جمیل الدین عالی کے عالمی سفرنامے کی دوسری جلد ہے جس میں جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ کے سفر ہیں۔
اس سفرنامے کی پہلی جلد (بعنوان: دنیا مرے آگے) میں ایران، عراق، لبنان، مصر، دہلی، روس، فرانس اور برطانیہ کی کہانیاں ہیں۔ دو جلدوں والا یہ سفرنامہ روزنامہ 'جنگ' (گراچی) میں 1963ء سے لے کر 1966ء تک اتوار ایڈیشن میں چھپ کر قارئین میں مقبولیت کے اعلیٰ معیار قائم کرتا رہا تھا۔ اس سفرنامے کے کچھ حصوں کے ترجمے دیگر زبانوں میں بھی ہوئے اور متعلقہ ممالک کے جرائد میں چھپے۔ اردو کے سفرناموں کے اولین دور سے متعلق یہ سفرنامہ اپنے اسٹائل، معلومات اور تبصروں کی وجہ سے آج بھی منفرد، زندہ اور تابندہ ہے۔ عالی جی نے اپنے اس سفرنامے میں روایتی بیان سے گریز کرنے میں منفرد انداز اور دلآویز اظہارِ بیان اپنایا ہے۔ جس میں مطالعے، مشاہدے اور تجزئیے کے رنگ برنگے پہلو روشن نظر آتے ہیں۔
سفرناموں کے مطالعے کے شوقین قارئین کے لیے تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں سفرنامے کی یہ دوسری جلد "تماشا مرے آگے" پیش خدمت ہے۔ تقریباً ساڑھے چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 18 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
جرمنی کے سفرنامے کے ایک باب سے دلچسپ اقتباس ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
جب سورج ڈوب جاتا ہے تو جدید اور تازہ دم فرینکفورت کی روشنیاں ستاروں سے آنکھیں لڑانے لگتی ہیں۔ چوک ہوپ داخا ہو یا کوئی اور چوک یا سڑک یا گلی، وہاں دن اور رات میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا مگر قیصر کی گلی نسبتاً تاریک ہے یا شاید تاریک محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہاں شام ڈھلنے کے ساتھ ساتھ رنگین و معطر سائے ابھرنے لگتے ہیں۔
ایپلر صاحب اس بات پر بہت خفا ہیں کہ میں انہیں یہاں بھی ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ پہلے تو انہوں نے ایک مہذب یورپین کی حیثیت سے میری شام کے بارے میں مشورہ دینے سے احتراز کرنے کا فلسفہ سمجھایا، پھر ایک مصروف آدمی کی شبانہ مجبوریاں بیان کیں، پھر کھل گئے:
"ارے صاحب، یہاں بیماری لگ جانے کا امکان ہے"۔
مگر میں بھرے پر چڑھا ہوا ہوں، میں نے انہیں نہایت بےشرمی سے بتایا کہ میں چیخوف، موپاساں، گورکی اور منٹو سے کسی طرح کم نہیں ہوں، میں ایک زبردست ادیب ہوں اور ہر طرح کی زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بےچارے ڈر سے گئے۔
"مگر یہ منٹو کون ہے؟" انہوں نے پوچھا
"منٹو ہمارا ایک زبردست ادیب تھا جو طوائفوں اور جنسی مسائل پر لکھتا تھا"۔
"مگر ہم نے تو اس کا نام کہیں نہیں سنا"
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تم نے غالب کا نام سنا ہے؟"
"نہیں"۔
"میر تقی میر کا نام؟"
"نہیں"۔
"سر سید احمد خاں کا نام؟"
"نہیں"۔
"تو پھر کس کا نام سنا ہے؟"
"مسٹر گاندھی کا جو نیم برہنہ رہتے تھے اور نظام حیدرآباد کا جس کے جوتوں میں لعل جڑے ہوئے ہیں اور مسٹر جناح کا جنہوں نے پاکستان بنایا"،
"شکر ہے آپ اتنے نام بھی جانتے ہیں"
"مگر منٹو کون ہے۔ یقیناً وہ کوئی ادیب ہے"۔ انہوں نے دلچسپی ظاہر کی۔
"منٹو ہمارا وہ ادیب ہے جس کے تقریباً ہر افسانے پر مقدمہ چلتا ہے"۔
"وہ کس زبان میں لکھتا ہے؟"
"اردو میں۔"
"اردو کیا ہے؟ آپ کی زبان تو انگریزی ہے نا۔"
"یہ آپ سے کس نے کہا؟"
"اجی یہ تو مشہور بات ہے۔ جب سے ہمارے ملک کے تعلقات آپ سے بڑھے ہیں اور کاروباری ادارے آپ کے ہاں قائم ہوئے ہیں، ہماری یونیورسٹی میں بڑا شور و غل ہوا کہ ایشیائی زبانیں سیکھنی چاہیے۔ چنانچہ ہمارے کچھ انجینئر داخل کیے گئے کہ بھئی یہ پاکستان جانے والے ہیں، انہیں وہاں کی زبان سکھاؤ۔ وہ لوگ کوئی دس دس مہینے پڑھائے گئے اور پھر آپ کے ہاں بھیجے گئے۔ پھر باقاعدہ کلاسیں کھولی گئیں کہ اب تو آنا جانا شروع ہو ہی گیا ہے۔ مگر ہوا یہ کہ ان میں سے چند آدمی چھٹیوں پر آئے اور ہم سے ملے تو انہوں نے کہا ہمارا سب وقت ضائع گیا۔ پاکستان کے لیے کوئی ایشیائی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہاں سب کام کے لوگ انگریزی بولتے ہیں، جو مزدور لوگ بولتے نہیں وہ سمجھ ضرور لیتے ہیں۔"
"تو آپ کے ہاں ایشیائی زبانوں کی کلاسیں بند ہو گئیں؟"
"نہیں تو۔ فارسی، عربی، چینی اور جاپانی وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں"۔
میں کچھ کہنے کو تھا کہ ایک تقریباً بارہ فٹ کا سایہ ایک دم میرے سامنے نمودار ہوا اور اس نے زور سے میرے منہ پر طمانچہ مارا۔ میرا گال سرخ ہو گیا۔ دوسرے لمحے میں اس نے میرے کوٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر قلم نکال لیا اور اسے بجلی کی سی سرعت سے دو انگلیوں میں دبا کر توڑ دیا۔
"کیا بات ہے مسٹر عالی؟ آپ کسے دیکھ رہے ہیں؟"
میرے کانوں میں ایپلر صاحب کی آواز ایسے آئی جیسے کوئی بہت دور سے پکار رہا ہو۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ان کی طرف رخ کر کے مسکرایا۔
"کیا بات ہے؟" وہ میرے چہرے کا رنگ دیکھ کر گھبرا گئے۔
"کوئی بات نہیں۔ ایک دیو میرا پیچھا کر رہا ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں، ہمارے ایشیا میں دیو، جن، بھوت بہت ہوتے ہیں۔"
"آئی سی۔"
وہ سمجھے ہوں گے میرے دماغ کی چولیں ہل گئی ہیں۔
"تو کیا اس وقت آپ نے کوئی بھوت دیکھا تھا؟"
"جی ہاں۔ میں اسے پہچان نہیں سکا۔ شاید وہ نوکرشاہی کا دیو تھا، ورنہ عام بھوت تو میرا قلم توڑ نہیں سکتے۔ اس نے میرے ایک طمانچہ بھی مارا ہے"۔
"اچھا؟" وہ اور بھی گھبرانے لگے۔ "مگر میں نے تو کوئی آواز نہیں سنی"۔
"ایسے طمانچوں کی آواز دوسرے نہیں سن سکتے۔ بلکہ ایشیا میں اگر کسی کو ایسی بات بتائی جائے تو کہنے والے کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور لاتعلق لوگ بھی سن کر خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا اس سالے کو طمانچہ پڑا، بہت بنا کرتا تھا۔"
ایپلر صاحب خاموش ہو گئے، وہ کچھ نہیں سمجھے۔ میں بھی خاموش ہو گیا۔ کیونکہ اس سے زیادہ میں بھی نہیں سمجھا سکتا۔ اگر یہی بات سمجھانے بیٹھ جاؤں تو اور بہت سی باتیں سمجھانے کا موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
اے میرے محترم قاری! آپ بھی کچھ سمجھے یا اب بھی نہیں سمجھے؟
***
نام کتاب: تماشا مرے آگے (سفرنامہ)
از: جمیل الدین عالی
تعداد صفحات: 456
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 18 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Tamasha Mere Aage by Jameeluddin Aali.pdf
تماشا مرے آگے - سفرنامہ از جمیل الدین عالی :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
جرمنی | ||
1 | کولون سے بون تک | 11 |
2 | چینی صورت جرمن ہاڑ | 17 |
3 | جزیرہ، خاتون اور ڈاڑھ | 21 |
4 | ہٹلر سے گفتگو | 33 |
5 | مشرقی برلن میں مشقِ تمنا | 41 |
6 | برلن ایک عالمی چیلنج | 46 |
7 | برلنوں کو وداع | 50 |
8 | نشان اور تصویریں | 55 |
9 | کون مارٹن لوتھر | 60 |
10 | ملبے سے یہ ملک اٹھا | 65 |
11 | فرالین - عظیم لوگ اور بحثیں | 73 |
12 | شہرِ ترقئ لسان المانیہ | 83 |
13 | آنخ مان، سامراج اور مار پیٹ | 88 |
اٹلی | ||
14 | شیطان کی آنت میں افسرِ اعلیٰ | 96 |
15 | نکلنا خلد سے اور روم کا کھلنا | 100 |
16 | دایاں، بایاں، تعمیرات | 110 |
17 | پراٹھے، شرابیں، بدن اور مناظر | 119 |
18 | مردہ شہر اور زندہ شہر | 127 |
19 | کچھ سیاست کچھ سیاحت | 132 |
20 | جوتا۔ موچن۔ سڑک | 139 |
21 | ہم وطن بابر اور مصر کی آسٹریلوی دیوی | 145 |
22 | چی زر، تاریخ اور وے ٹے کن | 149 |
23 | لیمپ پوسٹ، نیرو، سینٹ پیٹر | 155 |
24 | ٹک دیکھ میاں اور آگے چل | 161 |
ہالینڈ | ||
25 | پہلی نظر میں | 171 |
26 | بوقلمونی اور زوئی ڈرزی | 174 |
27 | پھول - ون گاگ اور علامہ اقبال | 181 |
28 | ان تھک مکھی اور لوبر ہاؤزن | 187 |
29 | مجبور عدالتِ عالیہ | 193 |
30 | بیوما اور روشن آرا بیگم | 198 |
31 | فلاحی جزرسی | 203 |
پھر کچھ گھنٹے پیرس میں | ||
32 | وہ عجیب دن | 211 |
سوئٹزر لینڈ | ||
33 | چوں چوں کا مربہ | 220 |
34 | نون یا غنہ - غمزدہ گائیڈ | 224 |
35 | ایک شہر اور تین بندر | 230 |
36 | تحفے، ساس اور نند | 237 |
37 | دو رکنی پان اسلامک کانفرنس | 242 |
38 | ان خاتون کی سرگرمیاں | 248 |
39 | ہنری ملر | 253 |
40 | عاشق ہو کر بھاگ گیا | 263 |
41 | زیورک اور جوتے | 267 |
امریکہ | ||
42 | نیا کولمبس | 277 |
43 | یہ بھول بھلیاں | 285 |
44 | یو این میں دلی والے | 293 |
45 | پاکستان اور بڑے بخاری | 301 |
46 | جنگل، سمندر اور اونچائیاں | 309 |
47 | میری، اقوام متحدہ اور کہانیاں | 318 |
48 | یہ نظر ہے طائرانہ | 330 |
49 | واشنگٹن ، للی اور وائیٹ ہاؤس | 335 |
50 | مناظر ، کتابیں ۔ کتابیں | 348 |
51 | خوش حالی کی خوش خیالی | 355 |
52 | موزلم ایکس مگر وائی | 362 |
53 | وہ کالی وہ گورا | 370 |
54 | پورٹیکو کے قزاق | 375 |
55 | یہ ماجرا کیا ہے | 384 |
56 | گرینچ، عظمتیں اور میں | 393 |
57 | سیاہ بستی | 399 |
58 | اٹس اے ونڈرفل ٹاؤن | 417 |
59 | نویلا ، نرالا شکاگو | 426 |
60 | ہیروئین کی مادام | 435 |
61 | انسان سب پر غالب آ جائے گا | 446 |
Tamasha Mere Aage, a travelogue, by Jameeluddin Aali, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں