حیدرآباد کا تغرافیہ - انشائیہ از نریندر لوتھر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-02

حیدرآباد کا تغرافیہ - انشائیہ از نریندر لوتھر

hyderabad-ka-tughrafia
نریندر لوتھر (پیدائش: 23/مارچ 1932 ، ہوشیارپور پنجاب - وفات: 20/جنوری 2021، حیدرآباد) - حیدرآباد کے ایک ممتاز ادیب، مزاح نگار اور مورخ رہے ہیں۔ اردو میں ان کی تحریرکردہ 4 اور انگریزی میں 11 کتابیں طبع ہو چکی ہیں۔ مختلف اخبار و رسائل میں ان کے ایک ہزار سے زائد مضامین و کالم شائع ہوئے ہیں۔ جہاں حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں میں نریندر لوتھر کا اہم رول رہا وہیں حیدرآباد کی تاریخ پر ان کی تحریریں کافی مقبول بھی ہوئی ہیں۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں، حیدرآباد پر تحریرکردہ ان کا ایک انشائیہ بعنوان "حیدرآباد کا تغرافیہ" بین الاقوامی سطح پر بےحد مقبول ہوا ہے۔ سائبردنیا میں پہلی مرتبہ تعمیرنیوز کے ذریعے تحریری شکل میں پیش خدمت ہے۔
تغرافیہ۔۔ ایک نئی اصطلاح ہے جو تاریخ اور جغرافیہ کو ملا کر بنائی گئی ہے اس کے تحت تاریخ و جغرافیہ کے علاوہ تہذیب و تمدن اور سیاسی و اقتصادی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ طویل عرصہ سے حیدرآباد پر ایک جامع اور مستند مضمون کی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ یہ مضمون اس امید کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ اس کو پڑھ کر یہ کمی اور بھی شدت کے ساتھ محسوس کی جائے گی۔

حیدرآباد اصل میں ایک مونث بستی تھی جو بعد میں مذکر شہر بن گیا۔ اس کا اصلی نام "بھاگیہ نگر" تھا۔ جب اس کی سیکس بدلی تو یہ "حیدرآباد" بن گیا۔ اس طرح جنس کی اس پیمانہ پر تبدیلی کا معجزہ پہلی بار یہیں ہوا۔ آج کل کے اوچھے سائنسداں اکے دکے کیس میں سیکس بدل کر اپنے آپ کو بڑے تیس مار خاں سمجھتے ہیں۔ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ صدیوں پہلے ہنودستان میں ایک پورے شہر کی سیکس بدل دی گئی تھی۔ یہاں کے لوگوں کو اب بھی یہی خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں دوبارہ پھر ویسی ہی تبدیلی نہ واقع ہو جائے۔ اس لئے وہ کسی قسم کے جنسی تذکرے سے احتراز کرتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگا کہ یہاں کے پرانے خاندانوں کی بیگمات اور امیر زادیاں ابھی تک اپنے آپ کو جنس مذکر مان کر بات کرتی ہیں، مثلاً "میں وہاں گیا"۔۔۔ "میں آپ کو دکھاؤں گا"۔ وغیرہ وغیرہ۔

حیدرآباد بہت خوبصورت شہر ہے ، لیکن افسوس ہے کہ اس کو لاثانی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس نام کا ایک اور شہر پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی واقع ہے۔ آزادی سے پہلے جب سندھ ، ہندوستان کا ایک صوبہ تھا، ان دونوں شہروں میں امتیاز کرنے کے لئے ہمارے شہر کو دکن کا تخلص دیا گیا تھا۔ (اس کے سود مند نتائج کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے)۔ تقسیم ہند سے پہلے ان دونوں شہروں میں کافی کنفیوژن (CONFUSION) رہتا تھا۔ اکثر مسافر حیدرآباد سندھ کا ٹکٹ لے کر گاڑی میں بیٹھتے تو حیدرآباد دکن آ پہنچتے۔ مشہور شاعر جوش ملیح آبادی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ (نتیجتاً وہ بے چارے دس پندرہ سال کی تاخیر کے بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچے) اس افراتفری سے بچنے کے لئے تقسیم ہند کے وقت سندھی حیدراباد پاکستان کو دے دیا گیا اور اس کے بدلے کچھ سندھیوں کو لے لیا گیا۔

اس امر کے بارے میں اختلاف رائے ہے کہ یہ حیدرآباد پہلے قائم ہوا یا سندھ کا حیدرآباد۔ اب چونکہ وہ حیدرآباد ہمارے ملک میں نہیں اس لئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی گریز نہیں ہونا چاہئے کہ وہ حیدرآباد پرانا ہے اور ہمارا حیدرآباد نیا۔ اس لئے یہ زیادہ خوبصورت بھی ہے۔ کئی مورخین کی رائے ہے کہ بانی شہر محمد قلی قطب شاہ نے اپنے ماہر معماروں کو ڈیپوٹیشن پر سندھ بھیجا تاکہ وہ وہاں کے حیدرآباد کا بغور مطالعہ کر کے یہاں کے لئے ایک ایسے شہر کا منصوبہ بنائیں جس میں اس شہر کی کوئی بھی خامی نہ ہو۔ ان ماہروں کو یہاں کے لئے نئی خامیوں کی تلاش میں کافی محنت کرنی پڑی۔ اس محنت کے صلے میں ان کو ڈبل ٹی۔ اے اور ڈی۔ اے منظور کیا گیا۔

محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا ، ایک بار جب وہ دلی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا۔ جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب۔ بادشاہ نے دلی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا ، اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کرکے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔ جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لئے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لئے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔ بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور اس نے نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لئے اس کا نام امر ہوجانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا۔ اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

چار مینار کی دھوم جب دلی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھ مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔ یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لئے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

مغلوں کے ایک صوبیدار آصف جاہ نے خود مختاری کا اعلان کر کے یہاں آصف جاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ لیکن مغلوں کے تئیں وفاداری دکھانے کے لئے اس نے اپنا لقب نظام ہی رکھا۔ دیسی ریاستوں کے راجاؤں کو انگریزی سرکار نے ہز ہائی نس کے خطاب سے نوازا تھا۔ لیکن چوں کہ حیدرآباد سطح مرتفع ہے اور یہاں کی سطح دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں اونچی یعنی ایگزالٹڈ [Exalted] ہے۔ اسلئے نظام کو محض جغرافیہ کی بناء پر ہز ایکزالٹڈ ہائی نس کا خطاب دیا گیا۔

یہاں کے ایک نظام نے عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اس یونیورسٹی کی خاص خوبی یہ تھی کہ یہاں کا ذریعہ تعلیم اردو تھا اور اردو کے علاوہ تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ جب اردو کے طلبہ نے ایچی ٹیشن کیا کہ انہیں بھی اس زبان میں تعلیم حاصل ہونی چاہئے تو حکومت نے ذریعہ تعلیم بدل کر انگریزی کر دیا۔ یہاں کے پرانے طلبا آج تک انگریزی بھی اردو میں بولتے ہیں۔ آج کل اس یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم ایجی ٹیشن ہے اور ہر مضمون اس کے ذریعہ پڑھایا جاتا ہے، دور دراز سے طلبا یہاں یہ مضمون پڑھنے آتے ہیں۔

حیدرآباد میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن سمجھی کوئی نہیں جاتی۔ یہ اس لئے کہ ہر زبان میں دوسری زبانوں کا رنگ زیادہ ہے۔ مثلاً تلگو میں اردو اور مراٹھی کے الفاظ کی بھرمار ہے اور اردو میں کنڑا، تلنگی اور مراٹھی اصطلاحوں کی بہتات ہے۔ اس لئے یہاں ایک زبان سمجھنے کے لئے تین زبانوں میں مہارت لازمی ہے۔ اس حساب سے ظاہر ہے کہ تینوں زبانوں کو جاننے کے لئے نو زبانوں پر عبور کی ضرورت ہوگی اس لئے لوگوں کا خیال ہے کہ اس ریاست کو دو حصوں میں بانٹ دینا چاہئے ایک میں تلگو زبان رائج ہوگی اور دوسرے میں بھی تلگو۔

ہم نے اوپر لکھا ہے کہ سندھی حیدرآباد سے امتیاز کرنے کے لئے اس شہر کو دکن کا تخلص دیا گیا تھا۔ اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ یہاں بے شمار شاعر پیدا ہو گئے۔

حیدرآباد کا بانی محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس نے اتنے شعر کہے ہیں کہ اس کو ایک تخلص کافی نہیں تھا۔ اس لئے اس نے تین تخلص رکھے۔ قطب شاہ، معانی اور ترکمان۔ اس کے بعد روایتاً ہر بادشاہ کو شعر کہنا لازمی ہو گیا۔ لیکن ان بادشاہوں کی شاعری میں وہ بات نہیں جو قلی میں ہے۔ وہ بادشاہ چوں کی اصلاً قلی تھا اس لئے اس کی شاعری غریبوں ، مزدوروں اور قلیوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی زیادہ تر شاعری پنجابی میں ہے ، اس طرح اس نے طبقاتی لسانی اور علاقائی رواداری کی بنیاد رکھی ، آج کل اس کی شاعری کو یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔

حیدرآباد نے بہت بڑے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کئے لیکن ان میں سے کوئی لافانی نہیں ہو سکا کیونکہ یکے بعد دیگرے سب مر گئے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہاں کی مٹی میں کچھ ایسی بات ہے کہ جو شاعر اور ادیب یہاں پیدا ہوتا ہے وہ ایک نہ ایک دن مر جاتا ہے۔ اس لئے کئی شاعر یہاں سے ہجرت کر گئے۔ اب جب کہ اس شہر کا تخلص منسوخ کر دیا گیا ہے ، شاعری کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے تاہم دکنی شاعری اب بھی بہت مقبول ہے۔ اور مشاعرے اب بھی بہت کامیاب رہتے ہیں۔ جب بھی شکیلہ بانو بھوپالی دوسرے شعرا کا کلام پیش کرتی ہے تو بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔

اب یہاں کے جغرافیہ کے بارے میں چند اہم معلومات پیش ہیں۔
حیدرآباد کا محل وقوع بہت ہی عمدہ ہے ، ایک طرف شمال، دوسری طرف مشرق ، تیسری طرف مغرب اور چوتھی طرف جنوب ہے۔ سب سے زیادہ جنوب ہے اس لئے بھی اسے دکن کہاجاتا ہے۔ "وقوع" کے مقابلہ میں یہاں محل زیادہ ہیں۔ محلات شاہی میں چار محل، چو محلہ اور فلک نما زیادہ مشہور ہیں۔ عموماً شہر دریا کے کنارے واقع ہوتے ہیں، اس روایت کو پیش نظر رکھ کر اس شہر کے کنارے ایک دریا بہانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کو موسی ندی کہا جاتا ہے۔ یہ دریا ابھی تک پوری طرح آباد نہیں ہوا۔ اس میں پانی برائے نام ہے اور چٹانوں، کائی اور گھاس کی بھرمار ہے۔ چٹانوں کو توڑنے کا ٹھیکہ دھوبیوں کو دیا گیا ہے۔ جو انہیں کپڑوں سے توڑتے ہیں۔ کپڑے سکھانے کی سہولت کے لئے دریا پر جا بجا پل بنائے گئے ہیں۔ ایک پل پر صرف چادریں سکھائی جاتی ہیں۔ اس کا نام چادر گھاٹ پل ہے۔ اس طرح پرانے پل پر پرانے کپڑے سکھائے جاتے ہیں اور نئے پل پر صرف ٹیری لین کے نئے کپڑے۔ مسلم جنگ پل پر ایکس سرویس مین مسلمان سکھائے جاتے ہیں۔ یہ نام نہاد دریا 50 سال میں صرف ایک بار دریا بنتا ہے باقی وقت دھوبی گھاٹ کا کام دیتا ہے۔ جب یہ دریا بنتا ہے تو بڑا غضب ڈھاتا ہے۔ 1908ء میں اور پھر ایک بار 1970ء میں اس کے پانی سے بہت تباہی آئی تھی۔ اب امید ہے کہ اس صدی کی طغیانیوں کا کوٹا پورا ہو گیا ہوگا۔

دریا کے ایک کنارے پر ہسپتال ہے اور دوسرے کنارے ہائی کورٹ۔ فوجداری کیسوں کے شکاروں کو پہلے ہسپتال کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ علاج معالجہ کے بعد عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ ان دونوں جگہوں سے زندہ بچ جائیں تو انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ جو ہائی کورٹ سے تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے۔

یہاں کے بازار اور سڑکیں کشادہ ہیں، مرکزی شاہراہ اتنی لمبی ہے کہ اس کے ایک ایک حصہ کا علیحدہ علیحدہ نام رکھا گیا ہے۔ چار مینار کے پاس کا نام پتھر گٹھی ہے۔ دریا پار کرکے اس کا نام افضل گنج اور عثمان گنج بن جاتا ہے۔ معظم جاہی مارکٹ کے بعد وہ جواہر لعل نہرو سڑک بن جاتی ہے۔ اس کے بعد عابد روڈ، بشیر باغ، پھر کٹہ حسین ساگر، وہاں پہنچ کر ایک شاخ مہاتما گاندھی بن جاتی ہے اوردوسری راشٹرپتی۔ راشٹرپتی سے بچ کر جو حصہ سکندرآباد کی چھاؤنی میں داخل ہو جاتا ہے اسے بریگیڈیر سعید کی وردی پہننا پڑتی ہے۔ اس کے بعد سنا ہے کہ وہ سڑک نظام آباد چلی جاتی ہے۔ لیکن میں کئی بار اس سڑک پر گیا ہوں میں نے تو اسے کہیں بھی جاتے نہیں دیکھا۔ وہیں کی وہیں پڑی ہے۔ اس شاہراہ کے علاوہ بے شمار اور سڑکیں ہیں لیکن فی الوقت ہمارے پاس ان کے نام لکھنے کی گنجائش نہیں۔ مرکزی شاہراہ اتنی کشادہ ہے کہ دس رکشا بازو بازو چل سکتے ہیں اور پھر بھی بس کے لئے جگہ رہ جاتی ہے۔ یہاں کی رکشا بہت چھوٹی اور بسیں بہت لمبی اور اونچی ہوتی ہیں۔

حیدرآباد کی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی آدھی بسوں کے انجن چوری ہو گئے ہیں، اس لئے ان کو دوسری بسوں کے پیچھے باندھ کر چلایا جاتا ہے۔ کئی بار پچھلی بندھی ہوئی بسوں نے بور ہو کر بندھن تڑوا کر بھاگنے کی بھی کوشش کی ہے۔ دو منزلہ بسیں یہاں بہت عام ہیں۔ یہاں کی بسوں کی دو خوبیاں ہیں، دو منزلوں میں سے ایک منزل کے مسافر فری سفر کرتے ہیں۔ بسوں کے رکنے کا سسٹم مسافروں کی صحت کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا ہے۔ روڈ کارپوریشن نے جگہ جگہ اسٹانڈ بنائے ہیں۔ ان کو کہا تو جاتا ہے بس اسٹانڈ لیکن یہ ہوتے اصل میں پبلک اسٹانڈ ہیں۔ لوگ یہاں کھڑے رہتے ہیں، بس یا تو اس سے کچھ پہلے ہی یا اس کے کچھ فاصلہ آگے ہی رکتی ہے۔ مسافروں کو وہاں تک بھاگ کر بس پکڑنی پڑتی ہے۔ اس جبری کسرت کی وجہ سے حیدرآباد کی جنتا کی صحت دوسرے شہروں کے رہنے والوں سے بہتر ہے۔ کرایہ دینے کے بھی یہاں دو سسٹم ہیں اگر آپ ٹکٹ خریدنا چاہتے ہیں تو کرایہ پورا لگتا ہے اگر آپ ٹکٹ خریدنے پر اصرار نہ کریں تو آپ آدھے کرایہ پر ہی سفر کر سکتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ اس سے کمپنی کے ٹکٹیں چھپوانے کا خرچ بچتا ہے۔ چھوٹا موٹا چینج کنڈکٹر خود ہی ٹپ کے طور پر رکھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا بس سسٹم ہندوستان میں سب سے زیادہ 'انقارمل' اور سستا ہے۔ یہاں کی بسیں بہت دندنا کر چلتی ہیں اور خوب دھواں چھوڑتی ہیں اس سے کم بینائی اور اونچا سننے والے لوگوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ بس کدھر اور کب گئی۔ اب چونکہ بسوں پر ٹرافک اور بھی بڑھ رہی ہے اسل ئے تجویز ہے کہ تین یا چار منزلہ بسیں بنائی جائیں، اس سے سفرا ور بھی سستا ہو جائے گا۔

حیدرآباد کے مختلف محلوں کے نام جسم کے حصوں یا بیماریوں پر رکھے گئے ہیں۔ مثلاً امیر پیٹ، بیگم پیٹ، رحیم پیٹ، وغیرہ۔ بلغم پیٹ بھی ایک محلہ کا نام ہے ، نئی آبادیوں کے نام جسم کے دوسرے حصوں پر رکھے جائیں گے۔ کچھ اور نام مندرجہ ذیل ہیں۔
ماما جمیلہ کی دیوڑھی، چیلہ پورہ، گھاسی میاں بازار، کوکا کی ٹٹی، گھوڑے کی قبر، زچہ کی قبر، سلیمان جاہ کی چاوڑی، چوک مرغاں۔
شہر کے اطراف کئی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ ایک جھیل حیدرآباد اور سکندرآباد کے درمیان واقع ہے۔ ان جھیلوں کو ساگر کہا جاتا ہے۔ امرود کو جام کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ امرود کھا کر اگر کسی جھیل کا پانی پی لیا جائے تو وہی نشہ چڑھتا ہے جو جام نوش کرنے پر آتا ہے۔

اب ایک راز کی بات بتاتا ہوں ، حیدرآباد دراصل دو شہر ہیں۔ ایک حصہ کا نام حیدرآباد اور دوسرے کا نام سکندرآباد۔ دونوں کو جڑواں شہر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سکندرآباد، سکندر اعظم کے نام پر آباد ہوا تھا۔ سکندر ہندوستان کا پہلا یوروپین حملہ آور تھا۔ پورس سے لڑائی کے بعد وہ حیدرآباد آیا، یہاں اس نے یونانی دواخانے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اور اس کے لئے یونانی اکسپرٹ اور فارین ایڈ دینے کا وعدہ کیا۔ یہ دواخانہ اب بھی چار مینار کے بازو قائم ہے۔ سنگ بنیاد کی رسم کے بعد سکندر اعظم کے اعزاز میں پریڈ گراؤنڈ میں شاندار پریڈ ہوئی۔ اور ساتھ ہی اس شہر کا نام سکندرآباد رکھا گیا۔ یونانی فاتح بجائے خوش ہونے کے معترض ہوا کہ اس کا پورا نام سکندر اعظم ہے اور شہر کا نام صرف سکندرآباد رکھا گیا ہے۔ اس کمی کی تلافی کے لئے فیصلہ ہوا کہ حملہ آور کے خطاب پر ایک محلہ کا نام اعظم پورہ رکھ دیا جائے۔ تب کہیں جاکر ہمارے معزز حملہ آور کی تسلی ہوئی۔ اور وہ یہاں سے واپس چلا گیا۔ اس دن سے آج تک اس آمد کی یادگار میں سکندرآباد پریڈ گراؤنڈ پر ہر سال دوبار پریڈ ہوتی ہے ، ایک گرمیوں میں اور ایک سردیوں میں۔

ان جڑواں شہروں کی آبادی تقریباً بیس (20) لاکھ ہے۔ پچھلی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق غیر شادی شدہ طبقے میں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے پچاس سالوں میں عورتوں کی شادیاں زیادہ ہوئی ہیں ، اب حیدرآباد کے نئے کلکٹر نے احکام جاری کر دئے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور مردوں کی شادیاں بیک وقت ہوں۔ اس سے خرچ میں بھی بچت ہوگی اور توقع کی جاتی ہے کہ اگلی مردم شماری تک دونوں کی تعداد میں توازن پیدا ہو جائے گا۔

حیدرآباد کی آب و ہوا اور غذا میں ایک خاص اثر پایا جاتا ہے جس سے یہاں کے لوگوں کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے ، وہ اپنے ماضی کے بارے میں صرف کل اور پرسوں تک ہی یاد رکھ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کے واقعات پرسوں تک ہی منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کوئی واقعہ دو دن پہلے ہوا ہو یا پچاس سال پہلے، پرسوں کی بات ہی کہا جاتا ہے ، اکثر بزرگ 1908ء کی باڑھ کو بھی پرسوں کی طغیانی کہتے ہیں۔

یہاں کے لوگ بڑے ملنسار اور خوش طبع ہیں۔ برتاؤ میں بڑے سلیقہ شعار ہیں۔ ایسے لوگ گورنر اچھے بنتے ہیں اس لئے یہاں کے کئی معزز شہری گورنر بنا کر دوسرے صوبوں کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ سروجنی نائیڈو، پدمجا نائیڈو، رام کرشنا راؤ ، سری نگیش ،علی یاورجنگ ، گوپال ریڈی اور اکبر علی خاں یہیں سے گورنر بن کر گئے۔ یہاں کے بنائے ہوئے گورنر اتر پردیش میں خاص طور پر پسند کئے جاتے ہیں۔

حیدرآباد جو بھی آتا ہے اسے اپنا لیتا ہے۔ یہاں کی مٹی ہر شخص کو اپنے وطن کی مٹی لگتی ہے۔ اس لئے یہاں ہندوستان کے ہر کونے سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ آ کر بس گئے اور جانے کا نام تک نہیں لیتے۔ جنوب کے لوگ اسے حد جنوب مانتے ہیں شمال کے لوگ اسے خطۂ شمال سمجھتے ہیں۔ یہاں کے پرانے شہر میں بغداد اور بصرہ کا ماحول ملتا ہے۔ سکندرآباد کی چھاؤنی پر اینگلو انڈین چھاپ ہے۔ کافی ہاؤس، پال گھاٹ کے لوگ چلاتے ہیں۔ چائے خانے ایرانیوں کی مونوپلی ہیں۔ ویجٹرین ہوٹل کے اکسپرٹ منگلور کے برہمن ہیں، بزنس میں مارواڑی اور سندھی پیش پیش ہیں۔ ہندو ، مسلم، سکھ ، عیسائی ، پارسی ، یہودی، ہر قسم کے لوگ ہر موسم میں پائے جاتے ہیں۔ یہ شاید اسی مذہبی علاقائی اور تہذیبی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے کہ یہاں زیادہ تر موسم خوشگوار اور معتدل ہوتا ہے۔ ویسے یہاں گرمیوں میں کڑاکے کی گرمی پڑتی ہے اور سردیوں میں سردی بھی خوب ہو جاتی ہے۔ برسات کے موسم میں جھڑی بھی اچھی لگتی ہے، باقی سال موسم معتدل رہتا ہے۔

حیدرآباد چھوٹے پیمانے پر ہندوستان کی تصویر ہے۔ ہمارے ملک کی طرح اس شہر میں بھی کثرت میں وحدت پائی جاتی ہے۔ یہ شہر بھی ہمارے ملک کی طرح گلہائے رنگا رنگ کا گلدستہ ہے جس کی مہک سے سارا چمن معطر ہے۔ اگر حیدرآباد جیسے آٹھ دس اور شہر ہندوستان میں آباد ہو جائیں تو یہ ملک رشک جنت ہوجائے گا۔
سنا ہے کہ پانچویں پنچسالہ منصوبے کے لئے یہ تجویز زیر غور ہے !!
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماخوذ از رسالہ:
شگوفہ (حیدرآباد)، ہندوستانی مزاح نمبر (نثر)، جون-1985

Hyderabad's Tughrafia. Humorous Essay by: Narendra Luther

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں