دہلی کے روشن چراغ - مضمون از دلیپ بادل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-30

دہلی کے روشن چراغ - مضمون از دلیپ بادل

delhi-ke-raushan-charaagh
درحقیقت کتنے ہی سلاطین کے آفتاب دلی میں طلوع ہوئے اور غروب ہوئے۔
اندر پرست کی اندر نگری سے لے کر انگریزی سامراج کے آفتاب "دلی" نے طلوع اور غروب ہوتے دیکھے ہیں۔ اس عرصہ میں خدا جانے اس نے کتنے بہروپیوں کا بھیس دھارن کیا۔ کبھی اندر پرستھ ، کبھی جہاں آباد۔ جب شاہجہاں کے دور حکومت میں عیش کی محفلیں گرم رہتی تھیں۔ جام و سبو، قلقل مینا بادۂ صرصر غرضیکہ رنگ و نور کی تھی دلی مگر ہائے زمانے کی ستم ظریفیاں اور انسان کی تنگ نظری ؎
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ روز

ازاں بعد سلطنت برطانیہ کا روپ دھارن کیا، جب کہ ہر ہندوستانی کا سر مارے شرم کے اوپر ہی نہ اٹھتا تھا۔ خدا کا شکر ہے، ہندوستان آزاد ہوا اور دلی کے سہاگ کی چوڑیاں پھر کھنکھنائیں۔

آج دلی کو بین الاقوامی درجہ حاصل ہے اس شہر کی بنیاد کس نے رکھی اور کب رکھی گئی۔ اس راز کی حقیقت دریائے جمنا کی لہروں میں پوشیدہ ہے۔ بہر حال دلی ہندوستان کا دل تھی، ہے اور رہے گی۔ یہ بات دوسری ہے کہ کئی بار اس نے ملبوس عروسی پہنا اور کبھی یہ اس کے لئے ترستی رہی۔ اس کی مانگ کا سندور خود اس کے بچوں نے سفاکی اور بیباکی سے پونچھا پھر بھی یہ اپنی تاریخی اہمیت و دیگر خاصیتوں کی وجہ سے اغیار کا تختہ مشق بنتی رہی ، شاید دنیا کو یہ بتانے کے لئے؎
غرور حسن پہ اے رشک آفتاب نہ کر
بہت غروب ہوئے آفتاب دہلی میں

دلی کو فی الحال ہم دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ اول انگریزی طرز کی دلی (نئی دلی) اور ہندوستانی طرز کی دلی (پرانی دلی)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرانی دلی کے ساتھ اب سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے مگر پھر بھی اس کی تاریخی مجلسی سیاسی و دیگر خاصیتوں کو نہیں بھلایا جا سکتا۔

روشن چراغ دلی بھی دو ہیں۔
ایک پرانی چراغ دہلی، جو قریب قریب کھنڈر ہو چکی ہے اور جس کے سینے پر اب حکومت ہند کو ارٹرز (مکانات) وغیرہ تعمیر کرا رہی ہے۔ "تیلیاں برج" اور "محل" دو نشانیاں باقی ہیں اور دوسری نئی چراغ دلی جو اب فصیل کے اندر آباد ہے۔

قصبہ چراغ دلی شہر 'جہاں پناہ' سے گیارہ میل جنوب میں واقع ہے، اس کے قلعہ کی لمبائی 440x440 گز ہے اور کل رقبہ 69 بیگہ اور 51 بسوے ہے۔ آبادی لگ بھگ 1566 گھروں پر مشتمل ہے۔ قصبہ میں برہمن، مسلمان، جاٹ ، سکھ غرضیکہ ہر ملت کے آدمی رہتے ہیں۔
قصبہ کے مشرق میں تغلق آباد، مغرب میں بیگم پور، شمال میں نظام الدین اور جنوب میں خان پور واقع ہے۔

آئیے ہم پہلے قدیم چراغ دلی کا جائزہ لیں۔
اس حقیقت سے کوئی ذی ہوش ذی عقل انکار نہیں کر سکتا کہ اگر "بھارت" زندہ رہا تو محض رشیوں، مہارشیوں، پیغمبروں، خلیفاؤں، ولیوں کے بل بوتے پر، جنہوں نے دیش کی فلاح و بہبود کے لئے سخت ریاضتیں کیں۔ آج سے لگ بھگ چار سو پچھتر (475) سال قبل مسمی جٹو گوت اہلاوت ہریانہ ضلع رہتک سے آکر متصل دلی، جہاں ایک جنگل ویران پڑا تھا، آباد ہوا اور ایک آبادی 'جٹواڑہ' اپنے نام سے آباد کی۔
اسی اثناء میں مسمی ہرپا مورث گوت گولیہ اور مسمی کھانڈے رائے مورث گوت شہرادت آکر آباد ہو گئے۔ مگر اول مورث گوت گولیہ اور بعد میں مورث گوت شہرادت آئے، چنانچہ جٹو اصل آباد کنندہ وہ چونکہ تنہا اور واحد تھا۔ تردد و ارزانی و ادائے مالگزاری سرکار نہ ہو سکا تو مسمی ہریا گوت گوالیہ کو بقدر چہارم اور گوت شہرادت کو بقدر نصف دے دیا اور چہارم میں خود بلحاظ کمی و بیشی اراضی بروئے قبضہ قابض رہا۔

بروقت ایام سفر وہ بہادر شاہ درانی بہ تکلیف یلغار و غارت گری و رہزنی و قزاقی جٹواڑے سے خانہ بدوش ہوکر اندر سرحد جٹواڑہ چہار دیواری درگاہ حضرت نصیر الدین چراغ دلی کے بطور قلعہ ہر چہار طرف فصیل ہے تنہا سمجھ کر اس میں آباد ہوگئے ، چنانچہ اب تک اولاد المورثیاں کی اسی جگہ آباد ہے۔ اور گاؤں تین تھوک پر منقسم ہے۔
تھوک اول جیسی گوت اہلاوت، تھوک دوئم لائیکا گوت گولیہ، سوئم تھوک شہرادت۔
یہ تھوک دو پٹی پر منقسم ہے۔ اول پٹی چیت رام، دوم پٹی بہادر۔ تھوک اول میں سے مگتی اولاد چھوٹے نے من جملہ اپنی اراضی میں سے چند قطعات متفرقات مسمیان آسا، بیا و میدا و سنگرام و جھابا وغیرہ کو بموجب سلسلہ مندرجہ شجرہ نسب بیع کر دیا۔
تھوک شہرادت پیٹی چیت رام نے مسمی حکمی اولاد کھانڈے رائے مورث نے مجملہ اپنی حقئیت کے چند قطعہ اراضی مسمہ سلطان محمد مورث خادمان درگاہ شریف مندرجہ شجرہ نسب کو ہبہ کر دیا۔ بعد ازاں مسمی لائیکا نے جو اولاد اسی خاندان سے تھا۔ چند قطعات اراضی بموجب سلسلہ شجرہ نسب قوم براہمنان کو بیع کر دیا۔
پٹی بہادر کے مسمی اندرا نے مسمی سلطان محمد وغیرہ مندرجہ شجرہ نسب کو چند قطعات اراضی منجملہ اپنے حقیئت کے ہبہ کر دئے۔
چنانچہ اب تک کل مشتری اور موسوب قابض ہیں اور بموجب قاعدہ سابقہ رواج اولین قبضہ پر عمل رکھتے ہیں۔ لہذا صورت ہذا بشکل بھیا چارہ غیر مکمل ہے۔ اس طرح جو آبا و اجداد موضع رائے پورہ، جٹواڑہ، بہا پورہ اور یاقوت پورہ میں اقامت گزیں تھے، رفتہ رفتہ چراغ دلی فصیل کے اندر آباد ہو گئے۔ آپس کے تعلقات اتنے گہرے اور ہمدردانہ تھے کہ ہندو مسلم بیاہ شادی و غمی کے مواقع پر بھائی کی طرح نظر آتے تھے۔ ہندو گھرانے میں جب بھی کوئی شادی ہوتی تو گھوڑی چڑھی کے وقت نوشہ درگاہ حضرت نصیر الدین کے ہاں شردھا کے پھول چڑھاتا اور وہاں سے دعاؤں کے دامن سے بھرپور آتا۔ "گلاس روپیہ" آپس میں خوب چلتے تھے۔ کنوؤں سے دونوں ہندو مسلم بیک وقت پانی بھرتے اور "ہولی" پر بڑے پیار سے پچکاریاں مار مار کر اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے۔ عرس پر آپس میں خوب "پٹا" کھیلنے کی بازی لگتی۔

تاریخی اہمیت:
روشن چراغ دلی کو دیگر قصبات و شہروں کی طرح تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔
درگاہ حضرت نصیر الدین ؒ :
یہ درگاہ حضرت نصیرالدین روشن چراغ دلی کی نسبت سے مشہور ہے۔ آپ کا انتقال 18/رمضان المبارک 757ہجری مطابق 1356ء بروز جمعہ ہوا۔ مگر یہ عمارت فیروز شاہ بادشاہ نے 1373ء میں تعمیر کرائی۔ درگاہ کے گنبد کے بارہ در ہیں، اور سنگ خارا کے ستون ہیں۔ تمام دروازوں میں سنگ سرخ کی جالیاں ہیں۔ جنوب کے ایک در میں دروازہ لگا ہے۔ گنبد چونے پتھر سے بنا ہوا ہے ، اور اوپر سنہرا کلس اور گنبد کے اندر کٹورا لٹکا ہوا تھا جو اب نہیں ہے۔ احاطہ درگاہ میں دو گنبد اور ہیں۔ ایک میں حضرت شیخ بابا فرید گنج شکر کی پوتی کی قبر ہے اور دوسرے میں مخدوم زین الدین کی جو آپ کے بھانجے اور خلیفہ تھے۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی مقابر ہیں۔
درگاہ کے پاس ایک مسجد ہے، فرخ سیر کے عہد کی۔ اس درگاہ کا ایک دروازہ بھی گنبد نما ہے اور اس پر فیروز شاہ کے نام کا کتبہ لگا ہوا ہے۔ 1729ء میں محمد شاہ بادشاہ نے اس درگاہ کے گرد تین لاکھ پچھتر ہزار روپیہ خرچ کرکے شہر پناہ بنا دی، اس میں چار دروازے اور ایک کھڑکی ہے (کھڑکی جہاں دریچی کنواں ہے) درگاہ کے متصل بہلول لودی اور ان کی بیگم کی قبریں ہیں جو اب محکمہ آثار قدیمہ کی زیر نگرانی ہیں۔
حضرت نصیر الدین، حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ اور حضرت خسرو شہزادہ دکن کے ہم عصر تھے، حضرت خسرو اپنے عہد کے بلند مرتبہ شاعر، صوفی، خدا پرست، و نیک منش تھے۔

قصبہ کا نام چراغ دلی کیوں پڑا؟
حضرت نصیر الدین نے جس وقت غیاث الدین تغلق کا قلعہ تغلق آباد میں تعمیر ہو رہا تھا تو وہی معمار جو دن کو قلعہ تعمیر کرتے تھے شب کو حضرت نظام الدین صاحب کی باؤلی میں کام کرتے تھے ، میر تعمیر عمارت نے بادشاہ سے شکایت کی کہ شب کو باؤلی میں کام کرنے کی وجہ سے دن کو کام بہت سستی سے کرتے ہیں۔ بادشاہ نے جب معماروں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا جہاں پناہ اگر حضور کا حکم نہ مانیں تو حضور کا عتاب جان فنا ہے اور اگر پیر صاحب کا حکم نہ مانیں تو خدائی قہر نازل ہوتا ہے۔

اس پر بادشاہ نے شہر میں منادی کرا دی کہ حضرت نظام الدینؒ کو کوئی تیل نہ دے تاکہ باؤلی کا کام نہ ہو سکے۔ اس پر نظام الدین صاحب کے حسب ارشاد حضرت نصیر الدین ؒ نے مٹی کے چراغوں میں باؤلی کا پانی بھر کر چراغ جلائے گئے۔ اس بنا پر ان کو روشن چراغ کا خطاب ملا۔ اور چونکہ یہ نظام الدین سے تین میل کے فاصلے پر ہے جہاں چراغ دلی ہے، حضرت نصیر الدین عبادت کرتے تھے اور یہیں مدفون ہوئے، لہذا اس جگہ کا نام 'قصبہ روشن چراغ دلی' پڑا۔

چلہ عمارت:
حضرت نصیر الدین کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے ، راقم کی پرانی حویلی کے سامنے ایک زمین دوز عمارت ہے جو 'چلہ عمارت' کے نام سے موسوم ہے۔ اسی عمارت میں حضرت نصیر الدین چالیس چالیس روز کا چلہ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ کھولنے پر 'سنبھالو' کے پیڑ کے پتے، جو کہ اس عمارت کے اوپر تھا انہوں نے کھا لئے جس کی وجہ سے ان کا تمام بدن پھوٹ پڑا۔ جو لوگ ان کے پاس بیٹھتے تھے جب وہ ان کی مکھیاں اڑاتے تو حضرت موصوف منع کر دیتے اور کہتے:
"بھائی انہیں مت اڑاؤ، یہی تو ان کا کھاجا ہے"۔

ست پلہ:
قصہ چراغ دلی سے قریباً چار فرلانگ جانب جنوب موضع کھڑکی کے پاس 'ست پلے' کی عمارت ہے۔ یہ پل ہے جسے 1326ھ میں سلطان محمد عادل تغلق شاہ نے بنوایا تھا۔ حقیقت میں یہ ایک بندھ ہے اور دور دراز کا پانی اس میں آتا ہے۔ نالہ سے پانی نکلنے کے لئے درمیان میں سات در بطور پل کے بنائے گئے ہیں اور اسی سبب سے 'ست پلہ' مشہور ہے۔ اس کے اوپر بھی مکانات بنے ہوئے ہیں اور دو دروازے خوبصورت بنے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ سے پل ٹوٹ گیا تھا، وہاں کچا بندھ باندھ دیا گیا اور اس پل کے دروں کے پاس ایک کنواں تھا ، اگرچہ وہ کنواں اب نہیں رہا مگر نالے میں گڑھا کرکے پانی جمع کرتے ہیں اور اس کو تبرکاً پیتے ہیں، بیماروں کو نہلاتے ہیں، اور بچوں کے لئے ٹھیلوں میں پانی بھر کر اور 'سرس' کی پتی رکھ کر دور دور لے جاتے ہیں۔ کاتک کے مہینے میں (دیوالی کے نزدیک) منگل ہفتہ اور اتوار کے روز بہت تعداد میں مرد اور عورتیں نہانے کو آتی تھیں تاکہ آسیب، جن، بھوت اور جادو کے اثر سے محفوظ رہ سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت روشن چراغ دلی نے اکثر وضو کیا تھا، اس سبب اس پانی میں یہ کرامت ہوئی۔
ایام غدر میں چراغ دلی بالکل محفوظ رہی اس کی وجہ یہ تھی کہ فصیل صحیح سالم تھی دروازوں کو بند کرنے کے بعد کوئی شخص اندر نہیں آ سکتا تھا۔ چاروں طرف کے راستے بہت خراب تھے۔ قصبہ میں بے شمار درخت تھے دور سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں کوئی قصبہ نہیں ہے ، بلکہ کوئی باغ ہے مگر عام لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ حضرت نصیر الدین اولیا کی کرامت کی وجہ سے لٹیرے ڈاکو اسے باغ سمجھ کر باہر سے ہی چلے جاتے تھے۔

کالکا مندر:
ہندو عقیدے کے مطابق درگا کے تین روپ ہیں۔ اول مہاکالی (ظالموں کا ناش کرنے والی)، دوم مہالکشمی (دولت کی دیوی) سوم مہا سرسوتی (تعلیم کی دیوی)۔ مہاکالی ان تینوں میں سے ایک ہے جس کے نام پر کالکا جی کا مندر موسوم ہے۔ عہد تغلق میں ابن بطوطہ نے اس مندر کا ذکر کیا ہے۔
موضع بہاپور کی سرحد پر شاہ جہاں آباد سے چھ کوس جنوب کی طرف یہ مندر واقع ہے۔ مصر کنڈا پران کے مطابق سمبھو sombhuاور نسیمبھو nisambhu نامی دو راکشش رہتے تھے۔ انہوں نے اس زمانے کے دیوتاؤں کو بہت ستایا۔ جب وہ برہما کے پاس فریاد لے کر گئے تو برہما نے کہا کہ "مجھ سے تو تمہاری رکشا نہیں ہو سکتی تم مہامائی یعنی پاروتی کی اپاسنا کرو وہ تمہاری مدد کرے گی"۔
جب ان دیوتاؤں نے مہامائی کی اپاسنا کی تو مہامائی کے منہ سے ایک دیوی پیدا ہوئی جسے کوشکی کہتے ہیں۔ اس دیوی نے دونوں راکششوں کے ایک سردار کو جس کا نام 'رکت بنچ' تھا مار ڈالا اور اس کے لہو کے قطروں سے بے انتہا راکشش پیدا ہو گئے ، تب کوشکی دیوی کی بولہتوں سے کالی دیوی پیدا ہوئی اس کا ایک ہونٹ پربت پر تھا اور دوسرا آکاش میں ، جسے کوشکی مارتی تھی اس کا لہو زمین پر نہیں گرنے دیتی تھی۔ دور پریگ کے آخر میں، جسے آج تک قریب پانچ ہزار برس ہوئے، کالی دیوی نے اس پہاڑ پر اپنا استھان کیا جب سے یہاں اس کی پرستش ہوتی ہے۔
مگر یہ مندر 1821ء بکرماجیت مطابق 1864ء میں بنوایا گیا۔ پہلے پہل اس مقام پر لداؤ کی بارہ دری تھی۔ اب دیوی کی مورت کے گرد سنگ سرخ اور سنگ مرمر کا کٹہرہ ہے ، اور اس کے بائیں طرف دیوی کا نام اور سمت کنندہ ہے۔
1816ء میں راجہ کدار ناتھ جو محمد اکبر شاہ بادشاہ ثانی کے عہد میں وزارت کے پیشکار تھے ، اس لداؤ پر یہ لمبا برج بنوایا۔ اس کے گنبد کا آرٹ ہندو مسلم آرٹ کے مشابہ تھا اور چھتیس در کی پرکما اس کے گرد بنوا دی۔ اب یہاں بہت سے مکانات مہاجنوں نے یاتریوں کے ٹھہرنے کے لئے بنوا دئے ہیں۔ جن کا کرایہ چراغ دلی کے پنڈے میلوں پر یاتریوں سے لیتے ہیں۔
چیت اور اسوج کی اشٹمی (آٹھویں) اور پرچھمائی (ششاہی) پر بڑا میلہ اور ہر ماہ کی شدی اشٹمی پر معمول کا میلہ لگتا ہے۔ اس مندر کے دروازے کے آگے دو سنگ سرخ کے شیر اور ایک ترشول بنا ہوا ہے۔ علاوہ بریں ایک بڑا گھنٹہ ہے جسے بجا کر لوگ دیوی کی جے بولتے ہیں، ہندوؤں کے اعتقاد کے مطابق دیوی جی ان شیروں کے رتھ پر یہاں پدھاری تھیں۔ مندر میں شب و روز بارہ مہینے گھی کی جوت جلتی رہتی ہے اور اس کا بجھنا برا خیال کیا جاتا ہے۔

گو یہ روایت ضعیف ہے مگر مشہور ہے کہ اورنگ زیب نے جنون مذہب میں آکر مندر کو مسمار کرانا چاہا اور جب اس کے خیمہ نظام الدین تک پہنچے تو ان میں آگ لگ گئی ، مگر یہ آگ جب بجھانے پر بھی نہ بجھی تو بادشاہ سلامت نے اس کا راز اپنے آدمیوں سے دریافت کیا تو لوگوں نے بادشاہ کو درگا کی اصل طاقت و اہمیت کا راز بتایا تو بادشاہ نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور خیمے پھر اپنے آپ بجھ گئے۔

لیکن اب چراغ دلی پہلی سی چراغ دلی نہیں رہی تقسیم وطن سے پیشتر جو رونق و بہار تھی وہ خدا جانے کہاں ہوا ہوئی؟
پیارو! محبت کی پینگوں کو خدا جانے کیا ہوا، نہ وہ دوست رہے نہ بزرگ۔ عرس اب بھی لگتا ہے مگر وہ رونق جو محترم پیر رحیم الدین، سید جعفر علی، جناب علاؤ الدین، منشی اسلام الدین اور حمید صاحب کے زمانے میں تھا وہ اب کہاں۔ وہ کالکا کا میلہ الوداع ہوا جب بھیا حامد نواب مظفر حسین اور میاں ہاشم کے ساتھ مٹھائیاں کھاتے تھے اور وہ صحبتیں اللہ کو پیاری ہو گئیں جو منشی حمید فاروقی رنگیلا، منشی رحمت اللہ، قاضی امید علی صاحب ، منشی نظام الدین صاحب اور حافظ صاحب کے دم سے وابستہ تھیں۔
رہ گئی اگر کچھ تو ساؤتھ دلی میونسپل کمیٹی جس کے نیچے روشن چراغ ٹمٹما رہا ہے۔۔۔ وہ ہستیاں جانے جانے کہاں گئیں ؎
وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

***
ماخوذ: دہلی کالج میگزین (دلی نمبر : خصوصی شمارہ)، اشاعت:1959

The prominent personalities of Delhi. Article by Dileep Badal.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں