1965ء کی ہند پاک جنگ - شہزادہ سلیم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-24

1965ء کی ہند پاک جنگ - شہزادہ سلیم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

1965-indo-pak-war-shahzada-saleem

شہزادہ سلیم (پیدائش: 16/اگست 1937ء ، کلکتہ)
مغربی بنگال کے ایک ممتاز صحافی رہے ہیں، جنہوں نے رہبر عالم، عکاس اور ہلال کی ادارت کے فرائض بخوبی نبھائے۔ 1965ء کی ہند پاک جنگ کے دوران وہ قید کر لیے گئے تھے۔ پندرہ برس بعد، ستمبر 1980ء میں ایک کتاب بعنوان "1965" تصنیف کر کے شہزادہ سلیم نے متذکرہ جنگ کے حالات کو دستاویزی شکل میں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے متعدد واقعات کو صحیح انداز میں پیش کیا ہے اور نہایت بےجگری کے ساتھ کئی مسائل کو بےنقاب بھی کیا ہے۔
نصف صدی قبل کی ایک جنگ اور اس کے تنازعات پر تحریر کردہ یہ کتاب تعمیرنیوز کے ذریعے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 5 میگابائٹس ہے۔

منظر کاظمی زیرنظر کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔

۔۔۔ آپ کی کتاب میں نے بہت سنبھل سنبھل کر پڑھی کہ ہندوستانی مسلمانوں پر آپ نے 1965ء کی ہند پاک جنگ کے پس منظر میں قلم اٹھایا ہے۔ پہلے تو حیرت ہوئی کہ پندرہ برس کے بعد آپ نے اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ پھر بعد میں اطمینان ہوا کہ اس عرصہ میں آپ کو ہندوستانی سیاست کے تجربے بھی ہوئے اور اسباب و نتائج نے آپ کی تحریر میں جذباتیت کے غلبہ کو کم کیا۔ غیر متعصب، سیکولر اور ترقی پسند سیاسی افراد اور جماعتوں کی پہچان، اب مسلم اقلیت کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر حشر معلوم ہے۔ اب تجربہ کرنے کا شوق ختم ہو جائے، اس میں بھلائی ہے۔
- منظر کاظمی (جمشید پور، 14/اکتوبر 1980ء)

زیرنظر کتاب کے پیش لفظ میں صاحبِ کتاب شہزادہ سلیم لکھتے ہیں ۔۔۔

سنہ 1965ء کی ہند پاک جنگ کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ان کی اپنی حکومت نے جو سلوک کیا تھا وہ اتنا فرقہ پرستانہ تھا کہ سیکولرزم کی وہ سنہری نقاب تار تار ہو گئی تھی جو اس نے اپنے چہرہ پر ڈال رکھی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد سے حکومتِ ہند کی برابر یہ کوشش رہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے ساتھ بیرونی دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جس کے تمام شہریوں کو بلالحاظ مذہب و ملت یکساں حقوق حاصل ہیں اور ملک میں وقتاً فوقتاً ہونے والے اینٹی مسلم فسادات کا سرکاری پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اگرچہ حکومت کے اس پروپیگنڈہ سے کبھی متاثر نہیں ہوئے تھے اور اپنی حقیقی پوزیشن کو خوب سمجھتے تھے لیکن مسلمانوں کا ایک گروپ ضرور ایسا تھا جو غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا اور جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تھا کہ مسلمان برابر کے شہری نہیں ہیں اور بڑے سیاسی عہدوں پر مسلمانوں کا تقرر محض ایک نمائشی فعل ہے۔ لیکن 1965ء کی جنگ کےدوران رونما ہوئے واقعات نے اس کی تمام خوش فہمیوں کو دور کر دیا اور بیرونی دنیا کی طرح وہ بھی حیرت کے ساتھ یہ دیکھتا اور سنتا رہا کہ مسلمانوں کی ملک گیر گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور چھتری برداروں کے نام پر عام مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت محال ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہندوستان ایک بڑے قیدخانہ میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا۔
ستمبر 1965ء کا یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اگست 1947ء کے دور سے بھی اہم تھا اور اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ 1947ء میں صرف شمالی ہند کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا تھا جبکہ 1965ء میں پورے ملک کے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا ہونا پڑا تھا۔ ان حالات میں 1965ء کو 1947ء سے بھی زیادہ اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ آزادی کے اٹھارہ (18) سال بعد سرکاری طور پر مسلمانوں کو بھیانک انداز میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں ان کا وجود انتہائی ناپسندیدہ ہے کیونکہ کسی بھی نازک موقع پر ان سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
جنگ کے دوران پورے ملک میں کیا کیا ہوا تھا، اس کا احاطہ کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ اس لیے مناسب یہی معلوم ہوا کہ کلکتہ اور اس کے اطراف میں ہونے والی گرفتاریاں اور گرفتار شدگان کے ساتھ جیل میں ہونے والے سلوک کو پیش کیا جائے۔
آزادی کے بعد کے دور میں مسلمانوں پر کیا گزری، آنے والی نسلوں کو اس کا صحیح اندازہ صرف اسی وقت ہو سکے گا جب آج کے مسلمان ان کے لیے تحریری شکل میں کچھ چھوڑیں گے۔


فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ لکھا جاتا رہتا ہے، جن سے آنے والی نسلیں استفادہ کر کے اس دور کے مظالم کا اندازہ ضرور کر سکیں گی۔ لیکن 1965ء کے اس واقعہ پر اخبارات کے فائل بھی کوئی روشنی نہ ڈال سکیں گے کیونکہ سرکاری جبر و تشدد کی وجہ سے اخبارات، ہندوستانی مسلمانوں پر ستمبر 1965ء مین ہونے والے مظالم پر روشنی نہیں ڈال سکے تھے۔ مثلاً پرانے اخبارات میں مشتبہ پاکستانی چھتری برداروں کو پکڑنے کے واقعات کی اکا دکا خبریں تو نظر آ جائیں گی لیکن ان سے یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ چھتری برداروں کا ہوّا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کی ایک طےشدہ پالیسی کے تحت کھڑا کیا گیا تھا۔ اس طرح کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ ہسٹریا اتنا بڑھ گیا تھا کہ پاگل اور دیوانے بھی جاسوس قرار پا گئے تھے اور انہیں بھی جیلوں میں ٹھونس کر اسٹاف کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا گیا تھا۔ سڑکوں سے فقیر اس طرح غائب ہو گئے تھے جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔


گرفتاریاں اگرچہ پورے ملک میں ہوئی تھیں لیکن مغربی بنگال کی شان ہی نرالی تھی، کیونکہ دوسری ریاستوں کے برخلاف اس ریاست میں مسلمانوں کو اس طرح جیل میں ٹھونسا گیا تھا کہ "کنسٹریشن کیمپ" کی یاد تازہ ہو گئی تھی۔ حکام کے عزائم کیا تھے یہ تو معلوم نہیں ہو سکا لیکن بارکپور پر پاکستانی بمباری کے ساتھ ہی علی پور اسپیشل جیل کے "کنسٹریشن کیمپ" میں افواہ زوروں پر تھی کہ تمام قیدیوں کو چندرنگر یا اندرون ملک کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ اس لیے کہ افواہوں میں چونکہ جیل اسٹاف کا ہاتھ ہوتا تھا اس لیے ان کو کسی نہ کسی حد تک اہمیت دینی ہی پڑتی تھی اور اس طرح قیدیوں کے ذہنی کرب میں شدت پیدا ہو جاتی تھی۔ جیل کے اندر اور جیل سے رہا ہونے کے بعد بہت سے قیدیوں پر دل کے جو دورے پڑے تھے وہ دراصل اسی ذہنی کرب کا نتیجہ تھے۔


ان تمام باتوں کو اجاگر کرنے کی خواہش نے مجھے اس بات کے لیے مجبور کیا کہ میں اس کام کو سرانجام دینے کی کوشش کروں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیلوں میں جو پرانے ادیب اور صحافی ٹھونسے گئے تھے وہ اس کام کو سرانجام دیتے اور ہمارے جیسے لوگ ان کی صرف مدد کرتے لیکن دوسرے لوگ سامنے آنے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ہی قلم اٹھاؤں اور آنے والوں کے لیے کچھ چھوڑ جاؤں۔


- شہزادہ سلیم (8/ستمبر 1980ء)

***
نام کتاب: 1965 (ہند پاک جنگ)
تصنیف: شہزادہ سلیم
ناشر: ہلال پبلی کیشنز، کلکتہ (سن اشاعت: ستمبر 1980ء)
تعداد صفحات: 132
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
1965 (Indo Pak war) by Shahzada Saleem.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:


1965 (Indo Pak war), by: Shahzada Saleem, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں