میں نے عرض کیا : " یہ کیا ہے حضور؟ "
وہ بولی " جھنڈا اونچا رہے ہمارا"۔
میرا ماتھا ٹھنکا کہ آج دال میں کالا ہے۔ چاند سا چہرا جو کل تک رشکِ بتاں تھا آج کسی انجمنِ خدام وطن کا پوسٹر معلوم ہو رہا تھا۔ جس پر تحریر تھا :
" اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو "
میں نے کچھ مسکرا کر (اور کچھ ڈر کر) کہا :
"اے انقلاب زندہ باد ! کھانا لے آؤ۔ "
وہ اپنی سڈول بانہوں کو کسی جھنڈے کی طرح لہرا کر بولی:
آج کھانا نہیں ملے گا۔ آج چولہا ڈاؤن اسٹرائک ہے۔"
شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ معاملہ گمبھیر ہے اور اب بیگم کے ساتھ رومانٹک گفتگو کرنا فضول ہے۔ یہ کس ستمگر نے گھر پر انقلابی چھاپا مارا ہے کہ آج محترمہ کی آنکھوں میں کاجل کی تحریر کے بجائے مطالبات کا چارٹر دکھائی دیتا ہے ۔ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے ہی اپنا لب و لہجہ بدل دیا اور مالکانہ وقار کے ساتھ کہا :
" بیگم تمھیں یہ نہیں بھولنا چاھئےے کہ تم میری بیوی ہو۔"
تڑاخ سے جواب آیا : "ہاں مگر میں ایک ورکر بھی ہوں اور آپ میرے مالک ہیں اور میری محنت کا استحصال کرتے ہیں۔"
"مگر ڈارلنگ!" میں نے پھر اپنا لہجہ بدل لیا۔
"مالک تو تم ہو، میرے دل و جان کی مالک ، اس سلطنت کی تم نواب واجد علی شاہ ہو۔ بتاؤ کہ نہیں؟ "
ایک دن پہلے تک میرا یہی فقرہ طلسم ہوشربا کا کام کر جاتا تھا اور بیگم تڑپ کر میرے بازوؤں میں آ گرتی تھی لیکن آج آغوش میں آنے کے بجائے اس نے اپنی نرم و نازک مٹھی دکھائی اور میز پر مارتے ہوئے بولی:
"سیٹھ جی! لچھے دار لفظوں کے یہ چھلاوے اب نہیں چلیں گے۔ صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی بیویاں اب بیدار ہو چکی ہیں اور اب اپنے حقوق منوا کر دم لیں گی ۔۔۔
جو ہم سے ٹکرائے گا چور چور ہو جائے گا۔"
میں نے کہا : " کیا آج ہمارے گھر کوئی ترقی پسند شاعر آیا تھا؟ "
وہ بولی " شاعر میرے اندر سویا ہوا تھا ۔ آج جاگ اٹھا ہے لہذا میرے مطالبات مانئے نہیں تو ۔۔۔۔"
"کون سے مطالبات ؟"
"سب سے پہلے" بیگم نے حلق میں تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں گھنگھروؤں کی مانوس جھنکار نہیں تھی بلکہ طبلِ جنگ کی سی گھن گرج تھی۔
"سب سے پہلے میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے کام کے اوقات گھٹائے جائیں۔ صبح پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہوں ، انھیں کم کر کے نو گھنٹے کیے جائیں۔ ہر مہذب سماج میں یہی دستور ہے۔"
"مگر ڈارلنگ ! یہ تو ہندوستانی سماج ہے۔"
وہ بھڑک اٹھی۔ "اور بائی دی وے ، جب تک مطالبات کی گفتگو جاری رہے آپ مجھے ڈارلنگ کے لقب سے مخاطب نہ کریں۔ ہاں تو ہندوستانی سماج کو مہذب بنانے کے لئے نو گھنٹے کے اوقات آپ کو منظور ہیں؟"
میں نے کہا :" دیکھو ( ڈارلنگ نہیں) ورکر بیگم ! گھر میں اگر صرف نو گھنٹہ کام ہوا تو اس سے پروڈکشن پر برا اثر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کام کی دو شفٹیں کرنا پڑیں گی۔ دو شفٹیں اور دو بیویاں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں اس گھر میں دوسری بیوی لے آؤں؟"
سوتن کا جلاپا عورت کی نازک رگ ہے۔ میں نے اس رگ پر جان بوجھ کر انگلی رکھ دی کہ ٹریڈ یونین کے اندر انتشار پیدا ہو مگر بیگم کے اندر جیسے ہو قدیم حاسد عورت مر چکی تھی۔ وہ بولی:
"یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے، آپ چاہیں تو کوئی ملازمہ رکھ سکتے ہیں۔"
بیگم سوتن والے پہلو سے صاف بچ کر نکل گئیں۔ اس کی یہ چالاکی میرے لئے پریشان کن تھی۔ چنانچہ میں نے ایک اور ہتھیار نکالا۔
"مگر اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے ؟جتنی تنخواہ ملتی ہے تمہارے گورے گورے ہاتھوں پر لا کر رکھ دیتا ہوں ،تم چاہو تو اس تنخواہ میں سے ملازمہ رکھ سکتی ہو"۔
"اس تنخواہ میں ملازمہ نہیں رکھی جا سکتی "۔
"تو پھر کیا کیا جائے ؟"
"میں نے کہا نا۔ یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے ، اسے خود سوچنا چاہئے۔"
"آل رائٹ ۔"میں نے تنگ آکر کہا۔
"مینجمنٹ اس پر ہمدردانہ غور کرے گا ۔اب اگلا مطالبہ پیش کیا جائے "
"دوسرا مطالبہ چھٹیوں کا ہے"۔
"مستقل چھٹی کا ؟اس کی تو میں کئی بار پیش کش کر چکا ہوں مگر ہر بار تم نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا"۔
"دیکھیے آپ اسے مذاق میں مت ٹالیے۔
(حالانکہ اللہ قسم یہ مذاق بلکل نہیں تھا۔) ہندوستان بھر کے سارے کام گاروں کو اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ملتی ہے مگر مجھے اتوارکو سب سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔ ہر اتوار کو آپ کے احباب آ دھمکتے ہیں ،کوئی لنچ کھانے اور کوئی ڈنر،اور کوئی یوں ہی گھومتے گھوماتے چائے پینے آ ٹپکتا ہے ۔دیوالی ،دسہرہ ،عید ،بقرعید کوئی چھٹی بھی تو نہیں ملتی ۔نہ میڈیکل چھٹی اور نہ ایمرجنسی چھٹی ۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے ؟"یہ کہہ کر وہ زاروقطار رونے لگی ۔
میں بھی رونا چاہتا تھا مگر مینجمنٹ میں رونے کا رواج نہیں تھا ۔
مطالبہ (خدا جھوٹ نہ بلوائے ) بلکل جائز تھا لیکن مینجمنٹ کا رویہ بھی اس کے متعلق بڑا واضع تھا کہ کسی بھی مطالبے کو جائز قرار نہ دیا جائے بلکہ اگر مطالبہ تسلیم بھی کر لیا جائے ،تو اس کے بجاے احسان کا درجہ دیا جائے ،چناچہ میں نے کہا "دیکھوبیگم! عورت ذات کی تاریخ گواہ ہے اسے موت سے پہلے چھٹی نہیں ملتی۔"
"لیکن میں تاریخ کا دھارا موڑنا چاہتی ہوں ۔"
"میری پیاری ہٹلر !اگر تم عقل کا تھوڑا سا بھی استعمال کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سماج کی تاریخ کا سارا ڈھانچہ عورت کے کندھے پر کھڑا ہے ۔جس دن بھی عورت نے چھٹی کی سماج میں ایک تعطل آ جائیگا ۔بھائیں بھائیں کرتی ہوئی ایک ویرانی گھر پر مسلط ہو جائے گی ۔سارا کام اس روز چوپٹ ہو جائیگا ۔یوں لگے گا فیکٹری پر جبری تالہ بندی کردی گئی ہے ۔بچے روئیں گے ،میں روؤں گا ،گھر کی بلّی اور طوطا اور سبھی روئیں گے ۔میں پوچھتا ہوں تمہاری چھٹی کے دوران کام کون کرےگا؟"
"آپ کیجیے گا ۔"جذبات سے بلکل عاری ہو رہی تھی ظالم !
اب میں نے پینترا بدلا اور کہا "اچھا چلو تمہاری ہفتہ وار چھٹی منظور کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس چھٹی پر تم کروگی کیا؟"
بس بیٹھی رہوں گی ،سوئی رہوں گی ؛سہیلیوں کے ساتھ گھومنے جاؤں گی ،فلم دیکھوں گی۔"
لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ بیگم صرف میری نقل کرنا چاہتی ہیں ۔ اوریجنل بلکل نہیں ہے ۔ایک بار دل میں یہ شیطانی خیال آیا کہ اسے اوور ٹائم کا لالچ دے دوں یعنی چھٹی کے دن کام کروگی تو دگن اجرت ملے گی ۔اوور ٹائم کی رقم سے ایک ساڑی خرید لینا؛لیکن بیوی کو اوور ٹائم کی ترازو سے تولنا کچھ اچھا نہیں لگا ،لہذا میں نے مردانہ فراخ دلی کی انتہا ئی بلندی پر کھڑے ہو کر آواز دی "ویکلی چھٹی منظور کی جاتی ہے ،مگر ایک شرط پر کہ تم اس دن بال بچوں کو ہمراہ لے کر میکے چلی جایا کرو۔"
میکے کی پخ پر بیگم کچھ بوکھلا گئی ۔میکا ہر عورت کی کمزوری ہے ۔
میکے کے سامنے سارا ٹریڈ یونین ازم منتشر ہو جاتا ہے۔اگر چہ بیگم کی سمجھ میں فوراً نہیں آئی کہ اس کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے یا مطالبہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے ۔مطالبے کے ساتھ مین شرط کی پخ لگا کر میں نے ایک تیر سے دو شکار کر دیے تھے ۔میں نے سونچا کی اس سے بیگم بھی خوش ہو جائے گی اور میں بھی ۔بیگم کی غیر حاضری میں خاوند کو جو آزادی نصیب ہو جا تی ہے اس کا اندازہ وہی شادی شدہ مرد لگا سکتے ہیں جو ایک مستقل یکسانیت سے نالاں رہتے ہیں ۔
بیگم نے زیِِر تبسم سے اس فیصلے پر صاد کیا اور میں نے دل ہی دل میں خوش ہو کر کہا کہ
" مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدور مات"
بیگم کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ گھر کے اخرجات کے لیے اسے جو رقم دی جاتی ہے ،اس میں اضافہ کیا جائے ،کیوں کہ اشیا کے پرانے ریٹ قائم نہیں رہے ۔ ہر چیز پہلے کے مقابلے میں دوگنی مہنگی ہو گئی ہے مگر اخرجات کی رقم بدستور وہی ہے ۔
گویا یہ مہنگائی الاونس کا مطالبہ تھا جو بیک وقت جائز اور نا جائز ہے ۔میں نے جھٹ کہا۔
"بیگم مجھے تمہارے اس مطالبے سے ہمدردی ہے ،بلکہ صرف ہمدردی ہے ۔"
وہ تڑپ اٹھی "مگر ہمدردی سےتوبنیان بھی نہیں آ سکتی۔"
تو بنیان نہ خریدو ۔بزرگوں نے کہا ہے کہ روکھی سوکھی روٹی کھاکے ٹھنڈا پانی پی ،تو اس کا کچھ مطلب تھا ،کچھ فلاسفی تھی ؛افسوس یہ ہے بیگم !کہ تم ٹریڈ یونین ازم کے بزرگوں کی فلاسفی بھول گئیں ۔"
اس کے جواب میں بیگم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ بہت اذیت ناک تھا۔
اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ روکھے سوکھے کی فلاسفی پر یقین نہیں رکھتی ۔ وہ معیارِ زندگی کو گرا کر محلے میں اپنی ناک کٹوانا نہیں چاہتی ۔اس نے آنسووں کا ہھتیار نکال کر مجھ پر بار بار حملے کیے اور دھمکی دی ۔"گھر کے اخراجات کی ذمہ داری تم خود سنبھال لو ۔خالی خولی ہمدردی اور بزرگوں کی فلاسفی کے ساتھ تم ایک ہفتہ میں ہی دیوالیہ نہ بن گئے تو میں بیگم کہلانا چھوڑ دونگی ،"
"تو پھرمیں کیا کروں ڈارلنگ ؟جتنی آمدنی ہے اس سے زیادہ کہاں سے لاؤں ؟"
"اپنی آمدنی بڑھاؤ" انقلابی بیوی نے نعرہ لگایا ۔
"کیسے"
"رشوت لو ،جیب کتری شروع کردو ،اسمگل کیا ہوا مال بیچو، کوئی پرمٹ لائسنس لے لو ۔ساری دنیا اسی طرح ترقی کر رہی ہے ۔"
اور میرا جواب یہ تھا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا ۔ گزشتہ ایک سو برس سے جو خاندانی شرافت ہمارے سر پر سایہ کیے ہوئے ہے میں اسے چند کرسیوں ،اناج کے چند دانوں ،بنیانوں اور آلو گوبھی کی خاطر تباہ و برباد نہیں کر سکتا۔
مگر بیگم مصر تھیں ۔
" ہر دور میں اخلاق اور شرافت کی قدریں بدلتی رہتی ہیں ۔اخرجات میں کمی کر دینا بزدلی ہے اور بزدل انسان کو کسی معزز بیوی کا خاوند بننے کا کوئی حق نہیں ، اس لے میرا یہ مطالبہ مان لو ورنہ جنرل اسٹرائیک کے لیے تیار ہو جاؤ۔"
اس نے مجھے بزدل کہا۔ میرے شوہر پن کو مشکوک قرار دیا ۔جنرل اسٹرائیک کی دھمکی دے کر گھر کے مفاد پر ضرب لگانے کا اعلان کیا ۔ یہ رویہ سیدھا طلاق کی منزل کی طرف بڑھا جا رہا تھا ۔ مگر میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ بیوی کو طلاق دے دوں گا ،خاندانی اخلاق کو نہیں ۔
چند منٹ کی بحرانی خاموشی کے بعد بولی ۔ "تو کیا ارادے ہیں ؟"
"مطالبہ رد کیا جاتا ہے ۔" میں نے تاریخ انسانیت کا عظیم ترین اعلان کیا ۔ "لیکن یہ بنیادی مطالبہ ہے ۔ اگر اسے رد کیا گیا تو میں غور کروں گی کہ پہلے دو مطالبے بھی منظور کروں یا نہ کروں !"
"مجھے یہ چیلنج منظور ہے ۔"
اس مرحلے پر آکرسمجھوتے کی بات چیت ٹوٹ گئی ۔مصلحت کے تحت بیگم پلنگ پر جا لیٹیں ۔ خصلت کے مطابق میں یوں ہی کوئی پرانا رسالہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا ۔ گھڑی کی ٹک ٹک ہمارے غم اور مسرت دونوں کو پیچھے چھوڑ کر وقت کی بے نیاز منزلیں طے کرتی رہی ۔ میں نے کھانا نہیں کھایا ۔ شاید بیگم نے بھی نہیں کھایا اور پھر یوں لگا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ شاید ہم اندر ہی اندر روتے روتے سوگئے تھے،کھو گئے تھے ۔
اور جب بھوک کی گھڑیال نے دو بجائے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ایک گرم گرم آنسو میری پیشانی پر آگرا۔ اور پھر ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز ۔ اور نرم و نازک ہاتھوں کا لمس اور چوڑیوں کی مترنم جھنکار۔
"یہ کون تھا؟"
یہ کوئی ٹریڈ یونین لیڈر نہیں تھا۔
یہ کوئی انقلابی بھی نہیں تھا۔
یہ میری اکلوتی پہلی اور آخری بیگم تھی جو کہہ رہی تھی ۔
"اٹھو !کھانا کھا لو ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔"
Women's Trade Union, Humorous Essay by: Fikr Taunsvi.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں