مذہب اور شاعری از اعجاز حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-05

مذہب اور شاعری از اعجاز حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

مذہب و شاعری (یعنی اردو شاعری پر مذہب کا اثر ، 1707ء سے 1857ء تک)
یہ ڈاکٹر اعجاز حسین کا وہ مقالہ ہے جو الہ آباد یونیورسٹی کی ڈی-لٹ ڈگری کے لیے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں پروفیسر سید ضامن علی (صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی) کی رہنمائی میں تحریر کیا گیا تھا اور جسے یونیورسٹی نے پسند کر کے مقالہ نگار کو ڈی-لٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا۔
مقالہ نگار کہتے ہیں کہ ان کے اس ادبی کام میں الہ آباد یونیورسٹی کے اساتذہ ڈاکٹر رام پرشاد ترپاٹھی، ڈاکٹر دھیرندر ورما، پروفیسر چٹوپادھیا اور پروفیسر نعیم الرحمن کے علاوہ ان کے چند احباب و شاگرد پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، پروفیسر مسیح الزماں، طالب الہ آبادی اور پروفیسر آصف جاہ کاردانی نے بھی تعاون کیا تھا۔
یہ مقالہ کتابی شکل میں پہلی بار جنوری 1955ء میں اردو اکیڈمی سندھ (کراچی، پاکستان) نے شائع کیا تھا۔ اردو شاعری کی تحقیق و جستجو میں دلچسپی رکھنے والے طلبا اور قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کے ذریعے بطور پی۔ڈی۔ایف فائل پیش ہے۔ تقریباً سوا تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 14 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کے مقدمہ میں مقالہ نگار ڈاکٹر اعجاز حسین لکھتے ہیں ۔۔۔
اردو زبان و ادب پر مذہب کے بےپایاں اثرات کی باوجود بھی کوئی مستقل کتاب ایسی نہیں کہ جس سے صحیح اندازہ کیا جا سکے کہ اس کے ارتقا میں مذہب نے کتنا حصہ لیا؟ حالانکہ اردو کی نشو و نما کی تاریخ کے لیے بھی یہ موضوع ضروری تھا۔ ادبی تاریخیں لکھی بھی گئیں لیکن اس طرف کسی نے توجہ نہ کی۔
مذہب نے ہماری زبان کی سرپرستی میں جس کاوش و انہماک سے کام لیا اور جو گوناگوں علمی فائدے پہنچائے وہ ایسے نہ تھے کہ آسانی سے نظرانداز کیے جا سکیں، لیکن بات رہ گئی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ ادبی مورخین بھی نہ کر سکے جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تاریخ کے سلسلہ میں وہ اس موضوع کو قلمبند کرنے سے گھبراتے تھے اس لیے کہ مواد کی ضخامت اتنی زیادہ تھی کہ ایک مستقل کتاب کی ضرورت پڑتی اور اس صورت میں شعرا و نثار کے کلام پر تنقید اور مختلف ادوار کی خصوصیات بیان کرنے میں زیادہ دیر اور زحمت ہوتی۔
اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مذہب کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پوری ادبی فضا اس سے معمور تھی۔ تاریخ لکھنے والوں کو یہ خیال ہوا ہوگا کہ یہ چیز ایسی ہے کہ سب کو معلوم ہے، لہذا اس کا قلمبند کرنا تحصیل حاصل سے زیادہ اہمیت نہ رکھے گا۔
یہ آخری وجہ محض توہم کا نتیجہ نہیں اس لیے کہ جب میں نے اپنے مقالہ کے عنوان کا ذکر ایک ایسے شخص کے سامنے کیا جو علوم شرقیہ کا ماہر اور انگلستان سے ڈاکٹر کی ڈگری بھی حاصل کر چکا ہے، تو اس نے کہا کہ مذہب کا اثر اردو شاعری پر - "عجب عنوان ہے"، اردو زبان پر سب مذہب ہی کا اثر ہے، اس میں لکھنے کی کیا چیز ہے؟
میں نے دبی زبان سے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب، ستاروں کا اثر دنیا پر اس سے بھی زیادہ نمایاں ہے، عالم و جاہل کے علاوہ غیرمہذب و جنگلی آدمی بھی دیکھتا اور حسب استعداد ان کے اثرات کو کم و بیش سمجھتا بھی ہے تو پھر ان ستاروں کے حرکات و سکنات، اثرات و خواص پر جو صدیوں سے لکھا جا رہا ہے اور اہل نظر اب تک برابر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ کیا ان تمام کتابوں پر جلی قلم سے کارِ بیکار لکھ کر ان کو نذر آتش کیا جا سکتا ہے؟

اردو زبان کی ابتدا دکھانے میں اس وقت کے ماحول پر بھی روشنی ڈالنا ضروری تھا اور یہ بتانا تھا کہ ہندو مسلمان کے ملنے سے صرف ایک چیز یعنی "زبان" ہی مشترک نہیں بنی بلکہ اس کے علاوہ بھی خاص خاص تہذیب و تمدن کے پہلو باہمی میل ملاپ سے متغیر ہو کر ایک نئی شکل میں نمودار ہوئے۔ مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، طرز معاشرت وغیرہ نے ایک دوسرے کے فنون و تمدن سے متاثر ہو کر بجائے اسلامی یا ہندوانہ کلچر کے، خالص ہندوستانی پیداوار کی صورت اختیار کر لی۔
اگر یہ چیز مقالے میں بیان نہ کی جاتی تو ذہنی طور پر یہ خلش باقی رہتی کہ معلوم نہیں یہ کہاں تک صحیح ہے کہ اردو کی تخلیق ہندو مسلمان کے باہمی اتحاد و ضروریات سے ہوئی۔ سوال یہ ہو سکتا تھا کہ کیا وجہ تھی کہ صرف ایک زبان ہی مشترکہ ہندوستانی ہو سکی؟ اگر صدیوں کے میل ملاپ سے نئی زبان بن سکتی ہے تو اور چیزیں بھی بن سکتی ہیں، فنون و مذاہب کو بھی کسی نئی صورت میں جلوہ گر ہونا تھا۔
ہم نے اسی خلش کو دور کرنے کے لیے مختصراً اس مقالے میں یہ دکھا دیا کہ زبان کے علاوہ زندگی کے اکثر اہم پہلوؤں پر باہمی اختلاط کا نمایاں اثر پڑا اور تعمیر و لباس و مذہب وغیرہ میں کافی تغیرات ہوئے۔ یہاں تک کہ مجموعی حیثیت سے ایک نیا نظام اور ایک مخلوط کلچر ہندوستان میں رونما ہوا جو اپنی ساخت و ہئیت کے لحاظ سے نہ خالص ہندوانہ تھا نہ بالکل اسلامی۔
اس کے دیکھ لینے کے بعد یہ شک نہیں رہ جاتا کہ یہ محض قیاس یا مفروضہ ہے کہ اردو زبان ہندو مسلم اتحاد کا فطری نتیجہ ہے، بلکہ یہ مفروضہ مسلمہ کی بین صورت اختیار کر لیتا ہے۔

یہ بھی واضح کر دینا مناسب ہے کہ مقالہ 1707ء یعنی اورنگ زیب کی وفات سے شروع ہوتا ہے جب اردو ادب کا مرکز شمال ہو گیا تھا اور شمالی ہند نے ادبی لحاظ سے اتنی اہمیت حاصل کر لی تھی کہ جنوب جتنا آگے تھا اتنا ہی پیچھے نظر آنے لگا۔ اصناف سخن کے بہترین نمونے، شاعری کے زبردست رہنما سب دہلی اسکول میں مل جاتے ہیں۔ لہذا ہم نے بھی مثالوں کے لیے زیادہ تر کلام اور شعرا کا انتخاب، شمالی ہند سے کیا ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دکن کے ان شعرا کی اہمیت سے ہم کو انکار ہے جو ولی کے بعد ہوئے۔ ان کی بزرگی و کمال اپنی جگہ پر مسلم ہے لیکن چونکہ اس مقالہ کا منشا یہ نہیں کہ انفرادی حیثیت سے کسی شاعر کے کلام پر نقد و تبصرہ کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ مجموعی لحاظ سے اصناف سخن یا شعرا کی ذہنیت کا موضوع کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔ اور چونکہ شمالی ہند کے ایسے شعرا کا کلام مطبوعہ و غیرمطبوعہ آسانی سے دستیاب ہو سکا جن کا صاحب کمال ہونا ادبی دنیا نے یکساں تسلیم کر لیا ہے اس لیے ہم نے بھی مثال و نمونے کے لیے ان ہی کو زیادہ تر اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا ہے۔

***
نام کتاب: مذہب و شاعری (اردو شاعری پر مذہب کا اثر ، 1707ء سے 1857ء تک)
مصنف: ڈاکٹر اعجاز حسین
تعداد صفحات: 326
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Mazhab O Shairi by Ejaz Hussain.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Mazhab O Shairi by Dr. Ejaz Hussain, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں