ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 02 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-29

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 02

neeli-dunya-siraj-anwar-02

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
نوابزادہ فیروز اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے محل جیسے گھر میں آرام و سکون کی زندگی گزار رہا تھا کہ ایک دن اس کی بیٹی نجمہ اور داماد امجد ایک اطلاع کے ساتھ چلے آئے۔ امجد چند ضروری کاموں کے باعث آسٹریلیا جا رہا ہے اور نجمہ بھی اس کے ساتھ ہی جائے گی۔ پھر اتفاق یہ ہوا کہ وہ وہیں سے ائرپورٹ کو رخصت ہوئے مگر وقت پر ائرپورٹ نہ پہنچے اور ہوائی جہاز ان کے بغیر روانہ ہو گیا۔ فیروز اور اس کے گھر والے امجد اور نجمہ کی اس اچانک گمشدگی پر پریشان ہو گئے۔ ایک پولیس آفیسر اسی ضمن میں ان کی مدد کے لیے ان کے گھر چلا آیا۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔
"ابا جی میرے کمرے کا ریڈیو اپنے آپ ہی بند ہو گیا ہے۔ ذرا بجلی والوں کو فون کر دیجئے۔ شاید لائٹ چلی گئی ہے۔"

میں نے اسے تسلی دی اور انسپکٹر کے ساتھ ہال سے باہر آ گیا۔ انسپکٹر کہہ رہا تھا کہ چوں کہ فون خراب ہو گیا ہے اس لئے وہ اپنی موٹر سائیکل پر جا کر خود ہی سراغ رساں کو بلائے لاتا ہے۔ میں نے جب آمادگی ظاہر کی تو وہ موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے لگا۔ مگر ہزار کوششوں کے باوجود انجن اسٹارٹ ہی نہ ہوا۔ بے چارہ انسپکٹر پسینہ میں ڈوب گیا ، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ آخر اس کی موٹر سائیکل اسٹارٹ کیوں نہیں ہوتی؟ پولیس والوں کی موٹر سائیکلیں بڑی اچھی حالت میں ہوا کرتی ہیں۔ جہاں کک ماری اور اسٹارٹ ، پھر آخر یہ کیا چکر ہے ؟

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے محل کے صدر دروازے سے اپنا ڈرائیور ایک وکٹوریا میں آتا ہوا نظر آیا۔ اس کی شکل سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بے حد گھبرایا ہوا ہے ، وکٹوریا والا اپنے تانگے پر برابر چابک برسا رہا تھا تاکہ گاڑی جلد سے جلد مجھ تک پہنچ جائے ، میں نے اندازہ لگایا کہ ڈرائیور کے ساتھ کوچوان بھی پریشان ہے، ڈرائیور جلدی سے وکٹوریا سے اتر کر میرے پاس آیا اور مودب کھڑا ہو گیا۔
"کیا بات ہے یوسف؟ تم آج صبح کار لے کر بندرگاہ کیوں نہیں گئے؟"

یوسف کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ صبح سویرے اٹھتا تھا اور موٹر گیرج سے کار نکال کر میری جہاز راں کمپنی کے دفتر میں جاتا تھا اور پھر چند ضروری کاغذات جو پوری رات مخٹلف جگہوں سے دفتر میں آتے تھے، میرے پاس محل میں لے آیا کرتا تھا۔ اس لئے آج اسے خالی ہاتھ وکٹوریا میں آتے ہوئے دیکھ کر میرا حیران ہونا قدرتی تھا۔
"سرکار سمجھ میں نہیں آتا کیا کہوں۔ نہ جانے کیا ہوگیا ہے؟"
"گھبراؤ نہیں اطمینان سے بتاؤ کیا ہوا؟" میں نے کہا۔
"حضور کار نکال کر جب میں بندرگاہ کی طرف روانہ ہوا تو اچانک سوا آٹھ بجے کار اپنے آپ رک گئی۔ میں نے اسے اسٹارٹ کرنے کی بہتیری کوشش کی مگر وہ اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی۔ میں نے سمجھا کہ شاید بیٹری میں یا پلگ میں کوئی خرابی ہو گئی ہے، خود ہی ٹھیک ہو جائے گی، مگر سرکار میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا، کیوں کہ میں نے دیکھا۔۔۔"

یوسف اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا ، یوں لگتا تھا جیسے وہ بے حد خوفزدہ ہے اور الفاظ اس کے مونہہ تک آ کر رہ جاتے ہیں۔
"ہاں ہاں کہو، رک کیوں گئے؟" اس بار انسپکٹر نے بھی دلچسپی دکھائی۔
"سرکار کیا بتاؤں، میں نے دیکھا کہ صرف میری ہی موٹر نہیں سڑک پر چلتی ہوئی لاتعداد کاریں بھی اچانک رک گئی ہیں۔"
"کیا کہتے ہو؟"
"جی ہاں سرکار، اور کاروں کے ساتھ ہی مکانوں اور دفتروں کی بجلی بھی چلی گئی ہے ، میں نے آپ کو ٹیلی فون کرنا چاہا مگر اس نے بھی کام نہیں کیا۔" یوسف نے جلدی جلدی ہاتھ ہلا کر یہ بات کہی۔
"تم کہتے ہو سوا آٹھ بجے ایسا ہوا تھا۔" انسپکٹر نے سوچتے ہوئے کہا۔
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت ہال کی بجلی اور فون خراب ہوا تھا، اسی وقت ایسا ہوا ہوگا۔"
"مگر یہ بات کیا ہے؟" میں نے حیرت سے کہا۔ "اگر شہر کی بجلی فیل ہو گئی تو بیٹری سے کام کرنے والی چیزوں کو تو چلنا چاہئے تھا۔"
"مالک۔۔۔۔" سوامی نے آگے بڑھ کر کہا:
"ایسا تو نہیں کہ بے بی کی کار کے غائب ہونے اور شہر کی بجلی فیل ہو جانے میں آپس میں کوئی تعلق ہو۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو ، سوامی۔" میری پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں نے بے تابی کے ساتھ انسپکٹر کا کندھا جھنجوڑتے ہوئے کہا: "انسپکٹر صاحب ، خدا کے لئے آپ جائیے اور پتہ لگائیے کہ یہ کیا چکر ہے؟"

چکر در حقیقت کیا تھا؟
یہ تو انسپکٹر بھی نہیں جانتا تھا ، لیکن اسے ہیڈ آفس جانا ضروری تھا، اس لئے وہ وکٹوریا میں بیٹھ کر کوچوان سے جلد سے جلد ہیڈ آفس پہنچنے کے لئے کہا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ محل کے سب ہی ملازم حیران نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ شاید انہوں نے ہماری گفتگو سن لی تھی ، اگر دیکھا جائے تو بجلی کا یوں اچانک چلا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے سوامی کی زبان سے نجمہ کی کار کی گمشدگی کے بارے میں سن لیا تھا اور اب وہ آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔

ملازموں کی بھیڑ کے پیچھے زرینہ ایک ستون کا سہارا لئے کھڑی تھی۔ اس وقت اس کا چہرہ کسی لاش کی طرح زرد اور ستا ہوا لگتا تھا۔ اس کی دو خادمائیں اسے تسلی دے رہی تھیں، معلوم ہوتا تھا کہ اسے بھی وہ اطلاع مل چکی تھی جسے میں اس سے چھپانا چاہتا تھا۔ میں سب کو وہیں چھوڑ کر زرینہ کی طرف بڑھا، اختر بھی افسردگی سے ساتھ ہو لیا۔ زرینہ کو میں نے تسلی دینی شروع کی اور امید کے خلاف اختر نے بھی میرا ساتھ دیا۔ زرینہ نے بہ مشکل اپنے آنسو پونچھے۔ پھر میں نے اس کو بتایا کہ پہلے بھی اختر اور نجمہ اس سے جدا ہو چکے تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے سب کو آپس میں ملا دیا، اس لئے اسے اب بھی خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اسے منظور ہوا تو پھر نجمہ ہم سے آ ملے گی اور اس کا ذرا بھی بال بیکا نہ ہو سکے گا۔ میری ان باتوں سے زرینہ کی بڑی ڈھارس بندھی اور وہ خاموشی سے میرے ساتھ چلتی ہوئی اس جگہ آ گئی جہاں میں پہلے کھڑا ہوا تھا۔ اختر چلتے ہوئے کچھ سوچ رہا تھا۔ آخر اس نے مجھ سے کہا:
"ابا جی میرے خیال میں ہمارے پچھلے دشمن ابھی تک دنیا میں موجود ہیں۔"
"میں سمجھا نہیں۔"
"میرا مطلب جیگا سے ہے۔"
"کیسی باتیں کرتے ہو اختر۔ جیگا تو خود تمہارے ہاتھوں ختم ہوا تھا بھول گئے کیا؟"
"لیکن معاف کیجئے، آپ بھی اس کی ایک صفت بھول رہے ہیں، وہ جس طرح شکل بدلنے میں ماہر ہے ، ہو سکتا ہے اسی طرح موت پر بھی اس کا بس چلتا ہو۔"
"نہیں بیٹے، یہ ناممکن ہے ، جیگا زہرہ کا ایک بدنام سائنس داں تھا اور وہ کبھی کا مر چکا۔"
"میں مان لیتا ہوں" اختر نے کہا: "مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ زہرہ کے ہی دوسرے بدنام سائنس داں یعنی جیگا کے ساتھی ہماری دنیا میں آ جائیں اور ہم سے انتقام لیں، کیوں کہ ہم ہی ان کے لیڈر کی موت کا باعث بنے تھے۔"

بجلی جیسی ایک چمک میرے ذہن میں پیدا ہوئی، حیرت کی بات ہے کہ جو بات میں اب تک نہیں سوچ سکا تھا اختر نے سوچ لی تھی۔ شاید وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا، کیوں کہ پورے شہر کی بجلی غائب کر دینا، اس حد تک کہ بیٹری اور ڈرائی سیل کا کرنٹ بھی غائب ہو جائے ، کسی انسان کی حرکت نہیں ہو سکتی، یقینا یہ کام سیارہ زہرہ کے لوگوں کا ہی ہو سکتا ہے۔

سوامی بھی اختر کی باتیں سن رہاتھا، اور اس نے بھی اختر کی تائید کی۔ میرا ذہن تو یہ بات قبول کرتا تھا، لیکن دل نہیں مانتا تھا، یا پھر یہ بات تھی کہ میں جان بوجھ کریہ بات نہیں مان رہا تھا ، وجہ محض یہ تھی کہ اگر میں مان لیتا تو پھر مجھے یقین کرنا پڑتا کہ نجمہ کو وہی لوگ لے گئے ہیں، اور یہ خیال یقینا میرے لئے تکلیف کا باعث ہوتا۔

میں نے ملازموں کو واپس جانے کے لئے کہا اور پھر ہم چاروں محل کے خوبصورت اور نفیس ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں ملازموں نے سب کمروں میں شمعیں روشن کر دی تھیں۔ زرینہ اپنا سر پکڑے ہوئے بیٹھی تھی، اختر اور سوامی بھی لگاتار کسی سوچ میں غرق تھے ، اور میں بھی حالات کے اس نئے موڑ سے پریشان تھا۔ جیسا کہ مجھے اس واقعہ کے دو دن بعد معلوم ہوا ، بجلی جانے کا یہ حادثہ صرف بمبئی ہی میں نہیں ہوا تھا، پورے ہندوستان کی یہی حالت تھی ، سب مقامات اور شہروں کی بجلی فیل تھی۔ البتہ ہندوستان کے علاوہ دوسرے ملکوں پر اس حادثے کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا، لیکن ہندوستان بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گیا تھا۔ نہ کوئی خبر یہاں سے باہر جا سکتی تھی اور نہ باہر کی یہاں آ سکتی تھی۔ بجلی فیل ہونے کا اثر ریل گاڑیوں، پانی کے جہازوں اور ہوائی جہازوں پر بھی پڑا تھا۔ سوا آٹھ بجے پرواز کرنے والے جہاز پرواز نہیں کر سکے تھے اور جو پرواز کر رہے تھے ان کے انجنوں نے اسپارک پیدا کرنے بند کر دئے تھے ڈائنمو نے جب کرنٹ بنانا ہی بند کر دیا تھا تو انجن بھلا کس طرح چلتا؟ نتیجے کے طور پر پورے ہندوستان میں چھبیس جہاز نیچے گر پڑے تھے اور لاتعداد مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اگر اختر کا خیال درست تھا اور یہ کام سیارہ زہرہ کے ظالم لوگوں کا ہی تھا تو ان کی حرکت بہت بری تھی ، یوں لگتا تھا کہ ان کی نظروں میں انسانی زندگی کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔

بجلی کو فیل ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ میں ابھی تک ڈرائنگ روم ہی میں بیٹھا ہوا تھا، میرے ملازمین اور دوسرے ملاقاتی بار بار میرے پاس آ رہے تھے اور شہر کی افراتفری کے بارے میں بتا رہے تھے کہ کس طرح پورے شہر کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ آفت کس طرح دور ہوگی؟ اتنے سے عرصے میں پڑوسی ملکوں کے بیشترنمائندے دارالحکومت میں آ چکے تھے اور سر توڑ کوشش کر رہے تھے کہ کس طرح معلوم کر سکیں کہ بجلی فیل ہونے کی اصل وجہ کیا ہے ؟ ان سب باتوں کے ساتھ ہی ایک شخص نے مجھے بتایا کہ اس نے آدھ گھنٹہ پہلے آسمان پر ایک گہری سبز رنگ کی لکیر دائیں طرف سے بائیں طرف جاتے ہوئے دیکھی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے کوئی چیز زناٹے کے ساتھ شوں کر کے گزر گئی ہو۔ اس چیز کے گزرنے کی آواز ایسی تھی جیسے ہزاروں جیٹ جہاز ایک ساتھ گزرتے وقت پیدا کرتے ہیں۔

یہ بات سن کر میرا ماتھا کچھ ٹھنکا ، مگر میں نے کسی پر ظاہر نہیں کیا کہ میں کچھ جانتا ہوں۔ نجمہ اور امجد کی پراسرار گمشدگی کی خبر چوں کہ پورے شہر میں پھیل چکی تھی ، اس لئے مجھ سے ملاقات کرنے والوں کا ایک تانتا بندھ گیا تھا۔ تنگ آ کر میں نے دربان سے کہلوا دیا کہ وہ صدر دروازے کا پھاٹک بندکر دے اور کسی کو بھی اندر نہ آنے دے۔ البتہ انسپکٹر رانا اور اس کے ساتھی کو نہ روکے۔ یہ حکم دینے کے بعد میں اپنے ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھا رہا۔ اختر اور زرینہ مجھے اس انداز سے تک رہے تھے گویا میں ابھی کوئی حل اس پریشانی کا ڈھونڈ نکالوں گا۔

اس حالت میں بیٹھے بیٹھے آدھ گھنٹا گزر گیا، لیکن سچ پوچھئے تو میں کچھ بھی نہ سوچ سکا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اختر اور سوامی مجھے تسلی دے رہے تھے، اور مناسب مشورے بھی دیتے جا رہے تھے ، اور ان مشوروں میں چند منٹ بعد انسپکٹر رانا سراغ رساں ذکی بھی شامل ہوگئے۔ بڑی دیر تک میں اور وہ دونوں اپنا دماغ خرچ کرتے رہے، مگر کام کی بات کسی نے بھی نہیں کی۔ تھک ہار کر ہم لوگ آرام کرسیوں پر نیم دراز ہو گئے۔ انسپکٹر رانا کاغذ پر کسی قسم کا نقشہ بنانے لگا اور سراغ رساں ذکی اپنا پائپ سلگا کر دھوئیں کے بادل چھت کی طرف چھوڑنے لگا۔
ایک بارجیسے ہی اس نے دھواں چھت کی سمت چھوڑنے کے لئے اپنا مونہہ اونچا کیا، حیرت اور خوف کے باعث وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: "فیروز صاحب ، یہ کیا ہے؟"

اس کی نظروں کے سہارے جب میں نے اوپر دیکھا تو دہشت کی ایک تھرتھری میرے جسم میں پھر پیدا ہو گئی۔ زرینہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اختر کو اپنے سینے سے لگا لیا اور سوامی دو قدم آگے بڑھ کر میرے بالکل برابر کھڑا ہو گیا۔ ہم سب بھیانک اور پھٹی ہوئی آنکھوں سے چھت میں بنے ہوئے اس روشن کو دیکھ رہے تھے جس کے راستے ایک گہرے سبز رنگ کا چمکتا ہوا دھواں آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہو رہا تھا، ایک عجیب سی سیلی ہوئی بو کمرے میں پھیلنے لگی۔ ایک خاص بو، جسے اب میں پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ سراغ رساں ذکی کا مونہہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا، اور پائپ ان کے دانتوں سے پھسل کر فرش پر نیچے جا گرا۔ سبز چمکیلا دھواں دھیرے دھیرے اس سمت بڑھ رہا تھا جہاں دیوار کا کونا تھا۔ اس کونے میں کوئی سامان بھی نہیں رکھا ہوا تھا ، یہ دھواں اس جگہ جاکر پھیلنے لگا اور اس کی چمک بڑھنے لگی۔ دیوار کے کونے میں یہ چمکیلا غبار ایک خاص حجم میں تبدیل ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے دیوار میں دس فٹ مربع کوئی شیشے کا کمرہ ہو اور اس میں یہ دھواں بھرنے لگا ہو، انسپکٹر رانا نے فوراً اپنا پستول نکال لیا اور پھر وہ آگے بڑھ کر کونے میں گولی مارنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک سراغ رساں نے اسے روک لیا اور کہا: "کیا کرتے ہیں آپ، پہلے دیکھتے رہئے کہ یہ شعبدہ کیا ہے؟‘’‘
"میں اس شعبدہ کو اچھی طرح سمجھ چکا ہوں انسپکٹر" میں نے کہا۔
"آپ کو یاد ہوگا کہ ایسا ہی پاؤڈر اس مقام پر بھی پڑا ہوا تھا جہاں سے نجمہ اور امجد کی کار اچانک غائب ہو گئی تھی۔"
"آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں فیروز صاحب۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔"

زرینہ نے پہلی بار عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا، اس کی نظروں میں یہ شکایت تھی کہ آپ نے پوری بات مجھے کیوں نہیں بتائی؟ مگر یہ وقت زرینہ کو مکمل بات بتانے کا نہیں تھا، کیوں کہ میرے سامنے ایک عجیب و غریب تماشا ہو رہا تھا۔ میں، سوامی اور اختر چوں کہ ایسے تماشے بہت دیکھ چکے تھے، اس لئے ہم کم حیرت زدہ تھے، البتہ بے چارے انسپکٹر اور سراغ رساں حیرت، خوف اور پریشانی کے ملے جلے انداز میں دیوار کی طرف تک رہے تھے۔

سبز رنگ کا دھواں دیوار کے قریب اسی طرح پھیل چکا تھا کہ ہم لوگوں کو یہی محسوس ہوا تھا گویا شیشے کی ایک چوکور الماری میں کسی نے یہ دھواں بھر دیا ہو۔ ایک مکروہ بو کمرے کی فضا کو مکدر کر رہی تھی۔ یہ بو کس جاندار کی تھی ، اب میں اچھی طرح جان چکا تھا اور یہ حقیقت معلوم ہوتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میرا جسم سن ہو گیا ہے اور اس کا تمام خون کسی نے نچوڑ لیا ہے۔ سوامی بھی میری ہی طرح سب کچھ جان گیا تھا، اس لئے اس کی حالت بھی غیر تھی ، بے شک وہ بہادر تھا مگر میں کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ اس کے سیاہ رنگ پر زردی غالب آتی جا رہی تھی!

ہم سب سانس روکے ہوئے سبز چمکیلے غبار کو دیکھ رہے تھے ، جس میں سے اب ہلکا سا سراٹا بلند ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی دو دھندلے دھندلے خاکے ابھر رہے تھے۔ مٹیالے رنگ کے خاکے، پھر ان خاکوں میں زندگی پیدا ہونے لگی اور یہ گہرے ہونے لگے۔ آگے والا خاکہ عجیب مضحکہ خیز صورت اختیار کرنے لگا۔ تین فٹ لمبا قد، جسم پر گوریلے جیسے لمبے لمبے بال، پھولا ہوا پیٹ ، ایک فٹ لمبی ٹانگیں مگر ڈیڑھ فٹ لمبے پیر اور ان پیروں میں صرف دو انگلیاں، کندھوں کے ساتھ بے گردن کا جڑا ہوا گوریلے کے سر سے بھی بڑا ایک سر۔ بے حد خوفناک چہرہ اور چہرہ کی پیشانی پر صرف ایک آنکھ، یہ آنکھ آہستہ آہستہ سرخ ہوتی جا رہی تھی۔ ناک کی جگہ ایک سوراخ اور بے حد چوڑا مونہہ، جو ہاتھی جیسے کانوں کے ساتھ جاکر مل گیا تھا۔ مونہہ کے باہر دو نوکیلے دانت لٹک رہے تھے۔ جب اس ہیبت ناک جسم نے حرکت کی تو اس کی موٹی سی دم بھی نظر آئی ، اس جسم کے پیچھے ایک جسم اور ابھرا۔
یہ زوک تھا اور زوک کے آگے کھڑا ہوا بدنما جسم جکاری۔ (زوک اور جکاری کی تفصیل کے لیے پچھلا ناول "کالی دنیا" پڑھیے۔)
جکاری جسے ہنستے دیکھ کر میری روح فنا ہونے لگی، اور میں دہشت کے باعث دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ مجھے پریشان دیکھ کر جکاری پہلے تو ہنسا اور پھر ایک اچانک غصیلی نظر سے گھور کر دیکھنے لگا۔

یہ جو کچھ بھی ہوا تھا، نئے لوگوں کے لئے بے حد حیرت انگیز تھا۔ میں سوامی اور اختر تو اچھی طرح جانتے تھے کہ جکاری کیا بلا ہے۔ مگر زرینہ، انسپکٹر اور سراغ رساں ذکی کی اس وقت بری حالت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں آج تک یہ عجوبہ نہیں دیکھا تھا کہ سبز دھوئیں کے اندر سے ایک ہیبت جام جسم جنم لے لے۔ انسپکٹر نے کسی مسمریزم کے معمول کی طرح پستول واپس ہولسٹر میں رکھ لیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے جکاری کو دیکھنے لگا۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ،جکاری اور زوک سیارہ زہرہ کی عجیب و غریب مخلوق تھے، زوک تو محض جکاری کا مددگار تھا، مگر یہ جکاری بہت ہی خطرناک مخلوق تھی، ان کے جسم کو چھونے سے بجلی کا ایک زبردست جھٹکا محسوس ہوتا تھا۔ اپنی ایک بھیانک آنکھ سے نظر آنے والے منظر کو یہ جکاری اپنے مالک تک سیاہ زہرہ میں پہنچا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بڑے طاقتور بھی تھے، ان سے مقابلہ کرنا دراصل اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ صرف سوبیا دھات ہی انہیں تباہ کر سکتی تھی۔ اور اس دھات کی معمولی سی مقدار بھی جان کے سوا کسی کے پاس نہ تھی اور جان ہم لوگوں کے حال سے بے خبر اس وقت امریکہ میں موجود تھا۔

جکاری کنگرو کی طرح اپنی دم زمین پر ٹکا کر اور اس کی کرسی بنا کر بیٹھ گیا، اور وہ صرف میری طرف دیکھ رہا تھا ، اور اس کی ایک آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں جانتا تھا اس آنکھ میں میرے لئے صرف نفرت ہی نفرت بھری ہوئی ہے۔ سراٹا بڑھنے لگا اور جکاری کے سر کے اوپر چمکتا ہوا روشنی کا ہالا اور تیز ہونے لگا، روشنی کبھی نارنجی، کبھی اودی، کبھی سبز اور کبھی پیلی ہونے لگی۔ مجھے یاد آیا کہ ایسی ہی روشنی میں نے اس وقت بھی دیکھی تھی جب میں "کالی دنیا" میں گیا تھا، اور جکاریوں کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اب میں اچھی طرح جان چکا تھا کہ یہ سیارہ زہرہ کے لوگوں کا آلۂ گفتگو ہے۔

کمرے میں اس وقت جتنے بھی لوگ تھے ، سب میرے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ میں جانتا تھا کہ انسپکٹر، زرینہ اور سراغ رساں پر خوف طاری ہے۔ خوف زدہ تو خیر میں بھی تھا لیکن اتنا نہیں جتنا وہ سب تھے۔ سراٹا اب کم ہونے لگا اور پھر آہستہ آہستہ ایک کھردری اور سپاٹ آواز اس بلب میں سے نکل کر کمرے میں گونجنے لگی۔ آواز ایسی تھی کہ معلوم ہوتا تھا جیسے لاتعداد پتھر لڑھک رہے ہوں، آواز اب صاف ہوتی جا رہی تھی ، اور پھر عمدہ انگریزی میں کوئی مجھ سے مخاطب ہوا:
"گڈ مارننگ مسٹر فیروز! کہئے میری آواز سن کر آپ کو حیرت تو نہیں ہوئی؟"

آواز میرے لئے بالکل نئی تھی ، خدا جانے وہ کس کی آواز تھی، میرا دل بری طرح دھڑک رہاتھا، مگر میں نے مناسب یہی تھا کہ جواب دلیری اور بے خوفی سے دیا جائے۔ اگر میرے لہجے میں ذرا سا بھی ڈر ثابت ہوگیا تو ہو سکتا ہے کہ ہم سب کے حق میں مفید نہ ہو اس لئے میں نے نڈر ہوکر جواب دیا:
"حیرت کی کیا بات ہے؟ مجھے یقین تھا کہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آئے گا۔"

"ہم لوگ آپ کی بہادری کی قدر کرتے ہیں، یہ آپ کی بہادری ہی تھی کہ جس کے باعث ہمارا مشن ناکام ہو گیا اور ہمارا عظیم لیڈر جیگا موت کی میٹھی نیند سو گیا، وہ آپ ہی تھے اور آپ کا یہ ذہین لڑکا تھا جس کی بدولت ہمارا لیڈر ہم سے چھین لیا گیا۔"
"میں اسے طنز سمجھوں یا اپنی عزت افزائی؟" میں نے تلخ لہجہ میں کہا۔
"آپ کا دل کیا کہتا ہے؟" بلب میں سے غصیلی آواز آئی۔
"بہرحال آپ جانتے ہی ہیں کہ میرا مقصد کیا ہے ، آپ نے ہماری راہ میں جس طرح روڑے اٹکائے ہیں اس کی سزا تو آپ کو ملنی ہی چاہئے۔"
"اور یہ سزا تم نے اس طرح دی ہے کہ پورے ہندوستان کی برقی قوت ختم کر دی! کیوں؟"

چمکیلے غبارے میں سے ایک بھیانک ہنسی سنائی دی۔ جکاری کی ایک آنکھ مجھے لگاتار گھورے جا رہی تھی۔ میں یہ جانتا تھا کہ یہ آنکھ ایک قسم کا ٹیلی وژن لینس ہے جو میری تصویر کروڑوں میل دور سیارہ زہرہ میں پہنچا رہا ہے، جہاں ایک بدنما انسان اپنی سائنسی لیباریٹری میں بیٹھا ہوا مجھے تمسخرانہ انداز سے دیکھ رہا ہوگا۔ سوامی اور اختر دونوں گم صم کھڑے تھے ، شاید وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے؟ مگر انسپکٹر اور سراغ رساں کی حالت بہت بری تھی۔ وہ میرے قریب ہی کھڑے ہوئے تھے اور کبھی مجھے اور کبھی جکاری کو دیکھنے لگے تھے۔ جکاری کے سر کے اوپر معلق بلب میں سے جب قہقہے کی آواز آئی تو وہ چوکنے ہوکر اس سمت دیکھنے لگے۔

آواز کہہ رہی تھی:
"یہ سزا نہیں ہے فیروز صاحب، سزا تو ہم آپ کو دیں گے ، ایسی سزا دیں گے کہ آپ کبھی نہ بھول سکیں گے۔"
"تو پھر یہ برقی قوت کس لئے ختم کی گئی ہے؟"میں نے اس کی دھمکی کو نظر انداز کر کے پوچھا۔
"برقی قوت کو ختم کئے بغیر ہمارے ٹیلی ویژن اسکرین کی لہریں آپ تک نہیں پہنچ سکی تھیں، اپنی لہروں کو وہاں تک پہنچانے کے لئے آپ کے ملک کی بجلی کو عارضی طور پر ختم کرنا ضروری تھا، ہماری سائنس کی داد دیجئے کہ آپ کے سامنے ہمارے دو وفادار موجود ہیں، مگر ان کے جسم نہیں ہیں بلکہ ایک قسم کی تصویر ہیں، لیکن اس تصویر میں بھی آپ کو ختم کرنے کی قوت موجود ہے۔ آپ بے شک ان کے سامنے سوبیا رکھ دیجئے مگر یہ سوبیا کی زہریلی کرنوں سے نہیں مر سکیں گے ، کیوں کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہ محض ایک تصویر ہیں۔"
"فیروز صاحب۔ براہ کرم بتلائیے یہ کون لوگ ہیں؟" انسپکٹر نے بڑی دیر بعد خود میں ہمت کرکے پوچھا۔
"ہاں۔ اگر یہی ہمارے دشمن ہیں اور انہوں نے ہی بجلی ختم کی ہے تو میں فوراً فوجی ہیڈ کواٹر سے رابطہ کرتا ہوں۔"
"زیادہ ڈینگیں نہ مارو مسٹر" بلب میں سے ہنسی کے بعد کہا گیا۔ "کرنٹ کے بغیر نہ تو فوجی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ قائم کر سکتے ہو اور نہ تمہارے وہ کھلونے جنہیں تم ہوائی جہاز کہتے ہو، کرنٹ کے بغیر یہاں تک آ سکتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ میری باتیں توجہ سے سنو اور اپنی عقل کا ماتم کرو۔"
"مگر میں کہتا ہوں۔" انسپکٹر نے پھر بولنے کی کوشش کی۔
"خاموش۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، کہ تمہارے بکواس سنیں۔" بلب میں سے ہیبت ناک طریقے سے ڈانٹنے کی آواز آئی۔

میں نے اشارے سے انسپکٹر کو خاموش رہنے کے لئے کہا اور بلب کی طرف اپنا مونہہ کر کے بولا: "مجھے بتایا جائے کہ پورے ہندوستان میں صرف مجھ سے بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟"
"پھر کس سے بات کی جائے، ہمیں نقصان آپ ہی نے پہنچایا تھا اور اب ہم اس نقصان کا بدلہ لیں گے۔ آپ کا عزیز دوست شاگو جس نے آپ کی مدد کی تھی اور اس نے آپ کو بے انتہا دولت بھی دی ہے، اس وقت ہماری قید میں ہے، میں ابھی اس کا حشر آپ کو دکھاتا ہوں۔ وفادار جکاری کی آنکھ سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھئے جو آپ کے کمرے کے سامنے والی دیوار پر سنیما فلم کی طرح پڑے گی۔ یہ ہمارے ہاں کا وژن سنیما ہے۔ دیوار پر آپ شاگو کو بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں، اسے گرفتار ہوئے آپ کی گھڑیوں کے حساب سے پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے۔۔۔"

دیوار پر بالکل سنیما کے پردے کی طرح ایک تصویر نظر آ رہی تھی ، اور یہ تصویر واقعی جکاری کی آنکھ سے نکلتی ہوئی روشنی نے بنائی تھی، یوں لگتا تھا جیسے جکاری کی آنکھ ایک سنیما مشین تھی اور دیوار سنیما کا پردہ۔ اس تصویر میں ہمارا رحم دل دوست شاگو صاف نظر آ رہا تھا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے ، شاگو سیارہ زہرہ میں جیگا کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو پسند نہیں کرتا تھا۔ جیگا کے مرنے کے بعد شاگو کی مخالف پارٹی نے یقیناً اسے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا ہوگا اور جس وقت ہم لوگ شاگو کو دیکھ رہے تھے ، اس سے پانچ منٹ پہلے وہ گرفتار ہو چکا تھا اس کی شکل و صورت میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں ہوئی تھی ، وہ یقیناً اتنا ہی قدر آور تھا۔ البتہ صورت اس کی ویسی ہی تھی جیسی ہم لوگ 'کالی دنیا' والے سفر میں دیکھ چکے تھے۔

"کہئے دیکھ لیا آپ نے؟" بلب میں سے آواز آئی۔
"دیکھ لیا۔ مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔" میں نے کہا۔
"وجہ؟"
"تمہار ا مقصد اپنے ملک میں خونی انقلاب لانا ہے اور شاگو کا مقصد امن کے سوا کچھ نہیں ہے۔"
"امن کی خواہش تو تمہاری زمین کے رہنے والوں کوہے، ہمارے ہاں اس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔"
بلب میں سے ہنسی کی آواز آئی، اچانک مجھے ایک بات یاد آئی، میں نجمہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا اور جب میں نے اس کا جواب چاہا تو چمکیلے غبارے میں سے آواز آئی:
"میں ٹھیک ٹھیک وجہ تو نہیں بتا سکتا، صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کے جسم کو آفاقی ہار کے دانے چھو چکے ہیں اور وہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔"

آفاقی ہار کو شاید میں کبھی نہیں بھول سکتا تھا، مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ اس ہار نے کالی دنیا والے سفر میں کیا کام دکھایا تھا۔ یہ ہار شاگو نے ایک خاص مشین کے ذریعے مجھے بھیجا تھا اور بتایا تھا کہ وہ ہار نجمہ کو پہنا دوں نجمہ کے جسم سے لگتے ہی آفاقی ہار کے دانوں کی قوت بڑھ جائے گی۔ میں نے ایسا ہی کیا تھا اور اسی ہار کی بدولت برف کے قد آور دیو اور بدنام سائنس داں جیگا کا خاتمہ ہوا تھا۔ نہ دکھائی دینے والی لہریں ان دانوں سے نکلی تھیں اور جیگا ختم ہو گیا تھا۔ مجھے ایک ایک بات اچھی طرح یاد تھی، اس لئے میں نے جب جکاری کی طرف مونہہ کر کے یہ پوچھنا چاہا کہ بھلا زہرہ سے اتنی دور یہاں زمین پر رہتے ہوئے نجمہ ان لوگوں کے لئے کس طرح خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ تو بلب میں سے پھر سے ہنسی کی آواز آئی اور کسی اور نے کہا:
"میں آپ کی باتوں میں نہیں آ سکتا۔ اور نہ اس کے علاوہ مزید کچھ بتا سکتا ہوں، ویسے اس کا اطمینان دلا سکتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور وہ ہمارے پاس محفوظ رہے گی۔ البتہ آپ لوگوں کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
"کیوں؟ مجھے کیا خطرہ ہے؟"
"ابھی پتہ لگ جائے گا، آپ نے اگر اس خطرے کا مقابلہ کر لیا تو آپ یقیناً محفوظ رہیں گے۔ میرا مشن تو یہی تھا کہ آپ کو آگاہ کر دوں کہ جلد ہی آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔ حملہ کون کرے گا ؟ یہ میں نہیں بتا سکتا۔ مگر مجھے اس کا یقین ہے کہ آپ کے شہر والے اس قدر پریشان ہوں گے کہ آپ کا دل چاہے گا کہ ان کی پریشانی دیکھ کر خود کشی کرلیں۔"
"مگر وہ حملہ کیسا ہوگا؟" انسپکٹر رانا نے بڑی گھبراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"عنقریب پتہ لگ جائے گا، اچھا اب شاکا کو اجازت دیجئے، فیروز صاحب اور حملہ کا انتظار کیجئے۔"

تصویر غائب ہوگئی اور جکاری کی آنکھ سے وہ روشنی نکلنی بند ہو گئی اس کے ساتھ ہی اس کے سر پر ہوا میں لٹکا ہوا بلب مدھم ہونا شروع ہوا،جب اس کی روشنی کم ہو گئی تو جکاری اور زوک کا جسم بھی ہوا میں تحلیل ہونے لگا، آہستہ آہستہ یہ جسم بالکل غائب ہو گئے اور پھر وہ چمک دار غبار بھی تیزی کے ساتھ روشن دان کی طرف بڑھنے لگا۔

چند لمحوں بعد وہاں کچھ نہ تھا، وہی دیوار تھی اور وہی ساز و سامان تھا۔ انسپکٹر اور سراغ رساں دوڑتے ہوئے اس مقام پر گئے، مگر اب وہاں کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ بڑی دیر تک وہ دونوں بیٹھے مجھ سے باتیں کرتے رہے، وہ بے حد ڈرے اور سہمے ہوئے تھے، اور ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا تھا کہ وہ حملہ کیسے ہوگا؟ سچ تو یہ ہے کہ میں بھی لاعلم تھا۔ زرینہ، سوامی، اور اختر خاموش کھڑے ہوئے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک بجلی واپس آ گئی۔ انسپکٹر مجھ سے یہ کہہ کر وہ جلد ہی واپس آئے گا ، سراغ رساں کے ساتھ واپس چلا گیا۔

نجمہ کے بارے میں یہ سن کر کہ وہ زہرہ کے لوگوں کی قید میں ہے، زرینہ بہت پریشان تھی، مگر میں اب یہ تہہ کرچکا تھا کہ ان آفتوں اور پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کروں گا۔ نہ جانے مجھ میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی تھی کہ میں نے زرینہ کی ڈھارس بندھائی۔ میں نے اسے بتایا کہ نجمہ کے ساتھ امجد بھی ہے اور امجد بزدل ہرگز نہیں ہے۔ زہرہ کے جکاری اور زوک کو زرینہ نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ نہ جانے کس طرح وہ اپنے دل کو قابو میں کئے کھڑی رہی ورنہ اس پر تو اتنی دہشت سوار تھی کہ وہ یقیناً چیخ کر باہر بھاگ جاتی۔

دوسرے دن ایک اور واقعہ ہوا۔
میری عادت ہے کہ میں صبح سویرے اٹھ جاتا ہوں، خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہوں، اس کی عبادت کرنے کے بعد دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہوں۔ اختر بھی اس موقع پر میرے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ اس دن بھی وہ میرے ساتھ موجود تھا، آج اس نے اپنے گلے میں پولارائیڈ کیمرہ ڈال رکھا تھا۔ یہ کیمرہ فوراً ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیا کرتا ہے، ابھی ایک سیکنڈ میں تصویر کھینچو اور فوراً ہی دوسرے سیکنڈ میں تصویر دیکھ لو۔ یہی کیمرہ اختر کے گلے میں پڑ ہوا تھا، میں نے جب اس کی وجہ پوچھی تو بولا:
"ابا جی۔ اگرا تفاق سے جکاری اور زوک دوبارہ آ گئے تو میں ان کی تصویر کھینچ لوں گا"۔
"مگر اس سے فائدہ بیٹے۔"
"اخباروں میں میری اور آپ کی تصویریں تو چھپی ہیں، مگر عوام نہیں جانتے کہ جکاری کیا بلا ہے اور وہ کیسے ہوتے ہیں۔"

اتنا کہہ کروہ باغ میں چلا گیا اور میں نجمہ کے بارے میں سوچتا ہوا ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گیا۔ میرا دماغ اسے آزاد کرانے کے طریقے سوچ رہا تھا۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جان کو ٹرنک کال کر دوں اور یہ سب باتیں اسے بھی بتا دوں، یہ تہہہ کر کے میں ٹیلی فون کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک اختر خوشی خوشی اندر آیا۔ اور مجھے ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہنے لگا:
"ابا جی، یہ دیکھئے، باغ میں آج ایک بہت بڑی تتلی آئی ہے، پھول اس کے مقابلے میں کتنا چھوٹا نظر آ رہا ہے۔"
تصویر دیکھ کر مجھے بڑا اچنبھا ہوا ، میں اس کے ساتھ باہر جا کر وہ تتلی دیکھنے کے ارادے سے جیسے ہی کھڑا ہوا، اچانک ٹھٹھک کر رہ گیا۔
دروازے میں سے چند مکھیاں اندر آ رہی تھیں، یہ مکھیاں غیر معمولی طور پر بڑی تھیں، دور سے بھونرا نظر آتی تھیں، لیکن تھیں مکھیاں۔ یہ مکھیاں دیوار پر آکر بیٹھ گئیں ، مگر یکایک یہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کہ وہ مکھیاں آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔


Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں