ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 03 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-25

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 03

neeli-dunya-siraj-anwar-03

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
پورے ملک سے بجلی غائب ہو چکی تھی اور ہندوستان بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گیا تھا۔ چھبیس طیارے نیچے گر پڑے تھے جس کے سبب لاتعداد مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ نوابزادہ فیروز کے محل کے ایک کونے میں اچانک چمکیلا غبار نمودار ہوا جس میں سے ایک زوک اور ایک جکاری کی شبیہہ واضح ہوئی۔ ان دونوں نے اطلاع دی کہ وہ لوگ شاگو کو گرفتار کر چکے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی انتباہ دیا کہ پورے شہر پر دوبارہ خوفناک قسم کا حملہ ہوگا جس کا بھیانک منظر کوئی برداشت نہ کر سکے گا۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کچھ دن پہلے اختر جب ایک منظر کی تصویر کھینچ رہا تھا تو میں اسے کیمرے سے تصویر کھینچتے ہوئے دیکھ کر مسکرا رہا تھا، لیکن آج جب سے اختر نے یہ تصویر اتار کر مجھے دکھائی تھی، تب ہی سے میری مصیبتوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ منظر کی تصویر کو تو میں نے اشتیاق سے دیکھا تھا مگر اس تتلی والی تصویر کو دیکھ کر میرے دل میں دہشت اور تھرتھری پیدا ہو گئی تھی۔


میں ان مکھیوں کو حیرت اور تعجب سے کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا۔ میں آپ سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ میں بہت زیادہ خوفزدہ تھا۔ مجھے اپنے پچھلے سفر یاد آنے لگے تھے۔ اور میرا دل ایک خاموش دعا کر رہا تھا۔۔۔ یا خدا کیا اس پوری دنیا میں میری ہی قسمت میں اس قسم کے حادثات سے دوچار ہونا لکھا ہے؟ خدایا جیسے تو نے مجھے پہلے ان آفتوں سے بچایا ہے اس نئی مصیبت سے بھی بچا۔۔۔


جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ اختر بھی دیکھ چکا تھا۔ حیرت اور خوف کے باعث اس کی بھی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ وہ سانس رو کے ہوئے دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں مکھیاں بڑھتے بڑھتے چھوٹے سے مینڈک کے برابر ہو گئی تھیں اور بے حد گھناؤنی لگ رہی تھیں۔ ان کے پروں کی بھنبھناہٹ بھی تیز ہو گئی تھی اور کمرہ ایک مہیب سنسناہٹ سے گونجنے لگا تھا۔ میں ٹکٹکی لگائے ادھر ہی دیکھ رہا تھا کہ اچانک سوامی اندر داخل ہوا۔ شاید اس نے مکھیوں کو نہیں دیکھا تھا، اسی لئے اس نے کہا:
"مالک! میں مچھر مار دوا کی بوتل تلاش کر رہا ہوں، نوکروں نے نہ جانے کہاں رکھ دی ہے۔" مجھے خاموش دیکھ کر وہ پھر بولا: "ادھر بی بی کے کمرے میں بہت بڑے بڑے مچھر آ گئے ہیں، شاید یہاں کی نئی نسل ہے۔ سچ مالک، میں نے اتنے بڑے مچھر آج تک نہیں دیکھے۔ میں اسی لئے تو مچھر مار دوا ڈھونڈتا پھر۔۔۔ مالک! کیا بات ہے ، آپ کا چہرہ بالکل زرد ہو رہا ہے اور بابا بھی نہ جانے۔۔۔"
اس سے پہلے کہ میں اسے جواب دیتا، اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میری نظریں کس طرف تھیں۔ اور جب اس نے بھی مکھیوں کی غیر معمولی جسامت کو دیکھ لیا تو تعجب اور دہشت کے باعث گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
"م۔۔ م۔۔ مالک یہ کیا ہے؟"


مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا، اس لئے جواب کیا دیتا ، سوامی جواب نہ پا کر پھر پوچھنے لگا: "اتنی بڑی مکھیاں! مالک وہ مچھر بھی کافی بڑے تھے کیا یہ کوئی نئی مصیبت ہے؟"
"کلو سوامی۔۔۔" اختر نے کپکپاتی آواز میں بڑی دیر کے بعد کہا: "میرے فوٹو کو دیکھو اس میں تتلی بھی بہت بڑی ہے۔"
"پھر تو آسمان پر وہ چڑیاں ہی اڑ رہی ہوں گی جنہیں میں گدھ سمجھا تھا۔"
سوامی کی یہ بات سن کر میں اچانک چونک گیا اور اسے سراسیمگی سے دیکھتے ہوئے بولا: "کیا کہتے ہو؟ کیا چڑیاں بھی بڑی ہو گئی ہیں؟"
"ہاں مالک، آسمان پر اور درختوں پر میں نے بہت بڑی بڑی چڑیوں کو اڑتے اور بیٹھتے دیکھا ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ آج ہمارے باغ میں گدھ یا چیلیں آ کر بیٹھ گئی ہیں ، مگر اب معلوم ہوا کہ وہ تو چڑیاں ہیں اور نہ جانے کس طرح اتنی بڑی ہو گئی ہیں؟"
"آج کا دن اچنبھوں کا دن ہے، سوامی خدا سے دعا کرو کہ وہ ہماری مدد کرے۔" میں نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا۔
"ابا جی۔۔ آپ کہیں تو میں ان مکھیوں کو مار ڈالوں؟"


اس میں شک نہیں کہ میرا بیٹا اختر بہت بہادر تھا۔ مگر میں اسے اب نئی آفتوں میں دھکیلنا نہیں چاہتا تھا۔ میں اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ زہرہ کی مخالف پارٹی کے لیڈر شاکا کے اس جملے کا مطلب دراصل کیا تھا جو اس نے ایک دن پہلے مجھ سے کہا تھا۔ یعنی یہی کہ ہم پر حملہ ہونے والا ہے اور وہ حملہ اس قسم کا ہوگا کہ میں پریشانی کے عالم میں خود کشی کر لوں گا، تو کیا یہی تھا وہ حملہ؟ کیا زہرہ کے سائنس دانوں نے ہمارے ہندوستان پر دیو زاد جانوروں کی فوج سے حملہ کرانے کا منصوبہ بنایا تھا ؟ میرے خدا! اگر یہی حقیقت ہے تو پھر اب کیا ہوگا؟ جب وہ لوگ مجھے اور میرے ساتھیوں کو کچھ ماہ پہلے پاتال کے ایک قید خانے میں صرف چند انچ کا بنا سکتے ہیں (تفصیل کے لئے ناول "کالی دنیا" پڑھئے) تو معمولی سے قد والے جانوروں کو دیوؤں کا سا قد بھی دے سکتے ہیں۔


میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اور اس نئی آفت سے بچنے کے لئے کون سی تدبیر اور کون سا ذریعہ اختیار کروں؟ سوامی بھی احمقوں کی طرح کھڑا کبھی مجھے اور کبھی دیوار پر بیٹھی ہوئی ان مکھیوں کو دیکھ رہا تھا جو اب کم از کم چار انچ کے قریب بڑی ہو چکی تھیں۔ ان کی بھنبھناہٹ اب ناگوار ہونے لگی تھی۔ اس بھنبھناہٹ میں وہ شور دب گیا تھا جو محل کے چاروں کونوں سے مجھے بڑھتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ محل کے ملازموں میں بھی بھگدڑ مچ گئی ہے اور وہ چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے مختلف جانوروں کی تیز آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ اچانک مجھے زرینہ کا خیال آیا۔۔۔ زرینہ کیا کر رہی ہے اپنے کمرے میں؟ کہیں وہ ان چیزوں سے زیادہ خوف زدہ نہ ہو جائے؟ میں نے سوچا کہ جلدی سے اس کے کمرے میں جاؤں اور اسے یہیں بلا لوں، میں یہ ارادہ کر کے آگے بڑھا ہی تھا کہ سومی نے مجھے روک کر ایک طرف اشارہ کیا اور پھر جو میں نے دیکھا وہ مجھے حواس باختہ کر دینے کے لئے کافی تھا۔


میں نے دیکھا کہ ایک چھپکلی رینگتی ہوئی مکھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی ، اور یہ چھپکلی معمولی سی نہیں بلکہ ایک گز لمبی تھی۔ وہ بےحد خوفناک لگ رہی تھی۔ اس کی سفید سفید آنکھیں بجلی کے قمقموں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اس نے اپنی لمبی زبان نکال کر ایک مکھی کو لپک کر اپنے حلق میں گھسیٹ لیا۔ اختر کراہیت اور دہشت کے باعث ایک دم دیوار سے دور ہٹ گیا۔ سوامی نے دروازے پر لٹکانے والے پردے کا ڈنڈا نکال کر ہاتھ میں لے لیا، کیوں کہ اس کے علاوہ کمرے میں اور کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا۔
میرے قدم وہیں جم کر رہ گئے تھے۔ میں زرینہ کی طرف بڑھ بھی نہ سکا جو بھیانک چیخیں مارتی ہوئی اور تیزی سے بھاگتی ہوئی کمرے کے دروازے کی طرف آ رہی تھی۔ میں نے جو کچھ دیکھا اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اف خدا۔۔۔ ایک معمولی سی بلی، اس کی پالتو بلی، اب ایک خونخوار شیرنی بن کر اس پر حملہ کرنے کے لئے اس کا تعاقب کر رہی تھی۔
زرینہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی، سوامی نے بڑی عقل مندی سے کام لیتے ہوئے فوراً دروازہ بندکر دیا اور اندر سے اسے بولٹ کر دیا۔ شیرنی نما بلی دروازے کو دھکیلنے لگی اور خوف ناک آواز میں غرانے لگی۔
ابھی میں کچھ سمجھنے بھی نہ پایا تھاکہ اچانک اختر نے چیخ ماری۔۔۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ آہ کیا بتاؤں کیا دیکھا۔۔۔ دیوزاد چھپکلی مکھیوں کو چٹ کر چکی تھی اور اب خونخوار نظروں سے اختر کو دیکھتی ہوئی اور دبے دبے پاؤں رکھتی ہوئی اس کی طرف چھلانگ لگانے کی کوشش کر رہی تھی۔


اس کی زرد آنکھوں میں انسانوں کے خلاف نفرت صاف نظر آتی تھی۔ بار بار وہ اپنی پتلی سی زبان باہر نکالتی اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر لیتی، اس کی لمبی دم بے قراری سے ہل رہی تھی۔ بالکل وہی سماں تھا جو ہم سب ایک بار پاتال میں ایک دیو زاد گرگٹ کے حملے کے وقت دیکھ چکے تھے۔ (ناول "کالی دنیا" پڑھئے) اس وقت تو امجد کی بہادری کی وجہ سے ہماری جان بچ گئی تھی، مگر اس وقت صرف خدا کی ہی ذات تھی جو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا سکتی تھی۔


جیساکہ آپ سب جانتے ہیں، اختر بھی اب نوعمر لڑکا نہیں رہا تھا، بلکہ اب اس کا قد اچھا خاصا بڑھ چکا تھا۔ اس میں اتنی طاقت ضرور تھی کہ مصیبت کے وقت اپنی حفاظت خود کر سکے۔ چھپکلی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر پہلے تو وہ گھبرا گیا ، لیکن پھر اچانک خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ میں اور زرینہ دروازے کے قریب کھڑے تھے اور سوامی اختر کی مدد کے خیال سے لپک کر اس کی پشت پر پہنچ چکا تھا۔ سوامی میرے بچوں کو کس قدر چاہتا تھا، اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب سوامی نے اختر کو کندھے سے پکڑ کر اپنے پیچھے کرنے کی ایک ناکام کوشش کی۔
اختر نے اپنے کندھے جھٹک کر سوامی کو پیچھے دھکیل دیا اور پھر جلدی سے برابر ہی رکھی ہوئی ایک کرسی اٹھائی ، بس یہ لکڑی کی کرسی ہی وہ ہتھیار تھی جس کے بھروسے پر اختر اس دیو زاد چھپکلی سے ٹکر لینے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ چھپکلی نے اب اپنے مقام سے ایک جست لگائی تھی ، اس کے جست لگاتے ہی زرینہ زور کی ایک چیخ مار کر اختر کو بچانے کی خاطر اس کی طرف لپکی۔ لیکن میں نے فوراً اسے پیچھے گھسیٹ لیا۔
شاید آپ لوگ مجھے بزدل سمجھیں گے کہ میں اپنے عزیز بیٹے کو موت کے مونہہ میں جاتے دیکھتا رہا اور خود ایک کونے میں اپنی بیوی کو سہارا دیئے کھڑا رہا۔ لیکن درحقیقت یہ بات نہیں ہے میں خطروں کی چکی میں پس کر اب کندن بن چکا تھا۔ بہت کچھ کھو کر میں نے ایک چیز حاصل کی تھی اور وہ چیز تھی اوسان! میں جانتا تھا کہ ایسے موقعوں پر اوسان کتنے کام آتے ہیں۔ آدمی سے ذرا بھی چوک ہو جائے تو وہ نقصان اٹھا سکتا ہے ، اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ اوسان ہارنے سے بہتر یہی ہے کہ اختر اور سوامی کو اکیلے اس بلا کا مقابلہ کرنے دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس عرصے میں مجھے کوئی طریقہ سوجھ جائے اور میں ان دونوں کی مدد کر سکوں۔


چھپکلی ہوا میں چھلانگ لگا کر اختر کے اوپر آئی اور اختر نے کرسی کی ڈھال بنا کر اسے روکا۔ چھپکلی فرش پر گرتے ہی پھر سنبھلی ارو اس بار اس نے اچھل کر اختر کی ٹانگ مونہہ میں دبانے کی کوشش کی۔ مگر اختر چونکہ پہلے ہی سے ہوشیار تھا، اس لئے اس نے جلدی سے اپنی ٹانگ پیچھے کھینچ لی، اور پھر فوراً ہی کرسی چھپکلی پر دے ماری۔ لیکن شاید ہماری قسمت خراب تھی، کرسی چھپکلی کی کمر پر گرنے کی بجائے پختہ فرش پر گری، کیوں کہ اتنے سے وقفے میں چھپکلی کروٹ لے کر کرسی کی زد سے باہر نکل چکی تھی۔
مکھیوں کی تیز اور گونجتی ہوئی بھنبھناہٹ اب ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ ویسے بھی عام حالات میں ہم ننھی سی مکھی کا بوجھ اپنے جسم پر برداشت نہیں کرتے اور جب بھی کوئی مکھی ہمارے جسم کے کسی حصے پر بیٹھتی ہے تو ہم اسے فوراً اڑانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس وقت کمرہ جن مکھیوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا، وہ کوئی معمولی مکھیاں نہیں تھیں بلکہ بڑھتے بڑھتے وہ اب مرغی کے انڈے سے بھی بڑی ہو چکی تھیں۔ اور ستم یہ تھا کہ یہ مکھیاں بھی اب ہم پر حملہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ ایسی ہی ایک مکھی نے جب زرینہ کے منہ پر بیٹھنے کی کوشش کی تو خوف زدہ ہوکر اس نے جلدی سے دروازے پر پڑے ہوئے پردے سے اپنا منہ چھپا لیا۔ مکھی نے اپنے شکار کو بھاگتے دیکھ کر رخ پلٹا اور میری طرف متوجہ ہوئی، جیسے ہی وہ بھن بھن کرتی ہوئی میرے قریب آئی میں نے صوفے پر پڑا گدا اٹھا لیا اور تاک کر اسے مارا نتیجہ ظاہر تھا۔ مکھی دیوار سے جا کر ٹکرائی اور فوراً مر گئی۔


لیکن کمرے میں صرف ایک ہی مکھی تو نہیں تھی اور بھی بہت سی مکھیاں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھیں۔ یہ سوچ کر کہ مکھیوں سے نمٹنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے میں اختر کی طرف متوجہ ہوا۔ ساتھ ہی میں نے زرینہ کو ہدایت دی کہ وہ اسی طرح پردے میں لپٹی رہے۔ دروازے پر خوفناک بلی کی غراہٹ اور کھسیا کر دروازہ نوچنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ ساتھ ہی بلی دروازے کو بار بار دھکا بھی دے رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دروازہ اب ٹوٹا اور اب ٹوٹا! زرینہ ان آوازوں کو سن کر سہم گئی تھی اور بدستور پردے کے اندر لپٹی ہوئی تھی۔


چھپکلی ابھی تک اپنی خوفناک زبان نکال کر بار بار اختر کو ندیدے انداز سے دیکھ رہی تھی۔ سوامی نے بھی اختر کی دیکھا دیکھی ایک کرسی اٹھا لی تھی اور موقع دیکھ رہا تھا کہ کب چھپکلی اس کی زد میں آتی ہے ، چھپکلی تو اس کی زد میں جب آتی، تب آتی، اتفاقاً میں ہی ایک دوسری چھپکلی کی زد میں آ چکا تھا۔ مجھے خبر بھی نہ ہوئی اور چھت پر سے ایک منحوس چھپکلی اچانک میرے اوپر کودی، جیسے ہی ایک بوجھ سا مجھ پر آیا، میں نے گھبرا کر اپنے کندھے جھٹکے اور بے اختیار اپنے ہاتھوں سے اس بھیانک عفریب کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔ میرے خدا کتنی بدبو تھی اس میں اور کس قدر گھناؤنی تھی وہ!


کچھ ہی دیر بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ کمرے کی تینوں چھپکلیاں اب ہماری دشمن بن چکی ہیں۔ اور شاید انہوں نے سازش کر کے ایک ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ کیوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اب وہ تینوں ایک مقام پر جمع ہو چکی تھیں اور اپنی لمبی لمبی زبانیں ایک دوسرے کی طرف بڑھا کر یہ مشورہ کر رہی ہیں کہ حملہ کس طرح کیا جائے؟ ہم سب کے لئے یہ صورت حال بہت نازک تھی۔ میری عقل حیران تھی کہ کیا کروں، اگر مجھے علم ہوتا تو اپنی رائفل ہی اپنے کمرے میں سے لیتا آتا۔ مگر کیا معلوم تھا کہ ایسا وقت آنے والا ہے۔ جب مجھے مگر مچھ سے بھی بڑی چھپکلیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور میں ان کے آگے خود کو بے بس و لاچار سمجھوں گا۔


زرینہ نے بھی شاید بزدلوں کی طرح خود کو پردے کے پیچھے چھپانا اچھا نہیں سمجھا۔ وہ میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ سوامی کے ہاتھ میں پہلے ایک ڈنڈا تھا، جسے چھوڑ کر اس نے اختر کی طرح کرسی ہاتھوں میں اٹھا لی تھی۔ وہی ڈنڈا اب زرینہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خوفزدہ نظروں سے کبھی کمرے میں چاروں سمت گھومتی ہوئی مکھیوں کو دیکھنے لگتی اور کبھی چھپکلیوں کو۔ چھپکلیاں آہستہ آہستہ اپنے پنجے بڑھا رہی تھیں۔ اچانک انہوں نے ایک زبردست جست لگائی اور ہم پر ایک ساتھ حملہ آور ہوئیں۔ ہم تینوں ان بلاؤں کو اپنے جسم سے دور پھینک دینے کی کوشش کرنے لگے اور بے چاری زرینہ باری باری ہر ایک چھپکلی کی کمر پر ڈنڈے بجانے لگی۔ ایسا مکروہ اور دم گھونٹ دینے والا سانس ان چھپکلیوں کے منہ سے نکل رہا تھا کہ میں کیا بتاؤں، میں کوشش کررہا تھا کہ جلد سے جلد اس منحوس بلا کو اپنے جسم سے علیحدہ کر دوں اور آخرکار میں اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔ مگر پھر یہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کہ ایک چھپکلی نے اختر کو زمین پر گرا لیا ہے اور اب وہ بھیانک جبڑوں میں اختر کے سر کو دبوچ لینے کی کوشش کر رہی ہے، یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں میں خون اتر آیا، یقیناً وہ خدا کی ہی مدد تھی جس کے باعث میرے ذہن میں اچانک وہ خیال آیا جو بعد میں ہم سب کی جانیں بچانے کا باعث بنا۔


اختر کو اس حالت میں دیکھتے ہی دنیا میری نظروں میں اندھیر ہو گئی، میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا کہ کہیں بجلی پھر تو نہیں چلی گئی۔ لیکن میرے محل میں بجلی موجود تھی۔ ایسے ہی موقعوں کے لئے میں بجلی بنانے کا جنریٹر محل میں لگا رکھا تھا۔ جب کبھی شہر کی بجلی فیل ہوتی تو ملازم اسے چلا دیا کرتے تھے ، پہلے شاید وہ بھول گئے تھے مگر اب جنریٹر چل رہا تھا اور میرے محل میں بجلی برابر آ رہی تھی۔ بجلی کا لفظ ذہن میں آنا تھا کہ یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ کونے میں ایک بڑا ٹیبل لیمپ رکھا تھا، میں نے جلدی سے بڑھ کر لیمپ سے تار نوچ لیا، بڑی تیزی کے ساتھ دانتوں سے اس کے دونوں تار چھیلے اور تار کے دونوں سروں کو الگ الگ کر کے دیوار میں لگا ہوا سوئچ کھول دیا۔ اب تار کے ننگے سروں پر کرنٹ موجود تھا۔


میں نے بڑی پھرتی کے ساتھ آگے بڑھ کر یہ دونوں ننگے تار چھپکلی کی کمر سے لگا دئیے۔ 220 وولٹ کا ایک زبردست جھٹکا اسے لگا اور اس نے گھبرا کو اختر کو چھوڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک کریہہ آوازاس کے منہ سے نکلی اور پھر وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔ اپنی ایک ساتھی کا حشر دیکھ کر باقی دونوں چھپکلیوں نے اپنے بدہیبت پنجے سوامی کی گردن میں گاڑنے شروع کر دئے۔ میں بجلی کے ننگے تار سے ان دونوں کی تواضع کرنی بھی ضروری سمجھی اور پھر ان کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلی چھپکلی کا ہوا تھا۔


اختر نے خوشی کا نعرہ لگایا اور زرینہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں اب سوامی کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اپنی گردن دبا رہا تھا۔ چھپکلی کے نوکیلے پنجوں نے اس کی گردن کو نوچ لیا تھا اور کئی جگہ سے خون رس رہا تھا۔ میں نے اپنے رومال سے اس کا خون پونچھا اور پھر اختر سے کہا:
"مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایسا ہی ایک بہت لمبا تار ہال کے دوسرے کونے میں رکھا ہے۔ تم فوراً اسے نکال کر کھول لو اور اس کے دونوں سرے چھیل لو، ہم اب اس کمرے سے باہر چلیں گے۔"
"مگر ابا جی باہر تو قیامت آئی ہوئی ہوگی۔"
" تو پھر ہم کب تک یہاں بزدلوں کی طرح بیٹھے رہیں گے۔ محل میں اور بھی لوگ ہیں، نہ جانے ان کا کیا حشر ہو رہا ہے ، ہمیں ان کی بھی مدد کرنی ہے۔"
"مالک ٹھیک کہہ رہے ہیں، بابا۔"سوامی نے گردن سے خون پونچھتے ہوئے کہا: "اس بجلی کے ہتھیار سے ہم دیو زاد جانوروں کو روک سکتے ہیں۔ موقع ملتے ہی میں مالک کی رائفل لے آؤں گا۔ اور پھر جب تک دم میں دم ہے ان بلاؤں سے ٹکر لی جا سکتی ہے۔"
اختر نے اثبات میں گردن ہلائی ، اور پھر فوراً ہی تار نکال لیا۔ لمبے سے ڈنڈے کے ساتھ ہم نے یہ تار باندھ دیا اور اس کے دونوں سرے ننگے کردئے۔ بورڈ سے تار لگانے کے بعد سوئچ آن کر کے میں نے یہ ڈنڈا اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے سوامی سے کہا کہ وہ دروازہ کھول دے۔ زرینہ اور اختر میرے پیچھے تھے اور اختر نے احتیاطاً کرسی پھر اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔


دروازہ کھلتے ہی بلی نے غراکر اپنا سیدھا پنجہ مجھے پکڑنے کے لئے بڑھایا۔ مگر ایسا کرنے سے بجلی کے تار اس کے پنجے سے چھو گئے، اس کے منہ سے بڑی بھیانک میاؤں کی آواز نکلی اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس وقت وہ معمولی سی پالتو بلی گدھے کے برابر اونچی اور ببر شیر جتنی بڑی ہو گئی تھی ، قد کے لحاظ سے اس کی آواز بھی بہت بڑی نکلی۔ اس نے دوبارہ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر کرنٹ لگتے ہی اچھل کر دور ہٹ گئی۔ کچھ دیر تک وہ ہمیں کھڑی ہوئی گھورتی رہی اور پھر وہی زور دار میاؤں کی آواز نکال کر بھاگتی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔


اب ہمیں کم از کم اتنا موقع مل چکا تھا کہ ہم باہر کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔ یوں لگتا تھا گویا قیامت آ گئی ہے۔ شہر کے ہر طرف سے زبردست شور اٹھ رہا تھا۔ آسمان پر ہزاروں پرندے اڑ رہے تھے۔ اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں یہ پرندے بہت بڑے تھے۔ میں نے یہ اندازہ بھی لگایا کہ مختلف پرندے ایک دوسرے پر جھپٹ بھی رہے تھے۔ ان پرندوں کے درمیان مجھے بمبار جہاز بھی نظر آئے جو ان دیوزاد پرندوں پر فائرنگ کر رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر کافی اطمینان ہوا، ہماری ہوائی فوج اب حرکت میں آ چکی تھی۔ اور چن چن کر ان پرندوں کو ختم کر رہی تھی جو انسانوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔ عقاب اور شکرے جیسے جانوروں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
آپ میری اس داستان کو آگے پڑھنے کے آرزو مند ہوں گے لیکن میں فی الحال رک کر آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت شہر کی کیا حالت تھی؟ یہ باتیں گو مجھے بعد میں معلوم ہوئیں لیکن میرے خیال میں مناسب یہی ہے کہ یہاں میں ان باتوں کو بیان کروں۔


شہر میں ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی۔ معمولی سے معمولی اور حقیر سے حقیر جانور بھی بے حد خطرناک ہو چکے تھے۔ مچھر اور چیونٹیاں بڑھ کر مرغی کے برابر ہو گئی تھیں۔ اور ان چیونیٹوں نے دکانوں اور مکانوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ شکر کے گودام منٹوں اور سکنڈوں میں صاف ہو گئے تھے۔ مچھروں کی سونڈ ایک لمبے سے خنجر کی طرح ہر ایک کو صاف نظر آتی تھی۔ مچھروں کے ڈسنے سے بہت سے آدمی مر گئے اور چیونٹیوں کے کاٹنے سے لوگوں کے جسم سوج کر سرخ ہو گئے۔ سانپ بڑھتے بڑھتے اژدہے بن گئے تھے۔ جس چیز کو بھی یہ اژدہے اپنے شکنجے میں کس لیتے تھے۔ وہ فنا ہو جاتی تھی۔ چوہے، کتے اور چڑیاں بھی خونخوار بن گئی تھیں۔ کتے بالکل شیر نظر آتے تھے۔ بھیڑیا بھی کیا خطرناک ہوگا جو یہ کتے ہو گئے تھے۔ انہوں نے راہ چلتے آدمیوں کو مار ڈالا تھا، اورلمبی لمبی زبانیں نکال کر وہ لگاتا اپنے شکار پر حملے کر رہے تھے۔


یہ حال تو چھوٹے جانوروں کا تھا مگر بڑے جانوروں نے تو جیسے زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔ بیل ، گھوڑے، گدھے جیسے پالتو جانور اتنے اونچے ہو گئے تھے کہ ان کے قد اونچی اونچی عمارتوں سے بھی بڑھ گئے تھے۔ ان جانوروں کی صرف آواز سے ہی بہت سی عمارتیں گر پڑی تھین اور جب انہوں نے دو لتیاں جھاڑی تھیں تو ہزاروں مکانوں کو زمین کے برابر کر دیا تھا۔ گھوڑے عمارتوں کے اوپر سے جست لگا کر ادھر سے ادھر چلے جاتے تھے۔ اور جب وہ بھاگتے تو مکانوں کی اینٹ سے اینٹ بن جاتی تھی۔
پورے شہر میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔ فوج شہر میں گشت کر رہی تھی۔ اور جانوروں کا مقابلہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے کیا جا رہا تھا۔ جہاں بھی کوئی قد آور جانور نظر آتا تھا، توپوں کے لپکتے ہوئے شعلے اسے موت کی میٹھی نیند سلا دیتے تھے۔


پورے ہندوستان کی یہی حالت تھی، کئی شہروں میں تو بروقت مدد بھی نہیں پہنچ سکی تھی، اور چھوٹے موٹے شہر بالکل نیست و نابود ہو گئے تھے۔ فوج بہت سی جگہوں پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ دریاؤں اور سمندر میں بھی افراتفری مچ گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں وھیل مچھلی کے برابر ہو گئی تھیں۔ اور انہوں نے گودی میں کھڑے ہوئے جہازوں کو تباہ کر دیا تھا۔ غلے سے لدے ہوئے کچھ جہاز باہر کے ملکوں سے ہندوستان آ رہے تھے، ان جہازوں کا پھر پتہ ہی نہ چل سکا اور اس طرح لاکھوں من غلہ سمندر کے بھوکے پیٹ کی نذر ہو گیا۔ ٹیلی فون اور بجلی کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا، جانوروں نے سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا تھا اور بجلی گھروں پر دھاوا بول کر ان کا نام و نشان مٹا دیا تھا۔ غرض ہندوستان کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ شاید کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ پولیس اور فوج نے ہر شہر کا نظام سنبھال لیا تھا۔ مگر بربادی کا طوفان تھا کہ بڑی تیزی سے بڑھتا ہی چلا آرہا تھا۔


اتنی باتیں بتانے کے بعد اب میں اپنی اس بھیانک کہانی کو پھر شروع کرتا ہوں۔
بجلی کا تار ہاتھ میں لئے ہوئے میں تو وہیں کھڑا رہا، لیکن سوامی کو یہ ہدایت کی کہ وہ جلد سے جلد میرے کمرے میں سے رائفل نکال کر لائے۔ سوامی بھاگتا ہوا میری خواب گاہ کی طرف چلا گیا۔ مگر اس کے جاتے ہی ایک موٹے سے چوہے نے جو اب بکری کے برابر ہو گیا تھا چھلانگ لگا کر زرینہ کی گردن دبوچ لی ، زرینہ نے ایک بھیانک چیخ ماری اور وہ چوہے کے وزن سے دب کر زمین پر گر پڑی۔ میں نے اس کی چیخ سن کر جلدی سے بجلی کا ننگا تار چوہے کے بدن سے لگا دیا اور پھر اس کا بھی وہی حشر ہوا جو چھپکلیوں اور بلی کا ہو چکا تھا۔
آسمان توپ کے گولوں اور شعلوں کے دھوئیں سے کالا ہو گیا تھا۔ سورج کی روشنی بڑی مدھم ہو گئی تھی۔ پورے شہر سے آہ و بکا کی آوازیں آ رہی تھیں ، میں یہ اندازہ اچھی طرح لگا چکا تھا کہ جس طرح میں اپنے محل کے اندر ان جانوروں سے لڑ رہا ہوں، اسی طرح شہر کے دوسرے لوگ بھی اپنی جانیں بچانے میں مصروف ہوں گے۔ ایسے وقت میں اپنی مدد آپ والی کہاوت پر عمل ہو رہا ہوگا۔ یہ جو معمولی سی چیلیں آسمان پر اڑا کرتی ہیں اب اپنی جسامت سے پچاس گنا بڑی ہو گئی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ہاتھیوں کے پر لگ گئے ہوں اور وہ آسمان پر اڑنے لگے ہوں۔


زرینہ اور اختر میرے پیچھے کھڑے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں پھر کوئی اچانک حملہ نہ ہو جائے۔ سچ پوچھئے تو میری بھی یہی حالت تھی ، بجلی کا تار ہاتھ میں لئے ہوئے میں بھی دیوانوں کی طرح دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں ، یا شاید نہ بتایا ہو تو اب بتائے دیتا ہوں۔ میرا محل ایک اونچے مقام پر تھا اور اس کی پشت پر سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، دائیں طرف پام کے قد آور درختوں کے جھنڈ تھے اور بائیں طرف کھلا ہوا میدان، جس میں ایک خوب صورت بل کھاتی ہوئی سڑک شہر کی سمت جا رہی تھی ، اس لحاظ سے میرے پاس کسی بھی مدد کا پہنچنا بہت مشکل تھا، مدد کے لئے اگر کوئی آنا بھی چاہتا تو شہر سے محل تک آتے آتے اسے ایک گھنٹہ لگتا۔ میں اس لئے بھی ڈر رہا تھا کہ بے دست و پا والی حالت میں کیا کر سکوں گا۔ بہرحال میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا۔ میں دیکھ رہا تھاکہ آسمان پر اڑتی ہوئی دیوزاد چیلیں میرے محل کے اوپر منڈلا رہی ہیں، شاید ان کا ارادہ محل کے میدان میں کھڑے ہوئے لوگوں پر حملہ کرنے کا تھا سچ پوچھئے تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر ان دیو زاد چیلوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو اس اچانک حملے سے بچنے کے لئے میرے پاس کوئی طریقہ ہی نہ تھا۔

سوامی رائفل ہاتھ میں لئے ہوئے بھاگتا ہوا میری طرف آ رہا تھا، اسے دیکھ کر میری بانچھیں کھل گئیں۔ مگر پھر اچانک ہی یہ خوشی خاک میں مل گئی کیوں کہ میں نے دیکھا کہ یکایک ایک بہت بڑی چیل نے تیر کی طرح نیچے اتر کر سوامی پر حملہ کر دیا۔ سوامی نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے رائفل والے ہاتھ اونچے کر دئے۔ چیل نے رائفل کو شاید ایک معمولی سا تنکا سمجھا اور اسے اپنے پنجوں میں دبوچ کر واپس آسمان کی سمت پرواز کر گئی۔ سوامی صرف دیوانوں کی طرح ہاتھ ہلا کر رہ گیا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کہ اختر نے ایک چیخ ماری ، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے ، میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا کچھوا، گائے سے بھی بڑا کچھوا۔۔ اختر کی ٹانگ اپنے منہ سے پکڑ کر اسے سمندر کی طرف گھسیٹ رہا ہے اور ویسا ہی ایک دوسرا کچھوا زرینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں نے جلدی سے بجلی کا ننگا تار اس کچھوے کی کمر سے لگا دیا جو اختر کو گھسیٹ رہاتھا مگر اس پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ میں نے پاگلوں کی طرح اس پر ڈنڈا بجانا شروع کر دیا مگر سب بےکار۔ کچھوے نے اختر کو نہیں چھوڑا۔ سوامی نے تھوڑی سی ہمت کی اور وہ دوسرے کچھوے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا ، تاکہ کچھوا زرینہ کی بجائے اسے پکڑ لے۔ سوامی کی جاں نثاری دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا اور میں نے چلا کر اس سے کہا کہ وہ زرینہ کو لے کر دور ہٹ جائے۔ زرینہ خود ہی کچھوے سے بچ رہی تھی اور اس کے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر میں بجلی کا ننگا تار کچھوے کی آنکھوں میں لگا دوں تو شاید وہ اختر کو چھوڑ دے۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک آسمان سے چند چیلیں اڑ کر آئیں اور میرے سامنے اپنے پر پھیلا کر چیخنے لگیں۔ وہ کسی بھی لمحہ مجھ پر حملہ کرنے والی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ میں نے دیکھا کہ میدان کی سمت سے پچاس فٹ اونچی گایوں کا ایک ریوڑ بڑی تیزی سے اس طرف آ رہا ہے۔ اگر یہ ریورڈ محل تک پہنچ جاتا تو محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ یہ ریوڑ دھول اڑاتا ہوا آ رہا تھا۔ گایوں کے پیچھے کچھ گھوڑے بھی تھے اور وہ بھی اتنے ہی اونچے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے ایک زبردست زلزلہ آ رہا ہو۔


محل کی زمین پر چند بڑے بڑے چیونٹے بھی رینگتے ہوئے میری طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ چیونٹے گدھے کے برابر اونچے تھے۔ میرے خدا! اب میں کیا کروں گا؟ خوف کے مارے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ سوائے خدا کے اب مجھے اور میرے ملازموں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ چیلیں بس حملہ کرنے ہی والی تھیں، پہلا کچھوا اختر کو منہ میں دبائے سمندر کے قریب پہنچ چکا تھا اور دوسرا زرینہ کو دبوچنے ہی والا تھا، گایوں کا ریوڑ محل کی حدوں میں داخل ہو چکا تھا اور دیو زاد چیونٹے اپنا منہ کھولے میری طرف بڑھ رہے تھے۔ بس ایک لمحہ کے اندر ہی میری تباہی یقینی تھی۔


چیلیں محتاط انداز سے میری طرف پھدکتی ہوئی بڑھ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کچھ آگے آئیں تھیں تو ان کی چھلانگ کم از کم پانچ میٹر کی ضرور ہوتی تھی ، میرے دیکھتے دیکھتے دو بڑے چیونٹوں نے اپنی لمبی ٹانگوں سے میرے پیروں کو جکڑ لیا ، خوف کے مارے میری گھگھی بندھ گئی۔ چیونٹوں میں اتنی طاقت تھی کہ وہ مجھ پلٹ کر گرا دینا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان میں سے ایک نے اپنا ہیبت ناک مونہہ پھاڑ کر میری ران منہ میں دبا لی۔ مجھے یوں لگا جیسے ہزاروں تلواریں ایک ساتھ میرے جسم میں پیوست ہو گئی ہیں۔ درد کے باعث میری چیخ نکل گئی اور میں نے اس خیال سے کہ شاید سوامی یا اختر میری مد کر سکیں ان دونوں کی طرف دیکھا، لیکن پھر یہ دیکھ کر ناامیدی کی وجہ سے میری روح تک لرز گئی کہ سوامی کو ایک بہت بڑی چیل اپنے پنجوں میں دبوچ کر اوپر ہوا میں اٹھنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ رہے زرینہ اور اختر، تو ان دونوں کا بھی اللہ حافظ تھا، کیوں کہ زرینہ کو ایک بہت بڑا کچھوا اپنے منہ میں دبائے سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس بیچ میں پہلا والا کچھوا اختر کو لے کر شاید سمندر میں نیچے بیٹھ چکا تھا۔


اپنی آنکھوں سے میں اپنی یہ بربادی دیکھ رہا تھا، لیکن بےبس تھا۔ پچاس فٹ لمبی گائیں محل کی کیاریوں کو روند رہی تھیں۔ اور اب کسی بھی لمحے میں محل زمین بوس ہونے والا تھا، دیوزاد چیونٹے میری ران کی تکا بوٹی کرنے میں مصروف تھے۔ میں تکلیف کے باعث بے ہوش ہونے ہی والاتھا کہ اچانک مجھے ایک عجیب احساس ہوا۔ مجھے یوں لگا جیسے سوامی اپنے وزن کی وجہ سے آہستہ آہستہ زمین کی طرف واپس آ رہا ہے اور جس چیل نے اپنے نوکیلے پنجوں سے اسے دبوچ رکھا تھا وہ شاید چھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔


موت کے وقت انسان کو ایک آس یہ بھی ہوتی ہے کہ شاید وہ کسی طرح بچ جائے! اور غالباً میں بھی اس قسم کی باتیں سوچنے لگا تھا، پہلے تو میں سمجھا کہ یقیناً یہ میرا وہم ہے لیکن جب مجھے اپنی ران کی تکلیف بھی کم محسوس ہونے لگی تو میں نے شدید درد کے باعث بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو رہی سہی قوت صرف کر کے کھولا اور پھر اپنی ٹانگوں میں لپٹے ہوئے چیونٹوں کو دیکھا۔۔ وہ چیونٹے آہستہ آہستہ بہت ہی چھوٹے ہوتے جارہے تھے۔۔ یقین جانئے گا بڑی تیزی سے چھوٹے ہوتے جا رہے تھے۔
جو چیل مجھ پر حملہ کرنے کے لئے پر تول رہی تھی اور جو کچھ دیر پہلے غیر معمولی بڑی نظر آتی تھی اب اپنی اصلی جسامت پر واپس آتی جا رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ پر حملہ کرنے سے کترانے لگی ہے۔ چیونٹے بھی بہت چھوٹے ہونے لگے تھے اور چند سیکنڈ بعد وہ بالکل ہی چھوٹے، یعنی اصل میں جتنے لمبے ہوتے ہیں بس اتنے ہی ہو گئے۔ میں نے جلدی سے جھک کر انہیں پیر سے مسل دیا اور پھر تیزی سے زرینہ کی طرف بھاگا۔ بھاگتے ہوئے مجھے تکلیف تو بے شک ہوئی ، مگر زیادہ نہیں بس یوں لگ رہا تھا جیسے ران میں ایک چھوٹا سا زخم ہو گیا ہے اور تکلیف دے رہا ہے۔


میرے دیکھتے دیکھتے زرینہ نے اپنے پیر کو بڑے زور سے جھٹکا اور اس جھٹکے کی وجہ سے وہ کچھوا جو پہلے بہت بڑا تھا اور اب عام سائز کا ہو چکا تھا زرینہ کے انگوٹھے کو چھوڑکر دور جا گرا تھا اور اپنی جان بچانے کی خاطر سمندر کی طرف جلدی جلدی کھسک رہا تھا۔ سوامی کی ٹانگوں میں البتہ چوٹ آئی تھی کیوں کہ دیو زاد چیل اسے دبوچنے کے بعد زمین سے تقریباً سو فٹ بلند ہو چکی تھی اور جب وہ چھوٹی ہونی شروع ہوئی تو سوامی کے وزن کی وجہ سے تیزی سے نیچے کی طرف آنے لگی۔اس عرصہ میں اسے یہ احساس ہو چکا تھا کہ وہ ایک معمولی سی چیل ہے۔ اس لئے اس نے سوامی کو چھوڑ دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوامی تقریباً پچاس فٹ کی بلندی سے زمین پر گرا تھا اور یوں اس کے پیر میں موچ آ گئی تھی۔ گایوں کا ریوڑ بھی اب چھوٹا ہو گیا تھا اس لئے وہ بھی گھوڑوں کے ساتھ گھبرا کر واپس میدان کی سمت بھاگ رہی تھیں۔


خدا جانے یہ کیا ہوا تھا؟ مجھے یقین تھا کہ یہ مدد ضرور خدا کی طرف سے آئی تھی ورنہ کسی انسان میں تو یہ قوت تھی نہیں کہ ان آسمانی بلاؤں سے ہمیں نجات دلا سکتا!


جب تک میں زندہ ہوں، سوامی کی ہمت اور محبت کی قدر کرتا رہوں گا کیوں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے پاؤں میں موچ آ گئی ہے ، وہ لنگڑاتا ہوا سمندر کی طرف بھاگا، وہ اختر کا حشر دیکھ چکا تھا اور ہر ممکن طریقے سے اسے بچانا چاہتا تھا ، زرینہ کو اپنے ساتھ لے کر میں بھی سمندر کی طرف دوڑنے لگا۔ زرینہ کے پاؤں کے انگوٹھے میں کافی درد تھا کیونکہ دیو زاد کچھوے نے اس کا انگوٹھا ہی دبوچا تھا زرینہ کی حالت دیکھ کر میں نے اسے ہدایت کی کہ وہ آہستہ آہستہ کنارے تک آئے ، میں اتنے جلد سے جلد وہاں پہنچتا ہوں۔


سوامی کی مدد سے میں نے ساحل کا کونا کونا چھان مارا مگر اختر کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ سوامی ملاح تھا اور ملاح بڑے عمدہ تیراک اور غوطہ خور ہوتے ہیں۔ اس لئے سوامی نے میری اجازت کے بغیر ہی سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ میں احمقوں کی طرح اس مقام کو دیکھتا رہا ، جہاں سوامی غائب ہوا تھا۔ میرا دل اندر ہی اندر رو رہا تھا، بھلا اتنے بڑے سمندر میں اختر کا پتہ کس طرح لگایا جا سکتا ہے؟ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ سوامی نے اسے ڈھونڈ بھی نکالا تو کیا وہ اب تک زندہ ہوگا!


میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ آسمان پر لاتعداد بمبار جہاز پرواز کر رہے تھے اور انہوں نے جانوروں پر جو گولے برسائے تھے ان کے دھوئیں سے دور کی چیزیں بالکل نظر نہ آتی تھیں۔ سمندر پر بھی یہ دھند پھیل چکی تھی اور اس دھند کے باعث میں دور کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لئے کچھ دیر بعد سوامی کا بھی پتہ نہ چل سکا۔ اچانک مجھے اپنے سر پر ہیلی کاپٹرکی آواز سنائی دی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیلی کوپٹر کو نیچے اتار رہے ہیں اور بار بار مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ دھند کی وجہ سے میں ان کی شکلیں صاف طور سے نہیں دیکھ سکا۔ ان کے استقبال کے لئے میں سمندر کے کنارے سے ہٹ کر میدان کی سمت آ گیا۔


میں بچپن سے لے کر اب تک اتنے خطروں اور آفتوں سے دوچار ہوا ہوں کہ ہر نئے خطرے کو ہنستے مسکراتے قبول کر لیتا ہوں ، کسی بھی آفت سے پریشان ہونے والی کیفیت عارضی ہوتی ہے اور پھر نہ جانے کیا بات ہوتی ہے کہ دل آپ ہی آپ قابو میں آ جاتا ہے۔ سوامی اور اختر کے سمندر میں غائب ہو جانے کے بعد بھی میری یہی کیفیت ہوئی۔ میں خدا پر شاکر رہنے کے بعد اس ہیلی کوپٹر کو دیکھنے لگا ، جو اب زمین پر اتر چکا تھا۔ ہیلی کوپٹر میں سے دو قد آور آدمی اتر رہے تھے، ایک شخص جو کافی بوڑھا معلوم ہوتا تھا دوڑتا ہوا زرینہ کی طرف لپکا۔ میں نے دیکھا کہ زرینہ بھی آگے بڑھ کر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں سما گئی۔ دوسرا شخص مسکراتا ہوا اب میری طرف آ رہا تھا۔
میں ان دونوں کو پہچان چکا تھا، انہیں دیکھتے ہی میری بانچھیں کھل گئی تھیں، وہ دونوں میرے بزرگ جان اور افریقی جیک کے علاوہ اور کوئی نہ تھے!


جان زرینہ کو ساتھ لئے ہوئے میری طرف آ رہا تھا اور پھر میں بھی بے اختیار ہو کر اس سے لپٹ گیا۔ اس سے پہلے میں جیک سے بغل گیر ہوتے وقت تقریباً رونے لگا تھا۔ کیوں کہ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ، اس شخص نے بھی میرے پچھلے سفروں میں میری بڑی مدد کی تھی۔ جان مجھے تسلی دے رہا ، جب میں نے اسے سمندر کی طرف اشارہ کر کے اختر اور سوامی کے بارے میں بتلایا تو وہ بے چین ہو گیا۔ پھر اس نے جلدی سے جیک کو حکم دیا کہ وائر لیس کے ذریعہ نیوی سے رابطہ قائم کرے اور سمندر کا ایک ایک حصہ چھان مارے۔ جیک نے ہیلی کوپٹر کے پائلٹ سے اس سلسلے میں جاکر بات کی اور پائلٹ نے فوراً ہیڈ کوارٹر تک یہ خبر پہنچا دی۔


ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ محل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ زرینہ بری طرح رو رہی تھی کیوںکہ اس کے دونوں بچے اختر اور نجمہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ میں زرینہ کو تسلی بھی دیتا جاتا تھا اور جان کو کچھ دیر پہلے پیش آئے ہوئے واقعات بھی بتاتا جا رہا تھا۔ جان بڑی توجہ اور انہماک سے میری باتیں سن رہا تھا۔ ابھی تک نہ میں نے پوچھا تھا اور نہ اس نے بتایا تھا کہ وہ اچانک میری امداد کے لئے اتنی دور ، یعنی امریکہ سے کس طرح آ گیا تھا۔ بات یہ ہے کہ پچھلے حادثوں کی وجہ سے میرا دماغ بھی جواب دے چکا تھا، زرینہ کے ساتھ میرا دل بھی اندر ہی اندر رو رہا تھا۔ میرا ہونہار بیٹا اختر سمندر میں غرق ہو چکا تھا اور اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود میرے مددگار سوامی کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ یہ حادثے کسی کو کچھ دیر کے لئے پاگل کر دینے کو کافی ہیں!


شام تک ہم لوگ وہیں بیٹھے رہے، لاتعداد غوطہ خوروں اور سمندری افواج کی ان تھک کوششوں کے باوجود اختر اور سوامی کا کچھ بھی پتہ نہ چل سکا۔ میرا محل ماتم کدہ بن گیا۔ تمام رات لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ سراغ رساں ذکی اور انسپکٹر رانا کے کہنے کے بموجب صبح ہونے پر میں نے یہ اعلان بھی کرا دیا جو شخص سوامی اور اختر کو ڈھونڈ نکالے گا اسے انعام دیا جائے گا۔۔۔ مگر توبہ کیجئے۔ اتنے بڑے سمندر میں سے دو آدمیوں کو تلاش کر کے نکالنا بے حد مشکل کام تھا اور فرض کر لیجئے کہ اگر وہ دونوں مل بھی جائیں تو یقیناً ہمیں زندہ حالت میں نہیں مل سکتے تھے۔


زرینہ بری طرح رو رہی تھی ، جان اور جیک نے اسے تسلی دی اور کہا کہ اسے خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ اختر واپس آ جائے۔ درحقیقت وہ مرا نہ ہو بلکہ کسی دور دراز ساحل پر اتر گیا ہو اور ممکن ہے وہ آج کل میں لوٹ آئے۔ جان نے زرینہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مزید کہا:
"گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بیٹی۔ دو باتیں اس حادثے میں ایسی ہیں جن کی وجہ سے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ اختر مرا نہیں ہے، ایک تو یہ کہ سمندری فوج پندرہ پندرہ میل دور تک کے سمندر کو چھان چکی ہے ، اگر اختر خدانخواستہ مر گیا ہوتا تو اس کی لاش فوج کو ضرور ملتی۔"
زرینہ کے ساتھ ہی میں نے بھی چونک کر جان کو دیکھا، جان نے اپنی بات جاری رکھی: "دوسری بات یہ ہے کہ سوامی ایک ماہر تیراک ہے ، اگر اختر اسے نہیں ملا تو کم از کم اسے تو واپس آ جانا چاہئے تھا۔ لہٰذا میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ دونوں زندہ ہیں۔ البتہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ یہ ہم نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے، مگر خدا ضرور جانتا ہے اور یقیناً وہی ہمیں ان دونوں سے ملائے گا۔"


زرینہ یہ سن کر خاموش ہو گئی۔ شاید اس نے بھی یہ سوچ لیا تھا کہ خواہ مخواہ رونے دھونے سے کیا فائدہ؟ جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ زرینہ کی وجہ سے ہم لوگ اپنی بات چیت کے سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے تھے۔ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ میں جان اور جیک کو پوری باتیں شروع سے آخر تک سناؤں اور ان دونوں سے بروقت امداد کرنے اور اچانک یہاں پہنچنے کا راز معلوم کروں۔ انسپکٹر رانا اور سراغ رساں ذکی بھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے اور میں نے مناسب سمجھا تھا کہ ان دونوں کے سامنے ہی پورا واقعہ جان کو سنا دوں۔



Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں