آدمی کو میسر نہیں افسانہ نگار ہونا - انشائیہ از محبوب خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-16

آدمی کو میسر نہیں افسانہ نگار ہونا - انشائیہ از محبوب خان

afsana-nigar-hona
۔۔۔ اور میں چونک پڑا، میرے قدم اپنی جگہ تھم سے گئے ، سامنے ایک بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا —
" یہاں مناسب دام پر کہانیاں ملتی ہیں "

میرے اوپر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، ملک کے اند بہت کچھ بکتے دیکھا تھا ، پان سے لیکر ایمان، کوٹ سے لیکر اوٹ، دل فریب مسکراہٹ سے لیکر گرم گداز جسم تک کی فروخت کا علم تھا مگر کہانیاں۔۔۔؟ نہیں نہیں۔۔ !!
شائد میں خواب دیکھ رہا ہوں ، سگریٹ کو ہونٹوں سے نکال کر ہتھیلی سے لگایا تھا کہ منہ سے چیخ نکل گئی۔ یعنی یہ سچ تھا کہ میں پریم چند روڈ پر نکلنے والی منٹو لین میں تھا اور میرے سامنے متحیر کر دینے والا یہ انقلابی بورڈ۔
اپنے بڑھتے اشتیاق کے ساتھ میرے قدم بھی آگے بڑھے اور میں ایک بوسیدہ دالان سے ہوتے ہوئے ہال میں داخل ہو گیا۔ ہال میں مختلف قسم کی کرسیوں پر کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آخری کنارے پر تخت پر مڑے تڑے کاغذ کی طرح کے لباس میں ایک شخص کاغذات اور مختلف انواع قسم کی قلم کو حفاظت سے رکھ رہا تھا ، مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ہو نہ ہو یہ شخص کاتب ہی ہے۔ سامنے ایک چھوٹا سا چیمبر تھا اور دروازے پر : " شبنم لافانی " نام کی تختی آویزاں تھی۔

میری خوشی کی انتہا نہ رہی ،برسوں سے ویران دل کے اندر گھٹتی تمنا کو آج ابر کرم کا پیغام موصول ہو رہا تھا، سامنے اپنی منزل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے غافل بے نیازی کی یاد آ رہی تھی جو کبھی میری دوستی کا دم بھرتا تھا آج وہ مجھ سے بہت دور ہے ، ہر ماہ اس کی کہانیاں ، نئے انداز کے فوٹو کے ساتھ شایع ہو رہی تھیں اور پھر اس کی ڈاک میں خوشبودار ، رنگین اور حسین خطوط کا انبار جمع ہو جاتا۔ وہ ایک ایک خط کو احباب کی محفل میں بڑی شیخی کے ساتھ دکھاتا پھرتا اور اس کی خوب دعوتیں ہوتیں ، نششت بھی ہو رہی تھیں۔
میں یہ سب دیکھ کر جل جل کر خاک ہوتا رہتا۔ آج مجھے یہ جگہ مل گئی تو میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں نے غور کیاکہ لوگ جا چکے ہیں اور ہال میں تنہا میں ہی رہ گیا ہوں۔ سامنے بیٹھا چپراسی مجھے اپنی جانب دیکھنے پر اٹھا اور سنلٹ بانڈ کے چکنے کاغذ پر پھسلتے ہوئے قلم کی طرح میرے قریب آ گیا۔
"کیا آپ کسی کہانی کے سلسلے میں بیٹھے ہیں۔۔؟ " اس نے سوال کیا
"جی۔۔ ! جی ہاں۔۔!!" میرے منہ سے بہ مشکل نکل سکا۔
" تب آپ اندر جائیں ،اس وقت صاحب اکیلے ہیں "
میں ڈھڑکتے دل کے ساتھ اٹھا اور آہستہ سے پردہ اٹھاکر کمرے کے اندر داخل ہو گیا ، سامنے ادھیڑ عمر کا ایک شخص بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔
" تشریف رکھیے۔۔!"
ایک لمحہ کو لافانی صاحب نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر کام میں مشغول ہو گئے۔ میں کرسی پر بیٹھ کر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ چاروں طرف الماریوں میں پرانے بوسیدہ رسالے بے ڈھنگے پن سے ٹھونس کر رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر فریم میں بشن چندر ، نکہت بختائی ، گیدی ، راجہ احمد اوباش ، اختر بلگرامی ،وغیرہ کی تصویریں آویزاں تھیں۔ ان تصویروں کے درمیان موٹے فریم میں ایک خوشخط کتبہ آویزاں تھا۔

"آدمی کو میسر نہیں افسانہ نگار ہونا "

لافانی صاحب بے ترتیب کاغات کے درمیان کسی افسانے کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچانے میں مشغول تھے۔ انھوں نے سرخ پنسل سے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں بنائیں ، کچھ جملے کاٹے، کچھ کا اضافہ کیا۔ پھر فائل بند کر مخاطب ہوئے۔
"کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی۔۔؟"
"جی مجھے افسانہ لکھنے اور چھپوانے کا شوق ہے۔۔!" میں نے پیپر ویٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"ہوں۔۔۔!" وہ کچھ دیر خاموشی سے سوچتے رہے ،پھر بولے
" آپ کا کیس انوکھا ہے ، آپ افسانہ چھپوانے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی خو اہش بھی رکھتے ہیں۔"
انھوں نے کاغذ پنسل سمبھالتے ہوئے مزید دریافت کیا۔
" اب تک کتنی کہانیاں لکھیں اور کوئی شایع ہوئی یا نہیں؟"
" میں نے اب تک دس بارہ کہانیاں لکھیں انھیں ماہنامہ چراغ دہلی ، شوبی دہلی ، عہد حاضر دہلی ، آفتاب لکھنؤ ، آبشار کٹک ، وغیرہ کو ارسال کیا مگر کسی رسالہ نے انھیں شایع نہیں کیا۔"
میں جذباتی ہو گیا اور میری آنکھوں میں کچھ نمی سی آنے لگی تھی ، لافانی صاحب نے بلاٹنگ پیپر کا ایک ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
"آپ نے اپنا قیمتی وقت اور کافی رقم ضائع کی ہے "
" کیا۔۔؟ " میں تقریباً اچھل پڑا۔

"دیکھیے کہانی لکھنے کے لیے سکون ، تنہائی ، چائے کافی ، کاغذات قلم تو چاہیے ہی، پھر ان کو جوابی لفافے کے ساتھ پوسٹ کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کافی پیسہ آپ نے خرچ کر ڈالا"۔
لافانی صاحب کے انکشاف پر میں انگشت بدنداں ہوگیا۔۔!
"چھوڑیے ان باتوں کو اب ہم آپ کو کہانی دیں گے ، اس کی اشاعت کا انتظام کریں گے اور اسے مقبول بھی بنایئں گے۔"
میں خاموش رہا ،لافانی صاحب نے میرے چہرے پر اپنی نظروں کی گرفت اور تیز کر دی۔

"آپ پیسوں کی فکر نہ کریں ، شروع میں آپ کو تھوڑی تکلیف ہوگی مگر بعد میں آپ کو کہانیوں کا معاوضہ بھی ملنے لگے گا۔ کل تک خرد دھنسوی نظم سنا سنا کر اپنا گزارہ کر رہےتھے آج اپنی کہانیوں سے اچھا پیسہ اٹھا رہے ہیں"۔

" تو آپ مجھے کہانیاں دیں گے۔۔؟" میرے چہرے کی مسکراہٹ لوٹ آئی تھی۔

" کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔ آپ تو ماشا اللہ پڑھے لکھے ہیں ، ہم تو ہر طبقے کی خدمت کرتے ہیں یہاں تو مزدور سے لیکر دانشور تک ، سب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اب دیکھیے وکٹوریہ گیراج کے چیف میکینک نسیم راہی کی کہانی تیار ہے اور ماہنامہ "رفتار" کو کل پوسٹ ہو جائے گی۔"

"تو میں آپ سے کہانی کب لے لوں؟ " میری بےچینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
لافانی صاحب میز پر بکھری فائلوں کو الٹتے پلٹتے رہے، پھر انھوں نے سر اٹھا کر جواب دیا:
" آپ ایک ہفتے کے بعد آج ہی کے دن کہانی لے لیجیے "

جب میں لافانی صاحب کے کمرے سے باہر نکلا تو سارا عالم جھومتا ،گاتا ،چہکتا ملا۔ ہواؤں کے ساز پر جھومتے درخت ، بادلوں کی اٹھکیلیاں، یہاں تک کہ گلی کے موڑ پر کھڑا آٹو رکشہ بھی میرے استقبال میں سرنگوں اور دست بستہ نظر آرہا تھا۔ان کی محفل میں ایک نیا فنکار قدم رکھ رہا تھا۔

ایک ہفتہ بعد لافانی صاحب نے کہانی کا مسودہ دکھایا جسے بطور خاص انھوں نے میرے لیے لکھا تھا ، میں نے دل کی دھڑکنوں کا شمار کرنا چھوڑ کر کہانی پڑھنا شروع کیا۔ کہانی "عہد حاضر" دہلی کے معیار پر پوری اترتی تھی جس میں چھپنے کے لیے میں بے تاب تھا۔
"آپ اسے جلدی بھیج دیجیے۔۔" کہانی واپس کرتے ہوئے بےچینی میرے لہجے سے جھلک رہی تھی۔
" ایسی جلدی کیا ہے ، آپ اپنی تازہ فوٹو لے آئیے، تب تک میں آپ کی طرف سے شایع ہونے والا خط لکھ دوں جس میں مختصر تعارف اور کہانی کے نفسیاتی پہلو پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ قاری پر اچھا تاثر پیدا ہو "
" یہ سب تو میں لے آیا ہوں۔"
میں نے جلدی سے فوٹو اور خط باہر نکال کر میز پر رکھ دیا۔ لافانی صاحب نے خط اٹھا کر پڑھنا شروع کیا اورخط ختم ہونے پر بول اٹھے۔
" یہ خط قارئین کے دلوں پر دھماکہ بن کر گرے گا۔" لافانی صاحب نے خط کو کہانی کے ساتھ منسلک کر دیا۔

کہانی ارسال کرنے کے بعد انتظار کا سلسلہ شروع ہوا، ہر وقت "عہد حاضر" کا جگمگاتا شمارہ میری آنکھوں کے سامنے ہوتا ، بس بےچینی کا ایک مدجزر تھا جس میں میں ڈوب رہاتھا ، ابھر رہا تھا۔ آخرکار وہ دن بھی آگیا جب "عہد حاضر" کا تازہ شمارہ آیا اور ساتھ میں میری کہانی بھی لایا۔ میں نے دوستوں کو اپنی کہانی شایع ہونے کی اطلاع دی۔ کہانی کی اشاعت نے میری خود اعتمادی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ آج میں ادیبوں کی جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔

میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میری زندگی میں چند دنوں کے بعد خوشبو میں رچا بسا ایک خط داخل ہوا ، جس کا میں برسوں سے انتظار کر رہا تھا ، یہ کہانی کی تعریف میں پہلا خط تھا جو کسی لڑکی نے بھیجا تھا ، میری رگوں میں خون منجمد ہو گیا اور میں بت بنا کرسی پر بیٹھا رہا ،مجھے محسوس ہوا دھوپ کے تپتے ریگستان پر بادل چھا گئے ہیں اور ٹوٹ کر پانی برسنے لگا ہے۔ چاروں طرف دھند سی چھا گئی ہے اور اسی دھند کے بیچ سے آہستہ آہستہ کوئی سراپا میری طرف بڑھ رہا ہے ، قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ میں اس کے وجود کی خوشبو میں ڈوب جاتا ہوں۔ میں کافی دنوں تک اس سحر انگیز کیفیت میں ڈوبا رہا۔

چند دن بعد ڈاکیہ نے ایک عام سا لفافہ دیا ، اسے کھولا۔ یہ مرادآباد سے کسی رؤف جلالی صاحب کا خط تھا جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ میں نے ان کی کہانی ہو بہو نقل کر کے اپنے نام سے شایع کرا لی ہے۔ وہ اس کی اطلاع "عہد حضر" کے مدیر کو دینے کے ساتھ قانونی کاروائی بھی کرنے جا رہے ہیں۔
میں غم و غصہ کی حالت میں لافانی صاحب کی طرف چل پڑا۔ اگر یہ سچ ہے تو میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ لڑکیوں میں میری کیا عزت رہے گی ، بڑی مشکل سے ایک عدد عشق کا آغاز ہوا ہے ، مجھے اپنے خوابوں کا قطب مینار زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہوا۔

جب میں پہنچا تو دیکھا آج لافانی صاحب کے یہاں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ میں سیدھے ان کے آفس میں دا خل ہو گیا، وہاں ایک صاحب بیٹھے ہوئے خاموشی سے اپنی پاسپورٹ سائز فوٹو کو دیکھے جا رہے ہیں ، مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ بھی مرغ نو گرفتار ہیں۔ لافانی صاحب کی کرسی خالی تھی۔ میں خاموشی سے بیٹھ کر ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ اچانک میری نگاہیں میز پر جم کر رہ سی گئیں جہاں میری مخصوص تحریر میں میرا وہ محبت نامہ رکھا ہوا تھا جسے میں نے اپنی تصوراتی محبوبہ کو جلدہی پوسٹ کیا تھا اور جس کے جواب میں لافانی صاحب محبوبہ کی طرف سے اپنی ہینڈ رائٹنگ میں جواب لکھ رہے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ سامنے فریم میں جکڑا کسا ہوا کتبہ میرا منہ چڑھا رہا تھا۔
" آدمی کو میئسر نہیں افسانہ نگار ہونا "

***
Mehboob Khan (Lucknow)
hasanmehboob[@]hotmail.com
محبوب خاں

Aadmi ko muyassar nahi afsana-nigar hona. Essay by: Mehboob Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں