امجد حیدرآبادی - مضمون از ڈاکٹر عبدالحق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-24

امجد حیدرآبادی - مضمون از ڈاکٹر عبدالحق

amjad-hyderabadi
آج سے تقریباً 33 سال پہلے کا واقعہ ہے ، مدرسہ دارالعلوم میں سیرت کا جلسہ تھا۔ غالباً اس جلسہ کی صدارت ناظر یار جنگ فرما رہے تھے۔ میں بھی ایک نوجوان سامع کی حیثیت سے اس میں شریک تھا۔
دوران جلسہ ایک درویش منش اور دیوانہ صفت شخص اسٹیج پر آیا۔ اس نے اپنی کچھ نظمیں اور رباعیاں پڑھیں۔ میں نے اس شخص کے لا ابالی انداز کو دیکھا اور یہ سمجھا کہ کوئی لا ابالی آدمی معلوم ہوتا ہے۔ بازو بیٹھے ہوئے ایک صاحب مولوی مخدوم حسینی، جو میرے والد کے شاگرد تھے ، ان سے میں نے پوچھا کہ: یہ کون صاحب ہیں؟
انہوں نے مختصر طور پر شاعر کی زندگی کے حالات و واقعات طغیانی سے پہلے کے اور طغیانی کے بعد سنائے۔
اس وقت میرا عنفوان شباب تھا، دل پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔ اثر ہوا تو اتنا ہی کہ ان کی دیوانگی کچھ زیادہ ہی معلوم ہوئی۔ اس کے آٹھ برس بعد مدراس میں اسی شاعر سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اتفاق سے اردو سوسائٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ یہ وہاں تشریف فرما تھے۔ اپنے کلام سے انہوں نے وہاں سامعین کو محظوظ فرمایا۔ اس وقت میری زندگی ایک نئے موڑ سے گزر رہی تھی۔
یوم اقبال منایا جا رہا تھا، اس جلسہ کی صدارت مجھ خاکسار کو تفویض کی گئی تھی۔ اتفاق کی بات کہ اسی روز حضرت امجد کی صدارت میں مشاعرہ بھی تھا۔ میں اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ واپس جانا چاہتا تھا۔ لیکن حضرت امجد نے مجھ سے فرمایا:
"بعض باتیں آپ کے لئے بھی ہیں، آپ تشریف رکھیں۔"
اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا:
اک ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز۔۔۔
صبح کی اذان تک حضرت امجد کا کلام سنتا رہا اور لطف اندوز ہوتا رہا اور بہت قریب سے میں نے ان کے کلام کا لطف اٹھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ میری جوانی باقی تھی اور نہ عنفوان شباب۔ اس وقت یہ احساس ہونے لگا کہ یہ وہ دیوانگی ہے جس پر ہزاروں فرزانگیاں قربان ہیں۔ یہ وہ بے ہوشی ہے جس پر ہوشمندوں کی ہوشمندیاں نثار ہیں، جس طرح خاقانی نے کہا:
پس ازسی سال روش گشت ایں معنی بہ خاقانی
کہ سلطانیست درویشی و درویشیست سلطانی

بیس سال بعد چشم بینا نے ان کو دیکھا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان اسرار و حقائق کے متعلق جو شاعر پیش کرتا ہے اور پھر جسے حضرت امجد نے اپنے کلام اور رباعیات میں پیش کیا ہے اس پر تنقید کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔

شاعر کا متاع گراں چند چیزیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے پہلی چیز "دل درد آشنا" ہے، دوسری چیز "دیدۂ بینا" اور تیسری چیز "زبان خوش نوا"، یہ تینوں اگر یکجا جمع ہو جائیں تو پھر کیا کہنا۔ جو کیفیت شاعر کے دل پر گزرتی ہے وہی کیفیت دوسروں کے دلوں پر بھی گزرتی ہے۔ وہ شاعر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تلامذالرحمن ہوتے ہیں ان کی شاعری سے ایک ٹھیس لگتی ہے۔ دل میں ایک کسک پیدا ہوتی ہے۔ یہ چیز ان میں اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ ان کا دل درد سے آشنا نہیں ہوتا۔ شاعر کو جو دل نصیب ہوتا ہے وہ بھی عجیب و غریب ہوتا ہے:
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں اٹھ اٹھ روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے

میر نے کیا سچ کہا ہے کہ شاعر کے دل میں دنیا بھر کا درد جمع ہو جاتا ہے۔ اور وہ دوسروں کو بھی درد آشنا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی نے کہا ہے :
ستم است اگر ہوس کشد کہ برسر سر دشمن درآ
تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشا بہ چمن درآ

دل کے چمن میں شاعری کرنے والے، درد کی لذت سے لطف اٹھانے والے، درد و الم سے اپنے خانہ دل کو آراستہ کرنے والے جو شاعر ہوتے ہیں، وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے نہ صرف خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

حضرت امجد کا اگر مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ خدا نے ان کو بہت رقیق، سریع التاثیر اور حساس دل عطا فرمایا ہے۔ ایسا حساس دل کہ جب ایک مرتبہ ٹوٹ جائے تو کیفیات کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ جب تک دل نہ ٹوٹ جائے اس میں وہ کیفیات پیدا نہیں ہو سکتیں۔ لیکن ان کا دل ٹوٹنے کے لئے کیا اتنے بڑے طوفان (رود موسیٰ کی طغیانی) کی ضرورت تھی؟ سیلاب میں ہزاروں گھر اجڑ گئے۔ لیکن دل ٹوٹا تو اسی کا ٹوٹا جس نے بعد میں اپنی دلی کیفیات کے اظہار سے ہزاروں دلوں کو پانی کر دیا۔

دیدۂ بینا کے متعلق کیا عرض کروں کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے۔
حضرت امجد نے یہ تو سچ فرمایا ہے کہ ان کی قوتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ کان سن نہیں سکتے، آنکھ برابر دیکھ نہیں سکتی، زبان گفتگو نہیں کر سکتی۔ یہ سچ ہے لیکن دیدۂ بینا سے مراد قلب کے وہ واردات ہیں جو عمر رواں کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔ وہ روشنی جو قلب کی گہرائیوں میں پیدا ہوتی ہے وہ لحظہ لحظہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اس دیدۂ بینا کے طفیل میں شاعر دوسروں کے دماغ کو بھی منور کرتا ہے۔

حضرت امجد کی زبان خوش نوا کی اثر آفرینی سے آپ سب واقف ہیں۔ میں نے ان کی بعض نظمیں اور رباعیاں مقدس مقامات پر راتوں کی تنہائیوں میں پڑھیں مگر دو تین سطریں پڑھنے کے بعد آگے نہ بڑھ سکا۔ ان کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔
ان کا کلام سب کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔ بعض لوگ جو ان کے عقائد و خیالات اور مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی اس امر سے اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ حضرت امجد کی شاعری سب کے لئے بے پایاں مسرت کا باعث ہے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
کچھ افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے بارے میں
کرنول میں ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کی تعمیر - 20 کروڑ روپے منظور

ماخوذ از کتاب:
کرنول میں اردو شعر و ادب (آزادی سے پہلے)، از: ڈاکٹر قیسی قمرنگری، 2017۔ ص:236-239
انشائے حق، از: ڈاکٹر ذاکرہ غوث۔ ناشر: ایم محفوظ الحق، 1992 ، ص: 29-34۔

Amjad Hyderabadi. - Article: Dr. Abdul Haq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں