میرا مقابلہ خود مجھ سے ہے - مادھوری ڈکشٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-10

میرا مقابلہ خود مجھ سے ہے - مادھوری ڈکشٹ

madhuri-dixit
مادھوری ڈکشٹ (پیدائش: 15/مئی 1967ء ، بمبئی)
بالی ووڈ فلمی دنیا کی ایسی مقبول اور کامیاب رقاصہ اور اداکارہ رہی ہیں جنہوں نے نوے کی دہائی اور اکیسویں صدی کے اوائل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ کے طور پر اپنی شناخت قائم کی ہے۔ انہیں 1988ء میں ریلیز ہونے والی رومانی ایکشن فلم "تیزاب" سے شہرت حاصل ہوئی تھی۔ جس کے بعد متعدد فلموں میں انہوں نے اپنی یادگار اداکاری کے جلوے اجاگر کیے جیسے دل، بیٹا، ہم آپ کے ہیں کون، کھلنائک، ساجن، رام لکھن، پرندہ، انجام، دیوداس اور ڈیڑھ عشقیہ وغیرہ۔ 17/اکتوبر 1999 کو وہ لاس اینجلس میں مقیم ہندوستانی نژاد سرجن شری رام مادھو نینے سے شادی کر کے امریکہ منتقل ہو گئیں۔ دو بیٹوں کے پیدائش کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 2011ء میں امریکہ سے ممبئی واپس لوٹ آئیں۔
فلم تیزاب اور رام لکھن کی بےپناہ کامیابی کے بعد مشہور فلمی ماہنامہ "شمع" کے شمارہ مئی:1989 میں ان کا ایک دلچسپ انٹرویو شائع ہوا تھا، جو یہاں پیش خدمت ہے۔
فلم "تیزاب" اور "رام لکھن" نے مادھوری کو اس بلندی پر پہنچا دیا تھا جس کی اسے ہمیشہ آرزو رہی تھی۔ اس نے ایک ایسے اسٹار کا رتبہ حاصل کیا، جس کا نام ہی کامیابی کی ضمانت ہو۔ لیکن کامیابی مادھوری ڈکشت کے حصے میں اچانک نہیں آئی ہے۔ اس کے لئے اسے بہت دن تک اور بہت کڑی محنت کرنا پڑی ہے۔

سوال:
آپ اپنے کیرئر کی اس بلندی کو اب کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
مادھوری ڈکشٹ:
مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ، اپنا کیریر میں نے راج شری کی فلم 'ابودھ' سے شروع کیا تھا۔ تپس پال میرے ہیرو تھے ، جو آج خیر سے بنگالی فلموں کے چوٹی کے اسٹار ہیں، مجھے ان کی کامیابی پر بھی خوشی ہے۔ 'ابودھ' کی آفر مجھے ڈائریکٹر گوند مونس جی کی وجہ سے ملی تھی۔ انہوں نے ہی راج شری پکچرز کے راج کمار برجاٹیا جی کو میرا نام سجھایا تھا۔ میری بہن بھارتی اور گووند جی کی بیٹی ان دنوں ایک ہی اسکول میں، ایک کلاس میں پڑھتے تھے۔ اس لئے گووند جی کے خاندان سے ہمارے خاندان کی خوب دوستی تھی۔
ہیرن ناگ، 'ابودھ' کو ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ یہ رول جب مجھے آفر کیا گیا تھا تو میں نے بارہویں کلاس پاس بھی نہیں کی تھی۔ اس وقت 1983ء کا آخر تھا۔ مئی 1984ء میں نتیجہ نکل آنے کے بعد ہی میں نے 'ابودھ' کے لئے شوٹنگ شروع کی تھی۔ مگر یہ فلم بالکل ہی بیٹھ گئی اور میرا کیریر کچھ عرصہ کے لئے ٹھٹھر کر رہ گیا۔ ایک ایک کر کے میری کئی فلمیں (جیسے: آوارہ باپ، وسواتی، مہرہ) ریلیز ہوئیں اور فلاپ ہوتی چلی گئیں۔ میں کشمیر میں راجن سپی کے ساتھ، 'آوارہ باپ' کے لئے شوٹنگ کر رہی تھی تو سبھاش جی کی نظر مجھ پر پڑی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ان کی فلم 'کرما' میں ایک چھوٹا سا رول کر سکتی ہوں؟ میں نے فوراً ہاں کر دی۔ یہ ایک اداکارہ کا رول تھا۔ جو شوٹنگ میں حصہ لے رہی ہے۔ سری دیوی اور جیکی شروف بھی وہاں تماشائیوں کی بھیڑ میں کھڑے ہیں اور میری اس شوٹنگ کو دیکھ کر خود خواب میں ہیرو ہیروئین بن جاتے ہیں مگر بعد میں فلم کی طوالت کی وجہ سے یہ سین فلم سے کاٹ دیا گیا۔ مجھے لگا یہ سین نہیں کٹا سبھاش جی نے میرا پتہ ہی کاٹ دیا۔ مگر جلد ہی سبھاش جی نے مجھے بلایا اور مجھے لینے کی بات کہی۔ اس کے بعد تو میرے لئے کامیابی کے راستے کھلتے ہی چلے گئے۔ انڈسٹری میں جب لوگوں نے سنا کہ سبھاش گھئی مجھے بڑھاوا دے رہے ہیں تو میرے پاس روزانہ ایک سے ایک جان دار رول کی آفر آنے لگی۔ سبھاش جی نے وعدہ نبھایا، اور "اتر دکشن"کے لئے مجھ کو ہی سائن کیا۔ اگرچہ اس رول کو حاصل کرنے کے لئے کئی ہیروئنیں بے قرار تھیں۔ پر افسوس یہ فلم بھی فلاپ ہو گئی۔

سوال:
اگر مادھوری اداکاری کے میدان میں نہ آتی تو کیا بنتی؟
مادھوری ڈکشٹ:
میں ڈاکٹر بننا پسند کرتی۔ میری بڑی بہن روپا ایک مشہور آرکٹیکٹ ہیں۔ میں ڈاکٹر بن کر نام پیدا کرتی۔ مگر میں اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسکول میں بہت زیادہ ذہین اسٹوڈینٹ نہیں رہی تھی۔ لیکن میں اداکارہ بن کر بھی مطمئن ہوں۔ مجھے اپنی ان فلموں کی بنا پر بھی کوئی دکھ نہیں ہے جو کامیابی سے دور رہیں، چاہے وہ میری پہلی فلم، ابودھ ، ہو یا ایک اور فلم مانوہتیا جو اسلئے ڈبوںمیں بند پڑی کسی خریدار کا انتظار کررہی ہے کہ سیکھ سمن اور مادھوری ڈکشت جیسے آرٹسٹوں کی جوڑی فلم ڈسٹری بیوٹروں کو اپنی طرف نہیں کھنچ سکتی۔ میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میری کسی بھی فلم کو غلطی نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ میرے لئے تو ہر فلم ایک سبق ہے، ہر رو زمیں کچھ نہ کچھ سیکھ رہی ہوں۔ کوشش کر کے ، آزماکر اور کبھی کبھی غلطی بھی کر کے میں آگے بڑھ رہی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ فلموں کو چننے میں مجھ سے بھول چوک بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ بھول چوک تو انسان کے خمیر میں شامل ہے۔"

سوال:
کیا تم مقابلہ آرائی کی قائل ہو؟
مادھوری ڈکشٹ:
کہنے والے ہانکتے ہیں کہ میں اج کی نمبر ایک اداکاری سری دیوی کے لئے امکانی خطرہ ہوں۔ مگر میرا خیال الگ ہے میں نہیں سمجھتی کہ انڈسٹری کی کوئی بھی اداکارہ کسی بھی دوسری اداکارہ کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ سری دیوی تو یوں بھی مجھ سے سینئر ہیں اور مجھے ابھی خاصا لمبا راستہ طے کرنا ہے ، ہاں، اس بات کو میں کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب میں گم نامی کی طرف بڑھنے لگی تھی تو صرف دو خیر خواہ ایسے تھے جنہوں نے بڑھ کر مجھے سہارا دیا۔ ان میں سے ایک سبھاش گھئی ہیں ، دوسرے انیل کپور، سبھاش جی نے مجھے بڑھاوادیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ میرا کوئی چکر چل رہا ہے ، ایک اچھے فلم میکر کے طور پر میں ان کی عزت کرتی ہوں، آگے بڑھنے میں آرٹسٹوں کی مدد کرنا ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے ، کیا ہیرو، کے ذریعے انہوں نے میناکشی کے کیریر کو بڑھاوا نہیں دیاتھا؟ کیا رام لکھن میں انہوں نے سونیکا گل کو کاسٹ نہیں کیا؟

سوال:
آج بہترین بینرز کی فلمیں تمہیں مل رہی ہیں، اس پر تمہارا کیا تبصرہ ہے؟
مادھوری ڈکشٹ:
میں امیتابھ بچن سے لے کر عامر خاں تک لگ بھگ ہر ہیرو کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔ امیت جی کے ساتھ میں ٹنو آند کی شناخت میں آرہی ہوں۔ ان کے ساتھ ایک اور فلم ابھی بات چیت کے مرحلے پر ہے۔ ونود کھنہ، پاپی دیوتا، میں میرے ساتھ ہیں، میں اس معاملے میں ہمیشہ خوش قسمت رہی ہوں کہ بہترین فلم میکرز کی فلمیں مجھے ملی ہیں۔ بھگوان بری نظر سے بچائے۔ فیروز خان کے ساتھ دیاوان ، اور سبھاش گھئی کے ساتھ رام لکھن میں کام کرنے کے بعد اب میں رمیش سپی کے ساتھ زمین میں کام کررہی ہوں۔ اس فلم میں میرا رول ایک ایسی لڑکی کا ہے جو سمندر پار رہتی ہے ، اور ایک سیاسی معاملے کی کھوج کرنے کے لئے اپنے وطن میں آتی ہے۔ یہاں آکر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی جڑیں تو یہیں ہیں۔ میں اس فلم میں ذر ا نامانوس سے غیر ملکی لہجے میں بولتی ہوں۔ رمیش جی کے یونٹ کی یہ بات مجھے خاص طور پر پسند آئی ہے ، کہ ان کے یہاں آرٹسٹ کو ڈائیلاگس کافی پہلے دے دئے جاتے ہیں۔ اس طرح آرٹسٹ کواپنے رول کی تیاری کرنے کے لئے خاصا وقت مل جاتا ہے۔ عام چلن تو انڈسٹری میں یہ ہے کہ آرٹسٹ کو ڈائیلاگس اس وقت ملتے ہیں جب وہ کیمرے کے سامنے آنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے لئے پہلے سے اپنے رول کی تیاری کرنا بالکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ تاہم میں ڈائیلاگس کو گھر لے جاکر رٹنے کی قائل نہیں۔ رٹنے سے مکالموں میں نیچرل رنگ نہیں رہتا اورادکاری فطری کی جگہ بناؤٹی سی لگتی ہے۔"

سوال:
تم بلاشبہ بےیقینی کا پل صراط پار چکی ہو۔ تمہارے اندر بلا کی خود اعتمادی آ گئی ہے۔ 'رام لکھن' اور 'تیزاب' کی باکس آفس پر کامیابی نے تمہیں خود پر یقین کرنا سکھا دیا ہے تو کیا فلموں کے انتخاب میں سوجھ بوجھ سے کام لینا بھی سکھا دیا ہے؟
مادھوری ڈکشٹ:
میں دھڑا دھڑ فلمیں سائن کرکے ہیروئنوں کی ، چوہا دوڑ میں شریک ہونا نہیں چاہتی۔ مجھے دوسری اداکاروں کو فلموں کی گنتی کے معاملے میں پیچھے چھوڑنے کا کوئی ارمان نہیں ہے، میں نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔ میں امیتابھ بچن، انیل کپور ، متھن چکرورتی ، عامر خان، جتیندر، جیکی شروف، سنجے دت، رجنی کانت، ونودکھنہ اور سنی دیول کے ساتھ کام کررہی ہوں۔ مجھے دلچسپی ہے تو بینر میں سیٹ اپ میں سبجیکٹ میں اور سب سے بڑھ کر ڈائریکٹر میں۔ ڈائریکٹر ایسا ہونا چاہئے جو اپنے فن میں ماہر ہو۔ وہی آرٹسٹ کو سنبھال سکتا ہے ، وہی اس کی ادکاری کو نکھار اور سنوار سکتا ہے۔ اگر آرٹسٹ اوور ایکٹنگ کرے تو یہ اس کے لئے نقصاندہ ہے۔ دوسری طرف اگر وہ ایکٹنگ کا رنگ بہت ہلکار کھے تو تماشائیوں پر نقش نہیں جمے گا۔ اسی لئے اسے ایک اچھے ڈائریکٹر کی ضرورت رہتی ہے۔ جو رول کے مطابق اس کے چھپے ہوئے جوہر کو ابھارتا ہے۔ یہ کام آرٹسٹ خود نہیں کرسکتا۔ وہ تو اپنے رول کو یرقان زدہ آنکھوں سے دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اپنی کارگزاری کو خود ہی پرکھنا اس کے لئے ممکن نہیں رہتا۔
ہر آرٹسٹ کو شروع میں زیادہ سے زیادہ فلموں کی ضرورت ہوتی ہے ، اس شروع کے دور میں تعداد کی ایک خاص اہمیتہے۔ لیکن ایک بار قدم جم جائیں تو آرٹسٹ کو گنتی پر نہیں، کوالٹی پر دھیان دینا چاہئے۔ اور تیزاب اور رام لکھن کے بعد میں نے اب اسے راستے کو اپنانے کا تہیہ کررکھا ہے۔ اس انڈسٹری میں اپنے مستقبل کو بنانے کے لئے کڑی محنت کیے بغیر چارہ نہیں، تاہم آج میرے لئے صرف روزی کمانے کی خاطر اندھا دھند کام کرتے رہنا ضروری نہیں۔ اس لئے میں ہر قدم سکون اور اطمینان کے ساتھ اٹھا سکتی ہوں۔ میرے خیال میں آج کوئی بھی ہیروئن ایسی نہیں جو میرے مقابلے پر ہو ، یا میرے لئے خطرہ بن سکے۔ صرف ایک ہیروئن ہے جس سے مجھے مقابلہ کرنا ہے اور وہ ہے تیزاب اور رام لکھن، کی مادھوری ڈکشت۔ جی ہاں مجھے آنے والے دنوں میں خوود کو اپنے آپ سے ہی برتر ثابت کرنا ہے کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جو کام میںکرسکتی ہوں ، سری دیوی کے بس میں نہیں، اور جو کام میناکشی سہشادری بہتر طور پر کرسکتی ہے، ممکن ہے مجھ سے نہ ہو سکے۔

سوال:
مہاراشٹرا کے درمیانی طبقے کی یہ لڑکی جسے تیزاب کے ایک گیت "ایک دو تین چار۔۔۔ " نے یکایک شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا اور جو رام لکھن میں اپنی اداکاری کی صلاحیت کو بھی ثابت کر چکی ہے، پیار، شادی، گھر بار جیسی باتوں کے بارے میں ابھی سوچتی بھی ہے یا نہیں؟
مادھوری ڈکشت:
میرا سارا دھیان تو اپنے کیریر پر رہتا ہے، ایسے میں مناسب ساتھی صاحب، یا موزوں جیون ساتھی صاحب، کے بارے میں سوچنے کی مہلت کہاں؟ آرٹسٹ کی حیثیت سے مجھے دن کے لگ بھگ اٹھارہ گھنٹے اس پروفیشن کی نذر کرنے پڑتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ اگرکوئی لڑکی گھریلو زندگی اور کیریر دونوں کو خوبی کے ساتھ نہ سنبھال سکے تو اسے چاہئے کہ یا تو صرف گھر کی ہوکر رہے یا صرف کیریر کی۔ دونوں دنیاؤں کے سارے مزے ایک ساتھ لوٹنا تو ناممکن کے برابر ہے۔

سوال:
فلم تیزاب تمہارے کیریر کا اہم ترین موڑ ثابت ہوئی ہے ، لیکن اس کی وجہ سے خوشی کی لہروں کے ساتھ کیا اندیشوں کے ریلے نے بھی تم کو آ گھیرا ہے؟
مادھوری ڈکشت:
مجھے تو کبھی کبھی ڈر لگتا ہے ، تیزاب اور رام لکھن میں میرا کام دیکھ کر لوگوں نے مجھ سے کچھ امیدیں باندھ رکھی ہوں گی، اداکاری کی ایک کسوٹی مقرر کرلی ہوگی۔ مجھے ان کی امیدوں پر پورا اور ان کی کسوٹی پر کھرا اترنا ہوگا۔ ان دونوں فلموں میں سچ مچ میں نے بہت محنت کی تھی اور اپنے سارے جوہر سمو دئے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ تیزاب کے اس غضب ڈھاتے ہوئے رول کے لئے این چندرا نے مجھ کو ہی چنا ، کیوں کہ اس رول کی بدولت مجھے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ میری اداکاری کس قدر رنگا رنگ ہے۔

سوال:
تم نے ایسی بہت سی فلموں میں کام کیا ہے جن میں اپنی جسمانی رعنائیوں کا جلوہ دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرنا تھا۔ اس سلسلے میں تمہارا کیا موقف ہے؟
مادھوری ڈکشت:
جی ہاں، میں مانتی ہوں کہ میں نے خطروں کے کھلاڑی ، وردی اور حفاظت جیسی فلموں میں کام کیا ہے، جن میں میرا کام بس اتنا تھا کہ گلیمر کی مورت نظر آؤں لیکن یہ میری مجبوری تھی۔ فلموں میں رہنے کے لئے اداکارہ کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ مسالہ فلمیں بھی نہایت آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ دوسری صورت میں وہ فلم میکرز جن کی اہمیت ہے ، اس اداکارہ کو ایک خاص خانے میں رکھ دیتے ہیں اور پھر اسے بھول جاتے ہیں۔

سوال:
اپنے ہیروز کو تم نے کیسا پایا؟
مادھوری ڈکشت:
سب اچھے ہیں، اگرچہ سب کا مزاج الگ الگ ہے۔ جیکی سیٹ پر کبھی تو بہت خوش نظر آئیں گے، کبھی بے حد اداس ، انہیں سمجھنا بہتمشکل ہے، ونود کھنہ ساتھی آرٹسٹ کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ان کے سامنے نووارد ہے۔ شناخت کے لئے جب امیتابھ جی کے ساتھ میں کیمرے کے سامنے آئی تو بہت نروس تھی، مگر انہوں نے اپنے رویہ سے میری ساری گھبراہٹ دور کردی۔ انیل بہت خوش طبعہیں۔ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے ہیں۔ ساتھی آرٹسٹ کے طور پر ان سے بہت سہارا ملتا ہے۔ سنجے ہنسی مذاق کے رسیا ہیں۔ کوئی کتنا ہی بجھا بجھا کیوں نہ ہو، سنجے اسے ہنسا کر ہی دم لیں گے۔ سنی ذرا گم صم رہتے ہیں ، لیکن ایک بار جھجک کی درمیانی دیوار ہٹ جائے تو خوب گھل مل جاتے ہیں۔ ہاں، اس میں وقت ضرور لگتا ہے ، متھن موڑی آدمی ہیں، آج یہ کسی سے بڑی بے تکلفی دکھارہے ہیں کل اسے پہچانیں گے بھی نہیںَ اس طرح دیکھیں گے جیسے کہیں اس کے آر پار دیکھ رہے ہوں! یہ میں تجربے کی بنا پر کہہ رہی ہوں، کیوں کہ متھن کے ساتھ میں علاقہ، اور پریم پرتگیا، میں کام کررہی ہوں۔یہ بھی بتاتی چلوں کہ علاقہ میں میرا رول چھوٹا سا ہے مگر اس رول میں کچھ کر دکھانے کا موقع بہت زیادہ ہے اور میں نے محنت کرکے اسے یادگار بنانے کی پوری کوشش کی ہے اور پریم پرتگیا ، پربھی نظر رکھیں۔ یہ فلم میرے اندر کی اداکاری کو ٹھیک اسی طرح نمایاں کرے گی جیسے تیزاب اور رام لکھن کر چکی ہیں۔

مادھوری ڈکشٹ کے چند یادگار فلمی نغمے:
دیدی تیرا دیور دیوانہ (فلم: ہم آپ کے ہیں کون-1994)
مجھے نیند نہ آئے، مجھے چین نہ آئے (فلم: دل-1990)
انکھیاں ملاؤں کبھی انکھیاں چراؤں (فلم: راجہ-1995)
دھڑکن ذرا رک گئی ہے (فلم: پرہار-1991)
پالکی میں ہو کے سوار چلی رے (فلم: کھلنائک-1993)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مئی 1989

Madhuri Dixit, an interview from May-1989 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں