اندرا گاندھی - اقلیتوں کی ہمدرد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-04

اندرا گاندھی - اقلیتوں کی ہمدرد

Indira Gandhi a sympathetic friend of Minorities
مہاتما گاندھی کو اس لیے قتل کیا گیا تھا کہ ان کے قاتل کے خیال میں گاندھی جی ہندوؤں کے دشمن تھے ، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی کیونکہ مہاتما گاندھی میں ہندو مذہب کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ خلق خدا سے ان کو بلا تفریق محبت گیتا کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی تلقین کی اور سرودھرم سمبھاؤ کو ہندوستانی سیکولرزم کی بنیاد بنایا۔

اس کے بر خلاف اندرا گاندھی کو سکھ فرقہ کے دو افراد نے قتل کردیا جن کے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ وہ سکھوں کی دشمن ہیں یہ بات حقیقت سے بعید ہے کیونکہ اندرا گاندھی سکھوں کے بہترین دوستوں میں تھیں۔ وہ قطعاً نہیں چاہتی تھیں کہ مسلح افواج گولڈن ٹمپل میں داخل ہوں۔ وہ دو برس تک مصالحت کی کوشش کرتی رہیں۔ انہوں نے اکالیوں کے تمام مذہبی مطالبات تسلیم کرلئے، انہوں نے سکھوں کو خوش رکھنے کی اتنی کوششیں کیں کہ دوسرے لوگ اس کا کچھ اور ہی مطلب نکالنے لگے۔ لیکن وہ جتنی چھوٹ دیتی رہیں سکھ احیاء پسند اتنا ہی جنگجو یانہ رویہ اختیار کرتے رہے، یہاں تکہ وہ علاحدگی پسندی کی باتیں بھی کرنے لگے اور اس مقصد کے حصول کے لیے غیر ملکوں سے مدد حاصل کرنے لگے۔ چنانچہ اندرا گاندھی کو مجبوراً آپریشن بلیو اسٹار، کا سہارا لینا پڑا تاکہ تشدد اور علاحدگی پسندی کا قلع قمع کیاجاسکے اور اس معاملے میں بیرونی مداخلت روکی جاسکے۔

جب ہمارے قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ پیدا ہوگیات و انہوں نے سختی سے اسے دبا دیا حالانکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ مہاتما گاندھی کی طرح ان کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔ مہاتما گاندھی کو ان کے اپنے ہی ہم مذہب نے ہلاک کردیا تھا۔ لیکن اندرا گاندھی کو اس فرقہ کے افراد نے گولی ماردی جو ان کی پالیسیوں سے مستفید ہورہا تھا۔ بائبل میں کہا گیا ہے کہ:
"اے خدا انہیں معاف کردے، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔"

شریمتی اندرا گاندھی سکھوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں مثلاً مسلمانوں اور عیسائیوں کی سب سے بڑی بہی خواہ اور محافظ تھیں۔ انہوں نے سیکولرزم کو مستحکم بنانے میں نمایاں رول ادا کیا۔ مہاتما گاندھی کی طرح وہ بھی ہندو مذہب پر ایمان رکھتی تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے بھی مساویانہ سلوک کرتی تھیں۔ سیکولرزم ان کے لئے کھوکھلا نعرہ نہ تھا بلکہ اس کے لئے انہوں نے آئین میں ترمیم بھی کرائی۔ اگرچہ مہاتما گاندھی اور نہرو نے جوش و خروش کے ساتھ اس کا پرچار کیا تاہم یہ اندرا گاندھی ہی تھیں جنہوں نے اسے حقیقت کا جامہ پہنایا، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس سلسلہ میں انہیں مختلف فرقوں کے اعتراضات کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ ان تمام دشواریوں کے باوجود وہ اپنے ارادوں پر قائم رہیں۔

آئیے سب سے پہلے ہم سکھوں کے معاملے پر غور کریں جن کی آبادی ہندوستان میں دو فیصد سے بھی کم ہے۔ کیا ان پر سکھ دشمنی کا الزام عائد کیاجاسکتا ہے جبکہ انہوں نے اپنے بیٹے سنجے گاندھی کی ایک سکھ لڑکی سے شادی پر بخوشی آشیرواد دیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم بنتے ہی 22/مارچ 1966ء کو پنجابی صوبہ کا سکھوں کا مطالبہ تسلیم کرلیا ، شریمتی گاندھی سکھوں کو ہندوستان کا لازمی جز تسلیم کرتی تھیں ، ہندوستان کی جنگ آزادی میں ان کی قربانیوں کو وہ بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھتی تھیں ، انہوں نے متعدد سکھ اداروں مثلاً مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے لئے گرونانک انسٹی ٹیوٹ اور گرونانک سے متعلق ایک میوزیم کے قیام میں مدد دی اور سکھ مذہب و ثقافت کے فروغ کے لئے پنجاب میں متعدد یونیورسٹیوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی ، انہوں نے سبز انقلاب کو کامیاب بنانے کے لئے پنجاب کے کسانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب نے سبز انقلاب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا ہے۔ اگرچہ یہاں بڑے پراجکٹوں کا فقدان ہے تاہم ریاست نے صنعتی ترقی کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ ریاست جدید ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہے۔

وہ دسویں گرو کی بڑی مداح تھیں اور انہیں سیکولرزم کی ایک درخشاں مثال قرار دیتی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ گروگوبند سنگھ تمام تر سختیاں برداشت کرتے ہوئے خلق خدا سے پیار کرتے رہے۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی استبداد بلکہ مذہبی تنگ نظری ذات پات کی تفریق اور توہم پرستی کے خلاف جدو جہد کی۔ گروجی نے مندر مسجد ایک سمان، کی تعلیم دی تھی۔ شریمتی گاندھی گروجی کی سچی پیرو تھیں۔ انہوں نے بعض اہم قلمدان مثلاً دفاع ، خارجی و داخلی امور سکھوں کو دئے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو مسلح افواج کے اعلی ترین عہدوں پر فائز کیا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک فضائیہ کا سربراہ ایک سکھ تھا۔ کسی بھی عہدہ سے خواہ وہ گورنر اور وزیر اعلا کا ہو یا اسپیکر اور سفیرکا انہیں محروم نہیں رکھا گیا۔ ہر میدان میں سکھ ہندوؤں سے آگے ہیں۔ وہ ملک میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ سکھوں کو ہندوستان میں اہم مقام حاصل ہے۔ اور وہ ہندوستان کی قوت تصور کئے جاتے ہیں۔ اس لئے سکھوں یا پنجاب کو کمزور کرنے والا کوئی بھی اقدام نہیں کیا جائے گا۔

ہندو سکھ تنازعہ جب اپنے عروج پر تھا، اس وقت بھی انہوں نے گیانی ذیل سنگھ کو صدرج مہوری کے عہدہ کے لئے منتخب کرایا۔ ان کے محافظ دستہ سے سکھوں کو ہٹانے کی جب بات چلی تو انہوں نے متعلقہ فائل پر لکھا:
"ہم کیسے سیکولر ہونے کا دعوی کرسکتے ہیں؟"
مہاتما گاندھی نے بھی بم کے دھماکے کے بعد یہی جواب دیا تھا جب حکومت پرارتھنا سبھاؤں میں آنے والوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہتی تھی ۔ اس کی قیمت انہیں اپنی زندگی سے ادا کرنا پڑی۔ شریمتی گاندھی بھی انہی کے نقش قدم پر چلیں۔

مسلمان بھی، جن کی آبادی تقریباً 12/فیصد ہے۔ انہیں اتنے ہی عزیز تھے ، 1955ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی اور اس کے بعد کانگریس پارلیمانی بورڈ میں اپنے انتخاب کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی شکایات پر خصوصی توجہ دینا شروع کی۔ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے 1959ء میں مسلم لیگ سے بھی مذاکرات کرنے میں انہوں نے اس لئے کوئی پس و پیش نہیں کیا کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کے متعلق یقین دہانی کرائی جاسکے۔ 1962ء میں جبلپور کے فسادات کے دوران وہ محلہ محلہ جاتی رہیں اور فسادزدگان کو راحت پہنچاتی رہیں۔ چند دنوں کے قیام کے بعد جب دہلی واپس ہورہی تھیں تو کچھ مسلمانوں نے ان سے التجا کی کہ "وہ ابھی نہ جائیں۔"
"آپ فکر کیوں کرتے ہیں" انہوں نے جواب دیا
"جب بھی آپ مجھے آواز دیں گے میں آپ کے سامنے فوراً حاضر ہو جاؤں گی۔"
1967ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد جس میں کانگریس کے صدر شری کامراج ہار گئے تھے، انہوں نے صدر جمہوری کے عہدہ کے لئے ڈاکٹر ذاکر حسین کا نام تجویز کیا ، اگرچہ کانگریس ہائی کمان اس سے متفق نہیں تھا۔ کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ذاکر صاحب مسلمان ہونے کی وجہ سے انتخاب ہار سکتے ہیں لیکن شریمتی گاندھی اپنے فیصلہ پر اٹل رہیں اور اسے انہوں نے ہندوستانی سیکولرازم کا امتحان تصور کیا۔ بالآخر ڈاکٹر ذاکر حسین انتخاب جیت ہی گئے۔
فرقہ پرست عناصر سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھا کر فسادات کرانا چاہتے تھے اور بعض مقامات پر وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب بھی ہوگئے ، بد ترین فسادات احمد آباد میں ہوئے جہاں زبردست جانی و مالی نقصان ہوا ، بد قسمتی سے یہ فسادات اس وقت ہوئے جب سرحدی گاندھی ملک کی آزادی کے بعد پہلی بار ہندوستان کے دورے پر آئے تھے۔ شریمتی گاندھی کو اس بات کی شرمندگی تھی کہ وہ گاندھی جی کے اس مسلمان پیرو کو کیا منھ دکھائیں۔

احمدآباد کے بعد بھیونڈی اور جل گاؤں بھی فسادات کی زد میں آگئے۔ اس موقع پر شریمتی گاندھی نے فرقہ پرستوں کی کھل کر مذمت کی ، لوک سبھا میں 14/مئی 1970ء کی ان کی تقریر کا حوالہ یہاں بیجا نہ ہوگا کیونکہ کسی ہندوستانی لیڈر کی جانب سے اکثریت کی فرقہ پرستی کی یہ سب سے پرزور مذمت تھی:
"مسٹر اسپیکر، میں کسی مباحثہ میں سبقت لے جانے کی غرض سے یہ باتیں نہیں کہہ رہی ہوں۔ جہاں تک میرا خیال ہے ، میں نے اس سے قبل کسی بھی معزز مبر کی تقریر کے دوران مداخلت نہیں کی ہے۔ آج اگر میں مداخلت پر مجبور ہوئی ہوں تو انتہائی دل برداشتہ ہوکر اور احساس ذمہ داری کے جذبہ کے تحت۔ میرا خیال ہے کہ آج شری۔۔۔ نے اس ملک اور اس ملک کی اقلیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔"

شریمتی گاندھی نے مزید کہا۔
" یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس نازک موقع کو شری۔۔ نے خصوصاً مسلمانوں اور عموماً تمام اقلیتوں پر حملہ کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر انہوں نے ہٹلر کے انداز کی تقلید کی ہے۔ اتفاق سے مجھے ایک بار اس کے مشاہدہ کا موقع ملا ہے اور میں جانتی ہوں کہ ہٹلر کس طرح بولتا تھا، اور کیسے الفاظ استعمال کرتا تھا۔"

شریمتی گاندھی نے کہا:
"میں پوچھتی ہوں: کیا کسی چھوٹے بچے نے ایک پتھر پھینکا اور فساد شروع ہوگیا َ؟ کیا کسی شخص نے کسی کو قتل کردیا اور فساد شروع ہوگیا ؟ یا یہ اس ماحول کا نتیجہ تھا جسے اس قسم کی تقریروں سے زہر آلود کیاگیا جس طرح کی تقریریں ہم یہاں سن رہے ہیں؟ میرے خیال میں یہی ماحول فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیتا ہے۔"

انہوں نے کہا:
"فرقہ پرستی خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا ہندوؤں کی سکھوں کی ہو یا کسی اور کی بہر حال لائق مذمت ہے۔۔ اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ میں نے مسلم تنظیموں کی جانب سے یا کسی مسلمان کی جانب سے فرقہ پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کی پرزور الفاظ میں مذمت نہیں کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اکثریتی فرقہ کے کسی فرد کی مذموم حرکتوں کو نظر انداز کردیں۔"

شریمتی گاندھی نے اقلیتوں کے تئیں اکثریتی فرقہ کی خصوصی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
"جہاں کہیں بھی کچھ لوگ طاقتور ہیں ، ان کی کمزور طبقے کے تئیں ایک ذمہ داری ہے ، ہمارے ملک میں زیادہ تر مقامات پر ہندو اکثریت میں ہیں چنانچہ مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے تئیں ان کی ذمہ داری ہے کہ ، لیکن اقلیتی فرقے جہاں اکثریت میں ہیںِ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے علاقے کے ہندو جو کم تعداد میں ہیں ، محفوظ رہیں۔ اس لئے یہ شعلہ بیانی کہ ہندو اپنی یہ ذمہ داری نباہنے پر تیار نہیں ہیں ، عوام کو بھڑکانے کا محض ایک طریقہ ہے ، ان ہی باتوں کی وجہ سے اس ملک کا ماحول زہر آلود ہوا ہے"۔

اس تقریر سے تہلکہ مچ گیا اور فرقہ پرست اخبارات نے ان پر نکتہ چینی شروع کردی ، لیکن سی، راک گوپال آچاریہ نے جو سوتنتر پارٹی کے بانی کی حیثیت سے ان کے زبردست مخالف تھے ، اپنے ہفت روزہ جریدے "سوراجیہ" میں شریمتی گاندھی کے رویہ کی تعریف کی۔

1971ء کے وسط مدتی انتخابات میں شریمتی گاندھی کی زبردست فتح سے ان کی یہ بات صحیح ثابت ہوگئی کہ ہندوستانی عوام سیکولرزم مذہبی رواداری اور امن و انسانیت کے دلدادہ ہیں۔ جب بھی ایک چھوٹے سے طبقے نے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی، تو عوام کی اکثریت نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

شریمتی گاندھی کے وزیر اعظم بننے تک کوئی مسلمان وزیر اعلی نہیں بنا تھا۔ مرکز یا ریاست میں وزارت کا عہدہ کسی وفادار ترین مسلمان کے لئے باعث فخر تھا۔ شریمتی گاندھی نے ان حدو د کو توڑا، راجستھان مین جو کہ جن سنگھ کا گڑھ تھا، شری برکت اللہ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد ذات پات کی تفریق میں بری طرح جکڑی ہوئی ریاست بہار میں شری عبدالغفور کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ 1980ء کے انتخابات کے بعد انہوں نے مہاراشٹر میں جہاں اورنگ زیب اور شیواجی مہاراج کی جنگوں کی یاداب بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے ، شری عبدالرحمن انتولے کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ اسی طرح فرقہ وارانہ منافرت کی شکار ریاست آسام میں ایک مسلم خاتون۔۔ انورہ تیمور کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

ادریس حسن لطیف کو ہندوستانی فضائیہ کا سربراہ بنانے میں وہ قطعاً ہچکچائیں نہیں اسی طرح مسلمانوں کو دوسرے شعبوں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گی ا۔۔ دو مسلمانوں۔۔ جسٹس ہدایت اللہ اور جسٹس ایم۔ ایچ، بیگ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا ۔ شاید ہی کوئی زمرہ ایسا ہو جس میں باصلاحیت مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم نہ کئے گئے ہوں۔

اس کے باوجود شریمتی گاندھی مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مختلف محکوں میں مسلمانوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد سے فکر مند تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو مناسب نمائندگی دینے کے لئے متعدد موقعوں پر ہدایات جاری کیں لیکن انہیں صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے تاجروں اور صنعتکاروں سے بھی کہا کہ وہ اپنے اداروں میں مناسب تعداد میں مسلمانوں کو بھرتی کریں ، لیکن کچھ ہی لوگوں نے اس پر عمل درآمد کیا۔

ہندو، مسلم تعلقات کا ایک بدبختانہ پہلو ہند۔ پاک تعلقات میں اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے۔ چنانچہ شریمتی گاندھی پاکستان کے تئیں اپنے رد عمل میں ہمیشہ محتاط رہیں، سر حد پار ہونے والی اشتعال انگیز حرکتوں پر وہ کبھی برہم نہیں ہوئیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے ان کے اس محتاط رویہ کو ہندوستان کی کمزوری سے تعبیر کیا۔ بھٹو نے ایک بار کہا بھی تھا کہ نہرو کے بعد ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا ، بھٹو، 1956ء کی جنگ کو جاری رکھنا چاہتے تھے اور معاہدہ تاشقند کے مخالف تھے ، وہ اس بات پر صدق دل سے یقین رکھتے تھے کہ پاکستان جنگ میں ہندوستان کو شکست دے سکتا ہے اور کشمیر پر قابض ہوسکتا ہے۔ جبکہ شریمتی گاندھی کے لئے معاہدہ تاشقند امن کا ایک عہد تھا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ:
"ہندوستان اور پاکستان کا مفاد تعاون میں ہے ، ہم میں بہت کچھ مشترک ہے ، ہمارا کام عوام کا معیار زندگی بلند کرنا ہے ، نا اتفاقی ہم دونوں کو کمزور کردے گی اور ترقی کی راہ مسدود کردے گی ، ہم دوستی کرکے ہی خوشحال رہ سکتے ہیں"۔

کاش پاکستانی حکمرانوں نے اس نظریہ کو سراہا ہوتاتو بنگلہ دیش میں قتل عام نہ ہوتا۔ اور ایک کروڑ لوگوں وک ہجرت کرکے ہندوستان نہ آنا پڑتا۔ شریمتی گاندھی 9ماہ سے زائد عرصہ تک انتہائی صبروتحمل سے کام لیتی رہیں، اگر کوئی دوسرا لیڈر ہوتا تو طیش میں آکر پہلے ہی پاکستان پر حملہ کرچکا ہوتا۔ بنگلہ دیش کے بحران کے دوران جب لاکھوں ہندو مشرقی پاکستان سے نکالے جارہے تھے انہیں ہندوستانی مسلمانوں کی فکر لاحق رہی کیونکہ یہاں صورتحال تشویشناک ہوسکتی تھی۔

امریکہ کے دورے پر 5/نومبر 1971ء کو نیشنل پریس کلب، واشنگٹن میں ان سے اس سلسلہ میں سوالات پوچھے گئے کہ اگر پاکستان اپنے یہاں سے بچے کھچے ہندوؤں کو بھی نکال دیتا ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کا کیا ہوگا۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمان بالکل محفوظ رہیں گے، اگرچہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت کا جذبہ رکھنے والے کچھ لوگ موجود ہیں اور اکثر فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں جن پر مجھے شرمندگی ہے۔لیکن حکومت مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ میرا خیال ہے کہ سبھی ہندوستانی اور وہ پارٹیاں بھی جو ہم سے دیگر معاملات میں اتفاق نہیں رکھتیں اس معاملے میں ہم رائے ہیں کہ ملک میں امن و امان برقرار رہنا چاہئے ، اور اقلیتوں کو بھی وہ سبھی حقوق اور مراعات حاصل ہونا چاہئیں جن کا آئین میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے اپنی کابینہ کی جانب سے پر زور مخالفت کے باوجود مغربی پاکستان کے محاذ پر ایک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

شریمتی گاندھی نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس موقع پر فرقہ وارانہ امن و ہم آہنگی برقرار رہے۔ دراصل پاکستان کے ٹوٹ جانے سے دو قومی نظریہ کو زبردست دھچکا لگا تھا جس کے سبب چوتھائی صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے دو فرقوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے تھے۔ چنانچہ 3/جولائی 1972ء کو تاریخی شملہ معاہدہ کی شکل میں اس کا نتیجہ سامنے آیا۔

ابھی حال ہی میں جنرل ضیاء الحق کے امریکی اسلحہ کا ذخیرہ کرنے پر ہند، پاک تعلقات میں کچھ کشیدگی آئی لیکن شریمتی گاندھی اس بات کی پوری کوشش کرتی رہیں کہ صف آرائی کی نوبت نہ آنے پائے ، چند سال قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سوال پر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو ورغلانے کی کوشش کی لیکن شریمتی گاندھی نے اس کا اقلیتی کردار بحال کرکے فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو ناکام بنادیا۔ انہوں نے 14/ویں صدی ہجری تقریبات میں شرکت کی اور نئی دہلی میں ہند اسلامی مرکز قائم کرنے میں اس وقت کے نائب صدر جمہوری شری ہدایت اللہ کی مدد کی۔

1977ء کے انتخابات میں شریمتی گاندھی اور غیر منقسم کانگریس کی شکست میں مسلمانوں کا کیا رول رہا۔ یہ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ جبری نس بندی پروگرام اور زیادتی سے تنگ آکر ملک کے بعض حصوں خصوصاً شمالی ہند میں مسلم رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کانگریس سے بد ظن ہوگئی تھی۔ اس طرح کے ماحول کو آر ایس ایس اور جماعت اسلامی کے اشتراک اور دہلی کے شاہی امام کے رویہ سے مزید تقویت حاصل ہوئی، لیکن جلد ہی مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ شریمتی گاندھی سے بہتر دوست انہیں نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد آندھرا اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات اور متعددضمنی انتخابات میں انہوں نے کانگریس کو زبردست اکثریت سے کامیاب بنایا۔ اس کے بعد 1980ء کے لوگ سبھا انتخابات میں جنتا پارٹی کی حکومت کی کارکردگی سے بد ظن ہوکر انہوں نے کانگریس کی بھرپور حمایت کی۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران فرقہ وارانہ فسادات نے بلا شبہ مسلمانوں کو برہم کردیا ہے اور ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے ، حزب مخالف نے اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مسز اندرا گاندھی پر ہندوفرقہ پرستی کو شہہ دینے کا الزام عائد کیا۔ اگرچہ یہ الزام قطعاً بے بنیاد ہے، اگر کانگریس نے متعدد مقامات پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے نشستیں چھینی ہیں تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ووٹروں کا شریمتی گاندھی کے تئیں اعتماد بڑھا تھا۔

عیسائی بھی جن کی تعداد سکھوں سے بھی کم ہے، ہندوستانی سماج کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کے تعلیمی اداروں کے اعلی معیار کے باعث جن کا انتظام زیادہ تر مشنریوں کے ہاتھوں میں ہے ، وہ سرکاری اور نجی زمرہ دونوں جگہ اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر پی۔ سی الیگزینڈر شریمتی اندرا گاندھی کے پرسنل سکریٹری کی حیثیت سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ شری اے۔ کے انٹونی کیرالا کے کامیاب وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔

دیگر اقلیتوں مثلاً بدھ لوگوں اور پارسیوں کی تعداد تو بہت ہی کم ہے لیکن شریمتی گاندھی نے ان کے مسائل کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا زندگی کے مختلف شعبوں میں انہیں اپنے تناسب سے بھی زیادہ نمائندگی حاصل ہے۔ سائنس کے میدان میں مسٹر ہومی بھابھا کے تعاون اور ملک کو صنعت کے میدان میں آگے بڑھانے کی شری جے۔ آر۔ ڈی ٹاٹا کی کوششوں کو شریمتی گاندھی بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھتی تھیں۔ ہندوستانی ثقافت کو مالا مال کرنے میں لاماؤں کے رول کی بھی وہ بہت تعریف کرتی تھیں۔

درج فہرست ہندو ذاتوں کے مذہب تبدیل کرکے بدھ مذہب اختیار کرلینے والوں کے مسائل میں بھی انہوں نے ذاتی طور پر دلچسپی لی۔ شریمتی گاندھی نے ملک کی اقلیتوں کے مفاد میں اتنا کام کیا ہے کہ دنیا کے چند ہی لیڈر وں نے کیا ہوگا ، اشوک اور اکبر ان کے آدرش تھے کیونکہ وہ دونوں ہی طاقت اور فتح کی علامت ہوتے ہوئے بھی مذہبی رواداری اور دانشمندی کے دلدادہ تھے ، اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شریمتی گاندھی کی حکومت مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کی بہترین مثال قائم کر گئی۔

***
ماخوذ از رسالہ: نیا دور - جنوری/فروری/مارچ 1985 (اندرا گاندھی نمبر)
مضمون: رفیق ذکریا ، اردو ترجمہ: خضر الدین عثمانی (کانپور)

Indira Gandhi, a sympathetic friend of Minorities. Article by: Dr. Malikzada Manzoor Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں