنے بستر پر بیٹھ گیا، اس کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آ رہی تھی، چند لمحے تک وہ خاموش بیٹھا اختر کو گھورتا رہا اور پھر بولا:
"مالک۔۔ میری مانئے تو بابا کو کڑی نگرانی میں رکھئے۔"
"کیا مطلب؟" میں نے گھبرا کر پوچھا۔
"سنو جی۔۔ تم پہلے اپنا بیان لکھواؤ۔" انسپکٹر رانا نے اپنی ڈائری کھولتے ہوئے کہا۔
"کیسی باتیں کرتے ہیں انسپکٹر صاحب" جان نے خشک لہجے میں کہا: "ہم ان باتوں کو راز رکھنا چاہتے ہیں اور آپ پوری دنیا میں یہ بیان چھپوا دینے کے خواہش مند ہیں۔ معاف کیجئے گا، کوئی بیان نہیں لکھا جائے گا۔"
وہ لہجہ ہی ایسا تھاکہ انسپکٹر نے گھبرا کر ڈائری بند کر لی اور بیوقوفوں کی طرح جان کو تکنے لگا۔
"ہاں سوامی تم بتاؤ کیا بات ہے؟" جان کی پیشانی پر ابھی تک برہمی کی لکیریں موجود تھیں۔
"کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں۔" سوامی نے اپنی پلکیں جھپکائیں۔ "آپ کو شاید یقین نہیں آئے گا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جتنے عرصے تک میں غائب رہاہوں، وہ عرصہ میں نے پانی میں نہیں گزارا۔"
"ہاں، ہاں۔۔ یقیناً کسی ساحل پر گزارا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں۔" سراغ رساں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ اڑائی۔
"جی نہیں۔۔ ساحل پر بھی نہیں، بلکہ ایک بڑی مچھلی کے پیٹ میں۔ "
"مچھلی کے پیٹ میں۔۔۔؟" ایک عجیب سا شور یہ سن کر کمرے میں گونج اٹھا۔
سوامی کچھ دیر تک ہماری صورتوں کو تکتا رہا، شاید اسے یہ گمان ہوا کہ ہم لوگوں نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔ لیکن جب میں نے آگے بڑھ کر اس کا کندھا تھپتھپایا اور اشارہ کیا کہ وہ آگے کہے تو اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر اپنی حیرت انگیز داستان جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔
"سرکار یقین مائے گا، میں اتنے عرصے تک مچھلی کے پیٹ میں قید رہا، آپ کو سمجھانے کی خاطر میں اپنی داستان وہاں سے شروع کرتا ہوں جب میں نے ایک بہت بڑے کچھوے کو دیکھا جو بابا کو دبوچے ہوئے سمندر میں گھس رہا تھا۔ میرے پاؤں میں موچ آئی ہوئی تھی، مگر میں نے اس کی پروا نہیں کی، اور تیزی سے دوڑتا ہوا سمندر کی طرف بڑھا۔ شاید وہ پہلا موقع تھا جب میں نے مالک فیروز سے پوچھے بغیر سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی۔۔ مگر بابا کا حشر دیکھ کر دنیا میری نظروں میں اندھیری ہو گئی تھی۔ اس لئے میں نے ایسا کیا تھا۔ جیسے ہی میں سمندر کی گہرائی تک پہنچا، میرا سر اچانک کسی چیز سے ٹکرایا، مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو مجھے ایک بہت بڑی صاف شفاف مچھلی نظر آئی ، شیشے کی طرح چمکیلی، یہ مچھلی اتنی بڑی تھی کہ شاید وہیل مچھلی بھی اتنی بڑی نہ ہوگی۔ پہلی نظر میں مجھے وہ مچھلی ہی نظر آئی اور پھر توجہ سے دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ وہ تو یشے کا ایک بہت بڑا کیبن ہے۔ شیشہ مجھے محسوس نہیں ہوتا تھا۔ صرف میں نے اپنی عقل سے سوچا کہ وہ شیشہ ہے۔ ویسے وہ کوئی رکاوٹ تھی۔ میں یہ اچھی طرح دیکھ رہا تھا کہ بابا کچھ ہی فاصلے پر ایک سمندری چٹان پر چت لیٹا ہوا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ جلد سے جلد اسے بچا لوں تاکہ اس کے پھیپھڑوں میں پانی نہ بھر جانے پائے۔ لیکن میرے اس ارادے کو وہ خاص رکاوٹ پورا نہ ہونے دے رہی تھی۔
میں ابھی یہ ہوچ ہی رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کہ اچانک مجھے دو آدمی اپنی ہی سمت آتے دکھائی دئے۔ سمندر میں داخل ہونے کے بعد انسان اپنا وزن کھو بیٹھتا ہے اور پانی اس کی قوت اور رفتار کو کم کر دیتا ہے مگر دونوں آدمی بجائے آہستگی سے چلنے کے، تیزی سے میری طرف آ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے قدموں کے نیچے نظر نہ آنے والی زمین ہو اور وہ اس پر قدم رکھتے ہوئے آ رہے ہوں۔ میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگا، اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ اگر جلد ہی میں نے سمندر کی سطح تک پہنچ کر سانس نہ لیا تو ہوسکتا ہے، میرا دم گھٹ جائے اور میں ڈوب جاؤں۔ اوپر اٹھنے کے ارادے سے جیسے ہی میں نے اپنے ہاتھ پاؤں ہلائے ان میں سے ایک آدمی نے ایک عجیب سا ہتھیار نکالا اور اس کا رخ میری طرف کر دیا۔ ہتھیار میں سے سبز رنگ کی کرنیں نکلیں۔ اور پھر اچانک میرے آگے کی رکاوٹ دور ہو گئی، مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھے پیچھے سے ایک زور دار دھکا دیا ہو۔ اس دھکے کے باعث میں آگے جا گرا۔ لفظ "گرا" میں نے یوں استعمال کیا ہے کہ اس رکاوٹ کے آگے پانی بالکل نہ تھا، بلکہ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی کمرے میں آگیا ہوں۔"
سوامی جب اتنا کہہ کر سانس لینے کے لئے رکا تو سب احمقوں کی طرح ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ کیوں کہ جو کہانی سوامی اس وقت سنا رہا تھا وہ دوسروں کے نزدیک مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی۔ لیکن چند لوگ ایسے ضرور تھے جن کو اس کہانی پر پورا اعتبار تھا اور ان لوگوں میں میرا بھی شمار تھا۔
"میں نے اب غور سے ان آدمیوں کو دیکھا، وہ ہمارے جیسے ہی انسان تھے"
سوامی نے اپنی داستان پھر جاری رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا:
"البتہ جو ہتھیار ان کے ہاتھ میں تھا وہ میرے لئے بالکل نیا تھا۔ مجھے اب اندازہ ہوا کہ بابا جس چٹان پر لیٹا تھا دراصل اس کے اور چٹان کے درمیان کوئی خاص چیز ضرور تھی ، میرا خیال ہے کہ وہ شیشے کا فرش تھا اور اسی شیشے کے فرش پر بابا بے ہوش پڑا تھا۔ اسے زندہ سلامت دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے بھگوان کا شکر ادا کیا کہ بابا بھی وہیں ہے جہاں میں ہوں، لہذا اس کے پھیپھڑوں میں بھی ابھی تک پانی نہیں بھرا ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں آدمی کون ہیں اور سمندر کے اندر اس عجیب و غریب تیرتے ہوئے مکان میں کیا کر رہے ہیں؟ میرے اس سوال کا جواب بھی مجھے فوراً مل گیا، جس آدمی نے اپنے نرالے ہتھیار کا رخ میری طرف کر رکھا تھا وہ مجھ سے بولا: بے فکر رہئے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی۔ صرف آپ ہمارا کہنا مانئے۔"
"آپ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟"
"گھبرائیے نہیں، ابھی معلوم ہواجاتا ہے" اتنا کہہ کر وہ شخص میرے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے بابا کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا اور پھر آگے بڑھنے لگا تھا، اسے آگے بڑھتے دیکھ کر میرے پیچھے کھڑے ہوئے شخص نے مجھے بھی آگے بڑھنے کا اشارہ کیا، اگر بابا وہیں پڑا رہتا تو شاید میں اس کا یہ حکم نہ مانتا، لیکن جب دوسرا آدمی بابا کو لے کر جا رہا تھا تو میں نے بھی یہی سوچا کہ بابا کے ساتھ رہنا ہی زیادہ مناسب ہے۔"
"وہ دونوں آدمی اختر کو کہاں لے گئے؟" جان نے بڑی بے تابی سے پوچھا۔
"بتا رہا ہوں۔۔ سوامی نے اختر کو دیکھتے ہوئے کہا: "وہ دونوں آدمی ہمیں ساتھ لے کر تقریباً چار فرلانگ تک سمندر کے اندر ہی اندر دور تک لے گئے تھے۔"
"چار فرلانگ؟" جان نے اپنی بھنویں اوپر اٹھائیں: "تو کیا وہ شیشے کا کیبن اتنا ہی بڑا تھا؟"
"جی ہاں وہ اتنا ہی بڑا تھا، مجھے تو یوں لگ رہا تھا کہ میں سمندر کی تہہ سے کافی اوپر ایک صاف شفاف اور بالکل سیدھی لیکن حرکت کرتی ہوئی زمین پر چل رہا ہوں۔ چلتے چلتے جب بہت دیر ہو گئی تو مجھے ایک تکونا گنبد نظر آیا۔ یہ دراصل ایک حیرت انگیز عمارت تھی۔ وہ لوگ ہم دونوں کو اسی عمارت کے اندر لے گئے۔ لیکن میں اب اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کسی قسم کی لیبارٹری تھی۔ اس کے اندر حیرت انگیز آلات لگے ہوئے تھے جو میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھے۔ اس جگہ چار آدمی اور تھے۔ انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر ہم دونوں کو فوراً ایک میز پر لٹا دیا۔ میز پر لٹانے کے بعد میرے اور بابا کے سر پر بجلی کی ایک ٹوپی چڑھا دی گئی۔ میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتا کہ وہ کیا چیز تھی۔ بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کہ اس گیند نما ٹوپی میں سے مختلف رنگ کے تار نکل کر ایک الماری نما مشین میں جا رہے تھے اور اس مشین میں لگی ہوئی لا تعداد گھڑیوں کی سوئیاں ہل رہی تھیں۔ کہیں کہیں بجلی کے شرارے اڑ رہے تھے اور چمکیلی سبز کرنیں کپکپا رہی تھیں۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں کہ ان میں سے ایک آدمی بابا کے قریب گیا اور اس نے پھر الماری نما مشین کا ایک بٹن دبادیا۔ ایک زبردست گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی، اچانک مجھے لگا جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں اور میرے چاروں طرف سبز رنگ کے بادل لہرا رہے ہیں۔ بھگوان جانے وہ لوگ کیا چاہتے تھے؟"
"اس مشین کا اثر تم پر کیا ہوا؟" جان نے دریافت کیا۔
"کوئی اثر نہیں ہوا۔ بس میں نے اندازے سے جانا کہ مجھے اس میز پر لیٹے لیٹے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ میرے اور بابا کے آس پاس کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر ان میں سے ایک جو دراز قد تھا آگے بڑھ کر بولا:
"آپ لوگوں کا کام ختم ہو گیا اب آپ اوپر سطح پر جا سکتے ہیں۔"
"مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آخر میرا کام ہی کیا تھا اور ان لوگوں نے ہمیں وہاں کیوں روکے رکھا۔ اپنی حیرت رفع کرنے کے لئے میں نے ان سے پوچھا۔ لیکن ہمارا کام کیا تھا؟ آپ لوگ کون ہیں؟"
"ہم کون ہیں، یہ وقت آنے پر معلوم ہو جائے گا۔"
"لیکن آپ نے ان ٹوپیوں کے ذریعے ہم پر کون سا عمل کیا ہے۔ یہ تو بتا دیجئے۔"
"مجھے افسوس ہے کہ یہ سب باتیں راز میں رہنی ضروری ہیں، میں نہیں بتا سکتا۔"
وہی شخص مسکرا کر بولا: "ویسے ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ ہمیں آپ لوگوں کے جسموں کو ٹیسٹ کرنا تھا وہ ہم نے کر لیا۔ بے فکر رہئے، آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی آپ کا ساتھی کم زور ہے اس لئے اسے دیر میں ہوش آئے گا، اب آپ جا سکتے ہیں۔"
"میں پھر کچھ پوچھنا چاہا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا: بس کوئی سوال نہیں۔"
اور اس کے بعد اپنے آدمیوں سے کسی ایسی زبان میں جو میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی، اس نے کچھ کہا۔ وہ لوگ ہمیں ساتھ لے کر پھر اسی مقام پر آئے اور انہوں نے پہلے ہی کی طرح بابا کو چٹان کے اوپر لٹا دیا۔ میں بابا کے پاس ہی کھڑا رہا، اچانک ایک زبردست تڑاخا ہوا ، دھواں اتنا گہرا تھا کہ مجھے اپنے سے دس فٹ دور کی چیز نظر نہ آتی تھی، اس کے ساتھ ہی دووسری حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ یکایک مجھے یوں لگا جیسے میں پانی میں ہوں اور سمندر کی تہہ میں بیٹھتا جا رہا ہوں اور اگر میں نے جلدی ہی ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو یقیناً ڈوب جاؤں گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے تیرنا شروع کردیا اور پھر سیدھا اس طرف چلا جہاں بابا لیٹا ہوا تھا۔ دھواں چونکہ کم ہو چکا تھا اس لئے بابا مجھے فوراً ہی نظر آ گیا۔ میں نے فوراً اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور پھر پانی میں اوپر ابھرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی سمندر کی سطح پر آ گیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔"
سوامی اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی داستان بڑی عجیب تھی، میرے دل میں ہزاروں سوال اٹھ رہے تھے اور میں انہیں پوچھنا بھی چاہتا تھا، مگر جان کی موجودگی میں اس سے پہلے دریافت کرنا مجھے کچھ مناسب معلوم نہ ہوا۔ مگر وہی سوال جو میں پوچھنا چاہتا تھا، اچانک جیک نے پوچھ لیا۔
"لیکن ان لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے بیشک نہیں بتایا لیکن تم نے ایک اندازہ تو لگایا ہوگا؟"
"سوال یہ ہے وہ لوگ کون تھے؟" جان آنکھوں کو آدھا کھول کر دیکھنے لگا۔
"ہماری پولیس اور افواج نے سمندر کا کونہ کونہ چھان مارا تھا مگر کسی ایسے طویل کیبن کا وجود بھی ثابت نہ ہوسکا تھا ، پھر اس سے کیا یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ کے اس ساتھی نے سوتے میں یہ سب کچھ دیکھا۔۔!"
جان اور جیک چونک کر انسپکٹر رانا کو دیکھنے لگے۔ جس نے یہ عجیب و غریب بات کہی تھی۔ مگر وہ بے چارہ چونکہ بہت سی باتوں سے بے خبر تھا اس لئے اس کا اس طرح سوچنا بھی حق بجانب تھا۔ جان نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ مجھ سے کہنے لگا:
"فیروز مجھے آثار اچھے نظر نہیں آتے جو سوالات اس وقت تمہارے اور میرے دل میں پیدا ہو رہے ہیں، انہیں یوں ہی رہنے دو۔ اور اب سب سے پہلے ایک لمبے سفر کا بندوبست کرو۔"
"جی نہیں۔" زرینہ تقریباًچیختی ہوئی اختر کے بستر سے اٹھی اور جوش سے بھری ہوئی آواز میں بولی: "میں آپ لوگوں کو کہیں نہ جانے دوں گی۔ میں اب ہرگز برداشت نہیں کرسکتی کہ آپ لوگ مجھ سے جدا ہوں۔"‘
جان نے زرینہ کو کوئی جواب نہ دیا ، صرف اسے ایک بار دیکھ کر نگاہیں نیچی کر لیں۔
"اختر بڑی مشکل سے مجھے واپس ملا ہے ، میں اب نہیں چاہتی کہ کسی نہ کسی طرح یہ پھر غائب ہوجائے۔"
"اچھا!" جان نے اطمینان کا ایک لمبا سانس بھر کر کہا: "تو پھر پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ چند دن آرام کر لیا جائے، اس کے بعد سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔"
چند دن آرام میں کٹے۔ لیکن اس وقفے میں کچھ باتیں بڑی حیرت انگیز ہو گئیں۔ سب سے عجیب بات تو یہ ہوئی کہ فوج اور پولیس نے لمبے لمبے جال سمندر میں ڈال کر شیشے کا وہ کیبن تلاش کرنا چاہا، جو سوامی کے بیان کے مطابق سمندر میں موجود تھا، مگر ان تھک کوشش کے باوجود اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ پولیس کے ساتھ ہی فوج کے ذمہ دار افسروں نے بھی یہ خدشہ ظاہر کیاکہ سوامی نے کہیں کوئی خواب نہ دیکھا ہو، اور اسی لئے وہ الٹی سیدھی باتیں بیان کر گیا ہو۔ لیکن میں، جان، اور جیک اچھی طرح جانتے تھے کہ سوامی کا بیان سچا ہے۔ سب سے بڑی سچائی تو اس کے بیان کی یہی ہے کہ اختر اور خود وہ کافی دیر تک پانی میں رہے اور پھر زندہ سلامت واپس آئے۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اختر ہوش میں آنے کے بعد کچھ چپ چپ سا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی ویرانی دکھائی دیتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہم سب کو دیکھ بھی رہا ہو اور نہیں بھی دیکھ رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس کا چلبلا پن بھی رخصت ہوگیا تھا۔ وہ ہم لوگوں کے سامنے بالکل باادب بیٹھا رہتا تھا، اور اب کبھی کبھار ہماری گفتگو میں شریک ہوتا تھا۔ کبھی ہم اس سے کوئی سوال دریافت بھی کرتے تو جواب محض ہوں یا ہاں میں ملتا۔
جان چونکہ اچھا سائنس داں اور ڈاکٹر تھا، اس لئے اس نے اختر کا بغور معائنہ کیا اور بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، ویسے سمندر کی تہہ میں کافی عرصے تک رہنے کے بعد اس نے کوئی خطرناک اور خوفناک چیز دیکھی ہے ، اسی لئے اس کے ذہن پر اثر ہے اور وہ خوفزدہ ہے۔
"لیکن وہ چیز کیا ہو سکتی ہے ؟" میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
"یہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا، سوامی نے تو یہی بتایا تھا کہ وہ شیشے کے مکان میں قید رہا اور وہ لوگ ہماری ہی جیسی شکلوں کے انسان تھے۔"
"جی ہاں۔۔ وہ بالکل گوشت پوست کے تھے، یعنی ایسے نہیں تھے جیسے زہرہ کے باشندے ہوتے ہیں۔" سوامی نے فوراً کہا۔
"مگر تم بھول رہے ہو، پچھلے سفر میں ہمارے ایک ساتھی کے بارے میں سچ سچ بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ زہرہ کا باشندہ تھا۔ اس کی شکل کتنی خوفناک تھی! لیکن وہ انسانی شکل میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔" میں نے جواب طلب نظروں سے سوامی کو دیکھا۔
سوامی نے کوئی جواب نہ دیا، نگاہیں نیچی کرکے وہ کچھ سوچنے لگا۔
"ہمیں اختر کی زیادہ سے زیادہ نگرانی کرنی پڑے گی۔" جان نے کہا: "کیونکہ شاکا اور اس کے ساتھی صرف اختر ہی سے اپنے پہلے لیڈر جیگا کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ، ان تمام حادثوں سے میں یہی اندازہ لگا سکا ہوں۔"
"آپ کا خیال درست معلوم ہوتا ہے ، کیوں کہ زرینہ نے بتایا ہے کہ اختر کے کمرے میں جب وہ صبح سو کر اٹھتا ہے ، چمکیلے سبز رنگ کا دھواں بھرا ہوا ملتا ہے۔"
جان نے یہ سن کر حیرت سے اپنی بھوئیں اچکائیں ، پہلے مجھے دیکھا اور پھر زرینہ کو۔
"بس تو پھر مجھے یقین ہو گیا۔" اس نے آہستہ سے کہا: "ضرور میری سوچی ہوئی بات درست ہے ، ہمیں اختر کی نگرانی کرنی ہی پڑے گی۔"
اختر حسب عادت سر جھکائے ہوئے ہماری باتیں سن رہا تھا اس عرصے میں جب ہم لوگ گفتگو میں مصروف تھے ، اس نے ایک بار بھی ہمیں نہیں دیکھا تھا۔ لیکن جان نے جب آخری فقرے ادا کئے تو وہ چونک کر ہمیں دیکھنے لگا۔
"کیوں اختر۔۔ کیا بات ہے؟" میں نے جلدی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں۔۔ بس یوں ہی۔ "اختر کا نہایت مختصر سا جواب تھا۔
شاید جمعہ کا دن تھا، جان نے ایک نہایت ضروری اور خاص میٹنگ بلائی تھی۔ اس میٹنگ میں جیک، سوامی ، میں، اختر اور زرینہ شامل تھے۔ جان نے ہم سب کو باری باری دیکھنے کے بعد کہا:
"میں ایک بہت ہی ضروری اور اہم بات کہنا چاہتا ہوں ، ہم لوگ سمجھ رہے تھے کہ 'کالی دنیا' والے سفر کے بعد سیارہ زہرہ والوں سے ہماری جنگ ختم ہو چکی ہے۔ مگر اب یہ حقیقت ہے کہ جنگ ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی ہے اور اس جنگ کا آغاز نجمہ اور امجد کے اغوا سے ہوا ہے۔ کچھ باتیں جو میں اب تک سمجھ چکا ہوں ، آپ لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہتا۔ میں جانتا ہوں کہ اختر کی ماں یہ سن کر ضرور گھبرا جائیں گی کہ ہم لوگوں کا سیارہ زہرہ میں جانا اب بے حد ضروری ہے۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ امجد اور نجمہ کو ہم اسی صورت میں آزاد کرا سکتے ہیں جب وہاں خود جائیں، سیارہ زہرہ کے ڈکٹیٹر نے اختر کو عارضی طور پر خاموش کر دیا ہے۔ شاید اسی لئے کہ وہ سمندر کے اندر پیش آئی ہوئی باتیں ہمیں نہ بتا سکے۔ اس کے کمرے میں روزانہ اسی لئے سبز دھواں بھر دیا جاتا ہے کہ وہ غنودگی کی حالت میں رہے اور ہوش میں آکر ہمیں چند رازوں سے آگاہ نہ کر دے۔ مگر سوامی کے بیان نے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔ میں اب جان چکا ہوں کہ نجمہ اور امجد کو کس طرح آزاد کرایا جا سکتا ہے، میری تجویز کو اب آپ غور سے سنئے۔"
جان سانس لینے کے لئے رکا اور ہم سب توجہ سے اس کی طرف دیکھتے رہے۔
"ہم لوگ کل صبح بمبئی سے امریکہ کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ زرینہ اگر ہمارے ساتھ چلنا چاہیں تو بے شک چل سکتی ہیں۔ میرا پروگرام بالکل واضح ہے، ہم لوگ نیویارک میں والٹر اسمتھ کے مہمان ہوں گے۔ یہ شخص میرے دوستوں میں سے ہے اور امریکہ کی خلائی مہم میں ایک بڑا افسر ہے۔ اسی کی نگرانی میں خلا میں جانے والے راکٹ تیار ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک عظیم سائنس داں ہے اور مہم جو لوگوں کی قدر کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ میرے راز کو راز رکھے گا اور شاگو کے بتائے ہوئے فارمولے کے مطابق مجھے وہ راکٹ تیار کرنے میں مدد دے گا، جو ایک ماہ کے اندر اندر سیارہ زہرہ کی طرف ہم سب کو لے کر پرواز کر جائے گا۔"
اتنا کہنے کے بعد جان نے سب کو جواب طلب نظروں سے دیکھا، زرینہ کا چہرہ بالکل سفید ہو گیا تھا مگر وہ خاموش تھی اور کبھی کبھی کنکھیوں سے مجھے دیکھ لیتی تھی۔ جیک اور سوامی کے چہرے بتا رہے تھے کہ انہیں اس پروگرام پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ ہر حال میں جان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ البتہ میں زرینہ اور اختر کی حالت کو دیکھتے ہوئے اندرونی کشمکش میں مبتلا تھا۔ جان نے یہ بات نوٹ کرلی اور مجھ سے پوچھا: " تم کچھ سوچ رہے ہو فیروز۔"
"میں۔۔۔ ہاں میں یہ سوچ رہا ہوں کہ زرینہ اتنے لمبے سفر پر جانے کی مجھے کس طرح اجازت دے سکتی ہے۔"
"اجازت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔"زرینہ نے جوشیلے لہجے میں کہا۔
"میری طرف سے اجازت ہے ، اس لئے کہ اس بار میں آپ میں سے کسی کو بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گی۔"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا۔۔۔ کیا تم بھی۔۔۔۔ " میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
"جی ہاں۔۔ اس مرتبہ میں بھی ساتھ چلوں گی۔۔۔ جو بھی حشر ہونا ہے ، سب کا ایک ساتھ ہی تو ہوگا۔"
"شاباش!" جان نے خوش ہو کر کہا: "مجھے تم سے یہی امید تھی۔۔ لیکن گھبراؤ نہیں ، خدا نے چاہا تو ہم کامیاب لوٹیں گے اور خدا ہی قدم قدم پر ہماری مدد فرمائے گا۔"
"نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔"
اچانک اختر چلا کر کھڑا ہو گیا، وہ بڑی دیر سے خاموش بیٹھا تھا۔ مگر اب اس کا چہرہ سفید تھا ، جسم کپکپا رہا تھا، مونہہ سے جھاگ نکل رہے تھے، آنکھیں غصے کے باعث پھٹی ہوئی تھیں اور چہرہ بے حد خونخوار ہو گیا تھا۔ اس کے ہاتھ ہماری طرف منع کرنے کے انداز میں اٹھے ہوئے تھے۔ بھرائی ہوئی آواز میں وہ کہہ رہا تھا۔
"ہرگز نہیں۔۔ میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔۔ کوئی نہیں جائے گا۔"
اختر کی یہ بات سن کر ہم سب کو ایسا لگا جیسے کمرے میں اچانک کوئی بم پھٹ گیا ہو! حیرت اور تعجب سے ہم اس کی شکل دیکھ رہے تھے، نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ غصے کے باعث تھر تھر کانپ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اختر نہیں کوئی اور ہے۔ اختر کے چہرے پر معصومیت اور بھولپن نظر آیا کرتا تھا، اس وقت وہ غائب ہو چکا تھا۔ اس کے ہونٹوں کے سرے نفرت کے انداز میں نیچے کی طرف جھکے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے درندگی نمایاں تھی اور وہ بھیانک نظروں سے باری باری ہم سب کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید کچھ عرصے سمندر میں رہنے کے باعث اختر کا دماغ ماؤف ہو گیا ہے۔ جن عجیب و غریب حالات سے وہ دوچار ہو چکا ہے ، یہ اسی کا رد عمل ہے۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپا کر نرمی سے کہا:
"اختر۔۔ بیٹے۔۔۔ آرام سے بیٹھو، کیا بات ہے؟ تم اتنے گھبرا کیوں گئے؟"
"نہیں۔۔ میں کہہ چکا ہوں، کوئی نہیں جائے گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔"
اختر نے اتنا کہہ کر اپنے کندھے پر رکھا ہوا میرا ہاتھ بڑے زور سے جھٹک دیا۔ اس کی اس حرکت سے مجھے بہت دکھ پہنچا، کیوں کہ اختر آج تک میرا بڑا ادب کرتا آیا تھا، اس نے کبھی مجھ سے اتنی بدتمیزی سے بات نہیں کی تھی، حیرت کے باعث میں تو گنگ ہو کر رہ گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں