فلموں میں گیت سازی - از ندا فاضلی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-06

فلموں میں گیت سازی - از ندا فاضلی

filmon-mein-geet-sazi
فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔
ادبی تخلیق کے لئے غیر مشروط ذہن اور تجربہ کے شخصی اظہار کی ضرورت ہوتی ہے اور فلمی دنیا میں سرے سے ہی وہ فضا نہیں ہے ، جہاں گیت کار کو اپنے طور پر سوچنے سمجھنے کا موقع ملے۔
فلم سازی ایک اجتماعی عمل ہے جس میں شریک ہر ذہن کی حدود متعین ہوتی ہیں فلم کی کہانی کے انتخاب سے لے کر فلم ڈائرکٹر کے Visuals تک گیت کار کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد میوزک ڈائریکٹر کی ٹیون کی منزل آتی ہے، جس کو سر کئے بغیر کوئی گیت فلمی نغمہ کا روپ نہیں لے پاتا۔
فلم میں کہانی کا انتخاب فلم ساز کی ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے ، اس انتخاب میں اس کے سامنے صرف فلم کا تجارتی پہلو ہوتا ہے ، میکانکی واقعات سے بنا ہوا فارمولا جسے فلم کہا جاتا ہے اپنے اندر وہ گنجائش بھی نہیں رکھتا جہاں ذہن اپنے متعین عمل کے دائرے میں بھی تھوڑا بہت سوچ سکے۔ کہانی کے چناؤ میں گیت کار کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ کہانی کو سنیما سکرپٹ میں تبدیل کرتے وقت بھی جب رائٹر ، ڈائریکٹر اور دیگر متعلقین کے تجارتی مشوروں کی روشنی میں گیتوں کے لئے متعلقات (Situation) نکالتا ہے ، گیت کار کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہوتا۔
ہر اسکرپکٹ کا اپنا ایک موضوعی دائرہ ہوتا ہے جس میں اور کئی چھوٹے چھوٹے دائروں کے روپ میں گیتوں کی Situation ابھاری جاتی ہے۔ یہ دائرہ در دائرہ Stiuation فلم کے موسیقار کے توسط سے شاعر یا گیت کار تک پہنچتی ہیں۔ جس کے ساتھ وہ اپنی ٹیون کی قید اور عائد کر دیتا ہے۔ عام طور سے گیت کار کو میوزک ڈائریکٹر کی سفارش پر ہی فلم میں شامل کیا جاتا ہے۔ ہر موسیقار کے ساتھ ایک یا دو گیت کار جڑے ہوتے ہیں۔ اپنے گروپ سے باہر کے کسی گیت کار کے ساتھ وہ کام کرنا پسند نہیں کرتا۔
فلم میں الگ سے گیت کار کی کوئی حیثتت نہیں ہوتی۔ وہ تو دلہن کے جہیز کی طرح میوزک ڈائرکٹر کے ساتھ ہی آتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ گیت کار کسی قیمت پر بھی موسیقار کو ناخوش کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔
فلمی موسیقاروں کی اکثریت اردو، ہندی کے شعر و ادب سے ناواقف ہی نہیں ان کی مادری زبانیں بھی وہ نہیں ہیں جن کے لئے وہ موسیقی ترتیب دیتے ہیں۔

فلم کا گیت کار دراصل ایک ایسے افسانوی مجرم کی مانند ہے جو عالم ظہور میں آنے سے پہلے ہی ان گنت زنجیروں میں مقید ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ فلمی دنیا میں پیدا ہوتے ہی فلم سازی کی لمبی چوڑی مشین میں اپنی ساری انفرادی صلاحیت کھو کر کسی کل پرزے کی طرح ایک دائرے میں حرکت کرتا رہتا ہے۔ اسے الفاظ میں اپنے طور پر سانسیں لینے کا حق کبھی نہیں دیا جاتا۔ اسے اپنے طور پر سوچنے کی اجازت کبھی نہیں ملتی اور جو گیت کار جتنی خوش سلیقگی سے لفظوں کو ان کے ہاتھ پاؤں تراش خراش کر، Situation کے لحاظ سے ترتیب دی ہوئی دھن کے میکانکی سانچے میں فٹ کرتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔
یہاں گیت کار اپنے تجربے اور اس کے نجی اظہار کی کھلی فضاؤں میں گھومنے کے بجائے طے شدہ موضوع، طے شدہ ٹیون اور طے شدہ شعری لسانیات کے دبے گھٹے ماحول کا اسیر ہوتا ہے۔ وہ اپنے شعری ذہن سے کم اور اردو ہندی لغات سے زیادہ کام لیتا ہے۔ الفاظ کے اس لغوی استعمال میں بھی اسے موسیقی کی تکنیکی باریکیوں کے گھیرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ ٹیون میں شامل "سُر" اور گانے والے کی آواز میں ان کی ادائیگی کے لحاظ سے بھی گیت کار کو لفظوں میں رد و بدل کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ریکارڈ میں الفاظ کی ظاہری ہیئت یا تلفظ بگڑ کر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ موسیقار کو مصرعوں میں الفاظ کی متناسب ساخت سے زیادہ اپنی ٹیون کے سُروں سے سروکار ہوتا ہے۔

ساحر کے گیت 'جیون کے سفر میں راہی' میں لفظ 'راہی' میں رے اور الف کی پوری آواز سے کیونکہ دیرگھ کا Mote نہیں بنتا، اس لئے مجبور گائک کو راہی میں الف کی آواز کو کم کر کے راہی کو "رہی" کر کے گانا پڑا۔
اور اسی طرح دوسرے مصرعے (ملتے ہی بچھڑ جانے کو) میں 'جانے کو'، کے پھیلاؤ کو سمٹا کر 'جانِکو' کرنا پڑا۔ ساحر لفظوں کی تبدیلی میں تھوڑا بہت پس و پیش بھی کرتے ہیں لیکن بیشتر گیت کار گیت کے لفظوں میں گرامر کو بالائے طاق رکھ کر ہر ممکن توڑ پھوڑ کے لئے رضا مند ہو جاتے ہیں۔

روی کی دھن میں شکیل بدایونی کے گیت میں "چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو" بھی پہلے مصرع کا ایک رکن ٹیون کی "آف بیٹ" کی نذر ہو گیا۔ شکیل کا اصلی مصرع 'تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو' تھا مگر "تم" کے استعمال سے کیونکہ ٹیون میں آف بیٹ کا حسن نہیں ابھرتا تھا، اس لئے شکیل کو مجبوراً اس لفظ کو حذف کرنا پڑا۔
ٹیون بھرنے میں الفاظ کے ساتھ بے معنی کھلواڑ کرنے کی ایک مضحکہ خیز مثال فلم 'سسرال' میں حسرت جے پوری کا گیت ہے۔ اس گیت کا مکھڑا ہے:
'جاناں تمہارے پیار میں شیطان بن گیا ہوں، کیا کیا بننا چاہا تھا بے ایمان بن گیا ہوں'
اس میں "بننا چاہا" اور "بے ایمان" کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے وہ تو خیر ہے ہی مگر اسی گیت کے دوسرے انترے میں جس کا پہلا مصرع:
'اب تو بس پتھر کی ایک تصویر ہوں' ہے، دوسری لائن یوں ہے: 'یا سمجھ لو ایک بتِ بے پیر ہوں'
اس دوسری لائن میں 'بتِ بے پیر' کی بے معنی ترکیب صرف ٹیون کو بھرنے کے لئے استعمال ہو رہی ہے جس کے اپنے کوئی معنی نہیں ہیں۔

یہ تو بات ہوئی موسیقی کی تکنیکی پابندیوں کی، جس کا لحاظ بہر طور گیت کار کو کرنا پڑتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض اوقات موسیقار، گیت کار کے لئے نئی الجھن پیدا کر دیتا ہے۔ جب وہ کسی مشہور شاعر کے مصرعے یا پورے کے پورے لوک گیت کو جس کی دھن وہ پہلے سے کمپوز کر چکا ہوتا ہے ، صرف انترے لکھنے یا دئے ہوئے لفظوں کو بنانے سنوارنے کے لئے گیت کار کو دے دیتا ہے۔ فلم پروڈیوسر یا میوزک ڈائرکٹر کی پسند کے یہ مصرعے یا لوک گیت ، مجبوراً گیت کار کو اپنے نام سے ہی ریکارڈ میں شامل کرنا پڑ جاتے ہیں۔ لوک گیت اگر اردو ہندی میں ہوا تو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یا ویسے کا ویسے ہی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ہاں اگر گیت کسی دوسری صوبائی زبان میں ہوتا ہے تو گیت کار کا کام صرف گیت کا منظوم ترجمہ کرنا ہوتا ہے۔ کئی فلمی گیتوں میں ، دوسرے شاعروں کے شعر یا مصرعے، مکھڑوں کے روپ میں آسانی سے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ شکیل بدایونی کے ایک گیت میں مضطر خیرآبادی کا یہ شعر:
اسیر پنجہ عہد شباب کرکے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

ساحر کے گیت میں یوسف ظفر کا یہ مشہور شعر:
میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

مجروح کے گیت میں فیض کی مشہور نظم کا یہ مصرع:
تری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

یا ریاض خیر آبادی کا یہ مصرع:
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

اور ساحر کے گیت کا یہ مکھڑا:
آپ آئے تو خیالِ دل ناشاد آیا

اس قسم کی مثالیں ہیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں ، ان کے علاوہ اور نہ جانے کتنے نئے پرانے شاعروں کے شعر، فلمی گیتوں کے مکھڑے بن کے مشہور ہو چکے ہیں۔

جہاں تک لوک گیتوں کا سوال ہے ، یہ تو ہمیشہ سے سماجی ملکیت رہے ہیں، جو چاہتا ہے ان پر اپنا ادھیکار جما لیتا ہے۔ کبھی تو فلمساز یا موسیقار کی نجی پسند کے آگے اسے جھکنا پڑتا ہے اور کبھی وہ خود ہی ٹیون کے حساب سے یو۔پی، راجستھان ، مدھیہ پردیش وغیرہ کے لوک گیتوں کو رد و بدل کرکے اپنے نام سے دے دیتا ہے۔
بنگالی، پنجابی، گجراتی کے لوک گیتوں کے ترجمے بھی آسانی سے ان گیتوں میں مل جاتے ہیں۔ اندیور کا مشہور گیت:
ندی ملے ساگر میں (جو ایک بنگالی گیت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے)
اور مجروح کا گیت 'جو میں ہوتی راجہ بیلا چمبلیا (جو یو۔پی کا لوک گیت ہے)
اس کے ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔ "ندی نارے نہ جاؤ شام پیاں پڑوں" ساحر کے نام سے اور "ہم اپنے سیاں سے نیناں لڑی ہے" یہ ایک دوسرے گیت کار کے نام سے اب بھی کبھی کبھی ریڈیو سے سنائی دے جاتے ہیں۔

فلموں میں گیت کار کا کام صرف پہلے سے طے کئے ہوئے موضوع اور پہلے سے ترتیب دی ہوئی دھن میں الفاظ جڑنا ہوتے ہیں۔ الفاظ سازی کے اس عمل میں شعری ذہن کی جگہ گیت کار کو لفظوں کی معنوی سوجھ بوجھ اور انہیں استعمال کرنے کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر گیت کو کیونکہ فلم میں فلمایا بھی جاتا ہے، اس لئے گیت کار کو مجبوراً لفظوں کے علامتی یا رمزیاتی استعمال کے بجائے لفظوں کے Visuals میں بات کرنی پڑتی ہے۔ فلم کے لحاظ سے "اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں" سے زیادہ کامیاب مکھڑا: "میرے سامنے والی کھڑکی میں ایک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے" ہوگا کیونکہ مجاز کے مصرع میں جس داخلی کش مکش کو لفظوں سے چھونے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کو اسکرین پر ابھارنا اتنا آسان نہیں ہے، جتنی آسانی سے کھڑکی سے جھانکتی ہوئی لڑکی کو دکھایا جا سکتا ہے۔ فلمی گیتوں میں لفظوں کی تہہ داریوں کے بجائے لفظوں کی اوپری سطحوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ سنیما دیکھنے والوں کا عوامی مذاق بھی ہے جن کی پسند و ناپسند فلم کے ہر شعبہ کا معیار سمجھی جاتی ہے۔

فلموں میں گیت کبھی ادبی صنف کی حیثیت سے زندہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔ گیت اردو غزل کی طرح داخلی اظہار کا غنائیہ ہے۔ اس میں فرد کی اندرونی کش مکش کو لفظوں کے ہلکے گہرے رنگوں سے سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گیت اور غزل میں ایک بنیادی فرق بھی ہے۔ یہ دو ابتدائی تہذیبوں کی علامتیں ہیں۔
غزل کے شعروں کا بکھراؤ اور اس کی رمزیاتی زبان قبائلی کشادگیوں کا نغمہ ہے۔
گیت اس کے برعکس ٹھہری ہوئی زراعتی تہذیب کے گھریلو پن کی زبان ہے۔
غزل اور گیت کے کردار بھی اسی لحاظ سے مختلف ہیں۔ گیت کا نسائی کردار لفظوں کے کومل اور سہج سروں کے استعمال کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ غزل کا مزاج اور اس کا کردار ہمیشہ سے مردانہ رہا ہے۔ لیکن فلموں میں گیت اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ نظم، غزل، گیت ، قطعہ، یہاں ہر صنف کو گیت ہی کہا جاتا ہے۔ فلموں کے وہی گیت اچھے اور معیاری ہیں جو فلمی گیتوں کی پابندیوں سے آزاد ہو کر لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گیت تو وہی ہیں جو شاعروں کے مجموعوں میں شامل ہیں ، اور جنہیں وہ فلم بننے سے پہلے تخلیق کر چکے تھے یا مشاعرہ یا کوی سمیلن میں کسی فلم ساز کو کوئی چیز پسند آ گئی اور اس نے اسے فلم میں استعمال کرنے کی اجازت لے لی۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شاعر یا کوی اپنی کسی تخلیق کو فلم میں دینے سے انکار کر دیتا ہے اور بعد میں یہ دیکھ کر پچھتاتا ہے کہ اس کی نظم کی ہو بہو نقل ، فلمی گیت کا روپ دھار کر سامنے آ چکی ہے۔
سلام مچھلی شہری کی نظم 'مشورہ' کے ساتھ یہی کچھ ہوا، راجندر کرشن کا گیت اس کی نمایاں مثال ہے۔
شاعروں کے مجموعوں سے لی ہوئی ان تخلیقات میں بھی فلمی ضرورت کے مطابق بھی تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے۔ ساحر کی نظم "چکلے" کا مرکزی مصرع جو ہر تین مصرعوں کے بند کے بعد دہرایا جاتا ہے ، ان کے مجموعہ کلام میں "ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں" کے روپ میں ہے، لیکن فلم 'پیاسا' میں دیتے وقت اس مصرع کی شکل بدل کر یوں ہو گئی:
جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں!

مجاز کی نظم آوارہ (فلم ٹھوکر)، کیفی کی نظم اندیشے (فلم حقیقت) ساحر کی نظم خوبصورت موڑ (فلم گمراہ)، نیرج کا گیت 'کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے' (فلم نئی عمر کی نئی فصل)، مجروح کی غزل 'ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح' (فلم دستک)، جاں نثار اختر کی نظم 'میں بہت دور بہت دور چلاجاؤں گا' (فلم پوتر پاپی) اور اسی طرح اور دوسرے شاعروں اور کوویوں کی ادبی تخلیقات کو فلمسازوں کی ذاتی پسند کی وجہ سے فلموں میں نغمایہ گیا ہے۔
یہ تخلیقات Situation اور دھن کے گھیرے میں بیٹھ کر نہیں لکھی گئی ، بلکہ ان تخلیقات کے لحاظ سے کہانی میں گنجائشیں نکالی گئی ہیں اور انہی پر بعد میں ٹیون کمپوز کی گئی ہیں۔ ان گیتوں کے معیار کا راز یہی ہے کہ ان گیتوں کی تخلیق کے دوران ، گیت کار کا ذہن ان تمام پابندیوں سے آزاد رہا ہے ، جو ایک گیت کار کو عام فلمی گیت لکھنے کے لئے نبھانا پڑتی ہیں اور جن کی وجہ سے گیت ایک ادبی کاوش بننے کے بجائے بے جان لفظوں کی منظوم نثر بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں کے بیشتر گیت جو فلم کی خوبصورت دھنوں میں بھلے لگتے ہیں ، جب الگ سے کاغذ پر سامنے آتے ہیں تو اتنے بے رس اور بے جان ہوتے ہیں کہ انہیں نثر کہنے میں بھی جھجک محسوس ہوتی ہے۔ ان میں الفاظ کا انتخاب ہی جاذب نظر ہوتا ہے اور نہ ہی زبان کا کوئی حسن۔

فلم میں گیت سازی کے لئے جس شعری ریاضت اور لفظ شناسی کی ضرورت ہے، کچھ گیت کاروں میں تو اس کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ جہاں تک ساحر، جاں نثار، مجروح، کیفی، نیرج ، شیلندر اور شکیل بدایونی کا سوال ہے ، ان میں سے ہر ایک فلم میں اپنی آمد سے پہلے اردو ہندی کے ادبی حلقوں میں اپنے آپ کو متعارف کرا چکا تھا۔ فلم انڈسٹری میں آنے سے پہلے ان کے ایک یا دو مجموعے بھی شائع ہو چکے تھے۔ ان کے پاس شعری مشق اور لفظوں کی معنوی پہچان کا سلیقہ ان سے کہیں زیادہ ہے جن کی شہرت اور ادبی عمر (اگر اسے ادبی عمر کہا جائے) صرف فلموں کی مرہون منت ہے۔
ان گیت کاروں کی شعری مشق فلمی گیتوں کے نرے میکانکی عمل میں بھی الفاظ کے متناسب اور سڈول استعمال کی گنجائشیں نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ان کے گیتوں کے مصرعے سیدھے صاف اور ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے یہاں لفظوں کے ساتھ غیر ادبی مذاق روا رکھنے کا یا اپنے گیتوں میں (مکھڑوں کے علاوہ) دوسرے شاعروں کے شعروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رجحان بھی کم کم نظر آتا ہے۔
ان کے گیتوں کو بھی نری ادبی اقدار پر پرکھنا تو مشکل ہے لیکن اپنے شاعرانہ مزاج کی وجہ سے جاں نثار اختر کا رومانوی سجاؤ، شیلندر کا سبھاؤ اور ساحر کا سیاسی و سماجی رچاؤ، فلمی گیت سازی کی سینکڑوں پابندیوں کے باوجود گیتوں میں کہیں نہ کہیں نظر ضرور آ جاتا ہے۔

آئے ہو تو جانے کا بہانہ نہ ملے گا
اس دل کے سوا کوئی ٹھکانہ نہ ملے گا
زلفوں کے مہکتے ہوئے گھیرے نہ ملیں گے
سانسوں کا مہکتا یہ ترازو نہ ملے گا
اس دل کے سوا کوئی ٹھکانہ نہ ملے گا
(جاں نثار اختر)

پربتوں کے ڈیروں میں شام کا بسیرا ہے
چمپئی اجالا ہے ، سرمئی اندھیرا ہے
(ساحر لدھیانوی)

جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
(کیفی اعظمی)

تم سے کہوں اک بات پروں سے ہلکی ہلکی
رات مری ہے چھاؤں تمہارے ہی آنچل کی
سوئی گلیاں بانہہ پسارے آنکھیں میچے
میں دنیا سے دور گھنی پلکوں کے نیچے
دیکھوں چلتے خواب لکیروں پر کاجل کی
تم سے کہوں اک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مجروح سلطانپوری)

مندرجہ بالا اقتباسات میں لفظوں کا برمحل استعمال اور مصرعوں کا کساؤ فلمی دھنوں سے الگ ہو کر بھی ہلکی پھلکی اچھی رومانوی شاعری کی مثالیں ہیں۔ یہ بول ساز اور دھن میں ڈھل کر گونگے نہیں ہو جاتے بلکہ ساز اور دھن کے لباس میں اپنے طور پر بولتے چالتے نظر آتے ہیں۔ ان میں زبان و بیان کے وہ جھول بھی کم کم نظر آتے ہیں جن کی مثالیں خالص فلمی گیت کاروں یا اسی قسم کے دوسرے گیت کاروں کے یہاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ان کے گیت تو اس سلیقہ سے بھی کوسوں دور نظر آتے ہیں جو فلم میں گیت سازی کی پہلی اور آخری شرط ہے۔ فلموں میں گیت صرف الفاظ سازی سے عبارت ہے ، لیکن اس کے لئے بھی زبان کا لغوی شعور اور تھوڑی بہت شعری حس تو چاہئے ہی۔ دوسروں کے شعروں کا صحیح غلط استعمال ، لفظوں کا غیر شاعرانہ برتاؤ اور غیر ضروری کھینچا تانی عام فلمی گیتوں کی خصوصیت بنتی جا رہی ہے۔

غالب کی مشہور غزل کا مصرع ؎
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
فلم 'ریشما اور شیرا' میں راجندر کرشن نے ذرا سی تبدیلی کے ساتھ (مدت ہوئی تھی یار کا ارماں کیے ہوئے) اپنے گیت میں شامل کر لیا ہے۔
حسرت صاحب نے فلم 'سسرال' کے ایک گیت میں احسان دانش کے ایک قطعہ کے دو مشہور مصرعے:
وہ عجب سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں رشتہ دار
جو پاس ہوں تو دھواں دیں، جو دور ہوں تو جلیں
اس طرح استعمال کیے ہیں:
عجب سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں جگ والے
ملیں تو آگ اگل دیں، ہٹیں تو دھواں کریں
اس طرح کی مثالیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

آنند بخشی نے شروع شروع میں پنجاب کے لوک گیتوں کو ہندی اردو کے کومل لفظوں میں ڈھال کر فلمی حلقوں میں شہرت حاصل کی تھی، لیکن یہ ڈھب وہ زیادہ دن تک نہیں نبھا سکے۔ فلم 'ہاتھی میرے ساتھی' میں ان کے گیت کے مصرعے کچھ اس طرح کے ہیں:
چل چل میرے ساتھی او میرے ہاتھی
چل رے چل کھٹارا کھینچ کے

وہ فلمی گیت جس میں آرزو اور کیدار شرما نے ادبی رنگ بھرنے کی پہلی کامیاب کوشش کی تھی اور جسے بعد میں جان نثار اختر، ساحر، شیلندر، مجروح، شکیل اور کیفی نے اپنے اپنے طور پر بنانے سنوارنے کی کوشش کی ہے، اب کس طرح مڑ رہا ہے، اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
فلمی گیتوں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ، فلم کی کمزور کہانی کے علاوہ، وہ گروپ بازی بھی ہے ، جس کی پچھلے کئی برسوں سے فلم انڈسٹری شکار ہے۔ اس گروپ بازی کے شکار وہ میوزک ڈائرکٹر بھی ہوئے ہیں، جو موسیقی کے ساتھ رچا ہوا شعری ذوق بھی رکھتے ہیں اور جن کی وجہ سے گیت کار کو الفاظ سازی میں بھی شعری سلیقہ برتنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
نوشاد، مدن موہن، خیام اور جے۔دیو وغیرہ کے نغمائے ہوئے گیت عام طور سے ان عیوب سے پاک ہوتے ہیں، جو عام فلمی گیتوں میں ملتے ہیں۔


Song writing in movies. Article by: Nida Fazli

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں