دریائے گنگا کے کنارے ہلالی شکل میں بسا ہوا ہے۔ اور برنا کے سنگم سے اسی گھاٹ تک تقریباً دس کلومیٹر کی لمبائی میں آباد ہے۔ برنا اور اسی کے درمیان ہونے کی وجہ سے اس کا نام "بارانسی" تھا جو بگڑ کر وارانسی ہو گیا۔ اب حکومت نے دوبارہ قدامت پسندی کی طرف رجوع کرتے ہوئے بنارس کا نام وارانسی رکھ دیا ہے۔ گو اس نام کو پہلے بھی شہرت حاصل نہ ہو سکی۔ لیکن زمانۂ گذشتہ میں جو تاریخیں مرتب ہوئیں، ان میں بھی بنارس کا تذکرہ وارانسی یا بارانسی ہی کے نام سے ہے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ میں موجود ایک قلمی مخطوطہ 'چچ نامہ' (ص: 23) میں بھی بارانسی ہی کے نام سے اس کا ذکر ہے۔
(کتاب 'چچ نامہ' راجا داہر (مقتول 93ھ) کے والد راجا چچ (مقتول 55ھ) کی سوانح حیات پر مشتمل ہے)۔
دہلی سے بنارس 772 کلومیٹر اور بنارس سے کلکتہ 678 کلومیٹر ہے۔ لکھنؤ 286 اور الہ آباد 122 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اوپر فراہم شدہ نقشے کے ذریعہ بنارس کے محل و قوع کا صحیح اندازہ لگ سکے گا۔
یہ شہر اپنے محل و قوع کے اعتبار سے ہندوستان کا ایک اہم اور مرکزی شہر ہے۔ دہلی اور کلکتہ یا لکھنؤ اور پٹنہ کے درمیان وارانسی کا اسٹیشن ہے اور مغل سرائے اس کا ایک مرکزی اور ایشیا کا سب سے بڑا جنکشن ہے جہاں سے دہلی اور کلکتہ یا لکھنؤ، پٹنہ، الہ آباد اور بمبئی کو جانے والی تمام ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔
بنارس، اترپردیش کی مشرقی سرحد پر اس صوبہ کا آخری ضلع ہے جو بہار کی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ (1997ء میں گنگا کے اس پار کے جزو حصہ کو چھوڑ کر بقیہ چندولی تک کا علاقہ بنارس ضلع سے علیحدہ کر کے چندولی کو خود مستقل ضلع بنا دیا گیا ہے)۔ کرم ناسا ندی بنارس اور بہار کو الگ کرتی ہے۔ ضلع بنارس کے پورب جی۔ٹی۔روڈ پر کرم ناسا کا ایک تاریخی پل ہے جس کا نام "صراط مستقیم" ہے۔ اس پل کو مہاراجا بینی مل بہادر متوطن شاہجہاں آباد نے لارڈ ولیم کے زمانے میں 1247ھ (مطابق 1831ء) میں تعمیر کرایا۔ اس پل پر فارسی زبان میں ایک کتبہ بھی لگا ہوا ہے۔
بنارس کا نام وارانسی پڑنے کی وجہ یوں بیان کی جاتی ہے کہ برہما نے جب اپنی برتری جتانے کے لیے ایک سر اور بڑھا کر پانچ سر کر لیے تو شیو جی کو طیش آ گیا، انہوں نے پانچواں سر قلم کر دیا۔ لیکن شیو جی ایسا کر کے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور اپنے اس گناہ کو دھونے کے خیال سے وہ دریائے گنگا کے کنارے ایک مقام پر پہنچے جہاں انہوں نے اپنا خون اور دامن دھو کر مکتی حاصل کی۔ اسی وجہ سے اس جگہ کا نام وارانسی پڑ گیا جس کا مطلب ہے: "گناہوں کو دھونے والا"۔
اس شہر کو مختلف دور میں مختلف نام سے یاد کیا گیا ہے جن میں چند نام درج ذیل ہیں:
کاشی:یہ اس شہر کا دوسرا نام ہے جو بڑا متبرک اور قدیم ہے۔ یہ لفظ "کاش" سے بنا ہے جس کے معنی روشن اور درخشاں کے ہیں۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق سچی معرفت اور نور حاصل کرنے کے لیے کاشی ایک بہترین جگہ ہے جس کی تصدیق اپنشدوں (وید کی کتابوں) سے ہوتی ہے۔
یہ تو بہرحال عقیدے کی بات تھی، کاشی نام پڑنے کی دوسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ راجا دیوداس کے خاندان میں راجا پورن تھا۔ اس کے پڑپوتے راجا کاش نے اس شہر کو بہت ترقی دی، اس لیے یہ شہر اس کے نام سے موسوم ہو گیا۔ راجا کاش کی حکومت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بارہ (12) سو سال قبل مسیح اس کا دورِ حکومت ہے۔ الہ آباد کے قریب پرستھان پور جس کو اب جھونسی کہتے ہیں، اس کا قلعہ تھا اور دارالسلطنت بارانسی کے نام سے مشہور تھا جس کو لوگ بنارس کہنے لگے۔
ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ 1200 ق۔م میں اس شہر کے راجاؤں کا خاندان "کشا" تھا، ان کی رعایا اور ان کی نسلوں کو بھی کشا کہا جاتا تھا، ان کی اس شہر میں آبادی اور حکومت کی بنا پر اس شہر کا نام 'کاشی' کہلایا۔ یعنی کشا خاندان کے ہونے کی جگہ۔ سنسکرت کی مشہور کتاب 'ہری ونش پران' (ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب جس کے مصنف ان کے مذہبی پیشوا وید بیاس جی ہیں) سے کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
دھنک آکار:سنسکرت میں دھنک کمان کو کہتے ہیں جو بالکل ہلالی شکل میں ہوتا ہے۔ چونکہ دریا گنگا کے کنارے یہ شہر بالکل ہلالی شکل میں آباد ہے، اس لیے یہ نام پڑ گیا۔
محمد آباد:یہ نام اورنگ زیب نے اپنے جلوس سلطنت 1068ھ (مطابق: 1658ء) کے موقع پر رکھا تھا۔ قدیم کاغذات اور اورنگ زیب کے شاہی فرامین میں کثرت سے لکھا ہوا یہ نام موجود ہے۔ شاہی عمارتوں کے کتبات میں بھی یہی نام درج ہے۔ اور یہ نام ان سکوں پر بھی موجود ہے جو بنارس کے دارالضرب (ٹکسال) میں ڈھالے گئے تھے۔
اسلام آباد:مسجد دائم خاں، واقع اردلی بازار وارانسی کے کتبہ میں 'عبادت خانہ اسلام آباد' لکھا ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی اس شہر کا یہ نام بھی تھا، گو اس کی شہرت نہ ہو سکی۔
دیگر صفاتی نام:قدیم ہندو روایتوں میں بنارس کے درجنوں صفاتی نام ملتے ہیں۔ علام الہندی نے بنارس پر تحریر کردہ اپنے ایک ہندی رپورتاژ میں اس کے بہت سے ناموں کا ذکر کیا ہے، جن میں ۔۔۔
کاشی پوری، سردھن، اوِمُکت شیتر، رودراواس، سُدردشن آنند کانن، آنند وَن، اَپُنر بَھوَ بھومی، پشپ وتی، رم نگرم اور مہا اشمشان وغیرہ۔
اسمائے خاص ہیں اور ہندی و سنسکرت ادب میں انہیں متعدد بار استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن ان ناموں کا استعمال صرف ادبی سطح پر رہا ہے۔ عوام کی زبان پر سوائے کاشی، کاشی پوری، بنارس، بارانسی اور وارانسی کے کوئی اور نام کبھی بھی نہیں چڑھ سکا۔
***
ماخوذ از کتاب: تاریخ آثارِ بنارس
مرتب: مولانا مفتی عبدالسلام نعمانی مجددی
ناشر: پرنٹیا پبلی کیشن (طبع پنجم: 2015ء)
ماخوذ از کتاب: تاریخ آثارِ بنارس
مرتب: مولانا مفتی عبدالسلام نعمانی مجددی
ناشر: پرنٹیا پبلی کیشن (طبع پنجم: 2015ء)
Banaras, the different names of Varanasi city of Uttar Pradesh state.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں