1947 میں آزادی کے بعد سے اردو سفر ناموں کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
آزادی کے بعد سفرناموں میں بہت سے بدلاؤ آئے اور آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی اور سیاحوں نے ملکوں کے حالات اور تاریخ کو تفصیل کے ساتھ سادہ اور سلیس انداز میں اپنے سفر ناموں میں پیش کیا۔
ان میں محمود نظامی، اختر ریاض الدین، پروفیسر حمید احمد خاں، جگن ناتھ آزاد، انتظار حسین ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، صالحہ عابد حسین، ممتاز مفتی، منیر فاطمی، کوثر چاند پوری، عبدالماجد دریا آبادی ، عبدالحلیم شرر، ایلین ویلز، ابو سعید قریشی ، بلراج کومل، خواجہ حسن نظامی، ڈاکٹر کیول دھیر، ہرچرن چاولہ، رام لعل، ابراہیم جلیس ، ڈاکٹر وحید قریشی ، سید ابوالحسن علی ندوی، ہمایوں ادیب، ڈاکٹر سید عابد حسین ، حمزہ فاروقی ، رازق الخیری، بدر اسلام حنفی، علی احمد جرجاوی، عزیز بیگ، مختار الدین احمد، ستیش بترا، محمد طفیل، جاوید دانش، قمر علی عباسی، وزیر آغا، محمد کاظم ، بلدیو مرزا، حکیم محمد سعید ، مولانا محمد زکریا، پطرس بخاری، خواجہ عبدالرشید، پروفیسر ثریا حسین، مس مارتھا، کیپٹن چارلس، اے پنڈ برگ، خوشہروان، اے حمید، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، کمار پاشی ، اختشام حسین وغیرہ نے جب سفرنامہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا تو اس میں ایک نئی جان ڈال دی۔
اس دور کے سفر نامہ نگاروں نے اپنے مشاہدے اور تخیل سے بہت آگے تک کے راستے ہموار کرنے کی کوشش کی۔ اس دور کے سفرناموں میں ماضی کی تاریخ، ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے جس سے حال کو تابناک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان سفرناموں میں خارجیت کو ترجیح نہیں دی گئی ہے بلکہ داخلیت ایک زندہ جاوید حقیقت رکھتی ہے جو سفر ناموں کو ایک چمک عطا کرتی ہے۔ اس دور میں سفرنامے مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں۔ مثلاً سفر نامہ اقبال، تہذیب یورپ کے چند مناظر: محمد علی جوہر، زنداں کی آخری شب: مولانا شوکت علی، سفر نامہ گلستان: پطرس بخاری۔ یہ سب سفر نانے خطوط کی شکل میں سفر ناموں کی ساری خوشبو اور چمک سمیٹے ہوئے ادب کو معطر کر رہے ہیں۔
آزادی کے بعد کے سفر ناموں میں افسانوی رنگ بھی نظر آتا ہے۔ جس میں شفیق الرحمن کی برساتی، لندن کی ایک شام، نورالزماں احمد قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ جج کے لئے کئے گئے سفر کی شکل میں جو سفر نامے قابل ذکر ہیں، ان کا بھی اپنا ایک مقام ہے۔ مثلاً: ماجد دریا آبادی کا 'سفر حجاز'، منشی امیر احمد علوی کا 'سفر سعادت'، مولانا ابوالحسن ندوی کا 'مشرق وسطی میں دیکھا'، ماہر القادری کا 'کاروان حجاز'، وغیرہ ایسے سفر نامے ہیں جو اردو سفرناموں کی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی رنگ سے معمور سفرنامے بھی اس دور میں اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً اٹک سے بمبئی تک: پریم رتن وہرا، گاندھی جی بادشاہ کے دیش میں: کرشن چندر وغیرہ اہم سفرنامے ہیں۔ اس طرح آزادی کے بعد دور جدید میں سفر ناموں میں جو بدلاؤ آئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
قدیم سفر نامہ نگاروں اور جدید سفر نامہ نگاروں کے سفر ناموں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے سیاح سفر کیا کرتے، اس کے بعد سفر سے واپسی پر اپنے تجربات اور یادداشت سے سفر نامہ لکھتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد دور جدید کا سیاح سفر نام تشکیل دینے کے مقصد سے ہی سیر سیاحت کرتا ہے۔ اسی لئے ان سفر ناموں کا مقابلہ مارکو پولو، ابن بطوطہ، واسکوڈی گاما کے سفر ناموں سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان سفرناموں سے ادب میں ایک نئی تازگی کا احساس ہونے لگا۔ نئے سیاحوں نے سفرناموں کا تخلیقی مرتبہ بلند کیا ہے اور اس کو انہوں نے صرف بیانیہ یا معلوماتی ادب تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ نئے سفر نامے لکھے والوں نے سفری ادب کو بلندی عطا کی ہے ان سفر ناموں میں ہمیں کہانی کی خوشبو اور افسانوی رنگ کا اتار چڑھاؤ اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔
دور جدید یعنی 1947 کے بعد کے سفر ناموں میں ہمیں مختصر سفر ناموں کی تعداد بھی کافی حد تک ملتی ہے۔ مختصر سفر ناموں میں ڈاکٹر محمد اجمل، انتظار حسین ، رام لعل، شیخ رحمن اکولوی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
دور جدید میں ابن انشاء، اختر ریاض الدین، عبد الستار، قرۃ العین حیدر، ممتاز احمد خاں، عطا الحق قاسمی، حکیم محمد سعید، ذوالفقار احمد وغیرہ چند ایسے سفر نامہ نگار ہیں جنہوں نے قدیم سفر ناموں کے معیار کو ایسے سفر ناموں میں برقرار رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے جن میں سیاسی و سماجی تجزیہ نگاری بھی ملتی ہے۔
حکیم محمد سعید کا سفر نامہ 'یورپ نامہ' تاریخ ، جغرافیہ ، ثقافتی، سماجی اور طبی حقائق کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اسی طرح ان کے سفرنامے 'جرمنی نامہ' اور 'سفر نامہ روس' میں بھی وہی بات ملے گی۔
آزادی کے بعد کے دور کو سفر نامہ نگاری کا زریں دور کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ آزادی کے بعد سے سفر نامہ نگاری کی دنیا میں انقلاب آ گیا اور اس کے طرز تحریر میں بہت بدلاؤ آ گیا۔ دور جدید میں سیاحوں کو تکالیف و مصائب سے دوچار نہیں ہونا پڑا ہے۔ انہیں اپنی راہیں ہموار اور سازگار ملیں۔ انہوں نے سفر ناموں میں شوخئ ظرافت سے سفر ناموں کو مالا مال کر دیا جس کی روشنی سے نگاہیں چکا چوند ہو جاتی ہیں۔ اس دور میں بہت بڑی تعداد میں سفر نامے لکھے گئے ہیں۔ اس لئے سب کا جائزہ لینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن اس دور کے اہم اور مخصوص سفر ناموں کا جائزہ تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آزادی کے بعد کے دور میں جب ہم سفر ناموں کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سفر ناموں کی دنیا میں ایک سیلاب آ گیا ہے اور کچھ ایسے انمول ہیرے ہاتھ آئے جنہوں نے سفر ناموں کی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا اور دور جدید میں ان کا اعلی مقام ہے۔ دور جدید اردو سفر نامہ نگاری کے لئے ایک اہم دور ہے۔ اس دور میں بہت سے اہم سفر نامے تشکیل دیئے گئے۔ اس دور میں سیاح کو تیز رفتار سواریاں، ہوائی سفر، بحری سفر کی سہولتیں مہیا تھیں، اس سہولت کی وجہ سے بھی لوگوں میں سفر کا شوق اور جذبہ پیدا ہوا۔ حالانکہ سفر نامہ نگاری ایک قدیم صنف ہے۔
بیسویں صدی میں آزادی کے بعد آخری دور میں جو سفر نامے، رسائل، اخبارات وغیرہ سے دستیاب ہوئے ہیں جن میں تہذیب و معاشرت ، رسم و رواج، حکومت، تجارت، تعلیمی نظام ، صنعت و حرفت، ثقافت کی نظر سے لکھے گئے سفرنامے جہاں مذہبی اہمیت رکھتے ہیں وہیں تہذیبی، سیاسی، ثقافتی، معاشرتی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی پیش کرتے ہیں، لیکن ہر سفر نامہ ایک دوسرے سے مختلف ہے کیوں کہ ہر سفر کرنے والے کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اور وہ ہر شے کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے اور اس کے اعتبار سے وہ اپنا سفرنامہ مرتب کرتا ہے۔ ایک سیاح اپنے سفرنامے میں کسی پہلو پر زیادہ روشنی ڈالتا ہے تو دوسرا سیاح کسی دوسرے پہلو کو زیادہ روشن کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ سفر نامہ ایک حقیقت ہے جو سیاح کی سیر و تفریح اور اس ملک کے تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی، تعلیمی اور سماجی پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف کے نقطۂ نظر کو بھی پیش کرتا ہے۔
فہرست سفرنامے | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | سن اشاعت |
1 | سفر ہے شرط | جمیل صبا | 1949 |
2 | نیا چین | ڈاکٹر سلامت اللہ | 1949 |
3 | سفرنامہ پاکستان | خواجہ حسن نظامی | 1950 |
4 | جنوبی ہند میں دو ہفتے | جگن ناتھ آزاد | 1951 |
5 | ساحل اور سمندر | سید احتشام حسین | 1954 |
6 | آسٹریلیا کی ایک جھلک | تاج سلطان بیگم | 1955 |
7 | حکیم محمد سعید کے سفرنامے، یورپ نامہ، جرمن نامہ | حکیم محمد سعید | 1956 |
8 | نیل سے فرات تک | مولوی محمد اقبال انصاری | 1962 |
9 | عروس نیل | بیگم سلطانہ آصف فیضی | 1964 |
10 | برف بنی انگارے | راج کوی اندر جیت سنگھ تلسی | 1964 |
11 | چلتے ہو تو چین کو چلئے | ابن انشا | 1967 |
12 | ابن بطوطہ کے تعاقب میں | ابن انشا | 1968 |
13 | تاثرات سفر ایران | رضیہ اکبر | 1970 |
14 | بنگلہ دیش میں بارہ دن | عتیق صدیقی | 1972 |
15 | آوارہ گرد کی ڈائری | ابن انشا | 1974 |
16 | زمان و مکان اور بھی ہیں | محمد حمزہ فاروقی | 1978 |
17 | زرد پتوں کی بہار | رام لعل | 1979 |
18 | راہ نوردِ شوق | ڈاکٹر سید عابد حسین | 1979 |
19 | سوئیزرلینڈ میں میرے چند شب و روز | حکیم محمد سعید | 1980 |
20 | ایک مسافر چار ملک | حکیم محمد سعید | 1981 |
21 | نکلے تری تلاش میں | مستنصر تارڑ | 1982 |
22 | جاپان چلو جاپان چلو | مجتبی حسین | 1982 |
23 | وہ قربتیں سی ، وہ فاصلے سے | مرزا ظفر الحسن | 1984 |
24 | تذکرۂ چین | بریگیڈیر گلزار احمد | 1984 |
25 | لندن اور لندن | سید محمد عقیل رضوی | 1985 |
26 | پشکن کے دیس میں | جگن ناتھ آزاد | 1986 |
27 | سفر ہے شرط | علی احمد فاطمی | 1986 |
28 | کولمبس کے دیس میں | جگن ناتھ آزاد | 1987 |
29 | بانہال کے اس پار | ثریا خورشید | 1988 |
30 | ریگِ رواں | حکیم محمد سعید | 1989 |
31 | یادوں کے چاند ستارے | رفعت سروش | 1990 |
32 | ختم سفر کے بعد | رضوان اللہ آروی | 1991 |
33 | تم کو دیکھیں | ہرچرن چاؤلہ | 1992 |
34 | جہان دیدہ | جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی | 1993 |
35 | ہم مسافر جہاں جہاں پہنچے | پروفیسر علیم اللہ حالی | 1994 |
36 | سفر لخت لخت | قمر علی عباسی | 1995 |
37 | جانا سوئیزرلینڈ | قمر علی عباسی | 1996 |
38 | اے پرندو کیا تمہیں یاد ہے | جمشید مرزا | 1997 |
39 | چل چمیلی باغ میں | مظفر حنفی | 1998 |
***
ماخذ: بیسویں صدی کے اردو سفرناموں کا فکری اور تہذیبی مطالعہ (مقالہ ڈی۔فل برائے 2018ء)
نگران: پروفیسر نوشابہ سردار (سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی)
مقالہ نگار: غضنفر سعید (ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی)
ماخذ: بیسویں صدی کے اردو سفرناموں کا فکری اور تہذیبی مطالعہ (مقالہ ڈی۔فل برائے 2018ء)
نگران: پروفیسر نوشابہ سردار (سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی)
مقالہ نگار: غضنفر سعید (ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی)
Urdu Travelogues after India Independence.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں