برصغیر ہند و پاک کے ممتاز محقق، مصنف، آزاد شناس اور ماہر ابوالکلامیات رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہو گئے اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تحریر و تحقیق کا موضوع انگریزی استعمار کے دور میں تقسیم ہند سے قبل تک برصغیر میں رونما ہونے والی ملی تحریکیں تھیں، جن پر چھوٹی بڑی تقریباً ڈیڑھ سو کتب تحریر کیں۔ آپ کے علمی کاموں میں زیادہ تر توجہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پر رہی لیکن آپ کے اصل ذوق کی تسکین کا سامان ابو الکلام آزادؔ کے فکر و فن میں موجود تھا اس لیے آپ نے اپنی باقی زندگی ابو الکلامیات اور آزاد شناسی کے سپرد کر دی۔
ان کی وفات پر انہیں خراجِ عقیدت کے بطور مولانا آزاد پر ان کی ایک مختصر مگر اہم کتاب "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ممتاز علمی و دینی شخصیت مولانا عبدالمتین منیری (بھٹکل)، ڈاکٹر شاہجہاں پوری کی وفات پر اپنے تاثراتی مضمون بعنوان "ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری کا حادثہ رحلت" میں لکھتے ہیں ۔۔۔تقسیم کے بعد، پاکستان کے لکھاریوں کے لئے مولانا آزاد نرم چارہ بن گئے تھے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، اس پر مستزاد علامہ شبلی کی آڑ میں تحقیق کے نام پر بعض اہل قلم نے مولانا آزاد کے بارے میں ایسی اوچھی باتیں لکھیں ، جنہیں سن کر شریف آدمی کو ابکائیاں آنے لگیں۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کا تو ہجرت کے بعد جلد انتقال ہو گیا تھا، لیکن ماہر القادری جیسے اہل قلم ،جن کا علامہ سے مخلصانہ تعلق تھا، چند ایسی باتیں ہاتھ لگیں، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ڈاکٹر شاہجہانپوری نے اس ماحول میں مولانا آزاد کے دفاع کو اپنا مشن بنا دیا۔
اسی بات پر چٹکی لیتے ہوئے مشفق خواجہ نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ: "کوئی مولانا آزاد کے خلاف ایک بات کرتا ہے، تو اس کے رد میں شاہجہانپوری صاحب کی کتابوں کا انبار لگ جاتا ہے"۔
اسی رد عمل میں مولانا دریابادیؒ وغیرہ کے خلاف آپ کی جو سخت تحریریں آئی ہیں انہیں بھی اسی زمرے میں شامل کرنا چاہئے۔
مولانا شاہجہانپوری کی تحریریں زیادہ تر کتابچوں کی شکل میں منتشر انداز سے شائع ہوتی رہیں، آج کا حال معلوم نہیں، لیکن تیس چالیس سال قبل ان کی اشاعت کا حلقہ محدود تھا، اور زیادہ تر اخبارات اور مجلات کی طرح دوبارہ قارئین کی دسترس سے یہ کتابیں باہر رہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی جملہ تحریروں کو یکجا کیا جائے، اور مکمل سیٹ کی صورت میں زیور طبع سے یہ آراستہ ہوں۔ کم از کم فی الحال انہیں اسکین کرکے کسی ایک ویب سائٹ پر محفوظ کیا جائے۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری کی وفات ایک عظیم علمی سانحہ ہے، ایسی شخصیات جب دنیا سے اٹھ جاتی ہیں تو ایک خلا چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ خلا کیسے پر ہوگا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
عبید اللہ شمیم قاسمی اپنے مضمون "ایک چراغ اور بجھا: نامور محقق و مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری کی وفات" میں لکھتے ہیں ۔۔۔ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کااصل موضوع تحقیق مولانا آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور ان کے علمی اور ادبی کارنامے ہیں۔ آپ نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب و سیاست کے نابغہ روزگار شخصیت مولانا ابوالکلام آزادؔ (1888ء-1958ء) کی زندگی، فکر، فلسفے ، سیاست اور ادب پراتنا وقیع کام کیا جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔
آپ نے پاکستان میں آزاد شناسی کی بنیاد اُس وقت رکھی جب ابوالکلام آزادؔ کے ادبی اور علمی آثار سیاسی تعصب کی دبیز تہوں کے نیچے دب چکے تھے۔ انہوں نے وقت اور حالات کی پروا کیے بغیر انتہائی دلیری سے مولانا ابو الکلام آزادؔ کے علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی آثارو نقوش کی ترتیب و تدوین کا اہم کام شروع کیا اور لاتعداد مقالات تحریر کیے۔ اس سلسلے میں ان کا سب سے اہم کارنامہ مولانا آزاد کی زیر ادارت مختلف ادوار میں نکلنے والے اخبارات و جرائد "الہلال" اور "پیغام" کی تمام فائلوں کی تحقیقی عرق ریزی سے یکجا بازیابی ہے۔
کراچی کے رضوان طاہر مبین ایکسپریس نیوز میں شائع شدہ نیوز رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی نمازِ جنازہ عثمانیہ مسجد، جامعہ دارلعلوم اسلامیہ، واٹر پمپ چورنگی فیڈرل بی ایریا میں ادا کی گئی۔ وہ درجنوں تحقیقی مقالوں اور کتب کے مصنف تھے اور امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد پر "سند" سمجھے جاتے تھے۔ ان کی تحقیقات کا شہرہ پاک وہند کے علمی حلقوں میں یک ساں طور پر تھا، اور ان کی کتب اور تحقیقات ایک حوالہ تصور کی جاتی تھیں۔
ہندوستان میں وہ معارف اعظم گڑھ، برہان (دہلی)، اردو ادب (علی گڑھ)، ہماری زبان (علی گڑھ)، مدینہ (بجنور) الجمعیت (دہلی) سب رَس (حیدرآباد، دکن) وغیرہ، جب کہ یہاں پاکستان میں ہفت روزہ 'چٹان'، سہ ماہی اردو، قومی زبان، اردو نامہ، افکار، اخبار اردو ، الفتح، الحق، فنون اور 'پاکستان ہسٹاریکل جرنل' وغیرہ میں لکھتے رہے۔
کراچی میں 1986ء کے فسادات میں بلوائیوں نے علی گڑھ کالونی میں بڑے پیمانے پر مکانات پر حملہ کر کے آگ لگائی تو ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا گھر اور کتب خانہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا اور ان کی سیکڑوں نادر و نایاب کتب اور تاریخی دستاویزات خاکستر ہو گئیں۔
***
نام کتاب: اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ
مصنف: ابو سلمان شاہجہاں پوری
تعداد صفحات: 112
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Urdu Ki Taraqqi Mein Maulana Azad Ka Hissa by Abu Salman Shahjahanpuri.pdf
اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر | |
الف | حرف آغاز : خلیق انجم | 7 | |
ب | پیش لفظ | 18 | |
حصہ اول | |||
1 | باب اول : اسالیبِ بیان | 21 | |
2 | 1- دعوتی اسلوب | 22 | |
3 | 2- علمی اسلوب | 23 | |
4 | 3- ادبی اسلوب | 24 | |
5 | 4- بنیادی اسلوب | 25 | |
حصہ دوم | |||
6 | بابِ اول: خدمتِ زبان | 31 | |
7 | بابِ دوم: لغات - زبان کے علمی و فنی مباحث پر ایک نظر | 35 | |
8 | باب سوم: لسان الصدق اور اس کا دائرہ بحث | 53 | |
9 | ترقی اردو | 53 | |
10 | تنقید | 55 | |
11 | علمی مذاق کی اشاعت | 58 | |
12 | باب چہارم: دیسی اور ولایتی الفاظ | 63 | |
13 | باب پنجم: ترقی اردو اور تراجم علوم و فنون | 66 | |
14 | باب ششم: اصطلاحات سازی | 80 | |
15 | باب ہفتم: طریق طباعت | 87 | |
16 | باب ہشتم: اردو رسم الخط | 95 | |
17 | باب نہم: املا اور علامات تحریر | 97 | |
18 | باب دہم: مستی و تحریک کی بحث | 99 | |
19 | باب یازدہم: انجمن ترقی اردو اور دیگر ادارے | 101 | |
20 | باب دوازدہم: مولانا آزاد کی ادبی و فنی عظمت کی بنیاد | 108 | |
21 | باب سیزدہم: حرف آخر | 111 |
Urdu Ki Taraqqi Mein Maulana Azad Ka Hissa by Abu Salman Shahjahanpuri, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں