رجب اور شب معراج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-03

رجب اور شب معراج

israa-meraj
رجب ، اسلامی کیلنڈر کے حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے جسے "رجب المرجب" بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق)۔
عربی زبان میں "رجب" کے معنی ہیں تعظیم کرنا اور "مرجب" معظم کے معنوں میں آتا ہے یعنی عظمت والا۔ اس کو رجب مضر بھی کہتے ہیں۔ مضر عربوں کے ایک قبیلے کا نام ہے، جس نے دورِ جاہلیت میں خاص طور پر اس ماہ کی حرمت کا اہتمام کیا، اسی نسبت کی بنا پر اسے اس قبیلے سے منسوب کر دیا گیا۔

لوگ ماہ رجب میں خصوصی طور پر عمرہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں جبکہ احادیث سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس ماہ میں عمرہ ادا کیا ہو۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر اس کی تردید بھی کی ہے۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
رسول اللہ ؐ نے رجب میں کبھی بھی عمرہ ادا نہیں کیا۔ (صحیح بخاری)

بعض لوگ 27/رجب کا روزہ رکھتے ہیں اور اس روزے کو عام دنوں کے روزوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ ہر چند کہ متعدد احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخصوص دنوں یا تاریخوں میں نفلی روزوں کا اہتمام کرنا ثابت ہے جیسا کہ ایام بیض میں (ہر قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ) یا ہر پیر اور جمعرات کو ، ذو الحجہ کے ابتدائی عشرے میں ، 9 اور 10 محرم کو یا پھر کثرت سے ماہ شعبان میں ۔۔۔ ان تمام کے بارے میں صحیح اور مستند احادیث ملتی ہیں لیکن 27/رجب کے روزے کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ماہ میں نہ صرف یہ کہ روزہ رکھنے سے منع کیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر مجبور کرتے کہ وہ روزہ توڑ دیں کیونکہ ماہ رجب کی تعظیم اور اس میں روزہ رکھنا دورِ جاہلیت کی رسم تھی۔ (بحوالہ: مصنف ابن بی شیبہ)
البتہ اگر کوئی شخص بطور عادت ہر ماہ چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ یا پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتا ہے تو اس ماہ میں بھی رکھ سکتا ہے۔

27/رجب کی رات کو جاگ کر عبادت کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی نسبت واقعۂ معراج کی طرف کی جاتی ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں واقعہ معراج کے بعد اس رات کسی خصوصی عبادت کا نہ تو اہتمام کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل 27/رجب کی شب خصوصی عبادت کے بارے میں وارد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کرام یا ازواج مطہرات میں سے بھی کسی نے اس کا اہتمام نہیں کیا۔ لہذا ایسے تمام طریقوں اور کاموں سے بچنے کی ضرورت ہے جو دین کے نام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد کر لیے گئے ہوں۔

واقعہ معراج کے ظہور کی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں کم و بیش 36 مختلف اقوال ملتے ہیں۔ بعض کے مطابق یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا، بعض نے رمضان، بعض نے ہجرت کے چند سال بعد اور بعض نے چند ماہ قبل کہا۔ اس کی حتمی تاریخ کسی صحیح حدیث سے یقینی طور پر ثابت نہیں ہے، تاہم یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی کے آخری حصے میں یہ خاص مشاہدہ کرایا گیا ، جس میں ہمارے لیے سیکھنے اور عمل کرنے کے بہت سے پہلو ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، یقیناً وہ (اللہ تعالیٰ) خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔
(سورہ بنی اسرائیل : 1)

اس آیت میں جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ "اسراء" کے نام سے مشہور ہے۔ اسراء کے لفظی معنی ہیں:
رات کو سفر کرنا، رات کو چلنا۔
یہ وہی سفر ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم اور روح سمیت مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (فلسطین) تک معجزاتی طور پر لے جایا گیا ، فرشتوں کی ہم نشینی کا یہ سفر اس زمانے کے حالات، اسبابِ سفر اور فاصلے کی طوالت کی وجہ سے انسانی عقل و سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن جیسا کہ آیت میں واضح کیا گیا:
"پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے کو لے گیا"
تو جس ذات میں کمالِ قدرت ہو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس حیرت انگیز اور ایمان افروز سفر کی تفاصیل بخاری اور مسلم سمیت احادیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں۔

آغاز سفر اور شقِ صدر
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ۔۔۔
معراج کی رات، جب بیت اللہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسم) کو لے جایا گیا، تو وحی آنے سے قبل آپؐ کے پاس تین فرشتے آئے ، اس وقت آپؐ مسجد الحرام میں سو رہے تھے، ان میں سے ایک نے پوچھا: "وہ کون ہیں"؟
دوسرے نے جواب دیا: "وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔"
تیسرے نے کہا: "ان میں جو سب سے بہتر ہیں انھیں لے لو"۔
اس رات اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبیؐ نے اس کے بعد انھیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جبکہ آپؐ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ تمام انبیاء کی نیند ایسی ہی ہوتی ہے۔ انھوں نے آپؐ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ آپ کو اٹھا کر چاہِ زم زم کے پاس لٹایا۔ یہاں جبریلؑ نے اپنا کام سنبھالا اور سینہ مبارک گردن تک خود اپنے ہاتھ سے چاک کیا اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر انہیں اپنے ہاتھ سے زم زم کے پانی سے دھویا، جب خوب دھو چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت اور ایمان سے پر تھا، اس سے آپؐ کے سینے اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا اور سینہ مبارک پھر سے سی دیا گیا۔
(صحیح بخاری ، کتاب التوحيد)

مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک : اسراء
حضرت جبرئیل براق کے ساتھ تشریف لائے ، یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور تھا، جو اپنا کھر اپنی نگاہ کے آخری مقام پر رکھتا تھا۔ اس وقت نبیؐ مسجد حرام میں تھے ، آپ جبرئیل کے ساتھ بیت المقدس میں تشریف لائے اور وہاں جس حلقے میں انبیاء اپنی سواریاں باندھتے تھے، اسی میں براق کو باندھ دیا۔ پھر مسجد اقصی میں داخل ہوئے، دو رکعت نماز پڑھی اور اس میں انبیاء کی امامت فرمائی ۔ اس کے بعد آپ کے پاس شراب ، دودھ اور شہد کے برتن لائے گئے آپ نے دودھ پسند فرمایا۔ جبرئیل نے کہا :
"آپؐ نے فطرت پائی، آپ کو ہدایت نصیب ہوئی اور آپ کی امت کو بھی"۔
(بحوالہ: مسند احمد)

مسجد اقصی سے آسمانوں کی طرف: معراج
مسجد اقصی سے آپ کو عالم بالا میں لے جایا گیا۔ معراج عربی میں سیڑھی کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اس نسبت سے سفر کے اس حصہ کو بھی معراج کہا گیا۔
بیشتر مفسرین کے نزدیک سورة الجم کی درج ذیل آیات واقعہ معراج کی دلیل ہیں۔
(سورہ النجم: 13 تا 18)
اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرة المنتہی کے پاس اس کو اترتے دیکھا، جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے، اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا، جو کچھ چھا رہا تھا ، نہ نگاہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

مندرجہ بالا آیات میں نبی کریمؐ کے آسمانوں کی طرف جانے اور سدرة المنتہی اور اس کے آس پاس کی چیزوں کو دیکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

سفر آسمان
مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی امامت کے بعد سواری کے لیے براق پیش کیا گیا، آپؐ دوبارہ اس پر سوار ہو کر پہلے آسمان تک گئے، جبرئیل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، فرشتوں کی طرف سے پوچھا گیا:" کون ہیں ؟"
جبرئیل نے فرمایا : "میں جبرئیل ہوں"
پوچھا گیا: "ساتھ کون ہیں؟"
بتایا گیا "محمدؐ ہیں"
پوچھا گیا: "ان کو پیغام الہی دے کر بھیجا گیا ہے؟"
جبریل نے کہا: "ہاں"
تب اندر والے فرشتے نے سن کر کہا: "مرحبا! آپ بہت اچھے آئے"
آپؐ فرماتے ہیں : میں وہاں پہنچا تو آدمؑ موجود تھے، جبرئیل نے کہا کہ یہ آپ کے باپ آدمؑ نہیں، انہیں سلام کیجیے ، میں نے انہیں سلام کیا تو آپؑ نے جواب دیا:
مرحاب! فرزند صالح، نبی صالح اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب التوحید)

ماخوذ از کتاب: رجب اور شب معراج۔ تالیف: الھدیٰ شعبۂ تحقیق (پاکستان)

Isr'a & Me'raj and the month Rajab.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں