رپورتاژ : حیدرآباد کی اردو خدمات اور یاد رفتگان - تعزیتی نشست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-22

رپورتاژ : حیدرآباد کی اردو خدمات اور یاد رفتگان - تعزیتی نشست

"حیدرآباد کی ادبی خدمات مسلمہ ہیں مگر حیدرآبادی شعراء اور ادیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ حیدرآباد نے نہ صرف عظیم شعراء، ادیب، نقاد و محققین پیدا کئے بلکہ اپنے دامن میں بیرون حیدرآباد کے شعراء، ادیبوں کو جگہ دی۔ ان کی پذیرائی کی، ان کی صلاحیتوں کو نکھارا، سنوارا بلکہ یہاں کی سرزمین نے انہیں اپنی آغوش میں سمو لیا جیسے داغ اور فانی۔
یہ بدنصیبی ہے کہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا دیوان جو 1922 تک موجود تھا وہ لاپتہ ہے۔ امجد حیدرآبادی جیسے عظیم شاعر کو فراموش کر دیا گیا۔ مخدوم، جس کی غزل پر فیض احمد فیض نے غزل لکھی، اس کے لئے حیدرآباد کی کسی یونیورسٹی میں کوئی گوشہ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عوام شعر سے تو واقف ہیں مگر اس کے شاعر سے واقف نہیں"۔

ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیب، شاعر، نقاد اور محقق ڈاکٹر تقی عابدی نے کیا۔ وہ 21/جنوری کو "حیدرآباد کی اردو خدمات اور یاد رفتگان" کے موضوع پر منعقدہ تعزیتی نشست سے ژوم کے ذریعہ مخاطب تھے۔ 'گواہ' اور 'تلنگانہ اردو اکیڈیمی' نے اس تعزیتی اجلاس کا اہتمام میڈیا پلس آڈیٹوریم میں کیا تھا۔ جس سے دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف شخصیات نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، حسن چشتی سے لے کر رحمن جامی تک کو خراج عقیدت پیش کیا۔

میڈیا پلس آڈیٹوریم میں آف لائن اجلاس سے ڈاکٹر محمد غوث ڈائرکٹر سکریٹری تلنگانہ اردو اکیڈیمی، پروفیسر فاطمہ بیگم پروین، ڈاکٹر عابد معز، محسن جلگانوی، پروفیسرفضل اللہ مکرم، ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے خطاب کیا۔ جبکہ ژوم پر دہلی سے ممتاز شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے شمس الرحمن فاروقی اور حسن چشتی کی منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
ڈائرکٹر این سی پی یو ایل ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی اس عہد کی عبقری اور نابغہ شخص تھے۔ تنقید کے باب میں وہ فاروقی کا عہد تھے۔ انہوں نے تنقید کو اعلی معیار عطا کیا۔ ایسی خاموش شخصیت تھے جن کی تحریروں نے بہت سے سوالات قائم کئے۔ اور تنقیدی ذہن کو مہمیز اور متحرک کیا۔ ترجمہ، تنقید، تخلیق، ترتیب کے باب میں جو ان کی خدمات اور ان کا جو کنٹریبیوشن اسے اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ سرسوتی سمان یافتہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی تصانیف کے ذریعہ اردو دنیا کو بہت کچھ عطا کیا ہے جو قابل رشک ہے۔ شعر شور انگیز، تفہیم غالب، اردو کا ابتدائی زمانہ، افسانے کی حمایت میں، کئی چاند تھے سر آسماں اور اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں ان کا اعلی علمی، تنقیدی اور تخلیقی شعور نظر آتا ہے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ ادبیاتِ عالم پر گہری نظر تھی اور عالمی رجحانات، رویے اور تحریکات پر بھی وہ نگاہ رکھتے تھے۔ اردو، انگریزی، ہندی، فارسی، فرنچ اور عربی پر عبور رکھنے والے فاروقی نے اردو ادبیات کو انگریزی حلقہ میں بھی متعارف کروایا۔ اور کئی اہم تصانیف کو انگریزی میں ترجمہ کر کے انہوں نے اردو زبان کی ثروت کا احساس دلایا۔

آرکیٹکٹ عبدالرحمن سلیم شکاگو نے مرحومین سے اپنی وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی بے لوث اور ناقابل فراموش خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ضیاء الدین شکیب صاحب کے انتقال کی خبر سن کر دلی تکلیف ہوئی۔ ان کے ساتھ 1975-76 میں حیدرآباد اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کی جانب سے منعقد کردہ تصویری نمائش "حیدرآباد - کل، آج اور کل" کو بنانے اور مکمل کرنے کا موقع ملا تھا۔ حیدرآباد کی تاریخ پر ان کی نظر بہت گہری تھی اور ڈاکٹر زور کی شخصیت کا اثر جھلکتا تھا۔ ڈاکٹر وی کے باوا کے مداحوں میں تھے۔ حیدرآباد پر تصویری نمائش کے لئے آرکائیوز سے ڈیپوٹیشن پر HUDA میں کچھ عرصہ کام کیا۔ اپنے حوالہ کیے جانے والے ہر کام کو بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچاتے۔ ہر دن کا کام مقرر کرتے اور اس کام کو اسی دن مکمل کرتے چاہے اس کی تکمیل میں رات کے بارہ بج جائیں۔ گولکنڈہ سوسائٹی کیلئے پردہ کے پیچھے رہ کر کام کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر تقی عابدی نے حیدرآباد کی ادبی خدمات پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ عظیم شعراء اور ادیبوں کی حیدرآباد کی جامعات میں گوشے قائم کرنا چاہئے۔ انہوں نے ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کی رحلت کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ ان کی ادبی تحقیقی خدمات پر روشنی ڈالی۔ مجتبی حسین، ابراہیم جلیس اور محبوب حسین جگر مرحوم کا تذکرہ کیا۔ مظفر حنفی کی غیر معمولی خدمات سے واقف کروایا۔ خان لطیف خان مرحوم کی اردو صحافت کے لئے بے مثال اور گراں قدر حصے کا تذکرہ کیا۔ کے ایم عارف الدین ، نریندرلوتھر اور رحمن جامی کی خدمات سے نئی نسل کو واقف کروانے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے کہا کہ اردو واحد زبان ہے جو نستعلیق میں لکھی جائے تو 'اردو' اور دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائے تو 'ہندی' بن جاتی ہے۔ اردو مسلمانوں کی زبان ضرور ہے مگر یہ خود مسلمان نہیں کیوں کہ دیگر مذاہب کا بہت زیادہ عالمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے مرحوم شعراء اور ادیبوں کی خدمات پر ریسرچ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اردو کو ٹکنالوجی، روزگار سے جوڑنے، سنڈے اسکولوں میں پڑھانے، املا کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ مرحومین کی کتابوں کو حسن یوسف کی طرح کنویں میں بند نہ رکھنے کی تلقین کی۔

محترمہ فاطمہ بیگم پروین نے ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کو متاثر کن الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے علم کی نمائش نہیں کرتے تھے۔ وہ صلاحیتوں کو پرکھنے کی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ داغ کے قبر کی انہوں نے مرمت کروائی۔ امیر مینائی کے مزار پر توجہ دی۔ وہ علم و ادب کے بحر بیکراں تھے۔ اخلاق اور کردار کے جان نثار تھے۔ انہوں نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی ادبی خدمات کو لاجواب اور بے مثال قرار دیا۔ حسن چشتی کے بارے میں کہا کہ ان کا ظاہر اگرچہ مغربی تھا مگر روح مشرقی تھی۔

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ کووڈ سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی اس کے خوف سے ہوئیں۔ کووڈ نے دراصل ہمیں اپنی مٹتی ہوئی تہذیب اور اقدار کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انہوں نے ان تمام شاعروں اور ادیبوں اور اردو کے خدمت گزاروں کی تاریخ وفات کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا جن میں رؤف خلش، اسرار جامعی، مجتبی حسین، اکرام باگ، خان لطیف خان، راحت اندوری، کے ایم عارف الدین، نریندر لوتھر، رحمن جامی اور ضیاء الدین شکیب قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر عابد معز نے کہا کہ نہ صرف صحافی، شاعر اور ادیب ختم ہو رہے ہیں بلکہ انجمنیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ طنز و مزاح کے لئے کبھی پنجاب اور دکن کا نام لیا جاتا تھا مگر آج دکن میں طنز و مزاح کمزور ہو گیا ہے۔ نئے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ اس کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حیدرآباد میں طب کے حوالے سے اردو تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کئی ڈاکٹروں نے جن میں ڈاکٹر رام پرشاد، شیام سندر، ڈاکٹر عبدالمنان، ڈاکٹر مجید خان قابل ذکر ہیں، اردو کی بہت زیادہ خدمات انجام دیں مگر انہیں یاد نہیں کیا جاتا اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد نے ولولہ انگیز تقریر کی اور اور کہا کہ شاذ تمکنت کے بعد رحمن جامی نے حیدرآباد کو اردو دنیا میں ایک نئے مقام تک پہنچایا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کے مسجد عالیہ میں دیئے گئے لکچرس کا بھی ذکر کیا۔
جناب ضیاء الدین نیر نے اقبال اکیڈمی کے مرحوم صدر ظہیر الدین احمد کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے حسن چشتی کے بارے میں بتایا کہ جب وہ سعودی عرب میں تھے تو انڈ و پاک مزاحیہ مشاعر عمل میں آیا تھا۔

ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی ڈاکٹر محمد غوث نے کہا کہ نئے سال نے نئے زخم دیئے۔ جبکہ گزرے ہوئے سال کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ ابھی ہم پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ، حسن چشتی کے صدمہ سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ حضرت رحمن جامی، نریندر لوتھر اور ضیاء الدین شکیب بھی جدا ہو گئے۔ تلنگانہ اردو اکیڈیمی ان کی خدمات کا اعتراف ایک نئے انداز میں کرے گی۔ طنز و مزاح نگاری، شاعری، صحافت پر ابھرتے ہوئے قلمکاروں اور شعراء کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ جو خلا آج پیدا ہو رہے ہیں، انہیں چند برسوں میں ہی سہی پر کیا جا سکے۔
تلنگانہ اردو اکیڈیمی اگر گزرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے تو بقید حیات شخصیات کی خدمات کا اعتراف بھی کرے گی۔ کوشش کی جائے گی کہ ان ہستیوں کی خدمات کو کتابی شکل دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈگری کلاس کی نو (9) کتابیں بہت جلد شائع ہو کر آجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے باوجود اردو اکیڈیمی نے غیر معمولی کام کیا ہے۔

جناب افتخار شریف، جناب جلیل انصاری نے بھی خطاب کیا۔ ژوم سے شرکت کرنے والوں میں حسن چشتی کے فرزندان جاوید حسن چشتی کے علاوہ یو اے ای سے ظفر اکبر بھی شامل رہے۔ سید خالد شہباز نے آن لائن اور محبوب خان اصغر نے آف لائن کاروائی چلائی۔

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (29/جنوری تا 4/فروری 2021)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
سید فاضل حسین پرویز

The Urdu services by Hyderabad and remembering the gems, online & offline Condolence meeting by Telangana Urdu Academy and Gawah weekly. Reportaz by: Gawah weekly

1 تبصرہ:

  1. اس رپورتاژ کی چند باتوں پر راقم الحروف مکرم نیاز کا تبصرہ ۔۔۔

    ڈاکٹر تقی عابدی نے کہا ہے: "یہ بدنصیبی ہے کہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا دیوان جو 1922 تک موجود تھا وہ لاپتہ ہے۔ "
    غالباً عابدی صاحب کو مغالطہ ہوا ہے۔ دیوان قطب مختلف ادوار میں دو مرتبہ طبع ہو چکا ہے۔ یا پھر عابدی صاحب کا کہنا ہو کہ دیوانِ قلی کا اصل مخطوطہ لاپتہ ہو گیا ہے۔
    ریختہ ویب سائٹ پر دیوان قلی کے دو نسخے موجود ہیں:
    (1)
    کلیات محمد قلی قطب شاہ
    (گولکنڈہ کے پانچویں تاجدار سلطان محمد قلی قطب شاہ [988ء تا 1020ھ] کے اردو کلام کا مجموعہ اور حالات و کلام پر تبصرہ)
    مرتبہ: ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور
    سن اشاعت: 1359ھ / 1940ء
    صفحات: 1068
    ناشر: مکتبہ ابراہیمیہ مشین پریس، حیدرآباد دکن۔
    (2)
    کلیات محمد قلی قطب شاہ
    مرتبہ: ڈاکٹر سیدہ جعفر
    سن اشاعت: جنوری/مارچ 1985
    صفحات: 831 (تقریباً 300 صفحات کا مقدمہ از سیدہ جعفر)
    ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔

    ڈاکٹر عابدی کا یہ مشورہ بہت ہی صائب ہے کہ: "عظیم شعراء اور ادیبوں کی حیدرآباد کی جامعات میں گوشے قائم کرنا چاہئے۔"

    پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے ممکن ہے اپنی تقریر میں ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کا بہتر علمی و ادبی تعارف کروایا ہو، لیکن اس رپورتاژ میں شامل ان کے یہ غیرمتعلق جملے ڈاکٹر شکیب کی علمیت کا تعارف نہیں بنتے:
    "داغ کے قبر کی انہوں نے مرمت کروائی۔ امیر مینائی کے مزار پر توجہ دی۔"

    ڈاکٹر عابد معز نے بالکل بجا اور برحق توجہ دلائی ہے کہ:
    "کئی ڈاکٹروں نے جن میں ڈاکٹر رام پرشاد، شیام سندر، ڈاکٹر عبدالمنان، ڈاکٹر مجید خان قابل ذکر ہیں، اردو کی بہت زیادہ خدمات انجام دیں مگر انہیں یاد نہیں کیا جاتا اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔"

    ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد کا درج ذیل فقرہ انتہائی درجہ کے غلو پر مبنی ہے:
    "شاذ تمکنت کے بعد رحمن جامی نے حیدرآباد کو اردو دنیا میں ایک نئے مقام تک پہنچایا تھا"۔
    گذشتہ چار پانچ دہائی کے شعر و ادب کے حیدرآبادی ماحول پر گہری نگاہ رکھنے والے باذوق قارئین/سامعین/ناظرین جانتے ہیں کہ اول تو شاذ جیسے ممتاز و منفرد شاعر سے رحمن جامی جیسے اوسط درجے کے مشاعروں کے شاعر کا موازنہ کرنا ہی بدذوقی کی علامت ہے۔ دوسرے یہ ان معتبر و مقبول استاذ شعرا کی بھی توہین ہے جن کے شعری معیار و مزاج تک پہنچنا رحمن جامی کے بس کی بات کبھی نہیں رہی تھی۔ مثلاً: مغنی تبسم، راشد آزر، مضطر مجاز، علی ظہیر، مصحف اقبال توصیفی، غیاث متین، رؤف خلش، اعتماد صدیقی، رؤف خیر وغیرہ۔

    ڈائرکٹر/سکریٹری تلنگانہ اردو اکیڈیمی ڈاکٹر محمد غوث نے دو وعدے کیے ہیں:
    (1) طنز و مزاح نگاری، شاعری، صحافت پر ابھرتے ہوئے قلمکاروں اور شعراء کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے گا۔
    (2) گزر جانے والی ہستیوں کی خدمات کو کتابی شکل دی جائے گی۔
    ہم تو صرف یہی تمنا کر سکتے ہیں کہ کاش کہ یہ وعدے تکمیل تک پہنچائے بھی جائیں۔

    جواب دیںحذف کریں