ان دنوں کچھ ایسی بات آبنی تھی کہ جو ملتا لکھنؤ کی تعریف کرنا، کوئی چھتر منزل کی بات کرتا تو کوئی امام باڑہ کی۔ کوئی حضرت گنج کی چہل پہل بیان کرتا تو کوئی چوک سماس کی ہما ہمی ، کسی کو وہاں کی بولی پیاری تھی تو کوئی وہاں کے کھانوں میں پڑنے والے مصالحے کی گولیوں پر نچھاور تھا ۔ کوئی وہاں کی شیروانی کا قائل تھا تو کوئی غزل خواں کا۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی وہاں کے عطر پر قربان تھا تو کوئی سرمے پر۔ کوئی وہاں کی شرافت کو سراہتا تو کوئی نفاست کو ، ہم نے بھی سوچا لاؤ گرمیوں کی چھٹیوں میں اس بار لکھنؤ دیکھ ہی لیاجائے ۔
وہاں ہمارے بچپن کے دوست بھی جابسے تھے ، بارہ سال سے اوپر انہیں رہتے ہوئے ہوگئے تھے ۔ ہمارے دوست تھے ، اس لئے شریف تو ہوتے ہی، پھر ایک زمانے سے لکھنؤ میں رہتے تھے ۔ اس لئے ہمارا خیال بے جا نہ تھا کہ لکھنؤ نے ان کی شرافت میں کچھ اضافہ ہی کیا ہوگا ۔ کئی بار وہ لکھنؤ آنے کو لکھ چکے تھے ۔ اس بار ہم نے پہل کی، لکھا۔۔۔۔۔بھائی ہم اس تاریخ کو اس گاڑی سے لکھنؤ آرہے ہیں۔
گاڑی لکھنؤ پہنچی، سٹیشن دیکھ کر طبیعت کھل اٹھی۔ گاڑی رکی ، ہمارا خیال تھا کہ سمجھدار کو اشارہ کافی ہوتا ہے ۔ ہمارے دوست بیوی سمیت ہمیں لینے کے لئے آئے ہوں گے ۔ لیکن گاڑی سے اتر کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا، پہلے تو سچ کہیں، ہمیں بہت عجیب سا محسوس ہوا ، دوست پر غصہ بھی آیا مگر سوچا شاید چھٹی نہ ملی ہو یا کسی ضروری کام سے نہ آسکے ہوں ، کوئی بات نہیں، آپس میں ظاہر داری کیا؟ معمولی سا سامان تھا۔ رکشا میں ڈالا اور دوست کے گھر کی طرف چل دئیے۔
رکشا والا شریف تھا، شہر لکھنؤ کا تھا ، ہونا ہی چاہئے ، اس نے کئی سڑکیں پار کیں، کئی موڑ کاٹے اور کئی گلیاں پھرا ڈالیں تو پھر صرف ایک گھنٹے میں ہمیں دوست کے مکان پر پہنچا ہی دیا، محنت کو دیکھ کر اب ہم اسے ٹھیک مزدوری نہ دیں یہ کیسے ہوسکتا تھا ۔ خیر، مزدوری ہی تو اسے دے دی لیکن دوست کے مکان کا بند دروازہ کیسے کھلوایا جائے ۔ یہ بڑا مسئلہ ہمارے سامنے تھا، لکھنؤ کا معاملہ تھا۔ ذرا شرافت سے ہی کام لینا چاہئے، ہم نے انگلی سے دروازے کو کھٹکھٹایا لیکن کسی نے نہ سنا، ہلکی سی دستک دی، کوئی آہٹ نہ ہوئی ، ذرا زور سے دروازے کی زنجیر بجائی ، کسی کی بھنک نہ امنڈی، لاچار ہوک آواز لگانی پڑی۔"ارے بھابھی بھوشن۔"
ایک دو تین جب ہمارے گلے سے نکل کر ساتویں بار آواز محلے میں گونج گئی تو اندر سے ایک باریک لیکن تیکھی آواز جیسے بگڑے ہوئے ہارمونیم کے ساتویں سر کو کسی نے دھونکنی دے دی،"دیکھنا ، موہن ! یہ باہر کون چیخ رہا ہے ، ان کے روز کے آنے والوں نے جینا حرام کر رکھا ہے ۔"
ایسا محسوس ہوا کہ ہم لکھنؤ میں نہیں ہیں ، اور ہمیں کسی نے جیتے جی ہی گٹھڑی میں باندھ کر قطب مینار سے نیچے پھینک دیا ہے، ہوگئی لکھنؤ کی سیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچا لوٹ چلیں ، اپنی دلی کو۔۔۔۔یہاں تو بسم اللہ ہی غلط ہوگئی۔
ہمارا دل شروع سے ہی وہمی ہے ، کسی ایک بات پر اگر جمے رہے ہوتے اور ایک خیال سے کام کیا ہوتا تو آج ہم نہ جانے کہاں پہنچے ہوتے، بات کے ایک پہلو کے آتے ہی دوسرا دل میں کروٹیں لینے لگتا ہے ، ہم نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے دوست نے اپنی بیوی کو ہمارے آنے کی اطلاع نہ دی ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوستوں کا یوں استقبال کرنے والی عورت ہمارے دوست کی بیوی نہ ہو، گھر مین کوئی کرایہ دار بھی تو ہوسکتا ہے ، ہم سانس روکے ہوئے دروازے پر کھڑے رہے، سوچا کہ پوری بات معلوم کرنا ہی ٹھیک ہے، قیاس بیکار ہے ۔
موہن نے دروازہ کھولا، اور میٹھی سی آواز میں کہا:" پتا گھر پر نہیں ہیں۔"
ہم نے بتایا۔ دلّی سے آئے ہیں اور تمہارے تاؤ لگتے ہیں۔ یہ سامان اندر رکھواؤ۔"
لڑکا با اخلاق تھا اس نے ہمیں جھک کر نمستے کی اور اٹیچی اٹھا کر اندر لے گیا۔ گرمیوں کا بستر ہوتا ہی کتنا ہ ، ہم نے اسے اٹھا کر کندھے پر ڈال دیا، اور دونوں چیزوں کو ایک کونے میں جماکر بیٹھک میں ایک آرام کرسی پر جم گئے ۔ سوچنے لگے۔۔۔۔آج کیا دیکھاجائے!چڑیا گھر یا تصویر خانہ؟
موہن بولا:"تاؤ جی شربت پیوگے یا چائے؟" بچہ بڑا پیارا تھا، ہماری شکایت دور ہوگئی۔
"چائے تو گرمی میں ہم پیتے نہیں۔" ہم نے کہا۔
ہم نے قمیص اتار کر کھونٹی پر ٹانگ دی ، پنکھا تیز کیا اور آرام کرسی پر نیم دراز ہوکر شربت کا انتظار کرنے لگے ، ہمارا خیال تھا کہ ہمارے دوست کی بیوی شربت لے کر خود ہی آئیں گی اور ہمیں جو سفر میں اور گھرمیں تکلیف ہوئی ہے، اس پر میٹھی لکھنؤ کی زبان میں کچھ ایسی باتیں کریں گی کہ ہماری ساری شکایت دور ہوجائے گی ۔ لیکن یہ کیا؟ بیٹھک میں بیٹھے بیٹھے ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ موہن کچھ سبکیاں بھررہا ہے ، یوں ہماری عادت کسی پرائے کیا اپنے گھر میں بھی کسی کی سوئی دھاگا لینے کی نہیں ہے مگر ہمارے کان اس لمحہ کھنچ ہی تو گئے ، ہم نے سنا لڑکے کو سخت سست کہا جارہا ہے ۔"مرے، کسے بٹھا آیا ہے ، بیٹھک میں؟ تاؤ جی! ایسے تاؤ جی تو یہاں دن میں تیس آتے ہیں ، میں بھی گئی ہوں کسی کے یہاں کبھی پانی پینے ۔ کہ سب میری ہی چھاتی پر مونگ دلنے آجاتے ہیں ، جا، مٹکے میں پانی پڑا ہے ۔ لوٹے میں بھر کر دے آ، اور دیکھ ، یہ دیکھا کیسے فر فر کررہا ہے ، ہلکا کر اسے۔"
لڑکا پانی لے کر لوٹا تو اس کا پانی اتر گیاتھا، وہ تواندر سے لوٹ آیا، مگر ہمارے لبوں پر اٹکی جان ابھی نہیں لوٹی تھی ، پانی کا لوٹا ہم نے پکڑ لیا مگر یہ نیم ابلتا ہوا پانی گلے سے نیچے نہ اتر سکا، ہم نے سوچا۔۔۔۔۔۔بس اب یہاں سے چل ہی دینا چاہئے ۔ حالانکہ بیویاں سبھی کی کم و بیش ایک سی ہی ہوتی ہیں، ہم تو اپنی کوہی کہتے تھے مگر یہ تو اس سے بھی زوردار نکلی ، ہم نے واپسی کا ارادہ کیا مگر دوست کا خیال آگیا، وہ ضرور برا مانیں گے ، پھر سوچا کہ شہر کا معاملہ ہے ۔ دوست ہمیشہ ہی ملنسار رہے ہیں ۔ بیچاری روز پریشان رہتی ہوگی ، ٹھیک بھی تو ہے ، انہیں میری اور بھوشن کی لڑکپن کی دوستی کا پتہ بھی کیا؟ ان لوگوں کی شادی کے بعد میں بھی تو پہلی بار آیا ہوں ، دوست کے آتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا۔"
آخر دو گھنٹے کے بعد ہمارے دوست آئے، آتے ہی بغلگیر ہوئے، کچھ بھی ہو لڑکپن کی دوستی کا مزا کچھ اور ہی ہے ، بولے،"اما، تم نے تو کوئی خبر ہی نہیں دی۔"
خط کی بات کہی تو کہنے لگے۔" مجھے نہیں ملا،" ہم نے سوچا تب ہی تو۔۔۔۔۔ ورنہ تو خط ملے اور بھوشن گھر بیٹھ رہے، کبھی ہوسکتا ہے ؟
بہت دنوں میں ملے تھے، ہم دونوں۔۔۔۔باتوں میں الجھے تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا، ہم تو جانے کب تک بیٹھے رہتے مگر وہ تو اندر سے موہن آیا اور کہنے لگا:" ماتا جی بلا رہی ہیں۔"
ہمارے دوست گئے اور کچھ دیر بعد لوٹ کر آئے تو مجھے محسوس ہوا کہ کچھ کھوئے کھوئے سے ہیں، پوچھا "کیوں کیا ہوا جی۔۔۔۔۔۔"
بولے کچھ نہیں، ان کی بہن بھی یہاں لکھنؤ میں رہتی ہیں، طبیعت ذرا علیل ہے ، ان کی۔۔ وہ ذرا وہاں جانا چاہتی تھیں میں سوچتا تھا۔"
"ہاں، ہاں،سوچنے کی اس میں کیا بات ہے ۔" ہم نے کہا"انہیں ہوآنے دو، نہا دھو تو میں ریل ہی میں لیا ہوں، کھانا باہر کہیں کھالیں گے ۔"
ہمارے دوست فوراً مان گئے ، کبھی کبھی باہر کھانے میں بھی بڑا لطف آتا ہے ، خصوصاً مہمانوں کے ساتھ۔۔ بولے صرف ایک وقت کے کھانے کی ہی بات ہے ۔"
خیر ، وہ وقت تو ہوٹل میں خوشی خوشی کٹ گیا، مگر بعد کے تین دن ہمارے جو رام رام کہہ کر کٹے، وہ ہم ہی جانتے ہیں ۔ نہ جانے موہن بیچارا ان دنوں کتنی بار پٹا، نہ جانے ہمارے بھوشن کتنی بار غصے میں آئے اور کھسیانے ہوئے، چھوٹی چھوٹی باتیں، کیا، کیابتائیں؟ کبھی دیاسلائی مانگنے پر موہن کی ماں بھبھک اٹھتیں ، کبھی ہاتھ پونچھنے کے لئے تولیہ نکالنے پر انکا کلیجہ نکل پڑتا، کبھی وہ شوہر ہی کو ڈانٹیں ، کبھی بیٹے کو ۔ جب ان دونوں میں سے کوئی نہ ہوتا تو ان کی جھنجھلاہٹ باورچی خانے کے برتنوں پراترتی ، ہمار ا حال یہ ہے کہ ہم کبھی دال میں سے مرچ نکالتے تو کبھی ساگ سبزی میں سے کنکر۔۔۔۔بستروں میں سے کبھی دری غائب ہوجاتی تو کبھی چادر، غسل خانے میں کبھی صابن ندارد ہوتا تو کبھی تیل۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی بالٹی نہ ہوتی تو کبھی لوٹا نہ ہوتا۔ لیکن واہ رے ہم! ہماری بیوی ہمیں ناحق تنگ مزاج کہتی ہے ، ہماری برداشت تو ان دنوں جوگیوں کو بھی مات کر گئی تھی، ہم نے وہ حالت اختیار کرلی ، کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہم پر اسی طرح اثر نہیں کررہی تھیں، جیسے برسات میں مسلح بوندوں کے حملوں سے پہاڑوں کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔
کوئی ایک بات ہو تو کہیں، جس دن ہم سیرکو جاتے وہیں باہر کھاتے پیتے تو ہمارے دوست کی بیوی گھر پر ہی رہتیں ، اور کسی قدر میان میں بھی رہتیں، لیکن جب ہم گھر میں ہی رہتے تو ان کا دل ایک دم گھر سے فرنٹ ہوجاتا ، تو اکثر انہیں کوئی باہر کا کام آنکلتا ، تب پانی کے لئے پان، ایش ٹرے اور اگالدان کے لئے موہن اور ان کے باپ ہی نہیں ہمیں بھی ہاتھ پاؤں ہلاتے پڑ جاتے تھے۔
تین دن تو ہمارے دوست ہمارے قابو میں رہے لیکن چوتھا دن آتے آتے وہ بھی حوصلہ چھوڑ بھاگے، یا تو ان کی بیوی نے انہیں بھرا ہو یا خو دہی انہیں عقل آگئی ہو کہ صبح ہی انہوں نے بیٹھک میں ٹنگے میرے کپڑوں کو اٹھا کر میرے اٹیچی پر پھینک دیا ، بولے" اس طرح یہ پھیلے ہوئے ٹھیک نہیں لگتے۔"
ہم پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ، تو میری بار بار پان کھانے کی عادت پر لکچر پلایا گیا، ہم نے سوچا کہ یہ تو حضرت کی پرانی عادتیں ہیں ، لیکن جب دوپہر کھانے میں میرے ساتھ وہ صرف دو روٹیاں کھاکر ہی اٹھ گئے تو پہلی بار میرا ماتھا ٹھنکا۔۔۔۔۔معاملہ جیسا ہم سمجھتے تھے ویسا نہیں، بہت گمبھیر ہے ، شام کو آئے تو کسی بار پر اپنی بیوی سے اس قدر الجھ پڑے کہ مجھے شک ہوا ، کہیں مار پیٹ نہ ہوجائے، میں نے ادھر کان لگائے اور معلوم کرنا چاہا آخر بات کیا ہے؟ جو کچھ سنا اس کا نچوڑ یہ ہے :
"تو میں کیا کروں؟ یہ کمبخت تو ٹلتا ہی نہیں۔"
"وہ ٹلتا نہیں یا تم ٹالتے نہیں، تمہیں کیا، بھگتنا تو مجھے پڑتا ہے۔"
" تو بھاگوان ، بتا میں کیا کروں۔"
"میں بتاؤں؟ پھینک دو اس بے حس کی اٹیچی باہر!۔۔۔ایسا جم گیا ہے جیسے اس کے باپ کا گھر ہو۔"
لکھنؤ کی ہماری مہمان داری اب کلائیمیکس پر پہنچ گئی تھی، نہ جانے کیوں تلسی داس کی یہ چوپائی رباعی ہمیں یاد آئی،
"آگے چے بہری رگھورائی"
ہم نے اپنا سامان اٹیچی میں ٹھونسا ، بستر لپیٹا ، کپڑے پہنے اور ہمارے دوست اندر سے آئے تو ہم نے ان سے کہا"اچھا بھائی نمستے"
ہمارے دوست کے دل میں کیا تھا یہ تو وہی جانتے ہوں گے، مگر ظاہراً انہوں نے یہی کہا"ارے ابھی سے۔"
ہم نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔۔۔۔ بس، اتنی یاد گار کافی ہے ، لکھنؤ کی۔۔۔۔ لیکن ہم نے یہی کہا"چھٹیاں ختم ہورہی ہیں اب چلنا ہی چاہئے۔"
ہمارے دوست نے لمبی سانس لی، جس کا ایک مطلب جدائی کا غم تھا اور دوسرا مطلب تھا، چلو پاپ کٹا، ہم نے بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ جو مل گئی وہی ریل پکڑی ، جس درجے کا ملا ٹکٹ خریدا، جہاں ملی جگہ۔ ۔۔۔وہاں بیٹھ گئے ، جب گاڑی نے سیٹی بجائی اور جب سچ مچ وہ چل پڑی تو اس کے پہیوں کی دھن کے ساتھ میرے دل میں بھی یہ کہاوت گونج اٹھی۔
"جان بچی، اور لاکھوں پائے"
ماخوذ: نقوش طنز و مزاح نمبر (فروری 1959)
دنیا کی بڑی زبانوں کا طنزیہ و مزاحیہ ادب (ہندی)
دنیا کی بڑی زبانوں کا طنزیہ و مزاحیہ ادب (ہندی)
Hum lucknow gaye. Humorous Essay: Gopal Vyas
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں