کوئی کہتا ہے دیوانہ - اکبر الہ آبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-03

کوئی کہتا ہے دیوانہ - اکبر الہ آبادی

avadh-punch-akbar-allahabadi
جس وقت اودھ پنچ نے دنیا میں جنم لیا اس وقت اخبار نویسی کا فن ہندوستان میں تخمیناً چالیس سال کے نشیب و فراز دیکھ چکا تھا۔ 1836ء میں پہلے پہل سرکار کی جانب سے ہندوستان کی بےزبان رعایا کو اخبار نکالنے کی نعمت عطا ہوئی۔ اور 1877ء میں "اودھ پنچ" نے زبان اور ظرافت کے چہرہ سے نقاب اٹھائی۔
پنڈت برج نارائن چکبست لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
ظرافت کے اعتبار سے "اودھ پنچ" اپنے رنگ کا پہلا پرچہ تھا۔ اکثر ظریفانہ اخبار مثلاً انڈین پنچ، بمبئی پنچ، بانکے پور پنچ وغیرہ اس کی تقلید میں نکلے مگر وہ سب دنیا کی ٹھوکریں کھا کر ختم ہو گئے۔ زمانے سے کسی کو شہرت و ناموری کی سند نہیں ملی۔ اودھ پنچ کا جادو اردو زبان پر عرصہ تک چلتا رہا اور اس طولانی زمانہ میں جو خدمات اودھ پنچ سے ظہور میں آئیں ان پر نظر ڈالنے سے اردو نویسی کے دربار میں ہم اس کا صحیح مرتبہ قائم کر سکتے ہیں۔
اودھ پنچ ظرافت کا سرچشمہ تھا اور عام طور سے لوگ اس کے فقروں اور لطیفوں پر لوٹ رہتے تھے، جو پھبتی اس میں نکل جاتی تھی، وہ مہینوں زبان پر رہتی تھی اور دور دور تک مشہور ہو جاتی تھی۔ مگر قوموں کے مذاقِ سلیم نے جو ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم اودھ پنچ کی ظرافت کو بحیثیت مجموعی اعلیٰ درجہ کی ظرافت نہیں کہہ سکتے۔ لطیف ظرافت اور بذلہ سنجی و تمسخر میں بہت فرق ہے۔ اگر لطیف و پاکیزہ ظرافت کا رنگ دیکھنا ہے تو اردو زبان کے عاشق کو غالب کے خطوں پر نظر ڈالنا چاہیے۔
ہندوستان کے جس گوشہ میں اردو زبان کا نغمہ سنائی دیتا ہے وہاں شاید کوئی ایسا شخص ہو کہ جس کے کان اودھ پنچ مرحوم کے ذکرِ خیر سے آشنا نہ ہوں۔ اودھ پنچ نے تیس پینتیس سال تک اپنی عالمگیر شہرت و وقار کے پردہ میں اخباروں کی دنیا میں سلطنت کی ہے اور اس کی پرانی جلدوں کے گورِ غریباں میں اکثر ایسے اہل کمال دفن ہیں جن کے قلم کی دھاک دلوں میں لرزہ پیدا کرنے کے لیے کافی تھی۔
ذیل میں اودھ پنچ کے شمارہ 6/اگست 1878 سے اکبر الہ آبادی کا ایک انشائیہ پیش ہے۔
کوئی کہتا ہے دیوانہ کوئی کہتا ہے سودائی
خوشامد سب کے سب کرتے ہیں جس سے جیسی بن آئی

ہٹو۔ بچو۔ سنبھل بیٹھو، جگہ دو ، ہم آتے ہیں۔ ہم آتے ہیں۔
ہاں۔ ہاں۔ یا اللہ! اے حضت آپ ہیں کون؟
ایں! ہم ہیں کون؟ ہم ہیں ۔ ہم!
توبہ! ارے میاں خدا کے لئے کچھ کہو گے بھی آخر ہو کون ؟بتا ہی دیں ۔
ہم ہیں ، خیال ولد دماغ ولد نیچر ولد قل ہو اللہ احد اللہ الصمد ۔۔۔ الی آخرہ۔
واہ وا۔۔ واہ وا ۔ یہ تو آپ نے اپنے نام کے ساتھ اپنا نسب نامہ بھی پڑھ سنایا۔ یہ تو فرمائیے یہاں نہ کوئی کمیٹی نہ سوسائٹی نہ لکچر نہ آرٹکل۔ نہ چندہ نہ لاٹری ، آپ زور شور سے جو تشریف لائے ہیں اس کا کیا باعث؟
آہا ہا ہا۔ اس کا باعث کچھ نہ پوچھئے۔۔
چمنستان کی گئی نشو و نما پھرتی ہے
رت بدلتی ہے کوئی دن میں ہوا پھرتی ہے
ادھر اودی اودی بدلیاں، نیلم پری بنی ہوئی بحر ہند سے آ رہی ہیں، ادھر ہری ہری پتیاں معشوق سبز پوش کی طرح اپنا جوبن دکھا رہی ہیں۔ آپ جانئیے ہم ایک جوہر مجرد۔ کلیل میں آ گئے ۔ کمیٹی چھوڑ محفل رنداں میں آ نکلے۔
جناب یہ سب سہی۔ مگر کچھ بات اور بھی ہے ورنہ ؎
ایک سے ایک ہے تماشا رنگ
دیدنی ہے جہاں رنگا رنگ
ہزار رنگ بدلے کبھی آپ تہارت خانۂ دماغ سے نہ نکلے ۔اب کیا تھا کہ آپ نے اس دھوم دھام سے پر پرواز کھولے ہیں؟
سچ بتا دوں؟
مناسب تو یہی ہے!
بھئی سچ تو یہ ہے اللہ سیکریٹری آف اسٹیٹ کو بغیر کہے اول درجہ کا صدر اعلی کر دے (ولایتی معنی صدر اعلیٰ کے مراد ہیں۔ وہ نہیں کہ بگڑا گویا مرثیہ خوان اور بگڑا وکیل صدر اعلیٰ)۔ ایکٹ پابندی اخبارات کی ترمیم کی کس عمدگی سے رائے دی ہے کہ جی پھڑک گیا۔ سچ پوچھئے تو ہم کو جلا دیا۔ میرے حق میں تو مسیحائی کی۔ سقف دماغ میں سوکھے مکڑ کی طرح ہزار جال پھیلاتا تھا مگر ایک مگس مضمون ہاتھ نہ آتی تھی ۔ اب تو وہ خر مگس میں پھنساؤں کہ ہزار قحط پڑے میرے راتب میں خلل نہ پڑے ۔اس وقت طبیعت ایسی حاضر ہے کہ جو مضمون فرمائیے بے تکلف موزوں کر دوں۔

اگر یہ ہے تو اپنی سرکار ابد قرار کی شان میں ایک رباعی دعائیہ کہنا ضرور ہے ۔
بہت خوب ۔ اے حضت! یہ تو خود ہمارا فرض ہے ،خزانہ مضمون ہاتھ آیا ہے تو ادائے ٹکس واجبات سے ہے۔ اچھا سنئیے۔
پہلا وزن
قیصر ہند کو اللہ سلامت رکھے
دشمنوں کو ہدف تیر سلامت رکھے
حاسدوں کو غم و حسرت کی نشانی کر دے
پنچ کو عشرت و راحت کی علامت رکھے
آمین ۔آمین۔آمین

اے سبحان اللہ! خوب ارشاد کیا ہے ، مجرد کے واسطے علامت کس قدر موزوں ہے ۔
آداب جھاڑتاہوں ۔ بندگیاں اوچھالتا ہوں۔
کیا خوب آداب نہ ہوا دولتیاں ہوئیں
جی یہ تو سن طبع کی رعایت ہے

اچھا یہ بندگیوں کا اوچھالنا چہ معنی دارد۔ بندگیاں نہ ہوئیں، میخوار کی پگڑی ہوئی۔
جی یہ بادۂ مضمون کی مناسبت ہے۔
کلیل میں تو آپ ہی ہیں۔ بھلا جواب دینے میں کب رکئے گا۔خیر اب زمانہ سابق کی کچھ برائی اور اسی عہد کی کچھ تعریف فرمائیے۔

سچ بات کہنے میں کیا عذر ہے۔ وہ بھی لیجئے۔
دوسرا وزن
ہوتے تھے آگے ہند میں مجنون بادشاہ
کرتے تھے بے خطا بھی بہت خون بادشاہ
اے پنچ میرا عہد عجیب عہد امن ہے
یعنی ہے اس زمانے میں قانون بادشاہ

سچے پر۔۔۔۔!
ہاں ہاں۔ بس آگے نہ بڑھئے گا، صرف شعر کہلا لیجئے ۔
یوں ہے تو خیر۔
خیر کیسی؟ خون جگر کھا کر تطم کروں ۔ آپ ایک خیر میں خاتمہ بالخیر کئے دیتے ہیں۔ اے حضت! تعریف کیجئے ۔
اچھی زبردستی کی تعریف ہے ۔اچھا صاحب۔ واہ وا ۔۔ ماشاء اللہ
تسلیم جاری کرتا ہوں۔

یہ کیا؟
قانون کی رعایت۔
اسی رعایت نے آپ کو مجنون بنا کر دو قافیوں کا زبردستی خون کرایا۔
اچھا افواج ہند کو سرکار نے یورپ بھیج کر جو عزت افزائی کی ہے اس کی نسبت بھی کچھ ارشاد ہو۔
یہ تو آپ نے میرے دل کی کہی۔ اچھا سنئیے۔
تیسرا وزن
انگلش کی مدد سے مالٹا تک
ہندی لشکر جو بڑھ گئے ہیں
کہتے ہیں یہ ہنس کے ہند والے
کالے گوروں پہ چڑھ گئے ہیں

بہت خوب سبحان اللہ!
آداب خیر کرتا ہوں۔ (رعایت ظاہر ہے)۔
خیر یہ تو سب کچھ ہوا۔ اب شہر کلکتہ کی تعریف میں بھی کچھ ارشاد ہو جائے۔
ضرور ضرور۔ وہ تو ہمارا دارالسلطنت ہی ہے ۔ الہی آباد رکھے۔ اچھا سنئیے
چوتھا وزن
نائب سلطان عالم کی وہاں درگاہ ہے
حاکمان داد گر کا خیمہ و خرگاہ ہے
تاجروں کا کیوں نہ ہو اطراف یورپ سے ورود
جانتے ہیں سب کہ کلکتہ بھی بندر گاہ ہے

اے سبحان اللہ
تسلیم کو داتا ہوں
یہ کیا؟
بندرگاہ کی رعایت ۔
اے حضت! اب فرمائش نہ کیجئے گا ۔ دیوالہ نکل چاہتا ہے۔ اس وقت رخصت ہوتا ہوں، آپ بھی سمجھ لیجئے گا ۔ کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہے ، چلتے چلاتے ایک وزن اور عرض کئے دیتا ہوں۔
پانچواں وزن
سَر سَر سَر سَر سٹاک
سُر سُر سُر سُر پھٹاک

میاں خیال صاحب اس قدر جھک مار کے رفو چکر ہو گئے، وہ گئے پھر وہی سکوت۔ وہی سناٹا ؎
شمع کے گل ہوتے ہی پروانے راہی ہو گئے
دفعتاً گیا تھا میانِ انجمن کیا ہو گیا

ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)

Koi kehta hai deewana. Humorous Essay by: Akbar Allahabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں