بے چارہ - افسانہ از محمد بشیر مالیرکوٹلوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-21

بے چارہ - افسانہ از محمد بشیر مالیرکوٹلوی

bechara-short-story
ایرکنڈیشنڈ کوٹھیوں میں رہنے والے، امپورٹیڈ گاڑیوں کے مسافر اور اربوں پتی یہ نیتا لوگ الیکشن کے دنوں میں گھر گھر جاکر جنتا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں، خوشامد کرتے ہیں، پیار اور ہمدردی جتاتے ہیں، ان پرانے تعلقات اور رشتوں کا واسطہ دیتے ہیں جنہیں وہ ایک عرصہ کے لئے بھلا چکے ہوتے ہیں، ہر کسی کو جھوٹے وعدوں کی میٹھی گولیاں تھماتے ہیں۔

الیکشن سر پہ آ گیا ہے ، شہر میں جلسے جلوس تذکرے اور شور شرابہ شروع ہو گئے ہیں۔ دفتر سے آکر میں نے تھوڑی دیر آرام کرکے، سٹوو جلایا ہے۔ چائے کا پانی چڑھایا ہے کہ گلی میں شور بلند ہوا ہے اور نعرے بازی سنائی دینے لگی ہے۔ آج شاید کسی امیدوار کا دورہ ہے۔ میں نے سٹوو کی آنچ دھیمی کرکے ایک کاغذ کے ٹکڑے سے سگریٹ جلایا اور کش لگاتا ہوا الیکشن کی سر گرمیوں سے لطف اندوز ہونے کی خاطر بالکونی میں آ کھڑا ہوا ہوں۔
پوری گلی میں مختلف پارٹیوں کی، جھنڈیوں کا جیسے جال پھیلا ہوا ہے۔ جگہ جگہ کپڑے پر لکھے ہوئے بینر لٹک رہے ہیں۔ ماضی قریب کے مقامی منتری جی اپنے پارٹی ورکرز اور محلے کے کچھ معزز لوگوں کے ساتھ گلی میں موجود ہیں اور ہاتھ جوڑے، میرے سامنے والے گھر کے آگے مہندر سنگھ کے ساتھ بات کررہے ہیں۔ ان کے پیچھے گن مین یعنی ان کے بندوق بردار محافظ کھڑے ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ مہندر سنگھ سے تسلی بخش بات کر کے وہ اگلے گھر کی طرف بڑھے ہیں، جو جے پال کا ہے۔ جے پال دروازے میں کھڑا منتری جی کو غضب ناک نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ کسی نے پیچھے سے آواز دی کہ یہاں مت رکئے، مگر منتری جی نے ہاتھ جوڑ کر جے پال سے بھی رٹے رٹائے جملے کہے ہیں اور الیکشن میں ان کا اپنا خیال رکھنے کو کہا ہے۔
جے پال خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا ہے ، پھر وہ اندر کی طرف مڑا ہے۔ اگلے ہی لمحے منتری جی کے سر پر اس زور کا پتھر پڑا ہے کہ وہ چیخ مار کر لڑکھڑا گئے ہیں۔ سیکورٹی گارڈز نے بڑی پھرتی سے جے پال کو دبوچ لیا ہے۔ ورکز منتری جی کو سنبھالنے لگے ہیں، جن کے ماتھے سے خون بہہ رہا ہے۔ منتری جی نے رومال نکال کر بہتے خون کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
جے پال کی حالت پاگلوں کی سی ہو رہی ہے وہ مار بھی کھا رہا ہے اور چلا بھی رہا ہے:
"حرام جادے! میرے میرے پتھر کو کھاکر تیرا پیٹ نہیں بھرا۔ تو چاہتا ہے تو پھر منتری بنے اور پھر لوگوں کی جان لے؟ تو کاتل ہے کاتل۔۔۔ کھونی ہے ، میرے کرشنا کا۔۔۔۔۔۔۔!"

موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے منتری جی نے گارڈز کو لکارا ہے :
"رک جاؤ! مت مارو اسے۔۔۔ یہ میرا بھائی ہے۔ کسی غلط فہمی کا شکار ہوا ہے۔۔!!"
گارڈز کے ہاتھ رک گئے ہیں اور وہ آنکھیں پھاڑے منتری جی کو دیکھنے لگے ہیں۔ جے پال، جو مار کھاتا ہوا زمین پر گر گیا تھا اب ہانپتا ہوا کھڑا ہو گیا ہے اور دائیں ہاتھ کی پشت سے اپنا پھٹا ہوا ہونٹ صاف کرنے لگا ہے۔ گھر کی عورتیں منتری جی اور ان کے ساتھیوں کو چیخ چیخ کر گالیاں دے رہی ہیں۔
پانی کا گلاس پی کر منتری جی ، جے پال سے مخاطب ہوتے ہیں:
"میرے بھائی تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، میں تو جتنا کا سیوک ہوں رکھشک ہوں، محافظ ہوں۔"
جے پال خون تھوکتا ہوا غرایا:
"اور مجھے کوئی گلت پھیمی نہیں۔ تیرے کارن میں نے اپنا اکلوتا پتر کھویا ہے۔ یاد کر جب تو سبھیا چارک میلے کا ادگھاٹن کرنے جا رہا تھا، میرا لڑکا بس کی چھت سے گر کر مرا تھا، میرا کرشنا تھا وہ۔۔۔ میرا کرشنا۔۔۔!!"
جے پال دھاڑیں مار کر رونے لگا ہے۔
منتری جی کو شاید سب کچھ یاد آ گیا ہے۔ ان کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا ہے۔ وہ خالی خالی نظروں سے لوگوں کے چہرے تکنے لگے ہیں اور چکرا کر ایک موٹے تازے ورکر پر گر گئے ہیں۔ ورکرز نے منتری جی کو بڑی حفاظت سے گاڑی میں بٹھایا ہے۔ اور سارا قافلہ اسپتال روانہ ہوا ہے۔

جے پال اب گھر کے اندر چلا گیا ہے۔ گلی کے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پارٹی کے نشان والی جھنڈیاں لئے نعرے لگاتے ہوئے دو چار ٹولیوں میں بٹ کر ادھر اُدھر نکل گئے ہیں۔ الیکشن کے دن ان بچوں کے لئے خدا کی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ شام کو محلے میں بنے امیدواروں کے دفتروں سے ان کو فی بچہ پانچ روپے ملتے ہیں اور وہ چوبیس گھنٹے چلنے والے مفت لنگر سے وقت پر کھانا اور کبھی بھی چائے اور ٹھنڈا لے سکتے ہیں۔
مجھے اپنی چائے کا احساس ہوا ہے میں اندر کی طرف مڑا ہوں، زیادہ پکنے کی وجہ سے چائے کا پانی تھوڑا سا رہ گیا ہے اور رنگ سیاہی مائل ہوگیا ہے۔ میں نے زیادہ دودھ ملایا ہے اور شکر کا ایک چمچہ ڈال کر ایک سڑانگ کپ تیار کیا ہے۔

اتنی برسات ہو جانے کے باوجود پنکھے کی ہوا گرم کی گرم ہی ہے۔ چوہارے کی چھت ہے جو سارا دن دھوپ میں تپتی ہے۔ کپ اٹھا کر میں پھر بالکونی میں آن پہنچا ہوں۔ سامنے کھڑی ہوئی مہندر سنگھ کی بیوی نے مجھے دیکھ کر برا سا مونہہ بنا لیا ہے۔ وہ مجھے گھورتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی ہے۔ اسے میرا بالکونی میں کھڑے رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ میری شکایت مالک مکان سے بھی کر چکی ہے، جو اتفاق سے میری شرافت کا معتقد ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ مجبوری دونوں طرف ہے، میں تو موسم کی سختی سے مجبور ہوکر بالکونی میں کھڑا ہوتا ہوں۔ اور میڈم کی مجبوری یہ کہ ان کے گھر میں دو جوان اور کنواری لڑکیاں ہیں۔
میری فکر کا پرندہ جے پال کے گھر کی منڈیر پر جا بیٹھا ہے۔

پچھلی سال کی بات ہے شاید یہی موسم تھا۔ سورج دن بھر کے سفر سے فارغ ہو کر غروب ہوا چاہتا تھا۔ جے پال کے گھر کے سامنے اس کے اکلوتے بیٹے کرشنا کی لاش پڑی تھی۔ وہ شام اس محلہ میں قیامت کی شام تھی، ہر طرف کہرام مچا تھا۔ گلی میں پاؤں دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارا شہر امڈ آیا ہو، جوان موت کو دیکھ کر ہر کسی کا کلیجہ مونہہ کو آتا تھا۔ جے پال کا رو رو کر برا حال تھا۔ اسے دو چار آدمیوں نے سنبھال رکھا تھا ، وہ بار بار اپنی چھاتی پیٹ رہا تھا اور بال نوچ رہا تھا۔ عورتوں کی چیخ و پکار نے الگ قیامت ڈھا رکھی تھی۔ جے پال کی بیوی کو ڈاکٹر بے ہوشی کا انجکشن دے گیا تھا ، ورنہ اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔

کرشنا بہت خوبصورت جوان تھا، لمبا قد، چوڑی چھاتی، کسرتی جسم، کھلی کھلی رنگت، اور مزاج کا دھیما۔ وہ صبح شام اپنی چھت پر ورزش کرتا تو آنے بہانے محلے کی لڑکیاں اپنی چھتوں کے چکر لگانے لگتیں۔ مگر وہ پسینے میں شرابور دنیا کی نظروں سے بے نیاز اپنے کام میں لگا رہتا۔
پنجاب سے آنتک واد کے خونی بادل چھٹے تو سر کار نے عوام کے دلوں سے خوف دور کرنے اور آپسی بھائی چارے کے جذبوں کو اکسانے کے لئے جگہ جگہ کلچرل پروگرام ، دنگل اور دیہی کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام شروع کیا تھا۔ اسی طرح کا ایک کلچرل پروگرام اور بڑا دنگل قریبی شہر میں ہونے جا رہا تھا۔ پاس کے شہر میں دنگل ہو اور کرشنا نہ پہنچے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ایک دن پہلے کرشنا نے دوستوں کے ساتھ پروگرام بنا لیا اور اگلے دن سب کے ساتھ بس اسٹینڈ پہنچ گیا۔

اس دن بس اسٹینڈ پر ضرورت سے زیادہ ہی رش تھا۔ میلے کی وجہ سے اس روٹ پر لاتعداد سواریاں موجود تھیں۔ کرشنا جب دوستوں کے ساتھ بس کی طرف بڑھا تو بس کی اندرونی حالت دیکھ کر کنڈکٹر نے لڑکوں کو بس کی چھت پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا اور سیٹی بجا دی۔ لڑکے کودتے پھاندتے چلتی بس کی چھت پر چڑھ گئے۔ ایک تو کھلی ہوا، دوسرے شرارتوں کی مکمل آزادی۔ لڑکے بہت خوش تھے۔ بس آبادی سے دور ہوئی تو بجلی کی تاروں اور درختوں کے تنوں سے بچتے بچاتے وہ اونچی آواز میں فلمی گانے گاکر انتاکشری (بیت بازی) کا مزہ لینے لگے۔ کنڈکٹر جو اب تک دروازے سے لٹک رہا تھا اپنے لئے اندر کھڑا ہونے کی جگہ بنا چکا تھا اور کسا کسایا ٹکٹیں کاٹنے لگا تھا۔ پرائیویٹ بسوں کا یہی حال رہتا ہے ، زیادہ کمائی کے لالچ میں وہ سواریوں کو اناج کی بوریوں کی طرح بس میں بھر لیتے ہیں۔

بس شہر سے ابھی بیس کلو میٹر دور ہی گئی تھی کہ پولیس کی ایک تیز رفتار جپسی سائیرن بجاتی ہوئی قریب سے گزر گئی۔ یہ کسی منتری یا گورنر کی آمد کا واضح اشارہ تھا۔ آگے سے سڑک کافی ٹوٹی ہوئی تھی اور دونوں طرف کے درختوں کے تنے بھی کافی جھکے ہوئے تھے اور آپس میں ملے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس کی ایک جیپ گزری جس نے ڈرائیور کو سڑک خالی کرنے کا اشارہ دیا۔ ڈرائیور کو چھت پر بیٹھے ہوئے لڑکوں کی موجودگی کا احساس تھا پھر بھی اس نے آنے والوں کے لئے آدھی سڑک چھوڑ دی۔ تیسری گاڑی جب بس کے قریب آئی تو پولیس والے ڈرائیور کو دھمکانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک پولیس والے نے ڈرائیور کے بازو پر ایک چھڑی جما دی ڈرائیور بوکھلا گیا۔ ایک لمحہ کے لئے سٹیرنگ اس کے کنٹرول سے باہر ہو گیا۔ بس درختوں کی لائین سے ٹکراتی ہوئی نکل گئی۔ زور دار بریک لگے، کرشنا اور اس کا ایک ساتھی بس کے آگے گر گئے۔ سواریوں نے جلدی جلدی اتر کر دونوں لڑکوں کو اٹھایا جو بے ہوش ہو چکے تھے۔ کرشنا کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے چھت پر چیخ رہے زخمی لڑکوں کو سنبھالا۔ تھوڑی ہی دیر میں منتری جی کی گاڑیوں کا قافلہ آ رکا، منتری جی نے اپنی گاڑی کا کالا شیشہ اتار اور ماحول کا جائزہ لیا ، دو تین آدمی ہمت کر کے ان کے قریب جاکر انکساری سے بولے:
"اگر زخمی لڑکوں کو اسپتال پہنچانے کا انتظام کر دیں تو مہربانی ہوگی، ایک لڑکے کی حالت خراب ہے !"
منتری جی نے اکتا کر گھڑی پر نظر ڈالی اور بھنویں تان کر بولے:
"سوری! ہم بہت لیٹ ہو گئے ہیں۔ سبھیا چارک میلے کا ادگھاٹن کرنا ہے۔ وہاں جتنا پریشان ہو رہی ہوگی۔۔!"
سائیرن پھر بج اٹھا ، اور گاڑیوں کا قافلہ آگے بڑھ گیا۔
اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی کرشنا دم توڑ گیا۔
باقی لڑکوں کو بچا لیا گیا۔

خالی کپ اٹھا کر میں کمرے کے اندر آیا ہوں۔ پچھلا دروازہ کھول کر میں نے ایک ناول اٹھایا ہے ، جس کے اوراق الٹتا ہوا میں لاشعوری طور پر بستر پر دراز ہو گیا ہوں۔
اس وقت رات کے تقریباً دس بجے ہیں، میں ڈھابے سے کھانا کھا کر ایک تنکے سے دانت کریدتا ہوا گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے مزہ دے رہے ہیں۔ لگتا ہے قریب ہی کہیں بارش ہوئی ہے۔ اناج منڈی کے وسیع میدان میں ہو رہا بھاری جلسہ دیکھ کر میں رک گیا ہوں۔ میرے قریب پرانے پیپل کی جڑ کے گرد بنے ہوئے گول چبوترے پر بھی کافی لوگ کھڑے ہیں۔ اپنی کوشش سے میں بھی ان کے بیچ کھڑا ہو گیا ہوں۔ روشنیوں میں نہائی ہوئی اسٹیج پر کچھ سیاسی لوگ بیٹھے ہیں۔ ڈائس پر منتری جی جو آج شام جے پال سے پتھر کھا کر گر گئے تھے ، اپنا سر تھامے کھڑے ہیں جس پر ضرورت سے زیادہ پٹیاں بندھی ہیں۔ کپڑے بھی انہوں نے وہی پہنے ہوئے ہیں جن پر خون کے دھبے موجود ہیں۔
منتری جی کی آواز گونجی:
"پرنام کرتا ہوں میں کارگل کے شہیدوں کو جنہوں نے دیش کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ سر جھکاتا ہوں ان ماتاؤں کے چرنوں میں جنہوں نے ایسے بہادر سپوت پیدا کئے جو خوف ناک آتنک وادیوں اور دشمن ملک پر ٹوٹ پڑے۔ ساری دنیا اس بات کو جان لے کہ بھارت کی ماؤں نے بہادر بیٹے پیدا کرنے بند نہیں کئے۔ جو ہماری طرف آٹھ اٹھا ئے گا، ہمارے جوان اسے موت دیں گے۔"

تھوڑ ا خاموش رہ کر وہ پھر بولے:
"وہ سرحدوں پر لڑتے ہیں، ہم دیش کے اندر رہ کر اپنے دیش کی ترقی اس کی حفاظت کے لئے لڑتے ہیں۔ میں آپ سب کا ایک سیوک ہوں۔ اپنی پارٹی کا سچا سپاہی ہوں۔ میں پارٹی کے لیے لڑوں گا، اپنا خون بہاؤں گا، اپنی جان دے دوں گا مگر پارٹی کے وقار اور اس کی مریادا پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ اپوزیشن والے چاہیں تو میرا اور خون بہائیں۔۔۔ اور پتھر ماریں مجھے۔۔۔۔ مگر میں سچائی کا راستہ نہ چھوڑوں گا۔۔۔!"

پارٹی ورکرز نے زور دار نعرے لگائے ، حاضرین کی تالیوں سے میدان گونج اٹھا۔
وہ کمزور سی آواز میں پھر شروع ہوگئے :
" میں اس دیش کا بیٹا ہوں، گاندھی جی کا راستہ نہ چھوڑوں گا۔ بار بار سر پھڑواؤں گا ، خون بہے گا میرا، بہتا ہی رہے گا۔۔۔ "
وہ چیخے:
"آؤ۔۔۔ اٹھاؤ پتھر اور مجھے مارو۔۔۔ "
وہ ڈرامائی انداز میں لڑکھڑائے اور گرتے گرتے چیختے ہیں:
"دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے!!"

گرنے سے پہلے ہی ورکرز نے انہیں اٹھا لیا ہے اور فلک شگاف نعروں کے درمیان ان کو اٹھا کر اسٹیج کے پیچھے لے جا رہے ہیں۔
میرے قریب کھڑا ہوا ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا:
"یار یہ تو اپوزیشن والوں کی غنڈہ گردی ہے۔ دیکھو تو بے چارے کا کیا حال بنا دیا ہے !"

میں تھکے قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے کرشنا کا معصوم چہرہ چھایا ہوا ہے۔


ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: اکتوبر 1999۔

Bechara. Short Story by: Mohd Bashir Malirkotlawi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں