ہمارے سماج کو اب دانشوروں کی ضرورت نہیں رہی - ن م دانش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-23

ہمارے سماج کو اب دانشوروں کی ضرورت نہیں رہی - ن م دانش

noon-meem-danish
ن۔ م۔ دانش 21/مارچ 1958ء کو کراچی کی قدیم بستی لیاری میں پیدا ہوئے۔ اوکھائی میمن سکنڈری اسکول کھارادر سے میٹرک کیا۔ وفاقی گورنمنٹ اردو آرٹس کالج سے گریجوشن کے بعد جامعہ کراچی سے ایم۔اے اردو فرسٹ کلاس فرسٹ میں پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ زمانہ طالب علمی میں بحیثیت مقرر پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں سے ٹرافیاں جیتیں اور اس کے ساتھ مختلف اخبارات اور ادبی رسائل میں مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ ان کی شاعری ملک کے مقتدر ادبی پرچوں میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہی ہے۔ "بچے تتلی پھول" ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ ان دنوں (مئی-2000ء) وفاقی گورنمنٹ اردو آرٹس کالج میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ن م دانش کا شمار نئی نسل کے نمائندہ شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ نے غزل و نظم دونوں اصناف سخن میں نئے تجربے کئے ہیں۔ خصوصاً غزل میں طویل اور مکمل مصرعے کی حیثیت رکھنے والی ردیفوں کا استعمال آُ کو اپنے عہد کے شعراء میں منفرد اور معتبر مقام کا حامل بناتا ہے۔

شاہ نصیر اور شاہ حاتم نے ردیفوں کے سلسلے میں جو تجربے کئے ، دانش نے اسے نئے احساس کے ساتھ جدید سماجی عہد کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
  • اپنے آپ سے باتیں کیں خامشی میں
  • دکھ نہ کسی سے کہنا
  • نیم شب کو
  • بہت دن گزر گئے
  • دل میں دھیان کی لہروں نے
  • زرد گلاب
  • خالی کمرے میں
  • تیرے خواب سے مرے خواب تک
غرض اسی طرح کی منفرد اور نئے احساس کی ترجمانی کرنے والی ردیفوں نے اس عہد کے بڑے بڑے نقادوں کو چونکا دیا ہے۔ جب کہ نظم کی بات کی جائے تو۔۔۔
  • ٹنڈو آدم کا مسئلہ
  • کتا بھونکتا ہے
  • آدم کے بیٹے
  • آدمی کو جینا چاہئے
  • کوئی غم نہیں ہے
ایسی نظمیں ہیں جس میں سماجی جبر، انسان کی فرسٹریشن، تنہائی، اداسی اور جدید عہد کے نیم صنعتی ، نیم جاگیردارانہ معاشرے میں جینے والے انسانوں کا دکھ شامل ہے۔
دانش کی شاعری میں ایک دانشورانہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلے ہوئے دکھوں پر احتجاج ہے۔ دانش نے اپنی شاعری میں بعض استعاروں اور علامتوں کو مخصوص تلازمات کے ساتھ برتا ہے اور ان میں پورے تجربے اور احساس کو منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جس میں بیشتر کی حیثیت استعاراتی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے داخلی اور روحانی کرب کا اظہار اس سطح پر کیا ہے جس کا مقصد غزل اور نظم کو قریب لانا ہے۔

گزشتہ دنوں ہم نے ن م دانش سے ادب، سیاست اور تعلیم کے موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی جس کا مختصراً احوال آپ کی نذر ہے۔

سوال:
آپ کا نظریہ شعر کیا ہے؟
جواب:
شعر کہنا میرے لئے محض ایک سنجیدہ عمل ہی نہیں بلکہ ایسا عمل بھی ہے جس سے زندگی با معنی بنتی ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسی دانشورانہ سرگرمی ہے جس میں کسی بھی طرح کی بددیانتی، جھوٹ اور مصلحت کا مطلق گزر نہیں ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو آدمی ا پنے آپ سے ، اپنے معاشرے اور اپنے عہد سے بولتا ہے۔ میرے خیال میں شاعری کا پہلا مرحلہ الہاامی ہوتا ہے، پھر خیال کو شاعری کے سانچے میں ڈھالنے کاعمل مرصع سازی پر مشتمل ہوتا ہے اور یہیں سے شاعر کا فن شروع ہوتا ہے۔ محبوب خزاں کا ایک شعر ہے۔

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

جہاں تک الہام اور مرصع سازی کی بات ہے تو اس کا اظہار میرے اس مطلع میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اجاڑ آنکھوں میں رتجگوں کا عذاب اترا ہے نیم شب کو
جو درد جاگا ہے شام ڈھلے تو شعر لکھا ہے نیم شب کو

سوال:
آپ کی شاعری کے بنیادی محرکات کیا ہیں؟
جواب:
شروع میں تو نوجوانی کے جذبات سے مغلوب ہو کر انسان شاعری کرتا ہے۔ بعد ازاں سوچنے کا عمل جس میں سماج کی تفریق اور ارد گرد کا ماحول شامل ہے ، اس کا محرک بنتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میں نے اپنے علاقے لیاری اور اپنے شہر کی سماجی زندگی کو شدت سے محسوس کیا ، اس معاملے میں میری ذات کے اندر اپنے آپ سے مکالمے کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے جیسے:

دیا جلایا اپنے آپ سے باتیں کیں خاموشی میں
کوئی نہ آیا اپنے آپ سے باتیں کیں خاموشی میں

تیرا غم تھا کس سے کہتے میں نے خالی کمرے کو
حال سنایا اپنے آپ سے باتیں کیں خاموشی میں

سوال:
آپ نے شاعری میں کس سے رہنمائی حاصل کی؟
جواب:
سب سے پہلے میں نے ماسٹر غلام عباس کو اپنا کلام دکھایا پھر یونس شرر صاحب سے رہنمائی لی۔ ان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے مجھے فعلن فعلن میں نہیں الجھایا۔ بقول شاعر

فعلن فعلن فعلن کی گردان لکھو
شعر نہیں تو شعروں کے اوزان لکھو

یونس شرر صاحب سے میں نے بہت سیکھا۔ وہ بہت اچھے شاعر اور بہت اچھے استاد تھے۔ آج کل وہ ملک سے باہر رہ رہے ہیں۔

سوال:
سنا ہے آپ امریکہ جا رہے ہیں۔ یہ محض سیاحتی دورہ ہے یا مستقل قیام کے ارادے ہیں؟
جواب:
ہم لکھنے پڑھنے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ نیکی و صداقت کا جو پیغام ہم اپنے طلبہ کو لیکچر اور تقاریر کی صورت میں دیتے ہیں وہ ہمارے اپنے لئے قابل عمل نہیں ہے۔ یہ میرے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے کہ میں یہاں سے جاؤں، لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اگر یہاں رہا تو پاگل ہو جاؤں گا۔ میں امریکہ کے کسی اسٹور میں کام کرنا پسند کر لوں گا لیکن موجودہ سوسائٹی میں دانشوراور پروفیسر کہلانا مزید افورڈ نہیں کر سکتا کیونکہ میرے خیال میں یہ سب ڈھکوسلہ ہے۔
ہمارے سماج کو اب دانشوروں کی ضرورت نہیں رہی۔

سوال:
اس بے دلی اور مایوسی کے کیا اسباب ہیں؟
جواب:
میں نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں تقرری کے لئے 1998ء میں ایک انٹرویو دیا تھا۔ انٹرویو بورڈ میں چار جید افراد تھے جن کے نام بہت بڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کرمیں مطمئن ہو گیا۔ ان میں پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر عبدالسلام اور سندھ پبلک سروس کمیشن سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری شامل تھے۔ اس موقع پر دیگر شعبوں کے لئے بھی اساتذہ سے انٹرویو لئے جا رہے تھے۔ اس سے قبل سنڈیکیٹ کے اجلاس میں بہت سارے معاملات طے ہوئے تھے مگر جب شعبہ اردو کے اساتذہ کی تقری کا معاملہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ اس سلسلے میں کوئی مارکنگ نہیں کی گئی ہے اور پھر اسی اجلاس میں ثریا شمیل جو 12 سال سے شعبہ اردو میں عارضی ٹیچر کے طور پر پڑھا رہی تھیں انہیں سینڈیکیٹ نے متفقہ طور پر اس انسانی ہمدردی کی بنا پر کنفرم کر دیا کہ اب تو ان کے طلبہ بھی لیکچر ر ہو گئے ہیں لہٰذا انہیں کنفرم کر دیا جائے۔
یوں میرٹ کا قتل کیا گیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی بیٹی عظمیٰ فرمان اور احمد ہمدانی کی بیٹی کا عارضی تقرر کر دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری صلاحیتوں کی جب بھی بات کی گئی مجھے بے حد سراہا گیا لیکن جب مجھ سے کام لینے کا موقع آیا تو مجھے اقربا پروری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

سوال:
کیا اس نا انصافی کا صرف آپ ہی شکار ہوئے؟
جواب:
میرے ساتھ انٹرویو دینے والوں میں ایک باصلاحیت نوجوان استاد رفیق نقش بھی تھے۔ رفیق نے مشورہ دیا کہ چلو کورٹ چلتے ہیں مگر میں اتنا دلبرداشتہ تھا کہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ یہ بات میرے دل پر آج بھی بوجھ ہے کہ میں اس نا انصافی پر عدالت میں نہ جا سکا۔

سوال:
آپ کا ایک شعر ہے:
ملال یہ نہیں دیوار و در نہیں گھر میں
عذاب یہ ہے کوئی معتبر نہیں گھر میں
اس کیفیت میں آپ علمیت ، کردار، لفظ، کتاب اور آج کے لکھنے والے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
جواب:
میرے لئے پڑھنا بنیادی کام ہے۔ یہ کتابیں اور ان میں لکھے ہوئے الفاظ میرے لئے محض الفاظ نہیں ہیں۔ میں کوئی لفظ یا خیال پڑھتا ہوں اور وہ لفظ و خیال میرے کردار و عمل کا حصہ نہیں بنتا تو مجھے لکھنے اور پڑھنے کا حق نہیں پہنچتا۔ میں کسی بھی عالم پڑھے لکھے آدمی کو اس کے کردار سے ہٹ کر نہیں دیکھتا۔ میں ذہنی طور پر اس سے ایک خاص کردار کا متقاضی ہوں اور اگر وہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو میں اس سے کبھی محبت نہیں کر سکتا۔ ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں لفظ، کتاب اور کردار الگ الگ چیزیں ہیں یعنی کتاب و قلم آپ کا علم، آپ کی ڈگریاں،آپ کی پی۔آر اور نام و پیسے کا حصہ تو ہیں لیکن کردار کا حصہ نہیں ہیں۔

سوال:
بحیثیت استاد آپ طلبہ اور تعلیمی ماحول کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب:
میرے خیال میں آج کی صورت حال کے ذمہ دار ہمارے اسلاف ہیں۔ آمریت نے ہماری یکجہتی کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ آج ہم سب ایک دوسرے کے لئے مشکوک ہو گئے ہیں۔ طلبہ بھی اس سے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اب سب کچھ زبان کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ کام کوئی چھوٹے پیمانے پر نہیں ہوا۔ اب طلبہ فیس بڑھنے پر احتجاج نہیں کرتے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس خراب صورتحال کی ذمے دار سوسائٹی اور دور آمریت ہے جس کے نتیجے میں طلبہ یونینز پر پابندی لگی اور طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کا سلسلہ ٹوٹ کر رہ گیا۔ نتیجتاً تشدد کو فروغ حاصل ہوا۔ اب کراچی میں تعلیمی ماحول، ویرانی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔

سوال:
لیکن پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو خوب پروان چڑھ رہے ہیں؟
جواب:
ہاں مخصوص قسم کی تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ تعلیم صرف پیسے والوں کے لئے ہے ، آپ کے اور ہمارے لئے نہیں، یہ سرمایہ کاری ہے جس کا مقصد پیسے کی دوڑ کو فروغ دینا ہے۔

سوال:
آپ کیا سمجھتے ہیں یہ صورت حال ہماری سوسائٹی کو کلچر لیس نہیں بنا رہی؟
جواب:
میرے نزدیک کوئی سماج کلچر لیس نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بنیادی اقدار کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہے ، پردہ کلچر کو لے لیجئے یا یہ جو ہر طرف رنگ برنگی ٹوپیاں نظر آتی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب جنون کا اظہار ہے۔ یہ آگے جانے کا عمل نہیں ہے بلکہ ہم اسلام کے نام پر بعض جاگیر دارانہ اقدار کو مستحکم کر رہے ہیں۔

سوال:
کیا تخلیقی ادب نظریے کا پابند ہوتا ہے ؟
جواب:
میرے خیال میں کوئی چیز نظریہ کے بغیر نہیں ہوتی ، خاص طور پر جس کا تعلق ذہن و فکر سے ہو۔ ہاں نطریہ فنکار کو کسی مخصوص اسلوب کا پابند نہیں بنا سکتا۔

سوال:
آپ کی شاعری میں اداسی کی کیفیت بہت نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر
شام کی ہوا چلی اور دل اداس تھا
آگ سی دہک اٹھی اور دل اداس تھا
محفلوں میں بیٹھ کر دوستوں کے درمیاں
گونجتی رہی ہنسی اور دل اداس تھا
اس رویے کے کیا محرکات ہیں؟
جواب:
ہاں آپ نے صحیح کہا ، اداسی میری طبیعت کا بنیادی جز ہے۔ پڑھنا، سوچنا، غور کرنا میری عادت ہے۔ اس صورت میں فرسٹریشن اور تنہائی بہت بڑھ جاتی ہے۔

سوال:
جدید شاعر اور قدیم شاعر میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب:
قدیم شاعر لفظوں کو معنوی رنگ میں استعمال کرتا ہے جب کہ جدید شاعر لفظوں کو محاوراتی اور لٖغوی معنوں کے ساتھ ساتھ استعاراتی معنوں میں بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے وہ نئے تناظر کے ساتھ سامنے آتا ہے۔

سوال:
موجودہ عہد میں شاعر اور افسانہ نگار تو نظر آ رہے ہیں لیکن نقاد کہیں کھو گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
ہمارے شہر میں نقادوں کی آخری نسل ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور پروفیسر سحر انصاری کی رہ گئی ہے جو خود 60 سال کی ہو گئی ہے۔ نقاد سماج میں ناپید ہے۔ کچھ لوگ ادبی منظر نامے سے کہیں کہیں جڑے ہوئے ہیں اور وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

سوال:
دور جدید کے لکھنے والوں میں آپ کی نگاہ کہاں آ کے رکتی ہے؟
جواب:
تنقید نگاروں میں آصف فرخی ، افسانہ نگاری میں نعیم آروی اور ڈاکٹر مشرف احمد ہیں جب کہ بالکل نئے لکھنے والوں میں زیب اذکار حسین، آصف مالک اور عزیز عزمی قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان نئے لکھنے والوں کے کام سے وہی شخص واقف ہو سکتا ہے جو نئی نسل سے جڑا ہوا ہو۔ اس لئے کہ ادب کا وہ طالب علم جو کتابوں سے فیض حاصل کرتا ہے وہ نئی نسل کے لکھنے والوں سے بالکل آشنا نہیں ہے۔

***
بشکریہ: روزنامہ "جنگ" کراچی۔
قرطاس ادب (ادبی سپلیمنٹ)، 8/مئی/2000ء

Interview of Noon Meem Danish dated May-2000

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں