کسانوں کا ہجوم پہلے ہریانہ سرحد تک محدود تھا ، لیکن یوم جمہوریہ پر تشدد کے بعد اس کا دائرہ اترپردیش کی سرحد تک بڑھ گیا ہے اور احتجاج نے زیادہ وسیع شکل اختیار کر لی ہے۔ پولیس نے کسانوں کی دہلی آمد کو روکنے کے لیے سنگھو بارڈر پر دس لیول کی بیریکیڈنگ کر دی ہے۔ مظاہرے کی جگہ نوکیلے تاروں سے گھیر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سڑکوں پر بڑے بڑے ڈیوائیڈر رکھ کر راستوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
کسانوں کے احتجاج کی جگہ سے میڈیا کو بھی دور رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ میڈیا کو اسٹیج سے ایک کلومیٹر دور سے گھوم کر آنے کا راستہ دیا گیا ہے۔ سنگھو بارڈر کے آس پاس کی سبھی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں، جس سے کسانوں کے علاوہ مقامی باشندوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کے لیے سنگھو، غازی پور اور ٹیکری بارڈر کے آس پاس کے علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ہیں۔ پولیس نے سڑکوں پر روڈ ڈیوائیڈر کے درمیان کنکریٹ ڈال کرراستوں کو جام کر دیا ہے۔ ساتھ ہی روڈ پر کیلیں لگا دی گئی ہیں تاکہ کسان دہلی کی طرف نہ آ سکیں۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے ہی شہریوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے صوبائی سرحدوں پر ایسی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہوں جو ملک کی سرحد پر دشمن کو روکنے کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سنگھو بارڈر پر حکومت نے ایسے مہلک نوکیلے تار اور آہنی انتظامات کیے ہیں کہ جو کوئی ان کی زد میں آئے گا اس کا گوشت جسم سے جدا ہو جائے گا۔
کسانوں کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے وہ تمام حربے اختیار کیے ہیں جو خوفزدہ حکمراں اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں حکومت کے ردعمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں سے بھی خوفزدہ ہے جو اس تحریک کو کسی بھی قسم کی حمایت دے رہے ہیں۔
حال ہی میں فلم اور موسیقی کی بعض عالمی سطح پر مقبول شخصیات نے جب کسانوں کی تحریک پر زبان کھولی تو ان کی زبان بند کرنے کے لیے چاپلوس اداکاروں کی پوری ٹیم میدان میں اتار دی گئی اور سرکاری سطح پر ان تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا۔
مشہور پوپ گلوکارہ رہانا، امریکہ کی نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس کی بھانجی مینا ہیرس ، ماحولیات کے لیے کام کرنے والی گریٹا اور میا خلیفہ وغیرہ کے تبصروں نے کسانوں کی تحریک کے عالمی سطح پر مقبول ہونے کا ہی عندیہ دیا ہے۔
حالانکہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے ان تبصروں کو غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے ان شخصیات کو مشورہ دیا ہے کہ ایسی تحریکوں کو ہندوستان کی جمہوری سیاست کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے حقائق کو سمجھنا چاہئے۔
حکومت کی اس وضاحت کے باوجود امریکہ نے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ:
"امریکہ پرامن احتجاج کی حمایت کرتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ کوئی اختلاف ہوتو اسے بات چیت سے حل کرنا چاہئے۔بھارت کے سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا ہے۔"
دوسری طرف برطانیہ میں ای پٹیشن پر لاکھوں لوگوں نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں دستخط کئے ہیں۔ اب وہاں کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو عالمی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جانی مانی شخصیات بھی اس پر کھل کر اظہار خیال کر رہی ہیں۔
کسانوں کی تحریک والے مقامات پر انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی حکومت کی کارروائی پر ایک اخبار میں شائع شدہ مضمون کو شیئر کرتے ہوئے پاپ سنگر رہانا نے ٹوئٹ کیا:
"ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟"
انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں کسانوں کو ہیش ٹیگ بھی کیا۔
why aren’t we talking about this?! #FarmersProtest https://t.co/obmIlXhK9S
— Rihanna (@rihanna) February 2, 2021
واضح رہے کہ رہانا دنیا کی پانچ امیر ترین شخصیات میں شامل ہیں اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد دس کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس دوران ماحولیات کے لیے کام کرنے والی سوئڈن کی دوشیزہ گریٹا تھن برگ [Greta Thunberg] کے ٹوئٹ کے خلاف امن میں خلل ڈالنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ:
"میں اب بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرتی ہوں"۔
I still #StandWithFarmers and support their peaceful protest.
— Greta Thunberg (@GretaThunberg) February 4, 2021
No amount of hate, threats or violations of human rights will ever change that. #FarmersProtest
واضح رہے کہ اس قسم کے مقدمات بعض دیگر لوگوں کے خلاف بھی قائم کیے گئے ہیں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر اترپردیش کے ایک کسان کی موت پر ٹوئٹ کرنے والے سرکردہ صحافیوں پر بھی پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔
راجدیپ سرڈیسائی اور مرنال پانڈے جیسے صحافیوں کے خلاف مقدمات دہلی کے علاوہ پانچ صوبوں میں دائر کیے گئے ہیں۔ ان میں کانگریس لیڈر ششی تھرور بھی شامل ہیں۔ کسانوں کے مطالبات اور احتجاج کی حمایت کرنے والوں کے خلاف جس تیزی کے ساتھ مقدمات قائم ہو رہے ہیں اور انھیں سرکاری سطح پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں گن رہی ہے، کیونکہ جمہوری نظام میں شہریوں کو جو حقوق حاصل ہوتے ہیں، ان میں اظہارخیال کی آزادی بنیادی حقوق کے زمرے میں آتی ہے، لیکن جب کوئی حکومت بولنے، لکھنے اور احتجاج کرنے کی آزادی کو ختم کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر جمہوری قدروں کے تئیں اس کی وابستگی صفر ہو جاتی ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں اپنے بنیادی جمہوری حقوق کا استعمال کرنے والوں کو اب ملک دشمنوں کے زمرے میں رکھا جا رہا ہے اور احتجاج کرنا سب سے بڑا جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بہار سرکار نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ جو کوئی کسی قسم کے احتجاج میں شریک ہوگا ، اسے پاسپورٹ ، اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ یعنی پاسپورٹ کے لیے پولیس انکوائری کے دوران یا سرکاری نوکری کے لیے خفیہ رپورٹ کی تیاری کے دوران اگر یہ انکشاف ہوا کہ متعلقہ شخص کسی احتجاج یا دھرنے میں شریک ہوا ہے تو اسے "مجرمانہ سرگرمی" میں شمار کر کے اس کی رپورٹ منفی لگا دی جائے گی۔ جبکہ پاسپورٹ ایکٹ مجریہ 1967 میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔
اتراکھنڈ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ان لوگوں کو بھی ملک دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو سوشل میڈیا پرقابل اعتراض تبصرے کریں گے۔ ایسے لوگوں کو پاسپورٹ، سرکاری ملازمت اور بینک لون لینے کے لیے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے برس اترپردیش سمیت بی جے پی کے اقتدار والے صوبوں میں ان لوگوں کے خلاف قرقی کی کارروائی کی گئی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ ایسے ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تھے جنھوں نے تفریق پر مبنی سی اے اے قانون کو واپس لینے کے لیے جمہوری طریقوں سے پُرامن احتجاج کیا تھا۔ آج بھی اترپردیش میں ایسے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا کام جاری ہے۔ ان لوگوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے ہیں اور عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں۔ جبکہ یہ لوگ اپنے جمہوری اور دستوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے اور یہ پوری طرح پُرامن تھا، لیکن حکومت نے انھیں سبق سکھانے کے لیے ان پر مقدمات قائم کیے اور ان کی جائیدادیں قرق کی گئیں۔
اب یہی صورتحال ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو کسانوں کی تحریک میں شامل ہیں یا ان کو اخلاقی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں احتجاج کا حق بنیادی آزادی کے ذیل میں آتا ہے اور پوری دنیا میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے چنی گئی سرکاریں عوام کے تئیں جواب دہ ہوتی ہیں۔ عوامی احتجاج اور جمہوری آوازوں کو کچلنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری حکومت جمہوریت کا لباس پہن کر غیرجمہوری راستوں پر چل رہی ہے؟
غیرجمہوری اور غیرانسانی طریقوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ملک دشمنی اورغداری سے تعبیر کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
کیا ہم ایک اندھی سرنگ میں داخل ہو گئے ہیں؟
معصوم مرادآبادی |
Nails and barricades at farmer protest sites - Column: Masoom Moradabadi.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں