کا شمار ماہر دکنیات میں ہوتا ہے۔ وہ معتبر محقق اور ممتاز مزاح نگار بھی ہیں۔ جامعہ عثمانیہ سے انہوں نے 1966ء میں پی۔ایچ۔ڈی کیا اور یونیورسٹی کالج فار ویمن میں لکچرر، ریڈر اور پروفیسر کے مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔ 1995ء میں بحیثیت صدر شعبۂ اردو ویمنس کالج وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئیں۔ اب تک ان کی گیارہ تصانیف منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ "دکنی ادب کی قواعد" ان کا پہلا تحقیقی مقالہ تھا جو پہلی مرتبہ 1969 میں شائع ہوا۔
"بڑے گھر کی بیٹی" حبیب ضیا صاحبہ کی خودنوشت ہے جو جنوری 2006ء میں منظرعام پر آئی۔ ممتاز افسانہ نگار فریدہ زین نے یہ درست لکھا ہے کہ: یہ خونوشت مبالغہ سے مبرا، صاف گوئی سے مزین تحریر ہے جس کے جملوں کی صداقت قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ ان کی تحریروں میں برفیلی راتوں میں سلگتی لکڑیوں کی دھیمی آنچ ملتی ہے، کہیں ماحول چمپئی صبح میں لے جاتا ہے تو کبھی شام سلگتی نظر آتی ہے۔
یہ دلچسپ اور پراثر خودنوشت جو حیدرآباد کے مختلف ادوار کی تہذیبی اور سماجی اقدار کی عکاس بھی ہے، مصنفہ پروفیسر حبیب ضیا اور ناشر شگوفہ پبلی کیشنز (حیدرآباد) کی باقاعدہ اجازت کے ساتھ تعمیرنیوز کی جانب سے باذوق قارئین اور محققین کے لیے پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 15 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
حبیب ضیا اپنی اس خودنوشت کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں ۔۔۔حیدرآباد میرا وطن ہے اور مجھے اپنا وطن بےحد عزیز ہے۔ پیدائش، تعلیم ، ملازمت سب کا تعلق حیدرآباد ہی سے ہے۔ دو ڈھائی سال کی عمر سے لے کر آج تک کے واقعات ، حادثات ، تاثرات اور اپنی نجی زندگی سے متعلق مختلف باتوں کو میں نے ایک جگہ کر دیا ہے۔ کاغذ قلم اور ذہن کی مدد سے بڑے گھر کی بیٹی آپ سے مخاطب ہے۔
ذہن نے ساتھ دیا اور برسوں پہلے گزرے ہوئے واقعات قلم کی مدد سے کاغذ پر نقش ہوتے چلے گئے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ کتاب خودنوشت کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی۔ بےربطی کے علاوہ بعض واقعات دہرائے گئے ہوں گے، جس کی میں نے صراحت کر دی ہے۔ اس کے اہم ترین باب بڑے گھر کی بیٹی کا کچھ حصہ 1988ء میں لکھا گیا۔ باقی سرگذشت کو مکمل کرنے کے لئے تقریبا دو سال لگ گئے۔ ماضی اور حال دونوں زمانے ملیں گے۔ جو لکھا ، جیسے بھی لکھا سرگذشت میں شامل کر دیا۔ بس قلم برداشتہ لکھتی چلی گئی۔ نقادان ادب سے درخواست ہے کہ خامیوں کو درگزر کریں۔ میری داستان حیات آپ کے سامنے ہے، پڑھئے اور اپنے تاثرات لکھ بھیجیے۔
نجی حالات ہر قاری کے لئے دلچسپ نہیں ہو سکتے لیکن مجھے جاننے والے پڑھ کر ضرور کوئی نہ کوئی رائے قائم کریں گے۔ کچھ مواد ایسا بھی ہے جو حیدرآباد اور حیدرآبادی تہذیب کو سمیٹے ہوئے ہے۔ مختلف ادوار کی تہذیبی اور سماجی اقدار پر کہیں کچھ تو ملے گا، جو ہر قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرے گا، میرے دوست احباب اور شاگرد کثیر تعداد میں ملک سے باہر ہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ وہ بھی اس کتاب کو پڑھیں۔
***
نام کتاب: بڑے گھر کی بیٹی
خود نوشت سوانح حیات از: ڈاکٹر حبیب ضیا
تعداد صفحات: 281
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 15 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Bade Ghar Ki Beti by Habeeb Ziya.pdf
بڑے گھر کی بیٹی - خودنوشت :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | پیش لفظ | 5 |
2 | حبیب ضیا اپنے ہی آئینے میں - محترمہ فریدہ زین | 7 |
3 | ادبی سفر | 17 |
4 | پیدائش ، تعلیم | 19 |
5 | والد | 24 |
6 | والدہ | 29 |
7 | سالی رعب جماتی ہے | 44 |
8 | پولیس ایکشن | 45 |
9 | شادی | 47 |
* | Love Marriage | 50 |
10 | اولاد | 52 |
11 | میرے اپنے | 62 |
12 | بیعت | 73 |
13 | فطرت | 78 |
* | لباس ، سج دھج | 83 |
* | دو نافرمانیاں | 84 |
* | نا مانگوں سونا چاندی | 85 |
* | پیٹ پوجا | 87 |
* | برکت ہی برکت | 88 |
14 | مشاغل | 89 |
* | بمبئی، مٹھائی، برف کے لڈو | 97 |
15 | مروت والے مشغلے | 99 |
16 | میں اور میری مزاح نگاری | 102 |
17 | بچہ باہر گیا ہے | 105 |
18 | ملازمت | 109 |
* | سانپوں کی اردو دوستی | 124 |
* | پریوں کی شہزادی | 126 |
19 | کہیں دیکھا ہے | 128 |
20 | زندگی کے 38 سال | 133 |
* | جان ہے تو جہاں ہے | 141 |
21 | 14/مارچ 2002 کے بعد | 150 |
* | چہلم ، برسی اور بریانی | 156 |
22 | بڑے گھر کی بیٹی | 157 |
* | اسکوٹر اور تفریح | 158 |
* | ایک ہاتھ کی تالی | 165 |
* | گھر بکھرا تو کیسے | 167 |
* | وہی ہوا جس کا ڈر تھا | 173 |
23 | مجھے کچھ کہنا ہے | 178 |
* | ابھی میں زندہ ہوں | 181 |
* | اکیلے ہی اکیلے | 185 |
* | پچاس سال کی بےبی | 187 |
* | ییچ مٹی میں جانا ہے | 188 |
* | جھوٹ ایک بیماری | 189 |
* | ہر بات اماں سے؟ | 190 |
* | شوہر کی ضرورت دوسری عورت | 192 |
24 | میری کام والیاں | 194 |
25 | میرا وطن شہر حیدرآباد | 199 |
26 | حیدرآباد اور حیدرآبادی تہذیب | 203 |
27 | چل کے تو دیکھو | 208 |
* | وائس چانسلر اور سادگی | 214 |
28 | جدہ ، فضیلت اور روشنی کا شہر | 218 |
29 | شیشے کا شہر دوبئی | 224 |
30 | حوصلہ افزائیاں | 231 |
31 | قارئین محترم | 242 |
Bade ghar ki beti. Autobiography by Prof. Habeeb Zia, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں