اردو شاعری کے دبستان - از پروفیسر نورالحسن نقوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-29

اردو شاعری کے دبستان - از پروفیسر نورالحسن نقوی

dabistans-of-urdu-poetry

اردو شاعری ملک کے مختلف مراکز میں پھلی پھولی ان میں دہلی، لکھنو، عظیم آباد اور رامپور اہم مقامات ہیں اور ان میں سے ہر جگہ کی کچھ اہم خصوصیات ہیں، اس باب میں ہم ان دبستانوں کا اختصار کے ساتھ تعارف کراتے ہیں۔


دبستانِ دہلی

دہلی شعروشاعری کا مرکز تو پہلے ہی تھی لیکن 1700ء میں ولی کے دہلی آنے اور 1719ء میں ان کا دیوان یہاں پہنچنے کے بعد یہاں کے شعراء کو جو فارسی میں شعر کہتے تھے احساس ہوا کہ عام بول چال کی زبان سے گری پڑی زبان سمجھاتا ہے اور جسے ریختہ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے اس میں بھی ایسے شعر کہے جاسکتے ہیں جس سے عوام اور خواص دونوں لطف اندوز ہوسکیں۔ چنانچہ اس زبان میں جو آگے چل کہ اردو کہلائی شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ خان ، آرزو، آبرو، حاتم، شاکر، ناجی، مضمون ، بیان، امید، مخلص اس دور کے خاص شعراء ہیں۔


اس دور میں ایہام گوئی کا بہت رواج ہوگیا تھا اور یہ شاعری کی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی ، ایہام گوئی ایک صنعت ہے اس میں شاعر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کے اصل معنی تک قاری کا ذہن مشکل سے پہنچتا ہے۔ گویا یہ ایک طرح کا گورکھ دھندا ہوتا ہے۔ جیسے ؎


اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں
عارضی میری زندگانی ہے


یہاں عارضی کے دو معنی ہیں:
ناپائیدار اور عارض یعنی رخسار سے متعلق۔ اس مثال سے اندازہ ہوگا کہ یہ ایک مشکل صنعت ہے اور اس کا استعمال ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ آخر اس کے خلاف رد عمل شروع ہوا۔ خود حاتم نے اپنے دیوان سے وہ اشعار خارج کردئے جن میں یہ صنعت موجود تھی۔ ایہام سے نجات پاتے ہی اردو شاعری تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔ اردو شاعری کو ایہام سے پاک کرنے میں میر ، مرزا ،مظہر، اور یقین نے اہم خدمات انجام دیں۔


اس کے بعد میرو مرزا کا عہد شروع ہوتا ہے جسے اردو شاعری کی زبردست ترقی کا دور کہنا بجا ہے۔ میر کی ساری زندگی آلام و مصائب میں گزری۔ اس کا عکس ان کے شعروں میں نظر آتا ہے۔ اس لئے ان کے کلام کو ان کی آپ بیتی کہنا روا ہے۔ میر کے کلام نے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ یہی زمانہ سودا کا تھا ، جو کچھ میر کی آنکھوں نے دیکھا وہی سودا نے بھی دیکھا لیکن دونوں کی طبعتیں مختلف تھیں۔ وہ بے فکر تھے اور مصیبت کو ہنسی میں اڑا دینے والے انسان تھے۔ انہوں نے شہر آشوب لکھ کر دہلی کی بربادی کا مذاق اڑایا۔ سودا کی غزلیں بھی کوب ہیں مگر وہ قصیدے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اس دور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، ہر صنف شاعری کو فروغ ہوا۔


دہلی کی بربادی پر اس دور کا خاتمہ ہوا۔ اس شہر میں رہنا دشوار ہوگیا تو اہل کمال اسے خیرباد کہہ کے ادھر ادھر منتشر ہوگئے۔ خواجہ میر درد صوفی تھے، وہ صبر و شکر کے ساتھ جس گوشے میں بیٹھے تھے وہیں بیٹھے رہے۔ یہ اہل کمال آخر لکھنو میں جمع ہوئے کیوں کہ وہاں آسایش و آسودگی میسر تھی۔ کچھ عرصے بعد دہلی کی محفلیں پھر سے آراستہ ہوگئیں۔


اس بار دہلی میں جس دور کا آغاز ہوا اسے اردو شاعری کا دور عروج کہاجاسکتا ہے ، اس عہد کے شعراء میں ایک طرف شاہ نصیر، ذوق اور ظفر نظر آتے ہیں جن کی زیادہ توجہ زبان و بیان پر ہے۔ دوسری طرف مومن ہیں کہ دربار کی دنیا سے الگ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہیں اور غزل میں خالص عشق و عاشقی کی شاعری کررہے ہیں۔ اور ان سب سے الگ ہیں غالب جن کے نزدیک شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔ وہ شاعری میں فکر کا عنصر داخل کرتے ہیں اور غزل کے موضوعات کو وسعت دیتے ہیں۔ تخیل کی بلندی اور فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال ان کے کلام کو پیچیدہ بنادیتا ہے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے اور آخر ان کی شاعری میں اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔


اس کے بعد داغ کا زمانہ آتا ہے ، ان کے نزدیک زبان کا چٹخارہ ہی شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ یہ وہ رنگ ہے جسے ان کے تلامذہ سائل اور بیخود نے بھی جاری رکھا اس کے بعد دہلی کی مرکزیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔


دبستان دہلی کی خصوصیات

دہلی صوفیا کا مرکز رہی ہے، اس لئے دہلی کے شعرا تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ فلسفہ وحدت الوجود کی ان پر گہری چھاپ تھی۔ اس لئے دہلی کے دبستان شاعری کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ میر تقی میر اور خواجہ میر درد تصوف ک اہم شاعر ہیں۔ غالب کی شاعری میں بھی تصوف کے جلوے نظر آتے ہیں۔میر تقی میر فرماتے ہیں ؎


ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


خواجہ میر درد کا ارشاد ہے ؎
پڑی جس طرف کو نگاہ یاں نظر آگیا ہے خدا ہی واں
یہ ہیں گو کہ آنکھوں کی پتلیاں مرے دل میں جائے بتاں نہیں


غالب کا ایک شعر ہے ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


شعرائے دہلی کے کلام میں عشق و عاشقی کا ذکر خوب ملتا ہے لیکن پاکیزگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا ، یہاں وصال سے ریا وہ ہجر کی طلب نظر آتی ہے محبوب کے ادب و احترام کا یہ حال ہے کہ ؎
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا


یہاں حسن و عشق کے خارجی معاملات کا نہیں داخلی واردات کا بیان ملتا ہے ، شوخی اور زبان کی رنگینی یہاں کم ہے۔ خیالات سادہ ہیں تو ان کے اظہار کا اندازہ بھی سادہ ہے۔ تصنع اور بناوٹ سے گریز اس دبستان کی اہم خصوصیت ہے، تشبیہات و استعارات میں دلکشی ہے مگر سادگی کا دامن یہاں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔


دبستانِ لکھنو

سلطنت مغلیہ کی بنیاد کھوکھلی ہونے لگی اور سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو صوبے رفتہ رفتہ خود مختار ہوتے چلے گئے۔ ان میں ایک صوبہ اودھ بھی تھا۔ 1722ء میں جب سعادت خاں شاہ دہلی کی طرف سے صوبیدار مقرر ہوئے تو مغل سلطنت کا زوال شروع ہوچکا تھا۔


سعادت علی خاں کے انتظام سے اودھ میں خوشحالی آئی مگر ان کی توجہ زیادہ تر دہلی کے معاملات پر رہی۔ شجاع الدولہ کے دل میں بھی بڑے ولولے تھے لیکن بکسر کی شکست سے ان کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ ان کے بعد آصف الدولہ نے فیض آباد کی جگہ لکھنو کو دارالسلطنت بنایا اور دونوں ہاتھوں سے خزانہ لٹا کر لکھ لٹ مشہور ہوئے۔


انگریزوں کی مداخلت تو شجاع الدولہ کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ آصف الدولہ کے زمانے میں بات یہاں تک پہنچی کہ اودھ کا سارا نظام انگریز ریزیڈنٹ کے چشم و ابرو کے اشارے کا محتاج ہوگیا۔ واجد علی شاہ اس کے سوا اور کیا کرسکتے تھے کہ امور سلطنت سے چشم پوشی کرکے خود کو راگ و رنگ میں غرق کردیں ، مگر بے درد انگریزوں نے اس کا بھی انعام نہ دیا اور انہیں معزول کرکے کلکتہ بھیج دیا۔


انگریزوں کی مداخلت سے اودھ کی آزادی تو چھن گئی لیکن ان سے صلح کے نتیجے میں اودھ کو ایک پر امن اور خوش حال زندگی نصیب ہوگئی۔ عیش و عشرت کی زندگی اس خوشحالی کا لازمی نتیجہ تھی۔ ہر طرف راگ و رنگ کی بزم آراستہ ہوگئی اور شعروسخن کی محفل سج گئی۔ ادھر دہلی میں اہل کمال کی گزر مشکل ہوگئی تو وہ ایک ایک کر کے لکھنو میں جمع ہوگئے۔ ان اہل کمال میں بڑی تعداد شاعروں کی تھی۔


میر ضاحک، سوز، سودا وغیرہ تو پہلے ہی اودھ پہنچ کے مشاعروں میں مقبول ہوچکے تھے۔ میر حسن، جرات ، انشا اور مصحفی ان کے بعد یہاں پہنچے اور یہیں سے دبستان لکھنو کی بنیاد پڑی۔ جرات کا مزاج ہمیشہ سے معاملہ بندی کی طرف مائل تھا۔ لکھنو کے رنگین ماحول میں شاعری کا یہ انداز بہت مقبول ہوا اور دوسرے شاعر بھی اسی رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ لکھنو کے غیر سنجیدہ ماحول سے اخلاقی قدروں کا ایسا زوال ہوگیا تھا کہ انشا و مصحفی کی شاعرانہ چشمک نے ہزل دشنام اور پھر سوانگ کی شکل اختیار کرلی۔


لکھنو کا ماحول ریختی گوئی کو بھی بہت راس آیا۔ ریکتی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں عورتوں کے جذبات انہیں کی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ رنگین و انشا کے قلم نے اس میدان میں خوب گل کاریاں کیں۔اس سے اگلی نسل کے شاعروں میں ناسخ کا نام قابل ذکر ہے۔ اصلاح زبان ان کا اصل کارنامہ ہے، ہمارے تنقید نگاروں نے ان کو ادبی ڈکٹیٹر کہا ہے کیوں کہ جس لفظ یا جس محاورے کو انہوں نے رد کردیا وہ ٹکسال باہر ہوگیا لکھنو کی انفرادیت انہیں کے دم سے قائم ہوئی۔


آتش صوفی تھے اور بہت خوش گو شاعر۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ شاعری مرصع سازی ہے اور شعر کہنا موتی پرونے کے برابر ہے ، ناسخ کے شاگردوں میں وزیر، برق، رشک، بحر، منیر۔ اور آتش کے شاگردوں میں رند، صبا، نسیم اور شوق وغیرہ نے بہت شہرت پائی۔ پنڈت دیا شنکر نسیم آتش کے شاگرد تھے۔ انہوں نے مثنوی گلزار نسیم لکھ کر بقائے دوام کے دربار میں جگہ پائی۔ ضمیر و خلیق اور ان کے بعد انیس و دبیر کے ہاتھوں مرثیے کی صنف نے بے مثال فروغ پایا۔


دبستان لکھنو کی خصوصیات

دبستان لکھنو کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کی شاعری میں نشاطیہ عنصر غالب نظر آتا ہے یعنی لکھنو کے شعری سرمایے میں مسرت کی لہر سی دوڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ لکھنو کی پر امن زندگی اور خوش حالی کا عطیہ ہے۔


فارغ البالی نے اہل لکھنو کو عیش وعشرت کی طرف مائل کردیا تھا جس کے نتیجے میں عیش کے دیگر لوازم کے علاوہ طوائفوں کی بھی کثرت تھی۔ گویا یہاں حسن بے نقاب تھا ، چنانچہ لکھنو کی شاعری میں عورت کے حسن کا بھرپور بیان ملتا ہے۔ اس کے زیور اور لباس کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ اس سے شاعری میں سطحیت تو ضرور پیدا ہوگئی ہے لیکن اردو شاعری جو اب تک نسوانی حسن کے ذکر سے محروم تھی اس میں صنف نازک کے بدن کے خدو خال نمایاں ہوجاتے ہیں۔


لکھنو شاعری میں تصوف کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دہلی صوفیوں کا مرکز تھی لیکن لکھنو کا معاملہ مختلف تھا۔ یہاں کے رنگین ماحول میں نہ صوفیوں کا گزر تھا نہ صبرو قناعت کی تعلیم کی ضرورت۔


دبستان لکھنو کی شاعری زبان کے نقطہ نظر سے زیادہ دلکش اور پرکشش ہے۔ یہ اودھی کا علاقہ ہے اس لئے یہاں کی زبان اور زبان سے زیادہ لہجہ نرم اور شیریں ہے ، اس کا ایک سبب اور بھی ہے ، اہل لکھنو ہر معاملے میں دہلی والوں سے الگ اور ممتاز نظر آنے کے خواہاں رہے۔ زبان کے سلسلے میں انہوں نے اہل دہلی سے الگ اپنا راستہ نکالا۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ لکھنو کی زندگی میں جو بناؤ سنگھار تھا وہ وہاں کی شاعری میں نمودار نہ ہوتا۔ شعرائے لکھنو نے جذبات سے زیادہ الفاظ کی نوک پلک سنوارنے اور زبان میں لطافت پیدا کرنے پر زور دیا اور اس میں شک نہیں کہ دبستان لکھنو کی زبان زیادہ دل آویز ہوگئی۔


دبستان عظیم آباد

دہلی و لکھنو سے پورب کی جانب ریاست بہار میں جہاں اب شہر پٹنہ آباد ہے۔ اس کے متصل عظیم آباد میں بھی شاعری کی ایک چھوٹی سی محفل سجی تھی۔ جغرافیائی اعتبار سے لکھنو کے نزدیک تر ہونے کے باوجود اس دبستان کی خصوصیات دبستان دہلی سے زیادہ ملتی تھیں۔ اس مماثلت کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر اختر اور ینوی نے فرمایا ہے کہ اس کا سبب دہلی کی پیروی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ دہلی و عظیم آباد کے حالات اور ادبی ماحول میں بڑی حد تک یکسانیت تھی۔


عظیم آباد زمانہ قدیم سے عالموں اور شاعروں کا مسکن رہا ہے لیکن اٹھارہویں صدی کے وسط میں اسے باقاعدہ دبستان کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اسے دہلی و لکھنو کے دبستانوں کا مد مقابل تو نہیں کہاجاسکتا لیکن اسے اردو شاعری کے تیسرے اہم مرکز کا درجہ ضرور دیا جا سکتا ہے۔


جوشش، فقیہہ،درد مند اور راسخ عظیم آباد کے ایوان شاعری کے چار اہم ستون ہیں ، جوشش کا دیوان قاضی عبدالودود نے مرتب کر کے شائع کردیا ہے جس سے ان کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ راسخ کے شاعرانہ مرتبے سے بھی اہل نظر واقف ہیں۔ شاد عظیم آبادی کو دبستان عظیم آبادی کی آبرو کہنا بجا ہے۔ ان کا کلام اردو شاعری میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ انہوں نے ایک شعر میں دبستان عظیم آباد کی خصوصیات کا ذکر اس طرح کیا ہے ؎


نمک ہے فارسی کا ، درد ہندی شاعری کا ہے
یہ اردوئے معلی نکتہ سنجان عجم دیکھیں


دبستان عظیم آباد کی خصوصیات

خیال اور اظہار خیال کی سادگی اس دبستان کی نمایاں خصوصیت ہے۔ یہاں کے شعرا نے تشبیہات و استعارات کے انتخاب میں بھی اس بات کا لحاظ رکھا کہ کسی طرح کی پیچیدگی پیدا نہ ہونے پائے۔ فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال ہوا ہے مگر حد اعتدال کے اندر۔ عشقیہ جذبات یہاں بھی شاعری کا موضوع ہیں مگر پاکیزگی و نفاست ملحوظ رہی ہے۔ خاص بات یہ کہ تصوف کی طرف رجحان نے یہاں کی عشقیہ شاعری کو ایک طرح کا وقار عطا کیا ہے۔


دبستان رامپور

1857ء کی ناکام بغاوت سے پہلے جب دہلی اجڑی تھی تو ملک میں ایک جائے اماں موجود تھی یعنی لکھنو۔ یہ صاحبان کمال کی خوش نصیبی تھی کہ یہاں کے حکمراں فن کے قدر شناس بھی تھے اور دریا دل بھی۔ انہوں نے دہلی کے اجڑے ہوئے باکمالوں کو پناہ دی۔ اور ایک فارغ البال زندگی کا بندوبست کردیا لیکن 1857ء کی تباہی مکمل تباہی تھی۔ دہلی کے مغل بادشاہ بہادر شاہ کو تخت سے محروم کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ جہاں اس کے آخری ایام غریب الوطنی اور کس مپرسی میں بسر ہوئے۔ اودھ کے حکمران واجد علی شاہ کا انجام بھی اتنا دردناک تو نہیں مگر تقریباً اس جیسا ہی ہوا۔ جلا وطنی اس کے مقدر میں بھی لکھی تھی۔ اسے مٹیابرج کلکتہ بھیج دیا گیا۔ اب شاعروں اور باکمالوں کے سر چھپانے کے لئے چند چھوٹی چھوٹی ریاستیں رہ گئیں۔


رامپور ایک چھوٹی سی ریاست تھی مگراس کے حکمراں بلند حوصلہ تھے ، غالب جب مالی پریشانیوں میں گرفتار تھے تو انہیں اسی ریاست نے آسرا دیا اور گھر بیٹھے پینشن دی۔ ان کے علاوہ اس دربار نے متعدد عالموں اور شاعروں کی سرپرستی کی۔ بہادر شاہ اور واجد علی شاہ کی اعانت سے محروم ہونے کے بعد اکثر شاعروں نے رامپور میں پناہ لی۔ والی رامپور نواب یوسف علی خاں ناظم خود شاعر تھے اور مومن و غالب سے فیض یاب ہوچکے تھے۔ ان کی ایک غزل کے بعض اشعار آج بھی شاعری کے قدر دانوں کو یاد ہیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں ؎


میں نے کہا کہ دعوی الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط
مٹھی میں کیا دھری تھی جو چپکے سے سونپ دی
جان عزیز پیش کش نامہ بر غلط


ناظم نے دہلی و لکھنو کے اجڑے ہوئے شاعروں کو رامپور میں جگہ دی۔ اس طرح ان دونوں دبستانوں کے سنگم سے ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی۔ نواب یوسف علی خاں ناظم کے بعد نواب کلب علی خاں نواب ان کے جانشین ہوئے ، وہ بھی شاعر اور شاعر نواز تھے۔ ان کی سرپرستی اس دبستان کے فروغ کا باعث ہوئی۔


دبستان رامپور کی خصوصیات

دبستان رامپور کے کلام میں دہلی اور لکھنو کے دبستانوں کی خصوصیات شیر و شکر ہوگئی ہیں۔ داغ اور تسلیم یہاں دہلی کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ امیر، جلال اور بحر لکھنو کے نمائندے ہیں۔ لکھنو کی شاعری کچھ مخصوص حالات کی بنا پر بے راہ روی کا شکار ہوگئی تھی۔ جو شعراء لکھنو سے رامپور پہنچے تھے انہیں اپنی خامی کا احساس ہوا۔ انہوں نے رعایت لفظی اور محض قافیہ پیمائی سے نجات حاصل کی۔ رفتہ رفتہ وہ سادگی اور معنی آفرینی ان کے مزاج کا حصہ بن گئی جو دبستان دہلی کا خاصہ تھی۔ زبان و بیان میں رنگینی و رعنائی کی ہلکی سی جھلک جو انہوں نے لکھنو سے پائی تھی بہر حال باقی رہی۔


داغ و امیر جو دبستان رامپور کی شہرت کا اصل سبب ہیں اردو کے مشہور شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔


جدید اسکول

1857ء میں جو انقلاب ہوا اس کے دوررس نتائج برآمد ہوئے ، ایک تہذیب کا خاتمہ ہوا تو دوسری تہذیب نے اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ عام قاعدہ ہے کہ مفتوح یعنی ہار جانے والی قوم ہر معاملے میں فاتح قوم کی پیروی کیاکرتی ہے۔ ہمارے دیس میں بھی یہی ہوا اور فاتح قوم کے ادب کی طرف بھی نگاہیں اٹھیں۔ سر سید ہمارے پہلے بزرگ ادیب تھے جنہوں نے بدلے ہوئے حالات میں اپنے شعری اور نثری سرمایے کو نئی ضرورتوں کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنے کل ذخیرے کو ناکارہ قرار دیا۔ حالی نے شاعری کے نئے اصول مرتب کئے اور افادیت اور مقصدیت کو شرط اول قرار دیا۔ مبالغہ، جھوٹ، بے جا لفاظی، عبارت آرائی، بناوٹ اور عشق و عاشقی کی شاعری کی انہوں نے سخت الفاظ میں مذمت کی۔


لاہور میں محمد حسین آزاد نے کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں ایسے مشاعرے کی بنیاد ڈالی جس میں مصرع طرح پر غزلیں کہنے کے بجائے مختلف موضوعات پر نظمیں پیش کی جاتی تھیں۔ محمد حسین آزاد کو اس کام میں خواجہ الطاف حسین حالی کا تعاون بھی حاصل تھا کیونکہ وہ اس زمانے میں لاہور میں ہی مقیم تھے۔


سرسید چاہتے تھے کہ شعروادب سے سوتی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کا کام لیا جانا چاہئے وہ خود بلند پایہ نثر نگار تھے۔ نثر میں یہ کام انہوں نے خود کیا۔ ان کی فرمائش پر حالی نے مسلمانوں کو جگانے کے لئے ایک مسدس لکھی۔ آگے چل کر یہ کام بڑے پیمانے پر اقبال نے کیا اور اپنی شاعری سے قوم میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔


***
ماخوذ از کتاب: تاریخِ ادبِ اردو (ایجوکیشنل بک ہاؤس، علیگڑھ، سن اشاعت: 1997ء)۔

The Dabistans of Urdu poetry

1 تبصرہ: