فن افسانہ نگاری ، چند اہم باتیں - از ڈاکٹر اقبال حسن آزاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-26

فن افسانہ نگاری ، چند اہم باتیں - از ڈاکٹر اقبال حسن آزاد

(1) افسانہ نگار کی خوبیاں:

ایک اچھے افسانہ نگار میں درج ذیل خوبیاں ہونی چاہییں:

  • اسے وسیع المطالعہ ہونا چاہئے۔
  • اسے وسیع المشرب ہونا چاہیے۔
  • اسے وسیع القلب ہونا چاہیے۔
  • اسے ملکی اور بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
  • اسے اپنی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔
  • اسے چند دوسری زبانوں کا بھی علم ہونا چاہیے۔
  • اسے ادب کی دیگر اصناف سے بھی شد بد رکھنی چاہئے۔
  • اسے فنون لطیفہ یعنی مصوری،موسیقی،سنگ تراشی وغیرہ کا بھی تھوڑا بہت علم ہونا چاہئے۔
  • اسے نئے نئے تجربے کرتے رہنا چاہیے۔
  • اس کے اندر صبر اور ضبط کا مادہ ہونا چاہیے۔
  • اسے دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
  • اسے حکومت سے دوری بنائے رکھنی چاہیے۔

(2) مختصر افسانے کی تعمیر میں مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے کی اہمیت - چند نکات

افسانہ نگار کا ذہن زر خیز مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ جب اس میں مطالعہ کا بیج ڈالا جاتا ہے تو اس میں خود بخود نئے خیالات پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں۔ پھر افسانہ نگار کو ان مختلف خیالات میں سے سب سے عمدہ خیال کو چننا ہوتا ہے۔ اس منتخب خیال کو افسانے کی شکل میں ڈھالنے کے لیے افسانہ نگار کو مشاہدے کی دھوپ اور تجربے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض افسانہ نگار ان چیزوں کے بغیر بھی افسانہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے تحریر کردہ افسانے کاغذی پھول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو قدرتی گلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔


(3) مختصر افسانے کے موضوعات:

مختصر افسانے کے موضوعات گونا گوں ہیں۔ کوئی بھی واقعہ،جذبہ،خیال یا احساس افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ دنیا اور ماورائے دنیا کی کوئی بھی بات افسانے کے قالب میں ڈھالی جا سکتی ہے۔ موضوعات دو طرح کے ہوتے ہیں: مقامی اوروقتی یا ہنگامی،بین الاقوامی اور آفاقی۔
مقامی اور وقتی موضوعات پر تحریر کردہ افسانے ٹشو پیپرز کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی حیات زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ وقت گذر جانے کے بعد بہت ساری باتوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی جبکہ بین الاقوامی اور آفاقی موضوعات پر لکھے گئے افسانے نہ صرف دیرپا اثر چھوڑتے ہیں بلکہ ان کی حیات بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مقامی یا وقتی/ہنگامی موضوعات میں ایسے مسائل اٹھائے جاتے ہیں جن کا تعلق صرف ایک خاص علاقے اور وقت سے ہوتا ہے ا ور اس کے قاری بھی محدود ہوتے ہیں جبکہ آفاقی مسائل پر جو افسانے لکھے جاتے ہیں وہ پوری دنیا کے لیے ہوتے ہیں۔ محبت،نفرت،جنس،یا دیگر انسانی جذبات و احساسات وہ موضوعات ہیں جنہیں ہم بین الاقوامی یا آفاقی کہہ سکتے ہیں۔


(4) مختصر افسانے میں عنوان کی اہمیت:

مختصر افسانے کا عنوان انوکھا اور اس کے مرکزی خیال یا نفس قصہ کو اُجاگر کرنے والا ہو۔ لیکن اس سے افسانے کے انجام کا پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو قاری صرف عنوان دیکھ کر ہی پورا قصہ سمجھ جائے گا اور افسانے سے اس کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔


(5) مختصر افسانے کا قصہ:

ہر مختصر افسانے میں ایک قصہ ہوتا ہے۔ گوکہ بغیر قصے والے افسانے بھی ضبط تحریر کیے گئے ہیں لیکن یہ تجربہ ناکام رہا ہے۔ افسانے کا قصہ اکہرا بھی ہو سکتا ہے اور تہہ دار بھی اور دونوں طرح کے افسانے کامیابی کے ساتھ لکھے جا سکتے ہیں۔ جس افسانے میں کسی ایک واقعے کی کہانی بیان کی جاتی ہے اسے اکہرا کہتے ہیں اور جس افسانے میں ایک سے زیادہ واقعات کا بیان ہوتا ہے اسے تہہ دار کہتے ہیں۔ اکہرے قصے میں کسی ایک بات یا واقعہ کو افسانے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً گھر،بازار، رہگزر یا آفس میں پیش آنے والے کسی واقعے کا بیان ہوتا ہے جبکہ تہہ دار افسانے میں کئی قصے ہوتے ہیں۔ یہاں پر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جس واقعہ یا واقعات پر افسانے کی عمارت کھڑی کی جائے وہ انوکھے ہوں۔ اگر ہم یوں لکھیں کہ:
"میں حسب معمول سات بجے بیدار ہوا۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر ناشتہ کیا اور آفس کے لئے نکل کھڑا ہوا"'
تو اس سے افسانہ نہیں بنے گا۔ یاد رہے کہ افسانہ ہمیشہ "خلاف معمول" واقعات اور حالات سے بنتا ہے،"حسب معمول" واقعات اور حالات سے نہیں۔


(6) مختصر افسانے کا پلاٹ:

مختصر افسانے میں پلاٹ کی اہمیت وہی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ اردو میں گرچہ بغیر پلاٹ والے افسانے بھی تحریر کیے گئے ہیں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پلاٹ جس قدر گٹھا ہوا،چست اور درست ہوگا ،افسانہ بھی اسی قدر کامیاب ہوگا۔ ڈھیلے ڈھالے پلاٹ پر تعمیر کیا گیا افسانہ کمزور ہوتا ہے۔ پلاٹ سازی کا فن مکان کا نقشہ بنانے جیسا ہے۔ جب ہم کوئی عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو پہلے اس کا ایک نقشہ بناتے ہیں جس میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مکان کا صدر دروازہ کدھر ہوگا۔ ڈرائنگ روم، بیڈ روم ،ڈائننگ روم اور دیگر جگہیں کہاں پر ہوں گی۔ اسی طرح افسانہ نگار کو یہ طے پڑتا ہے کہ افسانہ کس طرح شروع ہوگا۔ افسانہ کس طرح آگے بڑھے گا اور اس کا اختتام کیسے ہوگا۔


ہر افسانے کے تین حصے ہوتے ہیں۔
ابتدا، ارتقا، انجام
افسانے کی ابتدا نہایت دلچسپ انداز میں ہونی چاہئے جسے پڑھ کر قاری کے ذہن میں تجسس پیدا ہو اور وہ آگے پڑھنے کے لیے خود کو مجبور پائے۔ افسانے میں ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے یوں پیوست ہو جیسے زنجیر کی ایک کڑی دوسری کڑی سے ملی ہوئی ہوتی ہے افسانے کا انجام غیر متوقع لیکن منطقی ہونا چاہئے۔


(7) مختصر افسانے کا اسلوب:

مختصر افسانے میں موضوع کی حیثیت جسم کی ہے اور اسلوب/بیانیہ/ٹریٹمنٹ کی حیثیت لباس کی ہے۔ جسم خواہ کتنا ہی تندرست و توانا ہو اگر اس پر بدوضع اور بھدا لباس زیب تن کیا جائے گا تو صاحب لباس کی شخصیت بھی بھدی اور بدنما معلوم ہوگی۔ لباس کو جسم پر فٹ آنا چاہئے۔ ڈھیلا ڈھالا یا تنگ لباس دیکھنے میں بھی خراب لگتا ہے۔ بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بہت زیادہ تندرست نہ بھی ہو لیکن اس نے نہایت عمدہ تراش خراش کا لباس پہن رکھا ہو تو وہ جاذب نظر دکھائی دیتا ہے۔ کہنے کی غرض یہ ہے کہ آپ خواہ کسی موضوع پر افسانہ تحریر کریں اس کی زبان و بیان اور اسلوب پر پورا پورا دھیان دیں۔


(8) مختصر افسانے میں کردار نگاری:

ہر افسانے میں کسی نہ کسی کردار کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر کردار کے کوئی بھی افسانہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اگر واقعتاً افسانے میں کوئی کردار نہ بھی ہو تو ہم"راوی" کو ہی کردار فرض کر لیتے ہیں۔ افسانے میں کردار کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو کسی مکان میں مکین کی۔ جس طرح بغیر مکین کے مکان سنسان اور ویران لگتا ہے اسی طرح کردار کے بغیر افسانہ بھی بے جان لگتا ہے۔ مختصر افسانے کا فریم چونکہ چھوٹا ہوتاہے اس لیے اس میں زیادہ کرداروں کی گنجایش نہیں ہوتی۔ مختصر افسانے میں کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دس کردار ہونے چاہئیں۔ ان میں سے ایک مرکزی کردار ہوتا ہے اور باقی ذیلی کردار ہوتے ہیں۔ مرکزی کردار وہ ہوتا ہے جس کے گرد کہانی گھومتی ہے اور ذیلی کردار کہانی کو آگے بڑھانے میں افسانہ نگار کی مدد کرتے ہیں۔ کردار دو طرح کے ہوتے ہیں۔
زندہ اور متحرک
بے جان اور ساکت۔
زندہ اور متحرک کردار جیتا جاگتا ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان میں نہ تو صرف اچھائیاں ہوتی ہیں نہ صرف برائیاں۔ اگر کسی انسان میں اچھائیاں زیادہ ہیں اور برائیاں کم تو ہم اسے ایک اچھا انسان کہتے ہیں۔ بر خلاف اس کے اگر کسی شخص میں برائیوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے تو ہم اسے برا کہتے ہیں۔ افسانے میں ہم جس کردار کو پیش کر رہے ہیں ہمیں اسکی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کو اجاگر کرنا ہوگا تبھی ہم ایک زندہ اور متحرک کردار تخلیق کر سکتے ہیں۔ زندہ اور متحرک کردار کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ افسانہ نگار کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر نہیں رہتا بلکہ اپنے اعمال اور افعال کا خود مالک ہوتا ہے۔ جبکہ بے جان اور ساکت کردار افسانہ نگار کے اشاروں پر کام کرتا ہے۔ وہ وہی سوچتا ہے جو افسانہ نگار سوچتا ہے اور وہی کرتا ہے جو افسانہ نگار اس سے کہتا ہے اور وہ مکالمے بھی افسانہ نگار کی زبان میں ادا کرتا ہے۔ ایک کامیاب افسانہ وہی ہوتا ہے جس کے کردار زندہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ بے جان کرداروں والا افسانہ ناکام ہوتا ہے۔


مختصر افسانے میں کردار کی تخلیق کے لیے نہایت عمیق مشاہدے اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے آس پاس بے شمار لوگ پائے جاتے ہیں اور جس طرح ہر انسان کی شکل و صورت ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتی ہے اسی طرح مختلف انسانوں کی حرکات و سکنات،وضع قطع،لب و لہجہ،نشست و برخاست کے طریقے بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ اور ہر انسان کی کوئی نہ کوئی عادت یا خصلت ایسی ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممیز و ممتاز کرتی ہے۔ ایک اچھا افسانہ نگار ان کرداروں کا برسوں مطالعہ و مشاہدہ کرتا ہے اور جب وہ افسانہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو اس کے ذہن میں خود بخود ایسے کردار آ جاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو افسانہ نگار کو اپنے دیکھے بھالے کرداروں میں سے ایک یا افسانے کی ضرورت کے مطابق ایک سے زیادہ کرداروں کو اپنے تصور میں لانا ہوتا ہے۔ اور جب آپ کسی کردار/ کرداروں کو منتخب کرلیں تو سب سے پہلے اسے/انہیں، نیا/نئے نام دیں۔ پھر اپنے تصور سے چند واقعات گڑھ لیں اور چند حقیقی واقعات کو لیں۔ اس کے بعد کہانی کا سانچہ تیار کریں اور اس میں اس کردار/کرداروں کو فٹ کر دیں۔ ملحوظ رہے کہ کرداروں کے افعال و اعمال بالکل فطری انداز میں پیش کیے جائیں۔ ان میں کوئی بناوٹ یا تصنع نہ ہو۔


(9) مختصر افسانے میں مکالمہ نگاری:

مختصر افسانے میں مکالمہ نگاری کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ افسانے میں مکالمے شامل ہوں۔ بغیر مکالموں کے بھی بہترین افسانہ لکھا جا سکتا ہے ۔ اور بعض افسانے تو مکالموں کے ستون پر ہی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ بہر کیف! اگر کسی افسانے میں مکالمے شامل کیے جائیں تو اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ یہ مکالمے کردار کی مناسبت سے ہوں۔ جیسا کردار ویسے مکالمے۔ آپ کسی ناخواندہ شخص کی زبان سے جس کا تلفظ درست نہ خالص اردو کے مکالمے ادا نہیں کروا سکتے۔ ہرقوم،ہر علاقے اور ہر طبقے کی زبان،بولی ٹھولی اور تلفظ الگ ہوتاہے۔ مکالمے لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔


(10) منی افسانہ یا افسانچہ لکھنے کے اصول:

اگر آپ منی افسانہ یا افسانچہ تحریر کر رہے ہیں تو درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
افسانچے کا موضوع بالکل نیا اور انوکھا ہونا چاہئے۔
افسانچہ کا بیانیہ حد سے زیادہ چست اور درست ہونا چاہئے۔
افسانچہ آخری سطر سے پہلے کسی بھی حال میں نہیں کھلنا چاہیے۔


(یہ مضمون فیس بک گروپ "سہ ماہی 'ثالث' مونگیر" سے ڈاکٹر اقبال حسن آزاد کی اجازت کے ساتھ یہاں اخذ کیا گیا ہے)۔

The art of Urdu short story, salient features. Essay: Dr. Eqbal Hasan Azad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں