گجرال کمیٹی - کمیٹی برائے فروغ اردو 1972ء - ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-23

گجرال کمیٹی - کمیٹی برائے فروغ اردو 1972ء - ایک جائزہ

1972ء میں ہندوستان کی مرکزی حکومت نے کمیٹی برائے فروغ اردو تشکیل دی تھی۔ جناب آئی۔ کے۔ گجرال کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا۔ گجرال صاحب اس وقت ورکس اینڈ ہاؤسنگ کے وزیر مملکت تھے۔ چونکہ گجرال صاحب اس کمیٹی کے صدر تھے، اس لئے یہ کمیٹی "گجرال کمیٹی" کے نام سے مشہور ہوئی۔
جس زمانے میں گجرال کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو میں دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج میں لیکچرر تھا۔ میرے محسن اور کرم فرما ڈاکٹر سروپ سنگھ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور گجرال کمیٹی کے ایک اہم رکن تھے۔کمیٹی کے انتظامی امور کی دیکھ بھال اور اس کی رپورٹ لکھنے میں مدد کے لئے کمیٹی کو ایک ڈائریکٹر کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر سروپ سنگھ نے اس عہدے کے لئے میرا نام تجویز کیا۔ کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری جناب علی جواد زیدی نے ڈاکٹر سروپ سنگھ کی اس تجویز کی پرزور تائید کی۔ چنانچہ اس عہدے پر میرا تقرر ہو گیا۔
کچھ دن مشہور ترقی پسند شاعر غلام ربانی تاباں مرحوم اور ممتاز مزاح نگار مجتبی حسین صاحب نے معاون کی حیثیت سے میرے ساتھ کام کیا۔ اس کمیٹی نے ہندوستان کے بیشتر اہم مقامات کا دورہ کیا اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے میں کمیٹی کے ان تمام دوروں میں شامل ہوتا تھا۔ اس کمیٹی میں کام کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایک تو مجھے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اردو کے مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا اور دوسرے مجھے گجرال صاحب ، پروفیسر احتشام حسین، مالک رام صاحب، سجاد ظہیر صاحب، کرشن چندر، پروفیسر عبدالعلیم، پروفیسر گیان چند جین، عابد علی خاں صاحب اور اپنے خاص کرم فرما علی جواد زیدی صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔

گجرال صاحب ایک عظیم محب وطن ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں ہندوستان کی ہر چیز سے والہانہ عشق ہے ، وہ ایک شریف انسان ہونے کے ساتھ انتہائی مخلص اور سیکولر بھی ہیں اور اتنے ہی اردو کے عاشق بھی۔
گجرال صاحب وزارت کے کاموں میں بہت مصروف رہنے کے باوجود کمیٹی کے کاموں کو بھی پورا وقت دیتے تھے۔ کمیٹی میں کوئی سفارش کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ کسی کام سے جاتے تو کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری علی جواد زیدی صاحب اور مجھ کو بلا لیتے۔ راستے میں کار میں چلتے ہوئے کمیٹی کی سفارشات پر تبادلہ خیال کرتے، وہ علی جواد زیدی صاحب کے فہم و ادراک کے بہت قائل تھے۔ کبھی کبھی میں بھی دبی زبان اور مودبانہ انداز میں ان حضرات کی گفتگو میں حصہ لے لیا کرتا تھا۔ گجرال صاحب ایسے موقعوں پر ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے۔ آہستہ آہستہ میں نے گجرال صاحب کے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ بے تکلف ان سے اپنی رائے کا پورا اظہار کرنے لگا۔
گجرال صاحب چونکہ ایک کھلے ذہن کے انسان ہیں اور دوسروں کی رائے کا پورا احترام کرتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ انہوں نے بہت ہی محنت سے تیار کی ہوئی ایک سفارش کمیٹی میں پیش کی لیکن کمیٹی کے ایک دو صاحبان نے اس سے اتفاق نہیں کیا تو ایسے میں سفارش پر بحث شروع ہو جاتی۔ اس بحث کے دوران گجرال صاحب کمیٹی کے چیئرمین یا مرکزی وزیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ کمیٹی کے ایک عام رکن کی حیثیت سے بحث میں حصہ لیتے۔ اور اگر اراکین کی اکثریت اس تجویز میں کوئی ترمیم یا تبدیلی کرنا چاہتی تو وہ اس کو بخوشی منظور کر لیتے تھے۔ مجھے گجرال صاحب کے ساتھ تقریباً چار سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران جب گجرال کمیٹی کسی شہر کے دورے پر ہوتی تو ایسے بے شمار موقعے آتے جب صبح سے شام تک مجھے ان کی خدمت میں حاضر رہنے کا موقع ملتا۔ وہ مرکزی وزیر تھے اور میں ایک معمولی سا سرکاری افسر۔ لیکن اسے میں گجرال صاحب کی عظمت ہی کہوں گا کہ انہوں نے مجھے کبھی یہ فرق محسوس نہیں ہونے دیا۔
کمیٹی میں کبھی کبھی بعض معاملوں پر بڑی گرما گرم بحث ہوجاتی۔ خاص طور سے مالک رام صاحب کا لہجہ قدرے تلخ ہوجاتا۔ لیکن گجرال صاحب بڑے سے بڑے وار کو اپنی دلکش مسکراہٹ کی سپر پر روک لیتے۔

اردو ادب پر گجرال صاحب کی اچھی نظر ہے۔ ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر علامہ اقبال اور ان کے بعد فیض احمد فیض ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے نظریاتی وابستگی کی وجہ سے سردار جعفری ،مجروح سلطان پوری، مجاز اور ساحر وغیرہ کے بے شمار اشعار انہیں ازبر ہیں، جنہیں وہ اکثر اپنی تقریروں میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔
جب کمیٹی کی میٹنگ ختم ہوجاتی تھی تو گجرال صاحب اور کمیٹی کے دوسرے اراکین ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ اگر کمیٹی دہلی سے باہر ہوتی تو ادبی گفتگو کا سیشن قدرے طویل ہوتا۔ ابتدا میں تو اس طرح کی گفتگو میں میری حیثیت ایک خاموش سامع کی ہوتی لیکن جیسے جیسے تکلفات کے پردے اٹھتے گئے میں بھی دوسرے اراکین کی طرح اس گفتگو میں حصہ لینے لگا۔

گجرال صاحب کے انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی میں بے شمار مضامین شائع ہوئے ہیں۔ وہ بہت صاف اور سلیس اردو لکھتے ہیں۔
"سیاست"حیدرآباد میں ان کے تقریباً پچاس مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان مضامین کے موضوعات میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی، آزادی کے بعد کے مسائل، اردو مشترکہ تہذیب، ہندوستان پاکستان دوستی ، کشمیر اور افغانستان وغیرہ۔
"سیاست" کے ایڈیٹر زاہد علی خان نے مضامین گجرال کے نام سے ان مضامین کا انتخاب کیا تھا۔ کچھ ہی دن بعد پاکستان سے بھی یہ کتاب شائع ہو گئی۔

انجمن ترقی اردو(ہند) کے زیر اہتمام دہلی میں ایک جلسہ منعقد ہوا تھا ، جس میں اس کتاب کی رونمائی ہوئی۔ فروری 1998ء میں ادارہ روز نامہ"سیاست" نے ان کے مضامین کا دوسرا حصہ"مضامین گجرال" کے نام سے شائع کیا۔
13؍جون 1998ء کو عزت ماب کرشن کانت نائب صدر جمہوریہ ہند نے اس کتاب کی رونمائی کی۔ "مضامین گجرال" کے ان دونوں حصوں کے مطالعے کے بعد پڑھنے والا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سیاست میں گجرال صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف دوسرے لوگوں کی تنقید پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرتے ہیں بلکہ خود اپنی سیاسی جماعت اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرکے صحیح موضوع کا رخ متعین کرتے ہیں۔
گجرال صاحب کے یہ تمام مضامین قومی اور بین الاقوامی سیاست، صحافت، تہذیبی اور تمدنی مسائل جیسے اہم موضوعات پر ہیں۔ انہوں نے اپنی عصری زندگی کے مسائل کا بہت عالمانہ ، محققانہ،اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا۔ انہوں نے نے سیاست کو ذاتی مفاد کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ سیاست کے ذریعے قوم اور ملک کے حالات کو سنوارا جاسکتا ہے۔ گجرال صاحب کو ان سیاستدانوں سے نفرت ہے جو سیاست میں ساز باز اور ریشہ دوانیاں کرتے ہیں۔ گجرال صاحب نے نڈر اور بے خوف ہوکر ان سیاستدانوں پر کڑی تنقیدکی ہے۔
معاف کیجئے جملہ معترضہ ذرا طویل ہو گیا۔ اب پھر آتے ہیں گجرال کمیٹی کی طرف۔ کمیٹی نے تین سال کی لگاتار محنت سے اپنی رپورٹ تیار کی۔
آٹھ مئی 1975ء کو یہ رپورٹ وزیرا عظم محترمہ اندرا گاندھی کی خدمت میں پیش کی گئی۔
چونکہ یہ رپورٹ قاعدے کے مطابق وزارت تعلیم کے سامنے پیش کی جاتی تھی۔ اس وقت اندرا جی کے ساتھ مرکزی وزیر تعلیم پروفیسر نورالحسن بھی تشریف رکھتے تھے۔ یہ رپورٹ دو سو انہتر(269) صفحات اور ایک سو ستاسی(187) سفارشات پر مشتمل تھی۔
چار سال یہ رپورٹ سرد خانے میں پڑی رہی۔ اور پھر 30؍جنوری 1979ء کو اسے کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور کچھ دن بعد یعنی 21 فروری 1979ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ رپورٹ پیش کی گئی۔

مرکزی حکومت کی کابینہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اردو کی ترقی اور اس کا فروغ نہیں چاہتے تھے۔ ان میں کچھ سینئر وزیر تھے جن کی بات کو ٹالنا اندرا جی کے لئے آسان نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ گجرال کمیٹی کی سفارشوں پر عمل آوری کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، پارلیمنٹ نے گجرال کمیٹی کی رپورٹ منظور نہیں کی۔ حالانکہ پارلیمنٹ اگر چاہتی تو اس سلسلے میں کوئی قطعی فیصلہ کر سکتی تھی۔ لیکن اس رپورٹ کے بارے میں اتنا کہا گیا کہ چوں کہ زیادہ تر سفارشوں کا تعلق ریاستوں سے ہے اس لئے انہیں ریاستی سرکاروں کے پاس بھیج دیا جائے۔ تاکہ وہ اس کے سلسلے میں اپنے خیالات سے ہمیں مطلع کریں۔ چنانچہ یہ رپورٹ تمام ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بھیج دی گئی۔
ظاہر ہے کہ ایک اہم ترین معاملے کو ٹالنے کا یہ بدترین طریقہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ گجرال صاحب اور کمیٹی کے اراکین نے جس خلوص ، محنت اور لگن سے یہ رپورٹ لکھی تھی اسے اس قدر سفاکی کے ساتھ معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔ ایسی مثال کم ہی ملے گی کہ پارلیمنٹ کسی اہم مسئلے پر ایک کمیٹی تشکیل دے۔ کمیٹی پورے ہندوستان کا دورہ کر کے سینکڑوں لوگوں سے ملاقات کرے۔ ان کی شکایتیں اور پریشانیاں ریکارڈ کرے اور پھر پارلیمنٹ اس رپورٹ کو اس طرح سرد خانے کی نذر کر دے۔ گجرال کمیٹی کی سفارش بھیج دی گئی اور چونکہ ریاستی حکومتیں مرکزی حکومت کے اشارے کو سمجھتی تھیں اس لئے انہوں نے بھی یہ رپورٹ الماری میں بند کردی۔ گجرال صاحب کی لگاتار کوششیں بھی اس رپورٹ کو سرد خانے سے باہر نہیں لا سکیں۔

میں سردار جعفری کمیٹی اور دوسری کمیٹیوں کا بھی رکن رہا ہوں۔ ان کمیٹیوں کی ذہلی کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے وہاں جب بھی اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسروں سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ بیشترافسروں نے گجرال کمیٹی کا نام بھی نہیں سنا۔ بعض حضرات نے نام تو سنا تھا لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس رپورٹ میں کیا ہے۔ بہار کے ایک اعلیٰ ترین سرکاری افسر نے سید حامد کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو جس میں میں بھی شامل تھا بتایا کہ انہوں نے پوری رپورٹ پڑھی ہے اور ان کے بیان کے مطابق یہ رپورٹ ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں ہے۔
بعض حضرات کہیں گے کہ ہم پارلیمنٹ کی نیت پر بلا وجہ شبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا جواب یہ ہے کہ سفارشات دو طرح کی تھیں۔ ایک تو وہ جن پرریاستوں کو عمل کرنا تھا اور دوسری وہ جنہیں مرکزی حکومت کی وزارتوں کو نافذ کرنا تھا۔ اگر حکومت چاہتی تو اپنے زیر اہتمام ریاستوں اور وزارتوں سے متعلق سفارشوں پرعمل کرا سکتی تھی۔
اب تو خیر ہندوستان کے سیاسی حالات مختلف ہیں لیکن جس زمانے میں یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی تو دو تین ریاستوں کو چھوڑ کر ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی ، اور چوں کہ مرکزمیں بھی کانگریس کی حکومت تھی اس لئے مرکز کے لئے ریاستوں سے ان سفارشوں پر عمل کرانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔

میری معلومات کے مطابق کسی بھی ریاست نے اس رپورٹ کے سلسلے میں کوئی مثبت جواب دینا تو کجا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز نے بھی کسی ریاست سے کوئی جواب طلب نہیں کیا۔
جسٹس آنند نارائن ملا(صدر انجمن ترقی اردو ہند) کی قیادت میں انجمن ترقی اردو( ہند) کا ایک وفد( اس وفد میں میرے علاوہ کرنل بشیر حسین زیدی، مالک رام اور غالباً ڈاکٹر یوسف خاں شامل تھے) وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاتھا۔ وفد نے مطالبہ کیا کہ چونکہ کسی ریاست میں گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کا کام شروع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کو چاہئے کہ تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایک میٹنگ بلاکر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔
اندرا جی کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ بہت جلد اس طرح کی کانفرنس بلائی جائے گی۔ لیکن وہ یہ وعدہ ایفا نہیں کر سکیں۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ انہوں نے اپنے مشیروں سے بات کی ہوگی اور ان میں سے بعض حضرات کی مخالفت کی وجہ سے اس تجویز کو عملی شکل نہیں دی جا سکی۔ اگر ریاستوں نے جواب نہیں دیا تھا تو مرکزی حکومت نے یاددہانی کیوں نہیں کرائی اور بار بار خط لکھ کر ریاستوں کو مجبور کیوں نہیں کیا کہ وہ سفارشات پر عمل کریں؟
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا جواب یہی ہے کہ مرکزی سرکاری کابینہ کے بعض سینئر اراکین کی اس سلسلے میں نیت صاف نہیں تھی۔ اس رپورٹ کے ساتھ صرف مذاق ہوتا رہا۔ اردو والے مطالبہ کرتے رہے کہ گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔ جب یہ مطالبہ حد سے زیادہ بڑھ جاتا تو مرکزی حکومت اس سلسلے میں ایک اور کمیٹی تشکیل دے دیتی اور پھر اس نئی کمیٹی کا بھی وہی حشر ہوتا جو اصل رپورٹ کا ہو چکا تھا۔

4؍جون 1979ء کو ترقی اردو بورڈ کی میٹنگ میں مرکزی حکومت کی وزارتوں سے متعلق گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کا جائزہ لینے کے لئے سرور کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بڑی محنت سے رپورٹ تیار کی مگر ترقی اردو بورڈ کی یہ تمام محنت بھی بے سود ثابت ہوئی۔ ترقی اردو بورڈ اس کام کے لئے مناسب ادارہ تھا بھی نہیں۔ جب خود مرکزی حکومت لسانی اقلیتوں کے کمشنر اور اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ان سفارشات پر عمل نہیں کراسکے تو ترقی اردو بورڈ کی کیاحیثیت تھی۔
اس وقت بھی انجمن ترقی اردو نے وزیر تعلیم کو یہ مشورہ دیا تھاکہ گجرال کمیٹی کی سفارشات پرعمل آوری کا کام وزارت تعلیم کو براہ راست کرنا چاہئے لیکن وزیر تعلیم نے ہمارے خط کاجواب بھی دینا مناسب نہیں سمجھا۔ غرض یہ ہے کہ حکومت نے سرور کمیٹی کی رپورٹ کو بھی خاطر میں لانا ضروری نہیں سمجھا۔

جب گجرال کمیٹی کی رپورٹ داخل ہوئے پندرہ سال گزر گئے اور اس کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا تو اردو والوں نے پھر زور و شور کے ساتھ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ گجرال کمیٹی کی رپورٹ کو سر د خانے سے باہر نکالا جائے۔ مرکز میں جنتادل حکومت اقتدار میں تھی۔ جنتادل نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے گی۔ چنانچہ جب یہ حکومت اقتدار میں آئی تو گجرال صاحب کے اصرار پر گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کا جائزہ لینے کے لئے 15؍فروری 1990ء کو ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جو "سردار جعفری کمیٹی" کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد سید حامد کمیٹی اور پھر مادھو راؤ سندھیا صاحب کی صدارت میں ایک نگراں کمیٹی بنائی۔ ان تمام کمیٹیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اب شمالی ہند اور خاص طور سے اتر پردیش میں اردو کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے۔

انجمن ترقی اردو( ہند) کا ایک وفد جناب آئی۔ کے۔ گجرال سے 1996ء میں اس وقت ملا تھا جب وہ وزیر خارجہ تھے۔ وفد نے گجرال صاحب کی خدمت میں ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ گجرال کمیٹی کی تمام سفارشات پر فوری طور پر عمل کیاجائے۔ گجرال صاحب نے کہا کہ فی الحال حکومت کے لئے تمام سفارشات پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ کچھ ایسی اہم سفارشات بتائیے جن پر فوری طور پر عمل کیاجاسکے۔ کچھ ہی دن کے بعد آئی۔ کے۔ گجرال صاحب ہندوستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے راقم الحروف کو خط لکھا کہ انجمن ترقی اردو (ہند) گجرال کمیٹی کی کچھ ایسی سفارشات کی نشان دہی کردے جن پر فوری عمل کرنا ممکن ہو۔ انجمن نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں انجمن کے صدر پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جناب سید حامد، جناب۔ افضل( سابق ممبر پارلیمنٹ) ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، جناب سید مظفر حسین برنی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر اسلم پرویز، پروفیسر شمیم حنفی اور خلیق انجم شامل تھے۔ کمیٹی نے ایک میمورنڈم تیار کیا جس میں گجرال کمیٹی کی ایسی سفارشات کی نشاندہی کی گئی جن پر فوری عمل کیا جا سکتا تھا۔ انجمن ترقی اردوکے وفد نے 21؍نومبر 1997ء کو یہ میمورنڈم وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا۔

وزیرا عظم نے اس موقع پر اردو کے بہت سے پروفیسروں اور دانشوروں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ "نئی دنیا" اور"عوام" کے ایڈیٹر جناب شاہد صدیقی نے بھی ایک میمورنڈم پیش کیا۔ وزیراعظم کے ساتھ یہ میٹنگ لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے رہی۔ میٹنگ کے شروع میں وزیرا عظم نے کہا کہ گجرال کمیٹی کی تمام سفارشات پر عمل کیاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سفارشات کا بہت سا حصہ وہ ہے جن پر ریاستی حکومتوں کو عمل کرنا ہے۔ میٹنگ میں مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے۔وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ حکومت ان فیصلوں پر عمل کرے گی۔ نیز اس میٹنگ کے تمام فیصلوں کو گزٹ کیاجائے گا۔ تاکہ حکومت ان فیصلوں کی پابند ہو سکے۔
فیصلے حسب ذیل تھے:

1۔ گجرال کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ جن علاقوں میں اردو بولنے والے دس فیصدی ہیں وہاں ایک اردو میڈیم پرائمری اسکول قائم کیاجائے گا اور ہر 8 یا 10 پرائمری اسکول پر ایک اردو میڈیم سکنڈری اسکول قائم کیاجائے گا۔

2۔ وزیرا عظم نے کہا کہ مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی کا قیام اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اس میں طلبہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے آئیں گے اس کے لئے بنیادی کام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو کرنا ہوگا۔

3۔ انجمن ترقی اردو(ہند) کا مطالبہ تھا کہ سہ لسانی فارمولہ پر گجرال کمیٹی کی سفارش کے مطابق عمل کیاجائے۔
اس میٹنگ میں وزارت فروغ انسانی وسائل کے وزیر ایس۔ آر۔ بومئی صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کو اس سلسلے میں خط لکھاجاچکا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ نومبر 1997ء کے اواخر تک سہ لسانی فارمولہ کے بارے میں اپنی رائے لکھ کر بھیج دیں تاکہ حکومت اس کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرسکے۔ یہ مدت گزر چکی ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک مرکزی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

4۔ یہ بھی طے پایا کہ جدید زبان کی حیثیت سے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں اردو تعلیم کا انتظام کیاجائے گا اور اس سلسلے میں وزارت فروغ انسانی وسائل ہندوستان کی تمام ریاستوں کے وزرائے تعلیم اور سکریٹریوں کی ایک میٹنگ بلائے گی تاکہ اس فیصلے کی عمل آوری پر غور کیاجاسکے۔

5۔ یہ بھی طے پایا کہ جن علاقوں میں اردو بولنے والوں کی مطلوبہ تعداد موجود ہے، وہاں اردو کے میدان میں کام کرنے والی رضا کار تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ وہاں یہ تنظمیں اردو میڈیم پر ائمری اور سیکنڈری اسکول چلائیں اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ان اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے مالی تعاون رہے۔

6۔ یہ بھی طے پایا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اردو اساتذہ کی تربیت کا معقول انتظام کرے گی اور اردو کی ماڈل نصابی کتابیں ترتیب دے گی۔

7۔ انجمن ترقی اردو(ہند) نے میمورنڈم میں شکایت کی تھی کہ انجمن پچھلے پچاس سال سے مرکزی اور صوبائی حکومت کے مختلف محکموں سے اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کی شکایتیں کرتی رہی ہے لیکن ان محکموں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وزیرا عظم نے کہا کہ یہ بہت اہم شکایت ہے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو چاہئے کہ اردو میدان میں کام کرنے والی کچھ اہم شخصیتوں کو پورے ہندوستان سے بلائے، ان میں انجمن ترقی اردو کے مرکز اور شاخوں کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ وہ اس مسئلے پر غور کریں۔

8۔ اس سلسلے میں یہ بھی طے پایا کہ انجمن ترقی اردوایک ایسی نگراں کمیٹی کا کام کرے گی جو اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتی رہے گی اور ہر سال اس کی رپورٹ تیار کرکے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وزارت فروغ انسانی وسائل اور متعلقہ ریاستوں کے وزیر اعلیٰ کو بھیجے گی۔

9۔ انجمن ترقی اردو(ہند) نے شکایت کی تھی کہ دور درشن اور حکومت کے بہت سے دفتروں میں اردو کی آسامیاں خالی ہیں۔ طے پایا کہ پوری کوشش کی جائے گی کہ ان آسامیوں کو پر کیاجائے۔

10۔ انجمن ترقی اردو( ہند) نے اپنے میمورنڈم میں مطالبہ کیا تھا کہ گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کا جائزہ لینے کے لئے ایک قومی سطح کی نگراں کمیٹی قائم کی جائے۔ طے پایا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان فوراً یہ نگراں کمیٹی تشکیل دے اور اس میں انجمن کے نمائندوں کو بھی شامل کرے۔

11۔ یہ بھی طے پایا کہ مرکزی حکومت جب بھی اردو کے سلسلے میں کوئی کمیٹی تشکیل دے گی اس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور انجمن ترقی اردو(ہند) کو بھی شامل کرے گی۔

12۔ وزیر اعظم نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذمے داروں کو ہدایت دی کہ وہ ہندوستان کی آزادی کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر ایک کل ہند اردو کانفرنس منعقد کرے۔

13۔ یہ بھی طے پایا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ہندوستان کی ایسی تمام اردو تنظیموں کو اس طرح منظم کرے کہ وہ اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے بنیادی کام کرسکیں۔

گجرال صاحب کی اس قدر پرجوش اور پر خلوص کاوشات کے باوجود ہندوز ہندوستان میں اردو زبان کا مسئلہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [آئی۔کے۔گجرال نمبر]
جلد: 14 ، شمارہ (نومبر-دسمبر 2005)

The Gujral committee for promotion of Urdu in India, Article by: Dr. Khaleeq Anjum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں