ھما ڈائجسٹ - علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نمبر اگست-1972 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-13

ھما ڈائجسٹ - علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نمبر اگست-1972 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

huma-digest-amu-number
ھما کا شمار ہندوستان کے ان چند قدیم اور مقبول عام اردو ڈائجسٹوں میں ہوتا ہے جس نے ہر مزاج کے قارئین کے درمیان اپنی شناخت قائم کی ہے۔ 1964 میں اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والا یہ ڈائجسٹ آج بھی جاری ہے۔ ماضی میں اس ڈائجسٹ نے متعدد منفرد و مفید موضوعات پر خاص نمبر شائع کیے تھے جن میں سے ایک خصوصی شمارہ اگست 1972ء میں "علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نمبر" کے بطور شائع کیا گیا۔
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نے کتنے عظیم کارنامے انجام دئے، کیسی کیسی نامور شخصیتیں پیدا کیں جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں کس طرح اپنی افادیت اور خدمات کے جھنڈے گاڑے، یہ سب کچھ اس خاص شمارے کے مطالعے سے معلوم ہو سکے گا۔
ہندوستانی میدانِ تعلیم میں بالعموم مسلم اداروں اور بالخصوص اے۔ایم۔یو کی کاوشیں اور ان کے کردار سے متعلق معلومات کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے تعمیرنیوز کی جانب سے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ خاص شمارہ پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 21 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس خصوصی شمارے کے اداریے (بعنوان: 73 ویں منزل) میں مدیر رسالہ لکھتے ہیں ۔۔۔
مدرسۃ العلوم علیگڈھ کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب فرنگی ہندوستانیوں کو مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے متنفر کر کے "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی پالیسی پر عمل کر رہے تھے۔ ایسے میں کسی گمان ہو سکتا تھا کہ کوئی سرپھرا ہندوستانی انگریزوں کی اس بنیادی پالیسی پر ضرب کاری لگانے کی جرات کر سکتا ہے۔ لیکن سید احمد خاں نے "جام و سنداں باختن" کا یہ کھیل اتنے خوبصورت انداز میں کھیلا کہ باغباں بھی خوش رہا اور صیاد بھی ناراض نہ ہوا۔
یعنی انہوں نے یہ علمی مرکز قائم تو اس لیے کیا کہ مسلمانوں کو علوم جدیدہ سے آشنا بنا کر ترقی کی دوڑ میں دوسرے ہم وطنوں سے پیچھے نہ رہنے دیا جائے لیکن ان کی حکمت عملی کا روشن ترین پہلو یہ تھا کہ جب حاکم و محکوم دونوں میں سے کوئی بھی "سیکولرزم" کی اصطلاح سے آشنا نہ تھا اس وقت انہوں نے اس مبارک مدرسہ میں نعروں اور ڈھنڈوروں کے بغیر "سیکولرزم" کی بنیادیں استوار کیں، انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت کے افعیٰ کا سر خاموشی کے ساتھ کچلا، انہوں نے ہندو مسلمان کو اس مادر علمی کی آغوش میں بھائی بھائی بن کر رہنا سکھایا۔ اساتذہ کی صف ہو یا طلبا کی دنیا، یہاں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز کہیں سر نہ ابھار سکا، اور یہ حسین منظر ایسی حالت میں تھا کہ اس ادارہ کے سر پر "مسلم" کا طغرائے امتیاز تھا، یہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس کے ذریعہ مسلمانوں کی علمی پسماندگی دور کرنی تھی۔ یہاں مسلم فرقوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام تھا۔ یہاں ان کی عبادت گاہیں تھیں۔ گویا یہاں کا در و بست مسلم تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا اور اس کے بغیر یہاں رواداری ہوتی، یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوتی اور یہاں سچی ہندوستانیت ہوتی تو ان محاسن کا سہرا مسلمانوں کے سر کیسے بندھ سکتا؟
مسلمانوں کو تو اس کا کریڈٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب رواداری، بھائی چارے، فرقہ وارانہ میل ملاپ اور باہمی محبت و یکجہتی کا مظاہرہ ایسے ماحول میں ہو جہاں کے مالک و مختار بلاشرکت غیرے وہ خود ہوں اور سید احمد خاں نے یہی کر کے دکھایا اور آنے والی مسلمان نسلوں کے لیے آب زر سے لکھنے کے لائق یہ سنہرا ضابطۂ حیات چھوڑا۔
مسلم یونیورسٹی کا یہ مثالی کردار آزاد ہندوستان کے آزاد باشندوں کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے اور آج جبکہ فرقہ وارانہ یکجہتی اور سیکولرزم کے مفہوم اور اس کی اہمیت سے ہر ہندوستانی واقف ہو چکا ہے، مسلم یونیورسٹی کے اس امتیاز کو نہ صرف محفوظ رکھنے کی بلکہ اسے اور اجاگر کرنے کی بہترین کوششیں ہونی چاہیے۔ اور یہی مزاج دوسرے تمام ایسے تعلیمی اداروں کا بنانا چاہیے جو کسی ایک فرقہ کے ساتھ منسوب ہوں اور جن پر ان کا مکمل انتظامی اور عملی کنٹرول ہو۔ اربابِ حکومت اور مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس راز کو سمجھنا چاہیے کہ یکجہتی وہی دیرپا اور بہترین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے جو اپنے اندر سے پیدا ہو۔ باہر سے لادی ہوئی یکجہتی سے پیدا ہونے والے نتائج نہ دیرپا ہوں گے نہ نتیجہ خیز۔

مسلم یونیورسٹی ایکٹ
مسلم یونیورسٹی بل جسے حکومت نے حیران کن سرعت اور چابکدستی سے ایکٹ کی شکل دے دی، آج کل اربابِ دانش اور اہل فکر کے لیے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس کی مخالفت بھی ہو رہی ہے اور موافقت بھی۔ "ہما" کا یہ خاص نمبر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ایکٹ کے حامیوں اور مخالفوں کو مسلم یونیورسٹی کی حقیقت اور اس کا نصب العین سمجھنے میں مدد ملے اور ان کی حمایت یا مخالفت 'اندھے کی لاٹھی' نہ بن جائے۔ ہم اس مختصر معروضہ میں ایکٹ کی خامیوں اور خوبیوں سے بحث نہ کر سکیں گے پھر بھی چند ضروری پہلوؤں پر روشنی ضرور ڈالیں گے۔
ایکٹ نے یونیورسٹی کے سر پر "مسلم" کا طغرائے امتیاز باقی رکھا ہے، اسلامی عبادت گاہوں کو باقی رکھا ہے، اسلامیات کے مطالعہ کا دروازہ بند نہیں کیا ہے، لیکن اس مطالعہ کے سلسلے میں یہ اضافہ ضرور کر دیا ہے کہ:
اسلامیات کے مطالعہ کے ساتھ ہی یہاں ہندوستانی مذاہب اور تہذیب کا مطالعہ بھی کیا جائے گا۔
یہاں بالارادہ نہ سہی 'اسلام اور ہندوستان کے دوسرے مذاہب' کے درمیان جو حد فاصل قائم ہو گئی ہے، وہ ذہنی اعتبار سے کتنے بھیانک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں ہے۔ کاش یہی بات اس طرح کہی گئی ہوتی کہ:
اسلامیات کے مطالعہ کے ساتھ ہی یہاں ہندوستان کے دوسرے مذاہب اور تہذیب کے مطالعہ کا انتظام بھی کیا جائے گا۔
تو کتنی اچھی بات ہوتی اور ایک لفظ "دوسرے" کے اضافہ سے مفہوم کتنا خوشگوار ہو جاتا ۔۔۔

اسی طرح ایکٹ کے مخالفوں اور حامیوں نے "اقلیتی کردار" اور "تاریخی کردار" کی نئی اصطلاحات کے جھگڑے کھڑے کر کے بات کا بتنگڑ بنا دیا ہے۔ حالانکہ ایک مسلم یونیورسٹی کا کردار "مسلم" ہی ہونا چاہیے۔ یعنی وہی "تاریخی کردار" جو سید احمد خاں کے پیش نظر تھا اور جس کا عملی مظاہرہ مدرسۃ العلوم کے قیام سے لے کر یونیورسٹی کی اب تک کی عملی زندگی سے ہوتا رہا ہے۔۔۔ اگر یونیورسٹی کو "مسلم یونیورسٹی" تسلیم کر لینے کے بعد اس کے کردار کو اب تک کا روایتی مسلم کردار تسلیم کر لیا جاتا تو نہ "اقلیتی کردار" کی اصطلاح وضع کرنے کی ضرورت ہوتی نہ "تاریخی کردار" پر زور دینے کی احتیاج باقی رہتی۔
یہ کہنا بھی اپنے اندر کچھ وزن نہیں رکھتا کہ اسے اقلیتی (مسلم) ادارہ تسلیم کر لیا جائے گا تو اس میں صرف سات آٹھ ہزار مسلمان تعلیم حاصل کر سکیں گے ، باقی مسلمان تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہاں جائیں گے؟ مسلم یونیورسٹی کو مسلم ادارہ تسلیم کر لینے کے یہ معنی تو نہیں ہوں گے کہ دوسرے تعلیمی اداروں کے دروازے مسلمان طلبا پر بند ہو جائیں گے۔ جس طرح مسلم یونیورسٹی کے دروازے غیر مسلم طلبا کے لیے کھلے ہوئے ہیں اسی طرح دوسرے تعلیمی اداروں کے دروازے مسلم طلبا کے لیے کھلے رہیں گے۔
اگر صرف لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول یا کالج مخصوص ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ لڑکیاں دوسرے اسکولوں یا کالجوں میں داخلہ نہیں لے سکتیں۔ یا کسی ٹرین میں زنانہ کمپارٹمنٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عورتیں کسی دوسرے کمپارٹمنٹ میں بیٹھ ہی نہیں سکتیں، تو کسی اقلیتی ادارہ کی تعلیم گاہ کا بھی یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اس اقلیت کے امیدوار دوسری تعلیم گاہوں میں داخل ہی نہیں ہو سکتے۔۔۔
اسی طرح کسی اقلیت کی تعلیم و کلچر وغیرہ کی حفاظت کے لیے حکومت کی طرف سے مالی امداد دینا بھی اس اقلیت کی خصوصیات کو ختم کر دینے کا موجب نہیں بن سکتا نہ اس کے "نیشنل" ہونے کے منافی ہو سکتا ہے۔ اقلیتیں بھی قوم کا ایک حصہ ہیں اور ان کی ہر حیثیت کی حفاظت کرنا ایک اچھی اور جمہوری حکومت کا ضروری فریضہ ہے۔ اس لیے کسی اقلیتی ادارہ کو مالی امداد دے کر اس کی روح اور بنیادی حیثیت کو ختم کرنے کا بہانہ کسی انصاف پسند کے نزدیک جائز نہیں ہو سکتا۔

حرفِ آخر:
اس وسیع موضوع پر ان مختصر گذارشات کے بعد ہم ارباب حکومت سے عرض کریں گے کہ وہ کسی لفظی بحث میں پڑ کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات کے احترام کو ترک نہ کریں اور قانون کو ایسی شکل دینے کا جرات مندانہ اقدام کریں جو مسلمانوں کی جائز خواہشات کو پورا کر سکے اور مسلمانوں سے ہماری درخواست یہ ہے کہ وہ سید احمد خاں کی پالیسی کو سمجھیں اور اس پر عمل کر کے زندگی کی دوڑ میں مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے سے بچائیں۔ یہی ہمارا مشورہ ہے اور یہی ہماری درخواست ہے۔

- عبدالوحید صدیقی

***
نام رسالہ: ھما ڈائجسٹ دہلی - (علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نمبر) اگست 1972
مدیر: عبدالوحید صدیقی
تعداد صفحات: 293
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 21 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Huma AMU Number_Aug-1972.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:


Huma Digest, Aligarh Muslim University special issue: Aug. 1972, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں