شمس الرحمن فاروقی : وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی - از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-23

شمس الرحمن فاروقی : وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی - از معصوم مرادآبادی

عہدساز نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کے انتقال سے اردو دنیا میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
انھوں نے گزشتہ 25 دسمبر کو اپنے وطن الہ آباد میں آخری سانس لی۔ ان کا جانا اردو دنیا کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ اردو زبان و ادب کے ایک ایسے سرخیل تھے جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جو علمی اور ادبی ورثہ یادگار چھوڑا ہے اس پر اردو دنیا ہمیشہ فخر کرے گی اور اس بات کی مثالیں دے گی کہ اس دور ابتلا میں بھی ہمارے درمیان ایسے ادیب اورمحقق پیدا ہوئے جنھوں نے اردو ادب کو عالمی ادب سے آنکھیں چار کرنے کے لائق بنایا۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فاروقی صاحب اگر انگریزی میں ایسا ادب تخلیق کرتے تو انھیں ادب کا نوبل پرائز ضرور ملتا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنے لئے ایسے دقیق موضوعات کا انتخاب کیا جنھیں چھوتے ہوئے ہمارے تن آسان ادیب خوف محسوس کرتے ہیں۔ وہ ایک قطعی اوریجنل فن کار تھے۔ انھوں نے اپنی محنت ، لگن، دقت پسندی اور دلچسپی سے جو ادب تخلیق کیا وہ اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔
انھوں نے اپنا سفر ایک نقاد کے طور پر شروع کیا اور میر فہمی پر ایک ایسی معرکۃ الآراء کتاب تخلیق کی جس پر اردو والے آج تک سردھنتے ہیں۔ چار جلدوں پر مشتمل میرتقی میر کی شاعری پر ان کا تنقیدی شاہکار "شعر شور انگیز" ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تا بندہ رہتے۔ مگر انھوں نے جو ذہن پایا تھا اور جن ہاتھوں میں ان کی تربیت ہوئی تھی، اس نے ان کے اندر زندگی کے جہد مسلسل ہونے کا یقین صادق کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سرکاری ملازمت کی مصروفیتوں کے باوجود علم و ادب کی گرہیں کھولتے رہے اور اس مقام کو پہنچے کہ موجودہ عہد میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ فاروقی صاحب کی مثال گزرے زمانے کے ان علماء سے دی جا سکتی ہے جن کے نزدیک علم ہی سرمایہ حیات ہوتا تھا اور جو کسی بھی صلے اور ستائش کی پروا کئے بغیر اس کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اگر آپ فاروقی صاحب کی عملی زندگی کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہے۔

فاروقی صاحب نے نہ تو اردو میں تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کبھی کسی شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔ نہ انھوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی اور نہ ہی اردو کو ذریعہ معاش بنایا۔ انھوں نے انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ یو پی ایس سی کا امتحان پاس کرکے محکمہ ڈاک کے اعلیٰ افسر بنے اور بہت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ سرکاری ملازمت کا سفر مکمل کیا۔ وہ ایک ہمہ جہت فن کار تھے اور بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو زبان وادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کو انگریزی سے متعارف کروایا اور دو نسلوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اردو شعر و ادب کو پڑھنے اور سمجھنے کے نئے زاویے ایجاد کئے اور تحریر کو سب سے بڑی طاقت ثابت کر دیا۔
وہ ایک نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے اور موضوعات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کر سکا۔ معاملہ غالب کی تفہیم کا ہو یا میر شناسی کا یا پھر داستان گوئی کا۔ ان میدانوں میں ان کی کوئی ہمسری نہیں کر سکا تھا۔ داستان گوئی کو تو انھوں نے ایک ایسے عہد میں زندگی بخشی جب وہ ایک متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔ انھوں نے طویل ترین داستان "داستان امیر حمزہ" پر جس جفاکشی اور محنت سے کام کیا ، وہ شاید ہی کوئی کر سکتا۔
غرض یہ کہ کلاسیکی شعر وادب ، غزل کی شعریات، میرشناسی، داستانی ادب،لغت نویسی، فکشن، ادبی صحافت اور شاعری وہ کون سا میدان ہے جو ان سے اچھوتا رہا ہو اور جس سے وہ سرخرو ہوکر نہ گزرے ہوں۔ انھوں نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا بلکہ ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی رحلت سے ادبی بساط الٹ گئی ہے۔

یادش بخیر!
یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کا قصہ ہے۔ راقم الحروف غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں فن خطاطی کا طالب علم تھا۔ کلاس بعد دوپہر ہوتی تھی اور شام چھ بجے فراغت کے بعد ہم اکثرغالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جاکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یہاں تقریباً روزانہ ہی کوئی ادبی محفل آراستہ ہوتی جس میں دہلی و بیرون دہلی کے مشاہیر اہل قلم جمع ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور غالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو لوگ ان محفلوں کی شان بڑھاتے تھے ، ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر محمدحسن، پروفیسر نثار احمد فاروقی، مجتبیٰ حسین، خواجہ حسن ثانی نظامی اور کنور مہندرسنگھ بیدی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
فاروقی صاحب ان دنوں دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے اوراکثر ان محفلوں میں تشریف لاتے تھے۔ انھیں بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنایا جاتا۔ ان کی جو ادا دوسروں سے انھیں ممتاز کرتی تھی، وہ ان کے پائپ پینے کا نرالا انداز تھا۔ ہم نے پہلی بار کسی کو پائپ پیتے ہوئے دیکھا تھا۔ آنکھوں پر موٹا چشمہ اور نہایت دیدہ زیب لباس۔ جب وہ مہمان خصوصی یا صدر کے طور پر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو ان کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ بس وہ بولتے ہی رہیں۔ ان کی زبان سے علم و فضل کے دریا بہتے تھے۔ وہ تقریر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیر ضروری ہاؤ بھاؤ سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے بلکہ بے تکلف انداز میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر باتیں کرتے تھے۔حالانکہ بہت سی باتیں ہمارے سر سے گزر جاتیں کہ اس وقت ہماری عمر ہی کیا تھی۔ علمی مباحث اور تحقیق و تنقید کی بیشتر جہتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں ، لیکن فاروقی صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو تھا کہ ہم انھیں بہت ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اس زمانے میں ہمارے پاس نہ علم تھا، نہ تجربہ اور نہ شعور۔ بس یونہی الہڑ سے نوجوان تھے۔ اردو سے محبت تھی اور شعر و شاعری سے عشق۔ اکثر ادبی محفلوں میں فاروقی صاحب کے دیدار ہوتے اور ہم انھیں حسرت بھری نظروں سے یہ سوچ کر دیکھتے اور سنتے تھے کہ آگے چل کر اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو بتائیں گے کہ:
ہم نے بھی فاروقی کو دیکھا تھا!

شمس الرحمن فاروقی ہماری علمی اور ادبی کائنات کا ایک ایسا روشن اور تابندہ ستارہ تھے کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے۔ ان کی زندگی کا محور و مرکز علم کی تحصیل و ترسیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انھوں نے پوری زندگی علم و ادب کی خدمت میں گزاری اور بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل کرنے کے باوجود کبھی اس پر گھمنڈ نہیں کیا۔
تحقیق و تنقید ہو، شعر و شاعری ، ترجمہ ہو یا ناول نگاری ، وہ جس میدان میں بھی اترے اپنے معاصرین کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔ ان کے بے مثال علمی اور ادبی کارناموں پر ہر اردو والے کو رشک ہونا چاہئے۔ یوں تو انھوں نے اپنی زندگی میں چالیس سے زیادہ کتابیں لکھیں ، لیکن جن کتابوں کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی ان میں ' شعر شورانگیز' کے علاوہ ان کا شہرہ آفاق ناول 'کئی چاند تھے سر آسماں ' شامل ہے۔ مغل عہد کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مذکورہ عہد کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا کتنا گہرائی سے مطالعہ کیا اور ایک لازوال ناول تخلیق کیا۔ یہ کیا کم ہے کہ اس اردو ناول کو انگریزی کتابوں کے ناشر ' پینگوئن' نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ غالباً اس ادارے سے شائع ہونے والی یہ پہلی اردو کتاب تھی۔
بعدکو فاروقی صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔یہ بھی فاروقی صاحب کا امتیازہے کہ انھوں نے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی کی منتخب تحریروں کو انگریزی میں منتقل کیا جو کسی زمانے میں ان کے شہر الہ آباد سے نکہت پبلی کیشنز کے تحت 'جاسوسی دنیا' میں شائع ہوئی تھیں۔

یوں تو فاروقی صاحب کو دیکھنے اور سننے کے سیکڑوں مواقع ملے ، لیکن ان کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع اس وقت ملا جب ان کے چچا زاد بھائی اور ماہنامہ 'آج کل' کے سابق مدیر محترم محبوب الرحمن فاروقی سے قربت ہوئی۔ ان کے خاندان ، عادات و اطوار، رکھ رکھاؤ اور وضع داری کے بارے میں جو باتیں براہ راست علم میں آئیں، وہ یقیناً بڑی متاثر کن تھیں۔ وہ ایک اعلیٰ خانوادے کے چشم و چراغ تھے اور ان کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ذی علم اور باوقار لوگوں میں ہوتی ہیں۔
برسوں پہلے مجھے ان کے بھتیجے محمود فاروقی کی شادی میں شرکت کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ بارات اپنے مقررہ وقت پرروانہ ہوئی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب سمیت تمام باراتی شیروانی میں ملبوس تھے اور ایک خاص رکھ رکھاؤ تھا جو عام طور پر شادیوں میں نظر نہیں آتا۔ نہایت سادگی کے ساتھ نکاح ہوا اور بہت اطمینان سے سب نے کھانا تناول فرمایا۔ فاروقی صاحب سے آخری ملاقات بھی گزشتہ برس محبوب الرحمن فاروقی مرحوم پر ایک سیمینار میں ہوئی تھی جو اسی غالب اکیڈمی میں منعقد ہوا تھا ، جہاں ہم نے پہلی بار فاروقی صاحب کو دیکھا تھا۔

میں نے 1991 میں جب اپنا پندرہ روزہ اخبار "خبردار جدید" جاری کیا تو اس کی اعزازی کاپی جن سرکردہ ار دو ادیبوں کو روانہ کی جاتی تھی ، ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ عام طور اتنے مصروف لوگوں کے پاس جب اس قسم کے اخبارات و رسائل کی اعزازی کاپیاں آتی ہیں تو وہ اکثر ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتی ہیں، لیکن مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ فاروقی صاحب میرے اخبار کے مستقل قاری تھے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے پروفیسر محمد حسن کی تجہیز و تدفین کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ یہ اتنا عبرت انگیز تھا کہ ملک کے تمام ہی اخباروں نے اسے نقل کیا۔ اس سلسلہ میں 8 مئی 2010 کو فاروقی صاحب نے ای میل کے ذریعہ جو خط مجھے ارسال کیا ، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

برادرم معصوم مرادآبادی، السلام علیکم
ادھر کچھ دنوں سے آپ کا اخبار نہیں ملا۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرا نام ابھی فہرست میں ہوگا۔ اگر کٹ گیا ہے تو براہ کرم دوبارہ درج کرا دیں۔ آپ چاہیں تو میں مناسب رقم کا ڈرافٹ بھیج دوں۔ مجھے آپ کا اخبار بہت پسند ہے۔
محمد حسن کے جنازے اور تدفین کے بارے میں آپ کا مضمون دیکھا۔ آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں اسے اپنے 'خبرنامہ' میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اجازت مرحمت فرمائیے اور یہ بھی لکھئے کہ یہ آپ کے اخبار کی کس اشاعت میں شائع ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔
آپ کا
شمس الرحمن فاروقی

فاروقی صاحب نے " شب خون " کی اشاعت بند ہونے کے بعد 'خبرنامہ شب خون' کے عنوان سے ایک مختصر پرچہ جاری کیا تھا جو مخصوص لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری محنت رائیگاں نہیں جا رہی تھی اور میں اپنا جو اخبار روانہ کر رہا تھا وہ باضابطہ ان کے مطالعہ میں تھا ، درمیان میں ڈاک کی خرابی کے سبب جب اخبار ان تک نہیں پہنچا تو انھوں نے اس کی یاددہانی کرائی۔
ظاہر ہے یہ بھی چھوٹوں کو بڑا بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ فاروقی صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں تھے جو محض علم و ادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے بڑا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں علم و ادب کے رسیا تھے اور انھیں جہاں سے بھی حاصل ہوتا اسے بے تکلف حاصل کرتے۔
اس خط کے بعد جب وہ دہلی تشریف لائے تو انھوں نے مجھے یاد کیا اور میں نے جامعہ کے مجیب باغ میں ان کی بیٹی کے گھر پر تفصیلی ملاقات کی۔ کبھی کبھی ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک منکسر مزاج انسان تھے اور ان کے مزاج میں کسی قسم کی ایسی نرگسیت نہیں تھی جو ہمارے ادیبوں اور شاعروں میں معمولی شہرت کے بعد پیدا ہوجاتی ہے۔وہ اپنے سے کم حیثیت لوگوں سے ہم کلام ہونے میں بھی تکلف محسوس کرتے ہیں۔

فاروقی صاحب کی خوبی یہ بھی تھی کہ انھوں نے اردو زبان و ادب کو دولت کشید کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ وہ اس پر اپنی جیب سے خرچ کرتے رہے۔ وہ یو پی ایس سی کا امتحان پاس کرکے انڈین پوسٹل سروس سے وابستہ ہوئے اور چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ وہ شخصی طور پر بھی نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل اور محبت و اخوت کا پیکر تھے۔ دوسروں کے کام آنا بھی انھیں بے حد پسند تھا۔ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔
جس زمانے میں وہ دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے تو اردو کے ایک معروف اسکالر ان کی خدمت میں ایک کام لے کر حاضر ہوئے۔ محکمہ ڈاک میں ملازم ان کے ایک قریبی رشتے دار کا تبادلہ لکھنؤ سے گوہاٹی کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے فاروقی صاحب سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو تبادلہ رکوا دیں کیونکہ ان کا لکھنؤ میں رہنا ضروری ہے۔ فاروقی صاحب نے فوراً آسام کے پوسٹ ماسٹر جنرل کو فون ملا کر کہا کہ بھئی یہ میرے عزیز ہیں، انھیں آپ لکھنؤ میں ہی تعینات رہنے دیں۔ فون رکھنے کے بعد فاروقی صاحب نے اپنے ملاقاتی اسکالر سے کہا کہ تبادلے کی کارروائی روک دی گئی ہے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب علم و ادب کے معاملے میں ہی طاق نہیں تھے بلکہ انسانی رشتوں کی پاسداری بھی ان کے یہاں خوب تھی۔ فاروقی صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ اعلیٰ انسانی اور اخلاقی صفات سے آراستہ تھے اور یہ صفات انھیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی تھیں۔ ان کے چچا زاد بھائی اور ماہنامہ 'آج کل ' کے سابق ایڈیٹر محبوب الرحمن فاروقی مرحوم نے مجھے ایک بار اپنے ایک خاندانی بزرگ کا قصہ سنایا تھا، جو گورکھپور کے ایک مدرسے میں مفتی اور مدرس تھے۔ اکثر لوگ مدرسے میں ان سے فتوے لینے آتے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ جتنا وقت انھیں فتویٰ دینے میں لگتا اسے وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیتے تھے۔ جب پہلی تاریخ کو تنخواہ لینے منشی کے پاس جاتے تو فتویٰ دینے کے اوقات کو جوڑ کر کہتے کہ اتنے وقت انھوں نے بچوں کو پڑھایا نہیں بلکہ فتوے دئیے ہیں، لہٰذا اتنے وقت کی تنخواہ کاٹ لی جائے۔ ظاہر ہے یہ تقویٰ کی ایک اعلیٰ صفت ہے جس پر ان بزرگ نے ہمیشہ عمل کیا۔

شمس الرحمن فاروقی نے اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات کے لئے ادب کے تمام ہی بڑے اعزازات حاصل کئے۔ 1982 میں تنقیدات میر پر چار جلدوں پر مشتمل ان کی غیر معمولی تصنیف "شعر شور انگیز" کو ادب کا سب سے باوقار انعام 'سرسوتی سمان ' ملا۔ 1986 میں شاعری پران کی کتاب " تنقیدی افکار" کو ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔ 2009 میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں 'پدم شری' کے اعزاز سے نوازا۔ 2010 میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی اور دہلی اردو اکادمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔
یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی 'پدم شری' نہیں لکھا۔ ظاہرہے ان کی شناخت انعام و اکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انھیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا۔

2006 میں شائع ہونے والا ان کا شہرہ آفاق ناول " کئی چاند تھے سر آسماں" منظر عام پر آیا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ ہمارے عہد کے ایک بڑے فکشن نگار انتظار حسین نے ان لفظوں میں اس ناول کا استقبال کیا:
"مدتوں بعد اردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہند و پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔"
یہ حقیقت ہے کہ اس ناول نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور یہ اردو فکشن کی بہترین کتاب قرار پائی۔ فاروقی صاحب نے اس ناول میں تاریخ اور فکشن کا بہترین تانا بانا بن کر اپنے قارئین کو ماضی کا پیرہن اوڑھا دیا۔ اس کی بے پناہ مقبولیت کے سبب خود فاروقی صاحب نے اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ بعد کو یہ ناول ہندی میں بھی شائع ہوا۔

فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جدیدیت کا علم اٹھایا۔ 1966 میں انھوں نے ایک منفرد جریدے " شب خون " کی داغ بیل ڈالی ، جس کی اشاعت تقریباً چالیس برس تک جاری رہی۔
یہ دراصل ان ادیبوں کی پناہ گاہ تھا جو ترقی پسند تحریک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران فاروقی صاحب کے نظریات پررنگ برنگے الزامات بھی لگے۔ انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ "شب خون" میں علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور راجندرسنگھ بیدی جیسے ترقی پسند ادیبوں کو بھی جگہ ملی۔ جب اس کی اشاعت بند ہوئی تو انھوں نے " خبرنامہ شب خون" کے نام سے کچھ عرصہ کے لئے ایک مختصر خبرنامہ بھی جاری کیا۔

ان کی پیدائش 30 ستمبر 1935 کو اعظم گڑھ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔ وہ اپنے والد مولوی خلیل الرحمن فاروقی کی سب سے چہیتی اولاد تھے۔ بچپن ہی میں انھیں مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور اپنی بہن کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک ماہنامہ قلمی رسالہ " گلستاں" شائع کیا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول "دلدل سے باہر" لکھا۔ انھیں کمسنی میں ہی سینکڑوں اشعار یاد ہو گئے تھے۔ اس طرح اردو شعر وادب کا ذوق ان میں اوائل عمری میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھپور کے مہارانا پرتاپ کالج سے فرسٹ بیچ کے ساتھ بی اے کیا۔ 1955 میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔
اس کے بعد وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے مگر ساتھ ساتھ سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔1957 میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پوسٹل سروس سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران ملک کے مختلف صوبوں میں انھیں تعیناتی ملی۔ 1994 تک وہ نئی دہلی میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر رہے۔ سبکدوشی کے بعد وہ الہ آباد منتقل ہو گئے جہاں ان کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں ان کی منتظر تھیں۔
فاروقی صاحب نے باقی ماندہ عمر لکھنے ، پڑھنے اور سوچ بچار میں گزاری۔ وہ کبھی سستی شہرت اور ناموری کے پیچھے نہیں دوڑے بلکہ شہرت اور ناموری خود ان کا تعاقب کرتے رہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جس نے انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا ادیب ، محقق، نقاد، ناول نگار اور شاعر بنایا وہ دراصل ان کی ثابت قدمی اور پتہ ماری تھی۔ وہ جس کام کے بھی پیچھے پڑ جاتے اسے اس کے انجام تک ضرور پہنچاتے تھے اور وہ بھی اتنے وقار اور معیار کے ساتھ کہ پڑھنے والے سردھنتے ہی رہ جائیں۔
ان کا آخری شاہکار ناول " کئی چاند تھے سرآسماں" اپنے نفس مضمون اور بیان کی قدرت کے اعتبار سے اس نوعیت کا ہے کہ اسے عالمی ادب کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہئے۔ فاروقی صاحب کے انتقال پر اردو حلقوں میں غم و الم کی لہر دیکھ کر مجھے افتخارعارف کا یہ شعر یاد آتا ہے:

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پراناتھا

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Shams ur Rahman Farooqi, A Legend Has Retired But Not Expired - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں