الہلال - مولانا ابوالکلام آزاد کا یادگار صحافتی جریدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-08

الہلال - مولانا ابوالکلام آزاد کا یادگار صحافتی جریدہ

alhilal-maulana-azad
13/جولائی 1912ء کو "الہلال" کا اجرا عمل میں آیا۔ یہ ہفتہ وار پرچہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کے متعلق لکھا تھا کہ:
امر بالمعروف و النھی عن المنکر
یعنی لوگوں کو نیک اعمال کی ترغیب دلانا اور برائی سے روکنا، اس پرچے کا بنیادی مقصد تھا۔ ابوالکلام نے اپنے پرچے کے لیے فصاحت اور بلاغت کا عمدہ انداز اختیار کیا۔ مولانا نے اس پرچے میں زبان و اسلوب کی تمام تر جلوہ سامانیوں کا اہتمام کیا ہے۔ عربی و فارسی الفاظ کی کثرت، جملوں کی ساخت، تحریر میں اشعار کا برمحل استعمال، تشبیہات اور استعارات کی مرصع کاری سے مولانا نے اپنی تحریر کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ اس طرزِ خاص کے وہ خود بانی بھی ہیں اور خاتم بھی۔ الہلال کے متعلق ڈاکٹر انوار احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:
"الہلال، اپنے ظاہری حسن، اردو ٹائپ کے اہتمام، کاغذ کی نفاست، تصویروں کی شمولیت، مضامین کی تقسیم، افکار و معلومات کے تنوع، خیالات کی بلندی، مذہب، سیاست، تاریخ، تعلیم، ادب کی جامعیت، زبان کے حسن، اسلوب کی دل ربائی اور ظاہر و باطن کے محاسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ اس سے پہلے ان محاسن کا جامع کوئی اخبار نہ تھا اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ دراز تک اس کی کوئی مثال نہ پیش کی جا سکی اور آج بھی اگر رنگین و حسین طباعت کی دل فریبیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو علمی مضامین کی بلندی، انقلابی افکار اور ظاہر و باطن کے حسن و سلیقے میں کوئی اخبار اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔"
(بحوالہ: مولانا آزاد کی ادبی صحافت [الہلال و البلاغ کے خصوصی حوالے سے]، 2006ء، ڈاکٹر انوار احمد۔ ص:91۔)

الہلال کے پیش نظر دو مقصد تھے:
پہلا یہ کہ مسلمانوں کو اللہ کی کتاب قرآن حکیم کی تعلیمات سے واقف کرانا اور سنتِ رسول (ﷺ) پر عمل کرنے کی دعوت دینا۔
اور دوسرے یہ کہ اردو زبان میں ایسا معیاری اور بلند پرچہ شائع کرنا جو علم و ادب، سیاست و صحافت ہر اعتبار سے زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ دے سکے۔ مولانا اس پرچے کے ذریعہ قوم میں بیداری پیدا کرنا چاہتے تھے، قوم کو ایک نئی سوچ اور فکر دینا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مولانا نے شروع سے ہی پرچے میں دو باب قائم کر دئے تھے، انہیں دونوں باب کے ذیل میں تمام قسم کی تحریریں اور مقالات شائع ہوئے۔ اس طرح الہلال نہ صرف ایک صحیفہ بلکہ آفاقی زندگی کا ترجمان بن گیا۔ مولانا ادب برائے زندگی کے قائل تھے یہی وجہ ہے کہ الہلال جب ایک دفعہ بند ہو کر دوبارہ 1927ء میں نکلنا شروع ہوا تو اس میں مولانا نے "افسانہ" کا ایک مستقل باب قائم کیا جس میں عام طور سے غیرملکی (انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، ترکی اور روسی) زبانوں کے افسانوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔
مشہور فرانسیسی انشا پرداز وکٹر ہیوگو [Victor Heugo] کی معرکۃ الآرا کتاب 'Le Misreable' کا ترجمہ بھی دو اقساط میں الہلال میں شائع ہوا۔ مولانا آزاد بڑے شاعر تو نہ تھے لیکن ان کا شعری ذوق بلند تھا۔ انہیں ہزاروں اشعار یاد تھے، جنہیں وہ اپنی تحریروں میں بےحد خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ غالب و عرفی ان کے پسندیدہ شاعر تھے اور ان کے شعروں سے مولانا نے اپنی تحریروں کو دل فریب بنانے کا خوب کام لیا۔ عتیق صدیقی لکھتے ہیں:
مولانا نے اپنی تحریروں میں غالب کے اشعار اس چابک دستی سے انگوٹھی میں نگینوں کی طرح جوڑے ہیں جیسے ان ہی مواقع کے لیے وہ اشعار کہے گئے تھے۔ بیشتر مقامات پر مولانا آزاد کے حسن استعمال نے غالب کے اشعار کی موثر اور قابلِ قدر شرح فراہم کر دی ہے۔
(بحوالہ: غالب اور ابوالکلام آزاد۔ مرتب: عتیق صدیقی، مکتبہ شاہراہ، دہلی، 1969ء۔ ص:158۔)
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
مولانا آزاد الہلال کے آئینہ میں - از ملک زادہ منظور احمد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
مولانا ابوالکلام آزاد اور پریس کی آزادی
الہلال ایک انقلابی پرچہ تھا، بہت حد تک اس کا خمیر قرآنی تعلیمات سے اٹھایا گیا تھا، اس کے مخاطب مسلمان تھے۔ الہلال کے اداریے سے جو حضرات منسلک تھے ان میں مولوی عبدالواجد ندوی، عبداللہ عمادی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، حامد علی صدیقی، مولانا رکن الدین دانا سہسرامی، مرزا محمد عسکری، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی وغیرہ۔ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اپنی قلمی نگارشات سے ہمیشہ الہلال کی مدد کی اور اسے ایک مثالی پرچہ بنا دیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار لکھتے ہیں:
"زمیندار، ہمدرد اور الہلال اس دور صحافت کے اہم ترین نمائندے تھے اور شاید صحیح معنی میں اردو ادب میں باقاعدہ اور سائنٹفک صحافت کے بانی بھی۔ الہلال اس تثلیت کا سب سے ممتاز رکن تھا کیونکہ اس نے صحافت کے فن کو فنی حیثیت سے سب سے زیادہ سلیقے سے برتا اور ایڈیٹر اور اخبار دونوں کی کم عمری کے باوجود سب سے زیادہ دیرپا اثر چھوڑا۔
(بحوالہ: آزاد ایک صحافی، سہ ماہی اردو ادب، انجمن ترقی اردو ہند، 1959ء۔)

الہلال کا دور اول جولائی 1912ء تا 1914ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرے دور میں یہ "البلاغ" کے نام سے نکلا اور نومبر 1915ء سے مارچ 1916ء تک نکلتا رہا، پھر یہ بند ہو گیا۔ دورِ ثالث کا آغاز 10/جون 1927ء کو ہوا اور صرف چھ مہینے کے قلیل عرصے تک یہ پرچہ نکلا اور دسمبر 1927ء میں یہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
تیسرا دور جو محض چھ ماہ کی مدت پر مشتمل ہے، تاریخی، علمی، ادبی اور صحافتی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دور میں دعوت اور تحریک سے زیادہ علمی، ادبی اور تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔ سیاسی مضامین کی تعداد کم اور علمی ادبی مباحث زیادہ تھے۔ تیسرے دور میں پچیس شمارے اور چوبیس اشاعتیں عمل میں آئی ہیں۔ طباعت اور کتابت کے لحاظ سے الہلال کا دور ثالث، اول اور دوم سے اعلیٰ پایہ کا ہے۔ الہلال (دور اول) اور البلاغ (دور ثانی) ٹائپ میں نکلتا تھا جبکہ الہلال (دور ثالث) لیتھو پر نکلتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً اسی/نوے سال گزر جانے کے بعد آج بھی اس پرچے کے مضامین تاریخی اور ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔
ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ الہلال اور البلاغ عوامی پرچے نہیں تھے، ان کی حیثیت اخبار کی نہیں، جریدے کی تھی اور ان کے مخاطب عوام نہیں خواص تھے۔ الہلال ایک مصور پرچہ تھا۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری لکھتے ہیں:
"اردو زبان کی ترقی اور لسانیات و اصطلاحات کے بارے میں 'لسان الصدق' نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا اور جس تعمیر کی بنیاد ڈالی تھی، اس پر عمارت 'الہلال' نے کھڑی کی۔ اس بارے میں 'لسان الصدق' اور 'الہلال' ایک تحریک کے دور ادوار کے جلی عنوان ہیں۔"
(بحوالہ: مولانا آزاد کی ادبی صحافت [الہلال و البلاغ کے خصوصی حوالے سے]، 2006ء، ڈاکٹر انوار احمد۔ ص:301۔)

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ الہلال اردو کا پہلا جریدہ تھا جس میں مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ کی بھی سیاسی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ الہلال نے اپنے قارئین کو پہلی دفعہ عالمی سیاسی تحریکات اور تاریخی شخصیات سے متعارف کروایا۔ عوام کے ذہن و فکر کی تشکیل اور سیرت کی تعمیر میں نمایاں رول ادا کیا۔ ایک منفرد خطیبانہ اسلوب بیان کی داغ بیل ڈالی، اردو زبان میں سینکڑوں نئے الفاظ و تراکیب کا اضافہ کیا، علمی اصطلاحات وضع کیں وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اخبار ہونے کے باوجود اردو کی ادبی صحافت کی تاریخ میں اس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔

***
ماخذ: اردو میں ادبی صحافت - 1935 سے 1960 تک (اہم رسائل کی روشنی میں) (مقالہ پی۔ایچ۔ڈی برائے 2016ء)
نگران: پروفیسر قاضی جمال حسین، شعبۂ اردو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی
مقالہ نگار: ڈاکٹر اکرم وارث (شعبۂ اردو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی)

Al-Hilal, Maulana Abul Kalam Azad's prominent Journal.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں