نظام آباد دکن کے تاریخی حالات - از غلام احمد نایطی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-28

نظام آباد دکن کے تاریخی حالات - از غلام احمد نایطی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

nizamabad-history-ghulam-ahmed-naiti
سابق ریاست دکن کی سلطنت آصفیہ نے ضلع نظام آباد کی ترقی کے لیے نظام ساگر اور کارخانہ شکرسازی کی بنیاد رکھی تھی۔ مستقبل کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے ماضی کا پیش نظر رہنا بھی ضروری ہے تاکہ موجودہ اور آئیندہ نسلیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ ہوں اور اپنے علاقے کی سچی خدمت گزاری کی مختلف و متنوع جہات کو عملاً اختیار کریں۔
تقریباً پون صدی قبل یعنی 1940ء میں مولوی غلام احمد نایطی وکیل نے "نظام آباد دکن" کے عنوان سے ضلع نظام آباد کا ایک نہایت قابل قدر مرقع مرتب کیا تھا جس میں نظام آباد سے متعلق جغرافیائی اور تاریخی معلومات کے علاوہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، علمی اور تعمیری غرض ہر قسم کی معلومات جمع کی گئیں۔ اس مرقع کی اشاعت سے قبل کسی کو خیال تک نہیں تھا کہ نظام آباد میں اس قدر تاریخ چھپی ہوئی ہے اور یوں یہ ضلع اپنے لائق باشندگان اور بیدار مغز عہدیداران کی رہنمائی کی بدولت ترقی پذیر ہے۔
تقریباً 80 سال قبل شائع شدہ اس کتاب میں نظام آباد کے تاریخی حالات ، معاشرت ، تہذیب ، تمدن ، صنعت و حرفت اور دیگر امور پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاریخ و تمدن کے مطالعہ میں دلچسپی رکھنے والے قارئین، طلبہ اور ریسرچ اسکالرز کی خدمت میں یہی کتاب تعمیر نیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش ہے۔ تقریباً سوا تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 19 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

زیرنظر کتاب کے پیش لفظ میں جناب معظم عبدالمجید صاحب صدیقی، پروفیسر تاریخ جامعہ عثمانیہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔
اس ملک (ہندوستان) کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جبکہ دراوڑی قوموں نے یہاں تمدن کے دئے روشن کیے۔ دکن اصل میں دراوڑی قوموں کا گہوارہ ہے۔ یہاں قدیم زمانے سے یہی قومیں آباد تھیں اور بعض آریاؤں کی وجہ سے شمال کو خیرباد کہہ کے یہاں آ کر بس گئیں۔ قبل مسیح زمانہ میں جبکہ دراوڑی قوموں کا ایک نیا سیلاب شمال سے دکن آیا ہے بہت تلاطم خیز تھا کیونکہ اس وقت ان قوموں کی بقا کا سوال تھا۔ لہذا ان لوگوں نے آریوں کے مقابلے میں اپنے کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ چھوٹی اور بڑی راجدھانیاں قائم کیں جو ان کے بچاؤ کے لیے ضروری تھیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جس قوم نے سب سے پہلے دکن کی سیاسی و تمدنی رہنمائی کی وہ کنڑی قوم ہے۔ یہی قوم سب سے پہلے کرناٹک سے اٹھی اور تمام دکن کے منتشر اجزا کو یکجا کر کے بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ اس سے نہ صرف ان قوموں کی حفاظت ہوئی بلکہ ملک کی تمدنی خدمت بھی ہوئی۔ چنانچہ قبل مسیح دور میں آندھرا خاندان اور چھٹی صدی عیسوی سے چالوکیہ اور راشترکٹ خاندانوں نے اپنا علم نصب کیا اور ان کے زوال کے بعد ان کے کئی پسماندگان اور صوبہ داروں نے ان کی خوشہ چینی کی۔ یہ تمدنی مرکز مرکز سطح مرتفع دکن کے ہر گوشہ میں پائے جاتے ہیں۔
جب تیرہویں صدی عیسوی کے آخری عشرہ میں مسلمان حملہ آور اور فاتح یہاں آئے تو ان کے ساتھ ایک نیا ذہنی اور سیاسی انقلاب آیا جس نے چودہویں صدی میں اس ملک کی کایا پلٹ کر دی۔ اس کو دکن کا عہد آفریں زمانہ کہنا چاہیے جبکہ مسلمانوں نے یہاں اپنے جدید اصولِ معاشرت و سیاست کے ساتھ اپنی سلطنتیں بنائیں اور ان کے ذریعے دکن کی غیرمعمولی علمی و تمدنی خدمت کی۔ گہری نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئے تمدن کی زمیں دوز نہریں نہایت سرعت کے ساتھ دکن کے طول و عرض میں پھیل گئیں اور دو ایک صدی کے اندر اس کی سیاست اور معاشرت کو ایسا متاثر کیا کہ اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔
پہلے بہمنی سلطنت قائم ہوئی جو تمام دکن پر چھا گئی اور اس نے دکن کے تمام جغرافیوں اور قومیتوں کو متاثر کیا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب سلطنت بہمنی کا شیرازہ بکھرا تو اس کے مختلف اجزا چھوٹی سلطنتوں کی صورت میں دکن کے مختلف صوبوں میں رہ گئے اور اپنی مربی سلطنت کے نقش قدم پر چلنے لگے چنانچہ ان کے مرکز جہاں تمدن کی صدہا نشانیاں پائی جاتی ہیں: برار، مہاراشٹر، کرناٹک اور تلنگانہ میں موجود ہیں اور پچھلا زمانہ یاد دلاتے ہیں۔
سترہویں صدی سے دکن میں پھر ایک نیا سیلاب آیا جس کے پیچھے مغل شہنشاہ تھے۔ اگرچہ ان فاتحین کا دیرینہ منصوبہ یہ تھا کہ دکن کو بھی شمالی شہنشاہیت میں ضم کریں لیکن یہ ایسا پورا نہیں ہوا جیسا وہ چاہتے تھے۔ اکبر و شاہجہاں صرف شمالی دکن کو مسخر کر سکے اور مغل عملداری قائم کی۔ پھر شہنشاہ اورنگ زیب نے جس کا فاتحانہ جذبہ اس کے پیشروؤں سے کہیں زیادہ تھا، تنہا جنوبی دکن کو بھی مسخر کر لیا لیکن یہ عالمگیری فتوحات زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئیں۔ شہنشاہ کے انتقال کے بعد ہی ان فتوحات کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ لیکن ہم اس بات کو فراموش نہیں کر سکتے کہ مغل سیلاب کے ساتھ سیاست و معاشرت کی جو جدید تحریکیں آئیں تھیں وہ دکھنی تمدن میں بہت کچھ جذب ہو گئیں۔ ان تحریکوں کے بھی جدید مرکز پیدا ہو گئے جہاں مغل شہنشاہوں اور ان کے سپہ سالاروں نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا۔ وہ آج بھی تمدن کے بڑے مخزن ہیں اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور اس کا اثر دور دور تک محسوس ہوتا ہے۔ ارباب سیاست کے علاوہ علما، شعرا اور صوفیا کا ایک جمگھٹا تھا جو قدیم اور جدید مسلمان فاتحین کے ساتھ آیا اور دکن کے ہر حصہ میں پھیل گیا۔
ان کے بوسیدہ در و دیوار اور مقبرے تمدن کے بڑے مرکز ہیں۔ مغل یورشوں کا ایک بڑا نتیجہ موجودہ سلطنت آصفیہ بھی ہے جو اس وقت (تاوقتِ تحریر: 1939ء) پرانی اور نئی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے اور قدیم و جدید دونوں تمدنوں کا سنگم ہے۔ اس سلطنت ابد مدت نے ایک طرف قدیم تمدن کی حفاظت کی تو دوسری طرف جدید تمدن کے لیے دروازہ کھول دیا اور اس کی بدولت آج دکن میں کئی تمدنی مرکز قائم ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔
تاریخِ دکن کے اس سرسری مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ہر زمانہ تاریخی تھا اور ہر دور میں تاریخ و تمدن کے بڑے بڑے مرکز پیدا ہو گئے جن سے آس پاس کی زمینیں اور آبادیاں سیراب ہوئیں اور یہ تمام سطح مرتفع دکن پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کچھ قبل اسلامی زمانے کے ہیں اور کچھ مسلمانوں کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اور ان کے آثار جن میں قلعے، محل، مساجد و منادر، مقبرے سب ہی طرح کی چیزیں ہیں، اپنے زمانے کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
یہ کہنا مبالغے سے خالی نہیں ہے کہ سلطنت آصفیہ کے طول و عرض میں اس وقت جو تاریخی مقامات پائے جاتے ہیں ، شاید ہندوستان کے کسی ایک خطہ میں اتنے نہ ملیں۔ ان میں اکثر مقامات ایسے ہیں جو ایک زمانے میں خود راجدھانیاں تھیں۔ بعض مقامات ایسے ہیں جو صوبہ داروں اور مقامی عہدیداروں کے مستقر تھے اور بعض علما و فضلا اور صوفیا کے مسکن و مامن تھے جن کے حلقوں میں صدہا طلبہ اور عقیدت مند جمع ہوتے اور علمی و روحانی فیض پاتے تھے، جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ یہ اہل تاریخ کا فرض ہے کہ ایسے تمام مقامات کو جہاں تاریخ کے خزانے چھپے ہوئے ہیں روشنی میں لائیں اور آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔

ملک کے بعض ہمدردوں نے جن کو تاریخ کا صحیح ذوق تھا، ایسے تاریخی مقامات کو روشنی میں لانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ قاضی قطب اللہ صاحب نے "تاریخ بیڑ" اور عبدالرزاق صاحب نے "تذکرہ نرمل"، منشی امیر حمزہ صاحب نے "تاریخ کولاس" اور "تاریخ قندہار" ، مولوی عبدالوہاب صاحب عندلیب نے "حالاتِ بیدر" اور نواب فرامرز جنگ بہادر نے "تاریخ اودگیر" لکھی۔ اور نواب صاحب موصوف کی ایما پر مولوی عبدالرحیم خاں صاحب نے "مرقع کرناٹک" ترتیب دیا جس میں تمام کرناٹک کے حالات ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تاریخوں سے بہتیرا تاریخی مواد جمع ہو گیا ہے اور ہمیں ان مورخین کا ممنون ہونا چاہیے۔ لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ ابھی بیسیوں مقامات، اضلاع اور تعلقے ایسے ہیں جن کی تاریخ روشنی میں آنی چاہیے تاکہ دکن کی گذشتہ عظمت آنکھوں کے سامنے آئے اور اس کی روشنی میں مستقبل کا صحیح اندازہ ہو سکے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ مولوی غلام احمد صاحب نائطی وکیل نے "نظام آباد دکن" کے نام سے ضلع نظام آباد کا ایک اچھا تاریخی مرقع ترتیب دیا ہے جو ہر طرح قابل قدر ہے اور ایک اچھے مورخانہ انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ میری دانست میں اس سے پہلے کسی مقام کا ایسا جامع مرقع شائع نہیں ہوا۔

***
نام کتاب: نظام آباد دکن - ماضی و حال کے تاریخی حالات
مصنف: غلام احمد نایطی وکیل
طباعت: مکتبہ ابراہیمیہ، حیدرآباد دکن (سن اشاعت: 1939ء)
تعداد صفحات: 332
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 19 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Nizamabad History by Ghulam Ahmed Naiti.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفپیش لفظ9
بوجہ تصنیف 17
1باب-1 : حالات جغرافی26
2باب-2 : تاریخ قدیم35
3باب-3 : تقسیم ضلع بندی68
4باب-3 : مالگزاری اراضی 82
5حالات تعلقداران ضلع91
6باب-5 : زراعت109
7باب-6 : آبپاشی و تعمیرات114
8نظام ساگر120
9باب-7 : جنگلات133
10باب-8 : کروڑ گیری (تجارتی ٹیکس)139
11باب-9 : عدالت142
12باب-10 : پولیس147
13باب-11 : تعلیمات156
14کتب خانہ167
15باب-12 : صنعت و حرفت171
16کارخانہ شکر سازی178
17مدرسہ صنعت و حرفت182
18باب-13 : تجارت187
19باب-14 : طبابت و حفظان صحت194
20دارالمجذوبین200
21باب-15 : ٹپہ خانہ209
22باب-16 : معابد و مقابر212
23باب-17 : شعور عامہ یعنی بیداری228
24باب-18 : عمارات عامہ261
25باب-19 : تفریح گاہیں262
26باب-20 : مشاہیر 274
27تصاویر293


Nizamabad (Deccan) History, by: Ghulam Ahmed Naiti, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں