مسلم یونیورسٹی میری زندگی کا عظیم کارنامہ - ہزہائی نس سر آغا خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-15

مسلم یونیورسٹی میری زندگی کا عظیم کارنامہ - ہزہائی نس سر آغا خاں

huma-digest-amu-number
اسماعیلی شیعہ فرقہ کے روحانی پیشوا اور امام ہزہائی نس سر آغا خاں مرحوم نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلمانوں کا ایک عظیم تعلیمی ادارہ اور دنیا کی ایک مثالی درسگاہ بنانے میں سرسید مرحوم اور نواب محسن الملک مرحوم کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا تھا۔

موصوف نے اپنی کتاب MEMOIRS OF AGAKHAN (آغاخاں کی یادیں) میں مسلم یونیورسٹی کی تحریک سے اپنی وابستگی کا بار ہا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اکتوبر1890ء میں جب موسم گرما کی سخت تپش ختم ہوگئی اور موسم باراں گزر گیا تو میں نے پہلی بار شمالی ہند کا دورہ کیا۔ آگرہ، دہلی اور لاہور گیا جو مسلم ہندوستان کے مراکز تھے، اسلامی تہذیب اور ثقافت کے عظیم آثاروں، تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد، آگرہ اور دہلی کی خوبصورت موتی مسجد وغیرہ کی زیارت کرتا ہوا علی گڑھ میں اینگلو مسلم کالج پہنچا، جہاں سرسید احمد اور نواب محسن الملک سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات میری زندگی کے اس اہم مشن کا نقطہ آغاز بنی جس کا تعلق مسلمانوں کی اعلیٰ تر تعلیم بالخصوص علی گڑھ میں کالج اور یونیورسٹی کے قیام سے میری عمر بھر کی دلچسپی سے تھا۔ میں نے جوانی کے جوش و خروش کے ساتھ اس اہم کام کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ یوں تو 1890ء ہی میں علی گڑھ ایک قابل تعریف ادارہ تھا لیکن سرمایہ کی قلت اور سہولیات کے فقدان نے اس کی سر گرمیوں کو محدود بنا رکھا تھا۔ اس وقت میں نے یہ سوچا تک نہ تھا کہ ایک دن یہ ادارہ اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق مسلم افکار اور ثقافت کا منبع بنے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی کو بھی ان باتوں کا اندازہ نہ تھا لیکن میں نے یہ ضرور محسوس کرلیا تھا کہ علی گڑھ کے حلقہ اثر کو وسیع کرنے اور اسے سر چشمہ ترقی بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لئے میں ہر ممکن طریقہ پر جلد از جلد اس کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کا خواہاں تھا، میں نے سر سید اور محسن الملک سے جوانی کے جوش میں کہا کہ ہم کیوں نہ مسٹر راک فیلر یامسٹر کارنیگی کی طرح کے امریکی مخیر حضرات سے مل کر اس کے لئے امداد طلب کریں۔ لیکن میرے نئے دوست سن رسیدہ اور دور اندیش تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ :" یہ خود ہماری ذمہ داری ہے ، ہندوستان کے ۶ یا ۷ کروڈمسلمان اس کام کو بخوبی کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بیرونی امداد حاصل کریں گے تو ہمیشہ کے لئے ہماری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں نے ان کے اس معقول خیال سے اتفاق کیا اور برسوں کی محنت و جانفشانی ، تقریروں کمیٹیوں میں بحث و مباحثہ اور اعلی مرتبت لوگوں سے طویل جھڑپوں کے بعد ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔

وائسرائے کی لیجسلیٹیو کونسل میں میری رکنیت کے دوران ایک قابل ذکر واقعہ دہلی دربار کا تھا جس کے آخر میں کمانڈر انچیف لارڈ کچز کی سرداری میں ۴۰ ہزار فوجوں کی پریڈ ہوئی تھی۔

اس دربار میں ڈیوک آف کناٹ جس نے فوج سے سلامی لی تھی سلطنت برطانیہ کا نمائندہ تھا۔ وہ شہنشاہ برطانیہ کا بھائی اور میرا بچپن کا دوست تھا۔ دربار کے فوراً بعد دہلی میں ایک مسلم ایجوکیشنل کانفرنس منعقد ہوئی جس میں میں نے بہت سے تعلیمی منصوبوں پر جن میں سب سے اہم منصوبہ علی گڑھ کا تھا، تفصیلی تقریر کی، اپنی اس تقریر میں میں نے براہ راست اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے کہا۔۔" میں آپ سے دردمندانہ گزارش کرتا ہوں کہ ایک مرکزی یونیورسٹی کے قیام پر پوری توجہ مبذول فرمائیے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو ایک دن آکسفورڈ لیپرنگ اور پیرس کی ہم پلہ بنے۔ جو عظیم خیالات اور بلند نظریات کا مرکز ہو۔ ایک ایسی یونیورسٹی جہاں آپ کے نوجوانوں کو مغربی علوم کی اعلی ترین تربیت دی جائے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جہاں مشرقی تاریخ اور ادب کا علم مغربی افکار کے مطابق طوطوں کی طرح نہ رٹایا جائے بلکہ جہاں ہمارے نوجوانوں کو مسلم ماحول بھی حاصل ہو۔ ایک بار پھر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد بازاری شوروغل مٰں جو ہمارے درمیان روزانہ بلند ہوتا ہے دب کر نہ رہ جائے۔

پچاس سال قبل میری زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ علیگڑھ کے سلسلہ میں میرے دلی جذبات کی عکاسی کرتے تھے اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میرے ان جذبات نے میری زندگی ہی میں عمل کی شکل اختیار کرلی۔

بنگال میں نواب علی چودھری اور نواب آف ڈھاکہ، اور پنجاب میں سر محمد شفیع اورسر ذوالفقار علی خاں کی قیادت میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری کافی مستحکم ہوچلی تھی اور میں اپنا کافی وقت توانائیاں اور دلچسپیاں علی گڑھ پر مرکوز کئے ہوئے تھا۔ میں خود کو ایک رکنی تیزابی گروپ سمجھتا تھا جس کا مقصد علی گڑھ کو ایک عظیم مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کرنا تھا۔ اس زمانہ میں ہم نے اس منصوبہ کے لئے لوگوں میں کافی جوش اور ولولہ پیدا کردیا لیکن ہماری اس تحریک کو ان طاقتور برطانوی عناصر کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا جن کی دلیل یہ تھی کہ مسلمانوں کی یونیورسٹی کا قیام نامناسب ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ اور مفادات خصوصی کی ذہنیت اور تعلیمات کو فروغ حاصل ہوگا۔ میں نے اپنی تمام تقریروں، اپنے تمام مضامین اور مالی امداد کے لئے اپنی تمام اپیلوں میں اس انداز فکر کی تردید کی اور اس بات پر زور دیا کہ فرزدان علی گڑھ لک کے طول وعرض میں، آزاد خیالی، وسیع القلبی اور رواداری اور اخلاقیات کا پیغام پھیلائیں گے۔" مجھے اپنے اس مقصد میں کچھ بلند مرتبہ لوگوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لارڈ منٹو کی جگہ پر لارڈ ہارڈنگ وائسرائے مقرر ہوئے جو ایک آزمودہ کار سیاست داں اور مدبر تھے ، وہ ایران اور مشرق وسطی کے بہت سے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزار چکے تھے۔ وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل میں محکمہ تعلیم کے انچارج سر ہر کورٹ بٹلر تھے۔جو ایک لائق منتظم اور ذہن افسر تھے۔ لارڈ ہارڈنگ اور سر ہر کورٹ دونوں نے مسلمانوں کی پوزیشن کو محسوس کیااور وہ دونوں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مختلف سماجی ، ثقافتی اور روحانی پس منظروں سے بھی آگاہ تھے۔ جہاں تک میرا تعلق تھا میں نے بار بار یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو ان کی ترقی کا آخری ذریعہ نہیں سمجھتا میں اس خیال کا تھا کہ مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ذریعہ اعلیٰ تعلیم بھی ہے۔ میرے ذہن میں کوئی بھی تنگ دلانہ اور فرقہ وارانہ مقصد نہیں تھا۔ میں نے شروع ہی سے یہ بات کہی تھی کہ یونیورسٹی میں سنسکرت کی تعلیم ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ ہی ہندو تہذیب، دھرم اور فلسفہ کی بھی تعلیم ہونی چاہئے تاکہ ہمارے عوام اپنے ذہنوں کو اچھی طرح سمجھ سکیں، مسلمانوں کی اپنی یونیورسٹی کی ضرورت کے سلسلہ میں میری دلیل یہ تھی کہ یہ یونیورسٹی اسلام کے روحانی اتحاد کو فروغ دینے کا ایک مفید اور دیرپا ذریعہ ہوگی۔

دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانے اور سرمایہ فراہم کرنے کا کام جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ میں نے پورے ہندوستان کی خاک چھانی اور عظیم مسلم لیڈروں ، غریبوں اور امیروں، راجاؤں اور کسانوں کے سامنے دست طلب بڑھایا۔ خود میں نے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ یہ رقم اس زمانہ میں بہت بڑی تھی ، اور میں نے کل تیس لاکھ روپے جمع کئے۔ یہ کام میں نے برسوں کی جانفشانی اور محنت سے کیا۔ میں ہفتوں سفر میں رہتا، اور ٹرینوں ہی میں کھاتا پیتا اور سوتا، جس جگہ بھی ٹرین رکتی میں پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو خطاب کرتا ، ہر مناسب موقع پر میں علی گڑھ کے کاز کا تذکرہ کرتا۔ اس پورے سفر میں میرے اعزازی پرائیوٹ سکریٹری اور دست راست مولانا شوکت علی مرحوم تھے ان کی لگن اور جان توڑ کوششوں کے بغیر میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ بالآخر1910ء میں ناگپور میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں ہماری تحریک اپنی انتہا کو پہنچ گئی ، جہاں ایجنڈہ کا خاص آئیٹم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پروجیکٹ تھا۔ کانفرنس کے چیر مین مسٹر یوسف علی نے ہمارے مقاصد کی وضاحت بڑے اچھے انداز میں کی۔ انہوں نے کہا" اس میں افکار کی آزادی اور پاکیزگی کی ہمت افزائی کی جائے گی۔" یہ اس معنی میں مسلم یونیورسٹی ہوگی کہ ان نظریات کو فروغ دے گی جو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی دو نسلوں کے تعلیمی تجربات سے تشکیل دئے تھے۔"

اب، جب میں علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی کے مقاصد اور گزشتہ چالیس برسوں میں اس کی کامیابیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو بے ساختہ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ بلا شبہ یہ میری زندگی کا ایک کارنامہ ہے جس پر میں فخر کرسکتا ہوں ، میں صرف اس کے سیاسی نتائج پر زور نہیں دیناچاہتا کہ یہ وقتی تھے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ اور کہاں یہ بات ممکن تھی کہ ہم اپنی دنیا اور اپنے زمانہ کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لئے لائبریریوں کے ساتھ ہر قسم کے سامان سے آراستہ لیباریٹریا قائم کرتے۔ جسے ہم اسلامی عقائد اور تہذیب کا حقیقی مرکز بناتے اور جہاں ہم اپنے مذہب کے اصولوں، اس کی آفاقیت اور حقیقی جدیدیت، اس کی بنیادی شائستگی اور رواداری کے جذبہ پر عمل کرتے ہوئے دیگر عقائد کا احترام کرسکتے۔ یہ بات میرے لئے انتہائی کوشی، سکون اور اعتماد کی ہے کہ میں نے اس قسم کے مرکز کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔

1912ء کے اوائل میں دہلی دربار ہوا جس میں شہنشاہ برطانیہ اور ملکہ نے شرکت کی۔ دربار کے موقع پر ہندوستان کی راجدھانی کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا اعلان ہوا۔ اور راجدھانی کے شایان شان ایک نیا شہر(نئی دہلی) تعمیر کیا گیا۔ بنگال کی تقسیم کو کالعدم قرار دیا گیا اور علیگڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور مجھے شہنشاہ برطانیہ نے سب سے بڑا اعزاز "جی ، سی، ایس ، آئی" دیا۔

Muslim University is the greatest achievement of my life, His highness Sir Agha Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں