کے معروف و مقبول اخبار "الہلال" کا اجرا اردو صحافت اور اردو دانوں کے لیے ایک چونکا دینے والا واقعہ تھا۔ اردو خواں عوام نے ایسا فعال جریدہ ابھی تک نہ دیکھا تھا جو اپنی زندگی کی ابتدائی منزلوں ہی میں آندھی اور طوفان بن کر لوگوں کے دل و دماغ پر چھا گیا۔ اس کے پیچھے مولانا کی گذشتہ صحافتی زندگی کے تجربات کے علاوہ ان کا تبحر علمی اور اسی کے ساتھ ساتھ روح عصر کی باگ پکڑ کر متعینہ منزل کی طرف اس کا رخ پھیر دینے کا عزم بھی کام کر رہا تھا۔
زیرنظر کتاب "مولانا آزاد الہلال کے آئینہ میں" میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ابتدائی صحافتی زندگی کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے ان افکار و خیالات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی تبلیغ مولانا نے الہلال و البلاغ کے ذریعے اپنے عنفوان شباب میں کی تھی۔
ڈاکٹر ملک زادہ منظور کے تقریباً ایک درجن علمی، تحقیقی و تجزیاتی مضامین پر مشتمل 1972ء میں شائع شدہ یہ اہم اور یادگار کتاب مولانا آزاد کے 132 ویں یومِ پیدائش پر باذوق قارئین و محققین کے لیے تعمیرنیوز کی جانب سے پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کتاب کے مضامین کے عنوانات ہیں:پیش لفظ، صحافت کی مشق، ابتدائی مشق کا جائزہ، الہلال کا اجرا، سوا دو حروف، الہلال کی ضمانت، البلاغ، الہلال کا ادارۂ تحریر، الہلال کی دعوت، مشرق وسطی کے مسائل، جدوجہد آزادی اور ہندی مسلمان، الہلال کا اسلوب تحریر، طنز و مزاح
اس کتاب کے پیش لفظ میں صاحبِ کتاب ملک زادہ منظور احمد لکھتے ہیں ۔۔۔مولانا آزاد نے اس بات کا بار بار اعادہ کیا کہ مسلمانوں کے پولیٹکل نصب العین کو بھی قرآن کریم سے ماخوذ ہونا چاہیے اور ان کو اس راہ میں بھی ازروئے مذہب قدم رکھنا چاہیے۔ انہوں نے بتلایا کہ اسلام اور قومیت ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں بلکہ مجموعی قومی مفاد کا تصور اسلامی تصورات کے عین مطابق ہے اور مذہب کا حقیقی تصور ایک سیکولر حکومت کی تشکیل کی دعوت اس لیے دیتا ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے پیروؤں پر ظلم نہ کر سکیں۔ وہ بحیثیت مسلمان کے، اسلام کی آفاقی تعلیمات اور حیات آفریں دعوت کا عشر عشیر چھوڑنے پر تیار نہ تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہونے کے ناتے وہ ہندوستان کی ساری تہذیبی میراث کے وارث بھی رہنا چاہتے تھے۔ مذہب و قومیت کا یہ متوازن امتزاج جو سیاسی حقوق طلبی میں برادرانِ وطن کے ساتھ بےخوفی، برابری اور اعتماد کا سبق دیتا ہے، مولانا نے الہلال کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر عام کیا اور ملک میں بسنے والی دیگر قوموں کے ساتھ ایک باعزت اشتراک کی دعوت دی۔ مولانا کے اس نقطۂ نظر میں نہ مذہبی دیوانگی تھی نہ مذہب کی آڑ بلکہ اس کے پیچھے مذہب کی وہ حقیقی روح کارفرما تھی جو تشکیک اور تذبذب اور کفر و الحاد کی وادیاں طے کرنے کے بعد انہوں نے حاصل کی تھی۔
الہلال کے ذریعے مولانا نے صحافت کے اصولوں کو جس سلیقے اور حسن کے ساتھ برتا اور ملکی و ملی مسائل پر جس بےلاگ اور حقیقت پسندانہ انداز میں غور و فکر کی دعوت دی وہ کسی دوسرے معاصر اخبار یا رسالہ سے نہ ہو سکا۔ اختلافی مسائل میں حریت فکر اور جرات مندی، دینی مسائل پر معقول نقطۂ نظر اور سائنٹفک صحافت کے اصول و ضوابط کو جس انداز میں مولانا نے اپنایا اور طباعت و ترتیب اور تصاویر کے اندراج کا جو اہتمام و انصرام انہوں نے کیا وہ اردو صحافت میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اسی فعال جریدہ کا کارنامہ تھا کہ نہ صرف اردو ادب پر بلکہ ملک کی قومی اور ملی تحریکات پر اس کی پرچھائیاں پڑیں اور اس ایک چراغ سے فکر و فن کے بہت سے نگار خانے منور ہو گئے۔
جس بےپناہ اخلاقی جرات کے ساتھ کسی خوف یا مصلحت اندیشی کے بغیر الہلال نے بات کی اور بات کہنا سکھایا اور حق دوستی اور حق پرستی کے شدید جذبہ کو قوتِ محرکہ میں تبدیل کیا وہ نہ صرف اردو ادب میں ایک روایت بن گیا ہے بلکہ اس کی مثال مولانا کے قبل کسی دوسرے ادیب کے یہاں نہیں ملتی۔
***
نام کتاب: مولانا آزاد الہلال کے آئینہ میں
مرتب: ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد
تعداد صفحات: 162
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Maulana Azad Al Hilal Ke Aaine Mein.pdf
Maulana Azad Al-Hilal Ke Aaine Mein by Dr. Malikzada Manzoor Ahmed, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں