فکر تونسوی - خودنوشت حالات زندگی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-18

فکر تونسوی - خودنوشت حالات زندگی

fikr-tonsvi
مَن کہ ۔۔۔
(فکر تونسوی کے خود نوشت حالات زندگی)
(بشکریہ "آج کل" نئی دہلی)

نام:(والدین کا عطیہ) : نارائن
نام نمبر دو (خود ساختہ): فکر تونسوی

تاریخ پیدائش:7/اکتوبر 1918ء (پہلی جنگ عظیم میں)
تاریخ وفات: تیسری جنگ عظیم میں۔
مقام پیدائش: شجاع آباد ضلع ملتان ( غیر آبائی گاؤں)
آبائی گاؤں: تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان (حالیہ پاکستان)

والد کا نام: دھنپت رائے
والد کا پیشہ:کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل میں تجارت اور طب۔

والد کی وفات: جوئے بازی کی خصلت نے عالم عسرت اور فاقہ کشی تک پہنچا دیا۔ بزعم خود بلوچ قبائل سے ہزارہا روپے واجب الوصول تھے۔ لہٰذا ایک خستہ حال بہی کھاتہ دیکھتے دیکھتے انتقال فرما گئے۔ سن 1945ء میں۔

میری تعلیم:
(1) گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف، میٹرک پاس۔ جماعت میں فرسٹ
(2) والد صاحب بلوچ قبائل والی دکان پر تجارت کی طرف راغب کرکے لے گئے ، مگر ایک سال ہی میں تجارت سے دل اچاٹ ہوگیا۔
(3) ایمرسن کالج ، ملتان میں ایک سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجبوراً ترک تعلیم کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ گھر والوں نے اپنے مالی وسائل کی کم ظرفی کے باعث مزید تعلیم کے اخراجات ادا کرنے سے انکار کردیا ، بے بسی کا یہ سن 1936ء تھا۔ بے بسی اور بغاوت کا۔

اپنی پشت پر:
اقتصادی پس ماندگی کا سارا بوجھ چھ برس تک اپنی پشت پر اٹھانا پڑا۔ کئی پیشے اختیار کئے۔ ٹیچری، خوش نویسی، تاجروں کی ایجنسی، گھٹیا اور سستے اخباروں کی ایڈیٹری وغیرہ۔ 1936ء سے 1942ء تک۔

ادبی زندگی کا آغاز:
1۔ یہ آغاز اسکول میں تعلیم کے دوران پیدا ہوگیا تھا۔ غزلیں قلم بند کرتا رہا۔ چھوٹے چھوٹے میگزینوں اور اخباروں میں شائع ہوتی رہیں۔

2۔ مگر سنجیدہ آغاز 1942ء میں اس وقت ہوا جب میری ایک نظم "تنہائی" مولانا صلاح الدین احمد کے موقر میگزین "ادبی دنیا" میں شائع کر دی گئی اور لاہور کے مشہور ادبی سنگٹھن "حلقہ ارباب ذوق" نے اسے سال کی بہترین نظم ڈکلیر کر دیا۔

3۔ 1943ء کے آغاز میں ترقی پسند ادبی تحریک کے نمائندہ ترجمان پبلشر مکتبہ اردو لاہور اور ادب لطیف سے وابستگی اختیار کی۔

4۔ اور پھر معروف ادبی رسائل "ادب لطیف" ،"ہمایوں"، "ادبی دنیا" میں میری نظموں کی پے بہ پے اشاعت شروع ہو گئی۔

5۔ 1945ء میں ممتاز مفتی اور میری مشترکہ ادارت میں ایک طرز نو کا ادبی دو ماہی میگزین "سویرا" شائع ہوا۔ جس نے بڑے بڑے ادبی رسائل کو چونکا دیا۔

6۔ 1946ء میں ایک مرتبہ پھر ماہنامہ "ادب لطیف" کی ادارت کی ذمہ داری سنبھال لی جو 1947ء کے فرقہ وارانہ فسادات کے باعث آگے نہ چل سکی اور مجھے بطور رفیوجی ہندوستان میں آنا پڑا۔

پہلی تصنیف:
1۔ 1947ء میں ہی میری نظموں کا پہلا مجموعہ "ہیولے" کے نام سے مکتبہ اردو نے ہی شائع کیا جو فسادات کے سبب زیادہ پبلسٹی حاصل نہ کرسکا۔ فسادات کی نذر ہو گیا۔

2۔ فسادات کے بعد شاعری ترک کر دی۔ کیونکہ عام سوجھ بوجھ سے مختلف شاعری تھی اور آزادی کے بعد میرا رابطہ عوام کے مسائل سے زیادہ ہوتا گیا۔ اس لئے میں نے مزاح اور طنز میں نثر تحریر کرنا شروع کر دی جو عوام کو سمجھ میں بھی آ گئی اور پسند بھی۔

دوسری تصانیف:
1۔ سب سے پہلی نثری تصنیف " چھٹا دریا" تحریر کی جو فسادات پر ایک دردناک ڈائری کے فارم میں تھی۔ 1949ء

2۔ بسلسلہ فسادات ایک کتاب "ساتواں شاستر" قلم بند کی۔ 1951ء۔ اس کے بعد تصانیف کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا ، جن کا ذریعہ اظہار صرف طنز و مزاح تھا۔ 1950ء سے 1987ء تک مندرجہ ذیل 16/تصانیف شائع ہو چکی ہیں جو طنز و مزاح کے مضامین پر مشتمل ہیں:

(1) ترنیم کش(1953ء)۔
(2) پروفیسر بدھو (1954ء)۔
(3) ماڈرن الہ دین (1955ء)۔
(4) خدو خال (1955ء)۔
(5) ساتواں شاستر (1956ء)۔
(6) ہم ہندوستانی (ہندی) (1957ء)۔
(7) بدنام کتاب (1958ء)۔
(8) آدھا آدمی (1959ء)۔
(9) آخری کتاب (1957ء)
(10) فکر نامہ (1966ء)
(11) پیاز کے چھلکے (1972ء)۔
(12) چھلکے ہی چھلکے (1973ء)
(13) فکر بانی (1982ء)۔
(14) گھر میں چور (1983ء)۔
(15) میں آپ بیتی (حصہ اول) (1987ء)۔
(16) میری بیوی (آپ بیتی دوسرا حصہ)(1987ء)

دیگر ادبی اور علمی سرگرمیاں:
1۔ کالم نگاری نمبر ۔۔۔۔ 1985ء اردو میں ایک سو سالہ کالم نگاری پر رسالہ "چنگاری" کا ایک ضخیم نمبر مرتب کیا۔
2۔ دہلی میں دو بہت بڑے تین ایکٹ کے دو اسٹیج ڈرامے تحریر کئے جو دہلی کے ایک تھیٹر پر نہایت مقبول ہوئے۔
الف) درباری اکبر
ب) گاندھی شتابدی (یہ پورے کا پورا منظوم اسٹیج ڈرامہ تھا)

3۔ دہلی کے مستند ادبی رسالہ 'شاہراہ' کی دو سال تک ادارت کی 57۔1956ء
4۔ ریڈیو اسٹیشن جالندھر اور دہلی پر سینکڑوں ڈرامے، ڈرامچے، فیچر اور تقریریں کیں۔
5۔ ٹیلی ویژن پر پانچ ڈرامے پیش کئے، پسند کئے گئے۔
6۔ میرا ایک ریڈیائی ڈرامہ "آج کا سچ" تو ہندوستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن نے براڈ کاسٹ کیا۔
7۔ایک ادبی میگزین" رفتار" کے نام سے جالندھر سے جاری کیا جو مالی ذرائع کی کمی کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔

میری کالم نگاری:
1۔ 1954ء سے کمیونسٹ پارٹی کی پنجاب برانچ نے روزنامہ "نیا زمانہ" شروع کیا جس میں روزانہ ایک طنزیہ کالم " آج کی خبر" کے نام سے شروع کیا جو خاصا مقبول ہوا۔
2۔"نیا زمانہ" بند ہوا اور میں نے 1956ء میں دہلی کے روزنامہ"ملاپ "میں"پیاز کے چھلکے" کے نام سے روزانہ تحریر کرنا شروع کیا اور 25/برس تک لکھتا رہا۔ جسے ہندوستان کے قریب کسی بھی اردو تعلیم یافتہ کو آج تک نہیں بھولتا۔

سیاست:
1954ء سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بائیں بازو کے رجحان کے باعث کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا فل ٹائم ممبر بن گیا۔ مگر یہ ممبری تین چار سال سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگرچہ مارکسزم ابھی تک میرے قلم اور سوچ پر مسلط ہے۔

انعامات و اعزازات:
1۔ پنجاب سرکار کی طرف سے اعزازی عطیہ۔ایک ہزار روپے۔ 1956ء
2۔ یوپی اردو اکیڈیمی۔ میری تصنیف" بدنام کتاب" پر ایوارڈ۔1959ء
3۔ یوپی اردو اکیڈیمی۔ میری تصنیف "فکر نامہ" پر ایوارڈ۔ 1969ء
4۔ سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ۔ میری ادبی خدمات پر ایوارڈ۔ 1969ء
5۔ میراکاڈمی ایوارڈ۔ 1983ء۔
6۔ بنگال اردو اکادمی۔ میری کتاب"فکر بانی" پر ایوارڈ۔ 1985ء
7۔ دہلی ہندی ساہتیہ سروور۔ ادبی اعزاز اور شال۔1985ء
8۔ بھاشا وبھاگ پنجاب۔ ادبی ایوارڈ اور شال 1987ء
9۔ غالب ایوارڈ، دہلی۔ ادبی ایوارڈ 1987ء۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
چھلکے ہی چھلکے - فکر تونسوی کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
بیویوں کی ٹریڈ یونین - انشائیہ از فکر تونسوی

***
ماخوذ از کتاب: مضامینِ فکر تونسوی

Fikr Tonsvi's biography.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں